English

فقہی مضامین

مروجہ مجالس ذکر و درود
کی
شرعی حیثیت

ڈاکٹر مفتی عبد الواحد صاحب

          بسم اللّٰہ نحمدہ و نستعینہ و نستغفرہ و نؤمن بہ و نتوکل علیہ و نشھد ان محمدا عبدہ و رسولہ و صلی اللہ علیہ و علی آلہ و اصحابہ اجمعین۔
           احادیث مبارکہ میں مجالس ذکر اوران کی فضیلت کا بڑا واضح تذکرہ موجود ہے۔ اس لئے مجالس ذکر کی مشروعیت و فضیلت میں تو کوئی شک ہی نہیں، لیکن احادیث میں مذکور مجالس ذکر کی کیفیت کے بارے میں لوگوں میں خاصا غلو پایا جا رہا ہے۔ ہر قسم کی مجالس ذکر خواہ ان کے لئے تداعی کی گئی ہو یا ان میں ذکر کسی ممنوع صورت میں کیا جاتا ہو سب کو فضیلت والی مجالس ذکر میں شامل سمجھنے لگے ہیں اور بعض ظاہری و جزوی مصلحتوں اور فائدوں کی خاطر ان کے معتقد ہو رہے ہیں، حالانکہ اس سے پہلے یہ دیکھنا بہت ضروری ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم جو کہ اعمال کے کرنے میں اور فضائل کو سمیٹنے میں ہم سے زیادہ حریص تھے ان کے یہاں اور ان کے دور میں مجالس ذکر کی کیا کیفیت تھی، جو کیفیت ان کے یہاں رائج تھی وہی ہمیں بھی اختیار کرنی چاہئے اور جن کیفیتوں سے انہوں نے منع کیا ان سے بچنا چاہئے خواہ ان میں ہمیں بظاہر کتنے ہی فوائد نظر آ رہے ہوں۔
           صحابہ رضی اللہ عنہم کا معمول تھا کہ فجر اور عصر کے بعد مسجد میں رہ کر ذکر کرتے تھے اور باقی اوقات میں بھی بعض صحابہ ذکر میں مصروف ملتے تھے۔ چونکہ ان کے دور میں مسجد کو خاص اہمیت حاصل تھی کہ علم کے حلقے بھی وہیں لگتے تھے۔ قضاء و حکومت کے معاملات بھی وہیں طے پاتے تھے۔ لہٰذا ذکر کرنے والے بھی ایک طرف کو ہو جاتے تھے اور اس طرح سے ذاکرین کی مجلس یا حلقہ قائم ہو جاتا تھا۔ اس کے لئے ایک دوسرے کو دعوت نہیں دی جاتی تھی۔ یعنی دوسرے لفظوں میں ان میں ذکر یا مجلس ذکر کے لئے تداعی نہ تھی۔ ہمارے دور میں بعض حضرات کو اس بات پر تعجب ہوتا ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے دور میں مجالس بغیر تداعی کے قائم ہو جاتی تھیں اور ان کے دل اس بات کو قبول کرنے سے ہچکچاتے ہیں لیکن اس کی وجہ یہ ہے کہ ان حضرات کی نظروں سے صحابہ رضی اللہ عنہم کی دلچسپیاں اوجھل رہیں اور وہ صحابہ رضی اللہ عنہم کو اپنے زمانے کے لوگوں پر قیاس کرنے لگے۔
          تداعی کے علاوہ صحابہ رضی اللہ عنہم میں جماعتی یا اجتماعی صورت میں ذکر کرنے سے بھی اجتناب کیا جاتا تھا جس سے مراد یہ ہے کہ سب کے سب ذاکرین اس بات کا التزام کریں کہ وہ ایک وقت میں ایک ہی مخصوص ذکر کریں گے خواہ سر اخواہ جہرا۔ صحابہ رضی اللہ عنہم کے اجتماع اور مجلس کی جوکیفیت ہم نے بیان کی اس سے بھی مجلس اور اجتماع تو حاصل ہو جاتا تھا لیکن ذکر ہر شخص اپنا اپنا کرتا تھا پھر خواہ ذکر کے کلمات ہر ایک کے مختلف ہوں یا ایک ہی ہوں۔ بہرحال اس بات کا التزام نہیں کیا جاتا تھا کہ سب ایک وقت میں ایک ہی ذکر کریںبلکہ ایسا کرنے کو وہ بدعت جانتے تھے۔ اسی ناجائز طریقے کو ہم جماعتی یا اجتماعی ذکر کا نام دیتے ہیں۔
          آگے ہمارے کلام میں ان ہی مذکورہ امور سے متعلق تفصیل ہے اور اس کو ہم چھ فصلوں میں تقسیم کرتے ہیں۔
فصل اول:  احادیث میں مجالس ذکر اور ان کی فضیلت کا تذکرہ۔
فصل دوم:  خیر القرون میں مجلس ذکر کے لئے تداعی کا نہ ہونا۔
فصل سوم:  اجتماعی ذکر جہری بدعت ہے۔
