English

فقہی مضامین

منٰی اور مزدلفہ کا مکہ مکرمہ
کے ساتھ تعلق اور ان کا حکم

Mina&Muzdalifa


ڈاکٹر مفتی عبد الواحد صاحب

منٰی اور مزدلفہ کا مکہ مکرمہ کے ساتھ تعلق
             مکہ مکرمہ کے مرکزی حصہ یعنی مسجد حرام و ماحولہ کے بالمقابل مشرق میں پہلے منٰی کا میدان واقع ہے، پھر منٰی کے تقریباً متصل جنوب مشرق میں مزدلفہ کا میدان ہے۔ مزدلفہ کی حدود ختم ہونے کے بعد تقریباً چار کلو میٹر کے فاصلہ پر مزید جنوب مشرق میں عرفات کا میدان شروع ہوتا ہے۔ چار کلو میٹر کا یہ درمیانی فاصلہ بھی بے آباد اور ویران ہے۔ عرفات سے آگے مشرق، شمال اور جنوب میں جنگل بیابان ہے، کوئی آبادی نہیں ہے۔
             مکہ مکرمہ کی آبادی کا پھیلائو شمال مشرق اور جنوب مشرق کی طرف ہوا ہے۔ شمال میں منٰی سے اس کا فاصلہ تقریباً ڈھائی کلو میٹر اور مزدلفہ سے ساڑھے چار کلو میٹر ہے، البتہ جنوب کی جانب ایک جگہ پر اس آبادی کا اتصال منی کے ساتھ ہو گیا ہے اور ایک جگہ پر مزدلفہ کے ساتھ ہو گیا ہے۔ جنوب میں منٰی کے متوازی ’’حی عزیزیہ‘‘ کی آبادی چلتی ہے اور درمیان میں صرف ایک پہاڑی سلسلہ ہے۔
منٰی اور مزدلفہ کی موجودہ کیفیت
             مزدلفہ تو فقط ایک ویران میدان ہے جس کی شرعی حدود میں کوئی آبادی نہیں ہے بلکہ اس میں کوئی سرکاری دفتر بھی نہیں ہے۔ منٰی بھی اب کوئی آبادی کی جگہ نہیں ہے البتہ اس میں رابطہ عالم اسلامی کا دفتر اور ایک دو اور دفتر ہیں۔ اسی طرح منٰی میں ایک جنرل ہسپتال (مستشفیٰ عام) ہے جس کے بارے میں بعض حضرات کا دعویٰ ہے کہ وہ مکہ مکرمہ کے لوگوں کی خاطر پورا سال کھلا رہتا ہے، واللہ اعلم۔
کیا منٰی اور مزدلفہ مکہ مکرمہ شہر میں داخل ہیں ؟
            مزدلفہ تو ہمیشہ سے بیابان رہا ہے البتہ منٰی میں کسی وقت میں گائوں کے برابر آبادی رہی ہے اور وہ گائوں شمار ہوتا رہا ہے۔
            الا ان محمدا یقول ان منٰی لیس بمصر جامع بل ہو قریۃ فلا تجوزالجمعۃ بھا کما لا تجوز بعرفات و ھما یقولان انھا تتمصرفی ایام الموسم (بدائع الصنائع ص 585و ص 586ج 1)
            مگریہ کہ امام محمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ منٰی مصر جامع نہیں ہے بلکہ وہ گائوں ہے لہٰذا اس میں جمعہ جائز نہیں ہے جیسا کہ عرفات میں جائز نہیں ہے۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور امام ابو یوسف رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ایام حج میں یہ مصر بن جاتا ہے۔
            وقال محمد لا تجوز فیھا (الجمعۃ) لا نھا من القری حتی لا یعید بھا و لھما انھا تتمصر فی ایام الموسم … وبمنی ابنیۃ ودور و سکک۔  (تبیین الحقائق ص 218 ج 1)
            امام محمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ منٰی میں جمعہ جائز نہیں ہے کیونکہ وہ گائوں ہے حتی کہ اس میں عید کی نماز بھی نہیں پڑھی جاتی۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور امام ابو یوسف رحمہ اللہ کی دلیل یہ ہے کہ ایام حج میں منٰی مصر بن جاتا ہے …اور منٰی میں عمارتیں اور محلے اور گلیاں ہیں۔
            لیکن اب منٰی آبادی سے بالکل خالی ہے، اس میں نہ مکان ہیں نہ گلی محلے ہیں اور نہ ہی آبادی ہے۔ اس لئے مکہ مکرمہ کی آبادی کے اس کے ساتھ اتصال سے دو جدا جدا آبادیوں کا متصل ہو کر ایک آبادی ہونے کا وجود نہیں ہوا، اور اس وجہ سے منٰی اور مزدلفہ نہ تو مکہ مکرمہ شہر میں داخل ہیں اور نہ اس کے محلے ہیں۔
کیا منٰی اور مزدلفہ کو مکہ مکرمہ کے فناء میں شمار کر سکتے ہیں ؟
            اس کے جواب کے لئے پہلے شہر کے فناء کی حقیقت کو سمجھنا ہو گا۔ فناء شہر سے باہر کی اس جگہ کو کہتے ہیں جو شہر کے مصالح کے لئے مقرر کی گئی ہو جیسا کہ رد المحتار میں ہے ’’المعد لمصالح المصر‘‘۔
            لیکن مصالح سے مراد مطلق کسی بھی قسم کا فائدہ نہیں ہے بلکہ حاجتیں اور ضرورتیں ہیں۔
            لانھا بمنزلتہ فی حق حوائج اہل المصر لانھا معدۃ لحوائجھم۔ (تبیین الحقائق ص 218 ج1)
            (شہر والوں کی ضروریات کے اعتبار سے شہر کا فناء بھی شہر کی طرح ہوتا ہے کیونکہ وہ ان کی ضرورتوں ہی کے لئے مقرر ہوتا ہے۔)
             قد نص الائمۃ علی ان الفناء ما اعد لدفن الموتی و حوائج المعرکۃ کرکض الخیل وجمع العساکر والخروج للرمی وغیر ذالک۔ (منحۃ الخالق علی البحر الرائق ص 141 ج 1)
            ائمہ نے تصریح کی ہے کہ شہر کا فناء وہ علاقہ ہوتا ہے جو مردوں کو دفن کرنے کے لئے اور معرکہ کی ضرورتوں کے لئے مثلاً گھوڑے سدھانے کے لئے اور لشکروں کو جمع کرنے کے لئے اور تیر اندازی وغیرہ سیکھنے کے لئے مقرر ہو۔
             فناء المصر انما الحق بہ فیما کان من حوائج اہلہ والجمعۃ وصلاۃ العیدین من حوائج اہلہ و قصر الصلاۃ لیس منھا۔ (البنایۃ فی شرح الھدایۃ ص 254 ج 3)
             (شہر والوں کی ضرورتوں کے اعتبار سے شہر کا فناء بھی شہر کے ساتھ ملحق ہوتا ہے، اور جمعہ کی نماز اور عیدین کی نمازیں شہر والوں کی ضروریات میں داخل ہیں، اور نماز کو قصر کرنا شہر والوں کی ضروریات میں داخل نہیں ہے۔)
             غرض فناء شہر سے باہر کی وہ جگہ ہے جو شہر والوں کی ضرورتوں اور حاجتوں کے لئے مقرر ہو محض سہولت یا آسائش کے کاموں کے لئے نہیں۔