فصل چہارم: اجتماعی ذکر سری بدعت ہے۔
فصل پنجم:  اجتماعی ذکر کے بدعت ہونے کی تائید۔
فصل ششم: مجالس ذکر کی مختلف مروجہ صورتیں اور ان کے احکام۔
فصل اول:  احادیث میں مجالس ذکر اور ان کی فضیلت کا تذکرہ
(1)  عَنْ اَبِی ھُرَیْرَۃَ وَاَبِی سَعِیْدٍ قَالَاَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ لَا یَقْعُدُ قَوْمٌ یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ اِلَّا حَفَّتْھُمْ الْمَلَاَئِکَۃُ وَغَشِیَتْھُمْ الرَّحْمَۃُ وَنَزَلَتْ عَلَیْھِمْ السَّکِیْنَۃُ وَذَکَرَ ھُمُ اللّٰہُ فِیْمَنْ عِنْدَہٗ۔
          حضرت ابوہریرہ اور حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہما کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو جماعت بیٹھی، اللہ کے ذکر میں مشغول ہو فرشتے اس جماعت کو سب طرف سے گھیر لیتے ہیں اور رحمت ان کو ڈھانپ لیتی ہے اور سکینہ ان پر نازل ہوتی ہے اور اللہ جل شانہ ان کا تذکرہ اپنی مجلس میں فرماتے ہیں۔
(2) عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ … وَاِنْ ذَکَرَنِیْ فِی مَلَأٍ ذَکَرْتُہٗ فِی مَلَأٍ خَیْرٍ مِنْھُمْ۔
          حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں … اور اگر وہ مجمع میں (یعنی دیگر ذکر کرنے والے مسلمانوں کے ساتھ یا دیگر مسلمانوں کی موجو دگی میں) میرا ذکر کرتا ہے تو میں اس مجمع سے بہتر میں اس کا تذکرہ کرتا ہوں۔
(3)    عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ اِنَّ لِلّٰہِ مَلَائِکَۃً یَطُوْفُوْنَ فِی الطُّرُقِ  یَلْتَمِسُوْنَ اَھْلَ الذِّکْرِ فَاِذَا وَجَدُوْا قَوْمًا یَذْ کُرُوْنَ اللّٰہَ تَنَا دَوْا ھَلُمُّوْا اِلٰی حَاجَتِکُمْ۔
         حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ کے کچھ فرشتے رستوں میں پھرتے رہتے ہیں اور اہل ذکر کو تلاش کرتے ہیں۔ جب وہ کچھ لوگوں کو اللہ کا ذکر کرتے پاتے ہیں تو ایک دوسرے کو بلاتے ہیں کہ اپنے مقصود کے لئے ادھر آئو۔
قولہ یذکرون اللّٰہ: الاظھر ان المراد ہوالا عم والمذکورات تمثیلات۔ و فیہ دلالۃ علی ان للاجتماع علی الذکر مزیۃ و مرتبۃ (مرقاۃ، ص: 56، ج : 5)
         ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حدیث میں یذکرون اللہ سے مراد ہر قسم کا ذکر ہے، اور بعض حدیثوں میں جو مخصوص اذکار وارد ہوئے ہیں وہ بطور مثال کے ہیں۔ نیز اس حدیث میں ذکر کے لئے اجتماع کی فضیلت اور مرتبہ معلوم ہوا۔
(4) عَنْ اَنَسٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ اِذَا مَرَرْتُمْ بِرِیَاضِ الْجَنَّۃِ فَارْتَعُوْا قَالُوْا وَمَا رِیَاضُ الْجَنَّۃِ قَالَ حَلَقُ الذِکْرِ۔
         حضرت انس ؓ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا کہ جب جنت کے باغوںپر گزرو تو خوب چرو کسی نے عرض کیا یارسول اللہ جنت کے باغ کیا ہیں ارشاد فرمایا کہ ذکر کے حلقے۔
  (5)    عَنْ اَبِی سَعِیْدٍ قَالَ خَرَجَ مُعَاوِیَۃُ عَلٰی حَلْقَۃٍ فِی الْمَسْجِدِ فَقَالَ مَا اَجْلَسَکُمْ قَالُوْا جَلَسْنَا نَذْکُرُ اللّٰہَ۔
         حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ مسجد میں ایک حلقہ کے پاس آئے اور ان سے پوچھا کہ تم لوگ کس لئے بیٹھے ہو۔ انہوں نے جواب دیا کہ ہم اللہ کا ذکر کرنے بیٹھے ہیں۔