              مذکورہ بالا تفصیل معلوم ہونے سے ظاہر ہوا کہ منٰی اور مزدلفہ دونوں ہی مکہ مکرمہ کے فناء میں بھی داخل نہیں کیونکہ مزدلفہ کے ساتھ تو اہل شہر کی عملاً کوئی ضرورت وابستہ نہیں ہے، البتہ منٰی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ مکہ مکرمہ کے لوگ چھٹی کے دنوں میں رات کے وقت وہاں پکنک منانے جاتے ہیں لیکن پکنک منانا حوائج اور ضروریات میں سے نہیں ہے بلکہ محض آسائش و سہولیات میں سے ہے۔ ردالمحتار کی یہ عبارت کہ  بخلاف  البساتین ولو متصلۃ بالبناء لا نھا لیست من البلدۃ ولو سکنھا اہل البلدۃ فی جمیع السنۃ او بعضھا (باغات اگرچہ شہر کی عمارتوں کے ساتھ متصل ہوں پھر بھی وہ شہر کا حصہ نہیں ہیں اگرچہ شہر والے پورے سال یا سال کے کچھ حصہ میں ان میں رہتے ہوں) اس بارے میں صریح ہے کہ شہر سے متصل باغوں میں اہل شہر جا کر پکنک منائیں یا بسیرا کریں تب بھی وہ فناء میں شامل نہیں ہوتے۔
             منٰی میں موجود جنرل ہسپتال کے بارے میں اگریہ تسلیم بھی کر لیا جائے کہ مکہ مکرمہ کے لوگ پورے سال اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں تب بھی مندرجہ ذیل وجوہ سے منٰی فناء نہیں بنتا:
1. محض ایک عمارت سے پورے منٰی کو فناء قرار نہیں دیا جا سکتا۔
2. یہ کوئی ایسی ضرورت نہیں جس کے لئے شہر کے اندرونی علاقوں کو چھوڑ کر بیرونی علاقوں کی ضرورت ہو۔ شہر کے اندر اور بہت سے ہسپتالوں کے ہوتے ہوئے مکہ مکرمہ کی آبادی کا منٰی کے ہسپتال سے فائدہ اٹھانا ان کے اعتبار سے سہولت ہے، حاجت و ضرورت نہیں۔
شہر کے لئے خود فناء کا ہونا ضروری نہیں
         ما اعد لحوائج اہلہ(جو جگہ شہر والوں کی ضرورتوں کے لئے مقرر ہو) کے مفہوم مخالف سے نکلا کہ اگر حوائج کے لئے جگہ مقرر نہ کی گئی تو فناء بھی نہ ہو گا۔
’’منٰی‘‘ اور ’’مزدلفہ‘‘ کو مکہ مکرمہ کا محلہ یا فناء کہنے والوں کے دلائل اور ان کے جواب
پہلی دلیل:
            جامعہ اشرفیہ لاہور کے مفتی شیر محمد صاحب اپنے فتوے میں لکھتے ہیں:
            ’’اب صورت حال یہ ہے کہ مکہ مکرمہ کی آبادی منٰی سے بھی متجاوز ہو چکی ہے اور منٰی مکہ مکرمہ کا ایک محلہ ہے‘‘۔ (مؤرخہ ذوالحجہ 1420ھ)
            اس عبارت کا ظاہر مطلب یہ ہے کہ مکہ مکرمہ کی آبادی بڑھتے بڑھتے منٰی کے اندر پہنچی بلکہ پھر منٰی سے بھی آگے نکل گئی ہے اور جیسے مکہ مکرمہ کے دیگر آباد محلے ہیں اسی طرح منٰی بھی مکہ مکرمہ کا محلہ بن گیا ہے۔ یہ بات حقیقت کے خلاف ہے کیونکہ منٰی میں سرے سے آبادی اور مکانات نہیں ہیں جب کہ محلہ اس جگہ کو کہتے ہیں جس میں مکانات اور گلیاں ہوں۔
            مدرسہ شاہی مراد آباد کے مفتی شبیر احمد قاسمی صاحب نے بھی مفتی شیر محمد صاحب والی بات ہی کچھ مختلف انداز میں کہی ہے، وہ لکھتے ہیں:
            ’’منٰی کی آبادی صدیوں تک مکہ مکرمہ کی آبادی سے بالکل الگ رہی ہے اور دونوں کے درمیان صدیوں تک ویران میدان اور پہاڑوں کا فاصلہ رہا ہے جن میں کسی قسم کی آبادی اور عمارت نہیں تھی اس لئے مکہ اور منٰی کے درمیان مسلسل آبادی نہ ہونے کی وجہ سے دونوں کو مستقل طور پر الگ الگ آبادی قرار دیا گیا تھا جیسا کہ ماضی کے تمام فقہاء نے تسلسل آبادی نہ ہونے کی وجہ سے دونوں کو الگ الگ آبادی قرار دیا تھا۔ اور اب ادھر ماضی قریب میں منٰی اور مکہ کے درمیان تسلسل آبادی کی وجہ سے دونوں کے درمیان کسی قسم کا انفصال باقی نہیں رہا بلکہ متصل ہو کر ایک ہی آبادی جیسی ہو گئی ہے‘‘۔ (انوار رحمت ص 72)
            مفتی شبیر احمد قاسمی صاحب کی یہ بات حقیقت کے بالکل برعکس ہے۔ ماضی بعید میں منٰی میں آبادی ہونا تو تسلیم ہے لیکن موجودہ دور میں تو منٰی میں سرے سے آبادی ہے ہی نہیں جو تسلسل کے باعث مکہ مکرمہ کی آبادی سے متصل ہو سکے۔
دوسری دلیل:
            جامعہ اشرفیہ کے مفتی شیر محمد صاحب اپنے فتوے مؤرخہ ذوالحجہ1420 ھ میں لکھتے ہیں:
            ’’منٰی اور مکہ مکرمہ کی بلدیہ ایک ہے۔‘‘ (رسالہ ندائے شاہی، دسمبر 2004ء ص 53)
            ہم کہتے ہیں کہ بلدیہ تو ایک انتظامی ادارہ ہے جس کے ذمہ علاقہ کی دیکھ بھال اور صفائی ستھرائی ہوتی ہے۔ ایک ادارہ کو محض انتظامی طور پر شہر سے باہر کا صحرا اور جنگل بھی دیکھ بھال کے لئے دے دیا جائے تو اس سے اس صحرا اور جنگل کی شرعی حقیقت نہیں بدلتی اور یوں شرعی حکم میں بھی کچھ تبدیلی نہ ہو گی۔
            اور اگر ایسا ہو کہ خود سعودی حکومت نے منٰی کے ویرانے کو مکہ شہر کا حصہ سمجھ کر اس کو مکہ مکرمہ کی بلدیہ کے ماتحت کر دیا ہو تو سعودی حکومت کا ایسا سمجھنا بذات خود کوئی شرعی دلیل و حجت نہیں ہے۔
تیسری دلیل:
            ’’وہاں کا بڑا ہسپتال سال بھر اپنی خدمات انجام دیتا رہتا ہے، نیز رابطہ عالمِ اسلامی کا دفتر بھی کھلا رہتا ہے اور شاہی محل بھی آباد رہتا ہے‘‘۔ (رسالہ ندائے شاہی، دسمبر 2004 ص 53)
             ہسپتال کی بات تو ہم اوپر ذکر کر چکے ہیں۔ رابطہ عالمی اسلامی کے دفتر کا وہاں ہونا کسی انتظامی سہولت کی وجہ سے ہو گا ورنہ نہ تو اہل مکہ کی ضرورت و حاجت کا اس سے کچھ تعلق ہے اور نہ ہی خاص منٰی میں اس دفتر کی تعمیر کی کوئی مجبوری ہے۔ ہاں حج کے دنوں میں اس ادارہ کے مہمانوں کی سہولت کے لئے اس دفتر کا وہاں ہونا سمجھ میں آتا ہے۔