(6)   عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ سَھْلِ بْنِ حَنِیْفِ قَالَ نَزَلَتُ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ وَھُوَ فِی بَعْضِ اَبْیَاتِہٖ وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ بِالْغَدٰوۃِ وَالْعَشِیِ فَخَرَجَ  یَلْتَمِسُھُمْ فَوَجَدَ قَوْمًا یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ فِیْھِمْ ثَائِرُ الرَّأس وَجَافِّ الْجِلْدِ وَ ذُوْالثَّوْبِ  اَلْوَاحِدِ فَلَمَّا رَآھُمْ جَلَسَ مَعَھُمْ وَقَالَ اَلْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِیْ جَعَلَ فِیْ اُمَّتِیْ مَنْ اَمَرَنِیْ اَنْ اَصْبِرَ نَفْسِیْ مَعَھُمْ۔
         حضرت عبدالرحمن بن سہل ؓ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ اپنے کسی گھرمیں تھے کہ آیت واصبر نفسک (ترجمہ: اپنے آپ کو ان لوگوں کے پاس بیٹھنے کا پابند کیجئے جو صبح شام اپنے رب کو پکارتے ہیں) نازل ہوئی اس پر آپ ان لوگوں کی تلاش میں نکلے ایک جماعت کو دیکھا کہ اللہ کے ذکر میں مشغول ہے بعض لوگ ان میں بکھرے ہوئے بالوں والے ہیں اور خشک کھالوں والے اور صرف ایک کپڑے والے ہیں جب حضور ﷺ نے ان کو دیکھا تو ان کے پاس بیٹھ گئے اور ارشاد فرمایا کہ تمام تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں جس نے میری امت میں ایسے لوگ پیدا فرمائے کہ خود مجھے ان کے پاس بیٹھنے کا حکم ہے۔
(7)  ایک حدیث میں آیا ہے حضور اقدس ﷺ ارشاد فرماتے ہیں کہ میں ایسی جماعت کے ساتھ بیٹھوں جو صبح کی نماز کے بعد آفتاب نکلنے تک اللہ کے ذکر میں مشغول ہو  مجھے زیادہ پسند ہے اس سے کہ چار عرب غلام آزاد کروں۔ اسی طرح ایسی جماعت کے ساتھ بیٹھوں جو عصر کی نماز کے بعد سے غروب تک اللہ کے ذکر میں مشغول رہے یہ زیادہ پسند ہے چار غلام آزاد کرنے سے۔ (فضائل ذکر ص: 55)
    نوٹ: ان احادیث سے معلوم ہوا کہ کسی جگہ کچھ لوگ بیٹھے اللہ تعالیٰ کا ذکر کر رہے ہوں خواہ مسجد میں یا خانقاہ میں یا کسیی بھی جگہ اور خواہ وہ تلاوت کر رہے ہوں یا تسبیح و تہلیل کر رہے ہوں یا درود شریف پڑھ رہے ہوں یہ مجلس ذکر ہے جو فضیلت کی چیز ہے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم فجر کی نماز کے بعد اور عصر کی نماز کے بعد مسجد ہی میں بیٹھے اپنے اپنے ذکر و تلات میں مصروف رہتے اور دیگر اوقات میں بھی جب جس کو موقع ملتا وہ مسجد میں آ کر تعلیم و تعلم یا ذکر میں مشغول ہو جاتا۔
فصل دوم: خیر القرون میں ذکر کی مجلسوں اور حلقوں کیلئے تداعی نہیں تھی
          اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے دور میں مجالس اور حلقے قائم ہوتے تھے کیا ان کے لئے لوگوں کو بلایا جاتا تھا۔ دوسرے لفظوں میں کیا ان مجالس کے انعقاد کے لئے تداعی ہوتی تھی یا وہ مجالس اور حلقے بلا تداعی کے خود بخود قائم ہو جاتے تھے ؟
حقیقت یہ ہے کہ خیر القرون میں تداعی کے ساتھ مجلس ذکر قائم کرنے کا ثبوت نہیں ملتا۔ صحابہ رضی اللہ عنہم کی دلچسپیاں آخرت سے متعلق تھیں۔ رسول اللہ ﷺ سے ذکر اور مجلس ذکر کی فضیلتیں اور مخصوص اوقات کی فضیلتیں سن کر صحابہ رضی اللہ عنہم کو اس کی ضرورت نہیں ہوتی تھی کہ ان کو مخصوص اوقات میں جمع ہونے کی دعوت دی جائے یا اس کا اعلان کیا جائے۔ علامہ ابن الحاج مالکی رحمۃ اللہ علیہ المدخل میں ذکر کرتے ہیں۔