             رہا شاہی محل تو وہ منٰی کی حدود کے ساتھ ساتھ بنا ہوا ہے۔ وہاں عام طور سے محافظ اور دیگر عملہ رہتا ہے اور شاہی محل کا وہاں ہونا اہل مکہ کی کوئی ضرورت و حاجت نہیں، محض حکمرانوں کی آسائش ہے۔
             غرض مندرجہ بالا بنیادوں پر پورے منٰی کو مکہ مکرمہ کا فناء قرار دینا قابلِ تسلیم نہیں۔
منٰی اور مزدلفہ کا حکم
             موجودہ حالات میں منٰی اور مزدلفہ نہ تو مکہ مکرمہ کے محلہ کی مانند ہیں اور نہ ہی مکہ مکرمہ کے فناء میں شمار ہیں لہٰذا جس حاجی کا منٰی جانے سے پہلے مکہ مکرمہ میں پندرہ دن سے کم ٹھہرنا ہو وہ منٰی، مزدلفہ اور عرفات میں قصر نماز پڑھے۔ اور ایسے شخص پر عید کی قربانی بھی واجب نہیں ہوئی۔ علاوہ ازیں عرفات کی طرح منٰی اور مزدلفہ میں جمعہ پڑھنا بھی جائز نہیں۔
ایک نکتہ
             ردالمختار میں ہے:
             ’’ولو جاوز العمران من جھۃ خروجہ وکان بحذائہ محلۃ من الجانب الآخر یصیر مسافرا اذ المعتبر جانب خروجہ … لا بد ان تکون  المحلۃ فی المسئلۃ الثانیۃ فی جانب واحد۔ فلو کان العمران من الجانبین فلابد من مجاوزتہ لما فی الامداد لو حاذاہ من احد جانبیہ فقط لا یضرہ کما فی قاضیخان وغیرہ الخ‘‘۔
             (اگر آدمی جانبِ خروج سے آبادی پار کر لے اور کسی اور جانب سے اس کے ایک طرف محلہ ہو تو وہ مسافر بن جاتا ہے کیونکہ جانبِ خروج کا ہی اعتبار کیا جاتا ہے… اور اگر آبادی دو طرفوں میں ہو تو اس صورت میں مسافر بننے کے لئے آبادی سے تجاوز ضروری ہے کیونکہ امداد میں ہے کہ اگر آبادی صرف ایک طرف کو ہو تو اس سے کچھ فرق نہیں پڑھتا جیسا کہ قاضیخان وغیرہ میں ہے۔)
              اس عبارت کا حاصل جو احسن الفتاوٰی ص 72 ج 4 میں ہے، وہ یوں ہے:
              ’’اگر شہر کی جانب سفر میں مکانات ختم ہو گئے مگر کسی ایک جانب راستے سے دور کوئی محلہ اس طرف بڑھا ہوا ہے تو اس کا اعتبار نہیں البتہ اگر دونوں جانب اس قسم کی آبادی ہو تو ان کی محاذات سے خروج کے بعد حکم قصر ہو گا۔‘‘
              اس عبارت سے بعض لوگوں کو یہ خیال ہوا ہے کہ چونکہ منٰی اور مزدلفہ کے موازی دو جانب مکہ شہر کی آبادی بڑھی ہوئی ہے لہٰذا آدمی مسافر اس وقت بنے گا جب دونوں طرف آبادی سے تجاوز کر جائے اور اس طرح سے منٰی اور مزدلفہ دونوں ہی مکہ مکرمہ کے حصے قرار پائے۔
              ہم کہتے ہیں کہ ایسا خیال کرنا صحیح نہیں ہے کیونکہ:
1. عبارت کا مطلب یہ ہے کہ آدمی شہر سے نکل کر جس رستے پر جا رہا ہے اس رستے کے قریب تک شہر کی کسی دوسری جانب سے کوئی محلہ بڑھ کر آ گیا ہو۔ اگرصرف ایک طرف سے ایسا ہو تو اس کا اعتبار نہیں اور اگر دو طرف سے ایسا ہو تو اس آبادی سے مجاوزت کا اعتبار ہو گا۔
              منٰی اور مزدلفہ کی صورت میں جیسا کہ نقشہ سے عیاں ہے، شمالی جانب جو محلے ہیں وہ رستے سے بہت دور ہیں اور گزرنے والے کے نہ سامنے آتے ہیں اور نہ اس کے قریب تک آتے ہیں۔
2. علامہ شامی رحمہ اللہ کی دو جانب والی بات قابلِ تسلیم نہیں کیونکہ: 
I. یہ بات صرف علامہ شرنبلالیؒ نے مراقی الفلاح اور امداد میں لکھی ہے:
            اذا جاوز بیوت مقامہ ولو بیوت الاخبیۃ من الجانب الذی خرج منہ ولو حاذاہ فی احد جانبیہ فقط لا یضرہ (حاشیہ طحطاوی علی مراقی الفلاح ص 230)
            ’’جب آدمی جانبِ خروج میں اپنی بستی کے مکانات سے تجاوز کر جائے تو اگر اس کے ایک طرف کو آبادی ہو تو اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا‘‘۔
            ردالمحتار میں علامہ شامی رحمہ اللہ نے یہ بات علامہ شرنبلالی کی امداد سے نقل کی ہے جو اس کی نسبت قاضی خان وغیرہ کی طرف کرتے ہیں۔ لیکن قاضی خان کی طرف اس کی نسبت صحیح نہیں کیونکہ اس میں یوں ہے:
            و یعتبر مجاوزۃ عمران المصر من الجانب الذی خرج ولا یعتبر محلۃ اخری بحذائہ من الجانب الآخر (علی ہامش العالمگیریۃ ص 164ج 1)
            ’’جانبِ خروج سے شہر کی آبادی کا اعتبار کیا جاتا ہے اور دوسری جانب سے ایک طرف جو محلہ ہو، اس کا اعتبار نہیں ہے۔
            علامہ شرنبلالی رحمہ اللہ نے یہی بات مراقی الفلاح میں بھی ذکر کی ہے لیکن وہاں کسی اور کا حوالہ ذکر نہیں کیا۔ پھر انہوں نے یہ بات کہاں سے کہی ؟قرین قیاس یہ ہے کہ انہوں نے دیگر فقہاء کی عبارتوں کا مفہوم مخالف اخذ کر کے ایسا لکھا ہے ورنہ دیگر فقہاء نے یہ مفہوم مخالف اخذ نہیں کیا اور ان کی عبارتیں یوں ہیں۔
            قاضی خان: ویعتبر مجاوزۃ عمران المصرمن الجانب الذی خرج ولا یعتبر محلۃ اخری بحذائہ من الجانب الآخر۔ (عالمگیری حاشیہ ص 164 ج 1)
            (جانبِ خروج سے شہر کی آبادی کا اعتبار کیا جاتا ہے، دوسری جانب سے کسی طرف کو بڑھنے والی آبادی کا اعتبار نہیں کیا جاتا۔)
             تبیین الحقائق: ثم المعتبر المجاوزۃ من الجانب الذی خرج منہ حتی لوجاوز عمران المصر قصر وان کان بحذائہ من جانب آخر ابنیۃ۔ (ص 209 ج 1)
             (جانبِ خروج سے آبادی سے تجاوز کا اعتبار ہوتا ہے، لہٰذا آدمی جب شہر کی آبادی سے آگے بڑھ جائے تو وہ قصر کرے گا اگرچہ کسی اور جانب سے اس کے کسی طرف کو عمارتیں بڑھی  ہوئی ہوں۔)
             البحرالرائق: ولا یعتبر مجاوزۃ محلۃ من الجانب الآخر (ص 128 ج 2)
             (دوسری جانب سے بڑھے ہوئے محلہ سے آگے بڑھنے کا اعتبار نہیں ہے۔)