          الا تری الی ما ورد عنھم فی اورادھم بعد الصبح والعصر فانھم کانوا فی مساجد ہم فی ہذین الوقتین کانھم منتظرون صلاۃ الجمعۃ و یسمع لھم فی المساجد دوی کدوی النحل۔ (المدخل، ص: 75 ج: 1)
          کیا تم دیکھتے نہیں ہو جو صحابہ رضی اللہ عنہم سے فجر اور عصر کے بعد ان کے اورادو وظائف کے بارے میں وارد ہوا ہے۔ ان دو وقتوں میں وہ اپنی مسجدوں میں ایسے وقت گزارتے تھے گویا کہ وہ جمعہ کی نماز کے منتظر ہوں۔ اور مسجدوں میں ان کے ذکر کی وجہ سے شہد کی مکھیوں کی سی بھنبھناہٹ سنائی دیتی تھی۔
          اپنے اس دور میں بھی ہمیں بہت سی مساجد میں کچھ نہ کچھ لوگ ایسے ملتے ہیں جو فجر کی نماز سے لے کر اشراق تک مسجد میں رہ کر ذکر و تلاوت میں مشغول رہتے ہیں تو خیر القرون کے لوگوں کی دلچسپیوںکے مسجد کے ساتھ وابستہ ہونے کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
          نیز حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے لوگوں کو تعلیم کی مجلس میں شرکت کی دعوت دینا تو ملتا ہے ذکر کی مجلس میں شرکت کی دعوت دینا نہیں ملتا۔ حالانکہ جیسے اوپر مذکور ہوا اس وقت مسجد میں لوگ ذکر کے لئے بھی جمع ہوتے تھے۔
          وہو ابوھریرۃ رضی اللہ عنہ حین خرج الی الناس بسوق المدینۃ فنادی فیھم ما بالکم میراث رسول اللہ ﷺ یقسمم فی المسجد بین امتہ وانتم مشتغلون فی الاسواق فتر کوا السوق و اتوا الی المسجد فوجدوا الناس حلقا حلقا لتعلیمم القرآن و الحدیث والحلال و الحرام فقالوا و این ماذکرت یا اباھریرۃ قال ہذا میراث نبیکم وان الانبیاء لم یور ثوا دینارا ولا درھما و انما ورثوا العلم وھا ہوذا۔ (المدخل، ص: 82 ، ج: 1)
          حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ کے بازار میں لوگوں کے پاس گئے اور ان میں اعلان کیا کہ اے لوگو ! تمہیں کیا ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کی میراث تو آپ کی امت میں مسجد میں تقسیم کی جا رہی ہے اور تم یہاں بازاروں میں مشغول ہو لوگوں نے (یہ سوچ کر کہ آپ ﷺ کی چھوڑی ہوئی کوئی چیز برکت کے طور پر ہی مل جائے گی) بازار چھوڑا اور مسجد کی طرف آئے اور لوگوں کو حلقوں میں دیکھا تعلیم قرآن کا حلقہ، تعلیم حدیث کا حلقہ، اور حلال و حرام کی تعلیم کا حلقہ، تو پوچھا اے ابوہریرہؓ آپ نے جو کہا تھا وہ کہاں ہے ؟ انہوں نے فرمایا یہی تمہارے نبی کی میراث ہے۔ انبیاء علیہم السلام دینار و درہم کی میراث نہیں چھوڑتے علم کی میراث چھوڑتے ہیں اور وہ یہی ہے۔
          علاوہ ازیں یہ اذکار و اوراد نفل و مندوب ہیں جس کے لئے تداعی جائز نہیں اور مولانا خلیل احمد سہارن پوری رحمۃ اللہ علیہ اس بارے میں ضابطہ تحریر فرماتے ہیں۔ ’’پس غور کرنا چاہئے کہ نفس ذکر مولود مندوب و مستحسن ہے مگر صلوۃ نفل اس سے اعلیٰ و افضل ہے کہ عمدہ عبادات اور افضل القربات ہے اور خیر موضوع ہے مگر بایں ہمہ بوجہ تداعی و اہتمام کے کہ یہ اس میں مشروع نہیں بدعت لکھتے ہیں۔ یہاں ذکر مولود میں بھی گو مندوب ہے مگر تداعی و اہتمام اس کا کہیں سلف سے ثابت نہیں بدعت ہو وے گا۔ البتہ وعظ و دروس میں تداعی ثابت ہے کیونکہ وہ فرض ہے جیسا کہ فرائض صلوات میں تداعی ضروری ہے۔‘‘ (براہین قاطعہ، ص: 153)
فصل سوم: اجتماعی ذکر جہری بدعت ہے
           اجتماعی ذکر سے ہماری مراد یہ ہے کہ سب ذکر کرنے والے یہ التزام کریں کہ وہ سب ایک وقت میں ایک ہی ذکر کریں گے خواہ اس میں ان کا کوئی امیر ہو یا نہ ہو۔
           ماخرجہ صاحب الحلیۃ رحمہ اللّٰہ وغیرہ عن ابی البختری قال اخبر رجل عبداللّٰہ بن مسعود ان قوما یجلسون فی المسجد بعد المغرب فیھم رجل یقول کبروا اللّٰہ کذا و کذا و سبحوا اللّٰہ کذا و کذا واحمدوا اللّٰہ کذا و کذا قال عبداللّٰہ فیقولون ذلک ؟ قال نعم قال فاذا رأیتھم فعلوا ذلک فائتنی فاخبرنی بمجلسھم قال فاتیتہ فاخبرتہ بمجلسھم فاتاھم و علیہ برنس لہ فجلس فلما سمع ما یقولون قام و کان رجلاًً حدیداً فقال انا عبداللّٰہ بن مسعود واللّٰہ الذی لا الہ غیر ہ لقد جئتم ببدعۃ ظلماء اولقد فقتم اصحاب محمد ﷺ علما۔ فقال احدھم متعذراً واللّٰہ ماجئنا ببدعۃ ظلماء ولا فقنا اصحاب محمد ﷺ علما۔ فقال عمرو بن عتبۃ یا ابا عبدالرحمن نستغفر اللّٰہ قال علیکم بالطریق فالزموہ فواللّٰہ لئن فعلتم لقد سبقتم سبقا بعیدا و لئن اخذتم یمینا و شمالا لتضلون ضلالا بعیدا۔ (المدخل، ص: 75 ، ج: 1)
           وفی روایۃ اخرجھا الطبرانی فی الکبیر فقال عمرو بن عتبۃ بن فرقد استغفر اللہ یا ابن مسعود و اتوب الیہ فامرھم ان یتفرقوا۔ 
(حیاۃ الصحابہ، ص: 247 ، ج: 3)
           حلیۃ الاولیاء وغیرہ میں ابو لبختری سے روایت ہے ایک شخص نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو خبر دی کہ کچھ لوگ مغرب کے بعد مسجد میں بیٹھتے ہیں۔ ان میں سے ایک شخص کہتا ہے کہ اتنی مرتبہ تکبیر کہو اوراتنی مرتبہ تسبیح کہو اور اتنی مرتبہ الحمدللہ کہو۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے پوچھا تو کیا وہ ایسا کہتے ہیں ؟ اس شخص نے جواب دیا کہ جی ہاں۔ آپ نے فرمایا کہ اچھا جب تم ان کو ایسا کرتے دیکھو تو میرے پاس آ کر مجھ کو ان کی مجلس کی خبر دینا۔ کہتے ہیں کہ میں نے آ کر آپ کو ان کی مجلس کے انعقاد کی خبر دی۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ برنس (ٹوپی والا لمبا کوٹ) پہنے ہوئے ان لوگوں کے پاس آئے اور بیٹھ گئے اور جب جو کچھ وہ کہہ رہے تھے اس کو سنا تو کھڑے ہو گئے اور وہ تیز فہم اور سخت آدمی تھے اور کہا میں عبداللہ بن مسعودؓ  ہوں۔ خدائے وحدہ لاشریک لہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ یا تو تم نے یہ نہایت تاریک اور سیاہ بدعت ایجاد کی ہے یا تم علم میں جناب نبی کریم ﷺ کے صحابہ سے بڑھ گئے ہو ؟ ان میں سے ایک نے معذرت کے طور پر کہا کہ اللہ کی قسم نہ تو ہم نے تاریک و سیاہ بدعت ایجاد کی اور نہ ہی علم میں محمد ﷺ کے اصحاب پر فائق ہوئے۔ اور عمرو بن عتبہ نے کہا کہ اے ابو عبدالرحمن ہم اللہ کے حضور توبہ و استغفار کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ (صحابہ کے) طریقہ کو لازم پکڑو۔ اللہ کی قسم اگر تم نے اس جیسے کام کئے تو تم (صحیح دین سے) بہت پیچھے رہ جائو گے اور اگر تم نے (دین سے) دائیں بائیں کوئی راہ اختیار کی تو تم دور کی گمراہی میں جا پڑو گے۔ طبرانی کی معجم کبیر کی روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ عمرو بن عتبہ بن فرقد نے کہا اے ابن مسعود میں اللہ کے حضور توبہ و استفار کرتا ہوں۔ تو آپ نے لوگوں کو متفرق ہونے کا حکم دیا۔