             خلاصۃ الفتاویٰ: و یعتبر مجاوزۃ عمران المصرمن الجانب الذی خرج ولا یعتبر محلۃ بحذائہ من الجانب الآخر۔ (ص 198 ج 1)
             (جانبِ خروج سے شہر کی آبادی سے آگے بڑھنے کا اعتبار ہوتا ہے، دوسری جانب سے ایک طرف کو بڑھے ہوئے محلہ کا اعتبار نہیں ہوتا۔)
              عالمگیری: ثم المعتبر المجاوزۃ من الجانب الذی خرج منہ حتی لو جاوز عمران المصر قصر وان کان بحذائہ من جانب آخر ابنیۃ۔  (ص 139 ج 1)
              (جانبِ خروج سے متجاوز ہونے کا اعتبار ہوتا ہے، لہٰذا جب شہر کی آبادی سے متجاوز ہو جائے تو قصر کرے گا، اگرچہ کسی اور جانب سے اس کے ایک طرف عمارتیں ہوں۔)
               تاتارخانیہ: اذا خلف البنیان الذی خرج منہ قصر الصلٰوۃ وان کان بحذائہ بنیان آخر من جانب آخر من المصر (ص 4ج 2)
              (آدمی جب جانبِ خروج سے عمارتوں کو پیچھے چھوڑ جائے تو نماز قصر کرے اگرچہ اس کے ایک طرف شہر کی کسی اور جانب سے عمارتیں بڑھی ہوئی ہوں۔)
              بنایہ: حتی لو خلف الابنیۃ التی فی طریقہ قصر وان کان بحذائہ ابنیۃ من جانب آخر من المصر (ص 255ج 3)
              (حتی کہ اگر آدمی اپنے رستے میں آبادی کی عمارتوں کو پیچھے چھوڑ جائے تو قصر کرے اگرچہ شہر کی کسی دوسری جانب سے اس کے ایک طرف کو عمارتیں بڑھی ہوئی ہوں۔)
               فتح القدیر: فلو جاوزھا و تحاذیہ بیوت من جانب آخر جاز القصر 
(ص 34 ج 2)۔
              (اگر آبادی سے باہر نکل جائے اور اس کے ایک طرف میں کسی اور جانب سے آبادی بڑھی ہوئی ہو تو قصر کرنا جائز ہے)۔
               بلکہ ذیل میں دی گئی فقہاء کی تصریحات سے مراقی الفلاح اور امداد کا دیا ہوا مفہوم بھی غلط ثابت ہوتا ہے، مثلاً عنایہ میں ہے:
              اذا فارق بیوت المصرمن الجانب الذی یخرج منہ وان کان فی غیرہ من الجوانب بیوت۔
              (جانبِ خروج سے جب آدمی گھروں کو پیچھے چھوڑ جائے تو اگرچہ اور جوانب میں مکان آگے ہوں، وہ قصر کر سکتا ہے۔)
              تاتارخانیہ میں ہے:
              ثم یعتبر الجانب الذی منہ یخرج المسافر من البلدۃ لا الجوانب بحذاء البلدۃ۔ (ص 4 ج 2)
              (پھر اعتبار اس جانب کا ہے جس سے مسافر شہر سے نکلتا ہے، شہر کی دوسری جانبوں کا اعتبار نہیں ہے۔)
               کیونکہ ان دو عبارتوں کا مطلب یہ ہے کہ دیگر جوانب میں خواہ وہ دو ہوں یا زیادہ ہوں، اگر آبادی بڑھ کر مسافر کے رستے کے قریب آ جائے تب بھی اس سے مجاوزت ضروری نہیں۔ اس صراحت کے ہوتے ہوئے مراقی الفلاح اور امداد میں لکھی ہوئی بات کسی طور سے درست نہیں۔
نیوز لیٹر سبسکرپشن
سبسکرپشن کے بعد آپ ادارہ کے بارے میں تازہ ترین اپ ڈیٹ حاصل کر سکتے ہیں