          دیکھئے جو اذکار تھے یعنی تسبیح و تہلیل و تحمید یہ سب مسنون ہیں، مسجد میں ذکر کرنا بھی منع نہیں بلکہ دور صحابہ رضی اللہ عنہم میں (تداعی کے بغیر) ذکر کی مجالس اور حلقے قائم ہوتے ہی تھے اور مسجد میں ہوتے تھے جیسا کہ اوپر مذکور ہوا۔ فقط جہراً کرنا ممنوع ہوتا تو حضرت عبداللہ بن مسعودؓ اس سے منع فرماتے۔ حضرت نے منع فرمایا تو اجتماعی ذکر کرنے سے منع فرمایا اور اس پر قوی دلیل طبرانی کے یہ الفاظ ہیں فامرھم ان یتفرقوا (ان کو متفرق ہونے کا حکم دیا)۔
فصل چہارم: اجتماعی ذکر سری بدعت ہے
          سنن دارمی میں روایت ہے: 
          کنا نجلس علی باب عبداللہ بن مسعود قبل صلوۃ الغداۃ فاذا خرج مشینا معہ الی المسجد فجاء نا ابو موسی الاشعری فقال اخرج الیکم ابو عبدالرحمن بعد ؟ قلنا لا۔ فجلس معنا حتی خرج فلما خرج قمنا الیہ جمیعا فقال لہ ابو موسیٰ یا ابا عبدالرحمن انی رایت فی المسجد آنفا امراً انکرتہ ولم ار والحمد للہ الاخیراً قال فما ہو ؟ فقال ان عشت فستراہ قال رایت فی المسجد قوما حلقا جلوسا ینتظرون الصلاۃ فی کل حلقۃ رجل و فی ایدیھم حصیؐ فیقول کبروا مائۃ فیکبرون مائۃ فیقول ھللوا مائۃ فیھللون مائۃ و یقول سبحوا مائۃ فیسبحون مائۃ  قال فما ذا قلت لھم ؟ قال ما قلت لھم شیئا انتظار رایک أو انتظار امرک قال فلا امرتھم ان یعدوا سیئاتھم وضمنت لھم ان لا یضیع من حسنا تھم ثم مضی و مضینا معہ حتی اتی حلقۃ من تلک الحلق فوقف علیھم فقال ما ہذا الذی اراکم تصنعون قالوا یا ابا عبدالرحمن حصی نعدبہ التکبیر والتھلیل والتسبیح۔ قال فعدوا سیئاتکم فانا ضامن ان لا یضیع من حسنا تکم شئی ویحکم یا امۃ محمد ما اسرع ھلکتکم ہولاء صحابۃ نبیکم ﷺ متوافرون و ہذہ ثیابہ لم تبل و آنیتہ لم تکسرو الذی نفسی بیدہ انکم لعلی ملۃ ہی اھدی من ملۃ محمد أو مفتتحو باب ضلالۃ ؟ قالوا و اللہ یا ابا عبدالرحمن ما اردنا الا الخیر قال و کم من مرید للخیر لن یصیبہ ان رسول اللہ ﷺ حدثنا ان قوما یقرؤن القرآن لا یجاوز تراقیھم و ایم اللہ ما ادری لعل اکثرھم منکم ثم تولی عنھم۔ فقال عمرو بن سلمۃ راینا عامۃ اولئک الحلق یطاعنونا یوم النھروان مع الخوارج۔ (سنن دارمی، ص: 60، ج:1)
          ترجمہ: فجر کی نماز سے پیشتر ہم حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کے دروازے پر بیٹھ جاتے اور جب وہ باہر نکلتے تو ان کے ساتھ مسجد تک پیدل جاتے تھے (ایک دن) حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ ہمارے پاس آئے اور پوچھا کہ کیا ابو عبدالرحمن (یعنی عبداللہ بن مسعودؓ) تمہارے پاس باہر آئے ہیں ؟ ہم نے کہا کہ نہیں۔ تو وہ بھی ہمارے ساتھ ہی بیٹھ گئے۔ جب حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ باہر نکلے تو ہم سب ان کی طرف کھڑے ہوئے اور حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ نے کہا کہ اے ابو عبدالرحمن! میں نے ابھی مسجد میں ایسی بات دیکھی جو میں نے بری سمجھی اور الحمد للہ میری نیت بھلائی ہی کی ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے پوچھا کہ وہ کیا بات ہے۔ تو انہوں نے جواب دیا کہ آپ کی زندگی رہی تو آپ اس کو عنقریب دیکھ لیں گے۔ میں نے مسجد میں لوگوں کو نماز کے انتظار میں متعدد حلقے بنائے بیٹھے دیکھا۔ لوگوں کے پاس کنکریاں ہیں اور ہر حلقہ میں ایک شخص کہتا ہے کہ سو مرتبہ تکبیر کہو تو لوگ سو مرتبہ تکبیر کہتے ہیں اور وہ کہتا ہے کہ سو مرتبہ لا الہ الا اللہ کہو تو لوگ سو مرتبہ یہ کلمہ کہتے ہیں اور وہ شخص کہتا ہے کہ سو مرتبہ تسبیح کہو تو لوگ سو مرتبہ سبحان اللہ کہتے ہیں اس پرحضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے پوچھا پھر آپ نے ان لوگوں کو کیا کہا۔ حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ نے جواب دیا آپ کی رائے یا آپ کے حکم کے انتظار میں میں نے ان سے کچھ نہیں کہا۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے کہا کہ آپ نے ان سے یہ کیوں نہ کہا کہ وہ اپنے گناہ شمار کریں اور آپ نے ان کو یہ ضمانت کیوں نہ دی کہ (اپنے گناہ شمار کرنے کی صورت میں) ان کی کوئی نیکی ضائع نہ ہو گی۔
          پھرحضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ چلے اور ہم بھی آپ کے ساتھ چلے یہاں تک کہ وہ ان حلقوں میں سے ایک حلقہ کے پاس آئے اور وہاں کھڑے ہوئے۔ پھر ان سے پوچھا یہ میں تمہیں کیا کرتے دیکھ رہا ہوں۔ انہوں نے جواب دیا کہ کنکریاں ہیں جن پر تکبیر تہلیل اور تسبیح کو شمار کر رہے ہیں آپ نے فرمایا کہ تم اپنے گناہوں کو شمار کرو اور میں ضمانت دیتا ہوں کہ اس صورت میں تمہاری کوئی نیک ضائع نہ ہو گی۔ اے امت محمد تم پر افسوس ہے کہ کتنی جلدی تمہاری بربادی ہے۔ تمہارے نبی ﷺ کے یہ صحابہ کثیر تعداد میں موجود ہیں اور آپ ﷺ کے کپڑے ابھی بوسیدہ نہیں ہوئے اور آپ کے برتن ابھی نہیں ٹوٹے۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے یا تو تم ایسی ملت پر ہو جس میں محمد ﷺ کی ملت سے زیادہ ہدایت ہے یا تم لوگ گمراہی کا دروازہ کھولنے والے ہو۔ انہوں نے کہا کہ اے ابو عبدالرحمن ہم نے تو فقط خیر کا ارادہ کیا ہے۔ آپ نے فرمایا کتنے ہی خیر کا ارادہ کرنے والے ہیں جن کو (صحابہ کا طریقہ اختیار نہ کرنے کی وجہ سے) ہر گز خیر حاصل نہیں ہوتی۔ رسول اللہ ﷺ نے ہم سے بیان کیا تھا کہ کچھ لوگ قرآن پڑھیں گے لیکن وہ ان کے حلق سے آ گے نہیں جائے گا اور اللہ کی قسم میں نہیں جانتا شاید کہ ان کی اکثریت تم ہی لوگوں میں سے ہو۔ پھر آپ ان لوگوں کی طرف سے پھر گئے۔ عمر بن مسلمہ کہتے ہیں، ہم نے دیکھا کہ ان حلقوں کی اکثریت خوارج کے ساتھ مل کر ہمارے خلاف جنگ نہر وان میں لڑ رہی تھی۔
           دارمی کی اس روایت کا مضمون اس پر خود دلیل ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا یہ قصہ اس قصہ سے علیحدہ ہے جو حلیہ سے اوپر مذکور ہوا۔ سابقہ حدیث میں مغرب کی نماز کے بعد کا قصہ ہے جب کہ یہ واقعہ فجر کی نماز سے پہلے کا ہے۔نیز پہلے قصہ میں شریک مجلس عمرو بن عتبہ کے استغفار و توبہ کا ذکر ملتا ہے جب کہ اس قصہ میں شرکاء مجلس کا مقابلہ میں بحث کرنا مذکور ہے کہ جواب دیا واللہ یا ابا عبدالرحمن ما اردنا الا الخیر (اے ابو عبدالرحمن اللہ کی قسم ہمارا ارادہ تو فقط خیر کا ہے)۔ سابقہ قصہ میں ذکر جہری مذکور ہے جس کو حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے خود سنا جب کہ اس قصہ میں ذکر سری مذکور ہے اسی لئے حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے قدرے توقف کے بعد پوچھا کہ یہ میں تم کو کیا کرتے دیکھتا ہوں ؟
            اس سوال سے ذکر کے سری ہونے پر استدلال علامہ ابن الحاج رحمۃ اللہ علیہ نے بھی کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے ایک حلقہ میں تشریف لائے اور پوچھا تمہاری یہ مجلس کیسی ہے ؟ انہوں نے جواب دیا جلسنا نذکر اللہ (ہم اللہ کا ذکر کرنے بیٹھے ہیں)۔
علامہ ابن الحاج رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔
            لانھم لو کانوا یذکرون اللّٰہ جھراً لم یحتج علیہ السلام الی ان یستفھمھم … بل کان یخبرہم  بالحکم من غیر استفھام فلما ان استفھم دل علی ان ذکر ھم کان سراً۔ و کذلک جوابھم لہ علیہ الصلوۃ والسلام بقولھم جلسنا نذکر اللہ ادل دلیل علی انھم کانوا یذکرون اللّٰہ تعالیٰ سرا اذ انہ لو کان ذکرھم جھرا لما کان لاخبار ھم بذلک معنی زائدا اذ انہ علیہ الصلوۃ السلام قد سمع ذلک منھم فکان جوابھم ان یقولوا جلسنا لما سمعتہ أولما رأیتہ منا الی غیر ذلک من ہذا المعنی لانھم یتحا شون ان یکون منھم الجواب لغیر فائدۃ۔
(المدخل، ص: 87 ج: 1)
             کیونکہ اگر وہ اللہ کا ذکر جہراً کر رہے ہوتے تو نبی ﷺ کو ان سے پوچھنے کی حاجت نہ تھی بلکہ آپ بغیر پوچھے ان کو حکم بتا دیتے۔ تو آپ ﷺ کا سوال کرنا اس بات پر دلیل ہے کہ صحابہ کا ذکر سری تھا۔ اسی طرح صحابہ نے آپ ﷺ کو جو جواب دیا وہ بھی اس بات پر کھلی دلیل ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا ذکر سری کر رہے تھے کیونکہ اگر ان کا ذکر جہری ہوتا تو ان کے جواب سے کوئی زائد فائدہ تو حاصل نہ ہوتا اس لئے کہ نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام نے توان سے ذکر کو سن ہی لیا ہوتا، لہٰذا ان کا جواب یہ ہو تاکہ جو آپ نے ہم سے سنا یا آپ نے ہم سے دیکھا ہم اسی کے لئے بیٹھے تھے کیونکہ وہ حضرات اس بات سے اعراض کرتے تھے کہ ان کا جواب بے فائدہ ہو۔
حضرت مولانا حسین احمد مدنی رحمہ اللہ کے کلام سے تائید
             ایک صاحب نے دارمی کی مذکورہ بالا روایت ذکر کر کے حضرت مولانا حسین احمد مدنی نور اللہ مرقدہ کے سامنے یہ شبہ ظاہر کیا کہ صوفیاء کا موجودہ سلسلہ ایسا ہے جس میں اس طرح کے اشغال، وظائف اور ذکر کے حلقے پائے جاتے ہیں جو اس روایت کی روشنی میں محدث کہے جا سکتے ہیں اور ان پر نکیر کرنا جائز ہو جاتا ہے۔
             اس پر حضرت مولانا حسین احمد مدنی نور اللہ مرقدہ نے مجالس ذکر کی فضیلت والی چند حدیثیں جو ہم بھی اوپر ذکر کر چکے ہیں تحریر فرما کر یہ جواب دیا۔
             ’’یہ روایات اور ان کے ہم معنی شیخین وغیر ھما کی مرفوعات صحیحہ ہیں (یعنی رسول اللہ ﷺ کے ارشادات ہیں) ان کے مقابلہ میں دارمی کی وہ روایت جو آپ نے ذکر فرمائی ہے کیا حیثیت رکھتی ہے جب کہ وہ موقوف (یعنی صحابی کا قول) ہے اور اس کے رواۃ متفق علیہ نہیں ہیں اگرچہ ثقاۃ ہیں اس لئے:
              اگر معارضہ کیا جائے گا تو احادیث مذکورہ بالا ہی کو ترجیح ہو گی خصوصاً جب کہ اطلاق آیات ذکر ان کی موید ہیں۔ جن سے اجتماع اور انفراد سب کا ثبوت ہوتا ہے۔
              اور اگر کوئی صورت جمع کی نکالی جائے تو یہ کہنا ممکن ہے کہ کوئی چیز ہر دو صاحبوں نے اس جماعت میں ایسی مشاہدہ کی جو کہ زمانہ سعادت میں نہیں پائی گئی اور اس میں افراط و تفریط کا شائبہ تھا، اس بناء پر منع کیا نہ کہ نفس اجتماع بالذکر اور اس کی مباح کیفیت کو اور اگر اس میں کوئی تخصیص ایسی کی جائے جو کہ محط انکار ہو سکتی تو حلق ذکر میں کسی خاص کیفیت منکرہ پر یہ ممانعت محمول ہو گی۔‘‘ (مکتوبات جلد دوم) 
              حضرت مولانا مدنی نور اللہ مرقدہ کی یہ تحریر ہمارے ذکر کردہ مضمون کے موافق ہے اور اس کی تائید کرتی ہے معارضہ کی ضرورت ہی نہیں اس لئے ہم نے جمع (بین الاحادیث) کی صورت کو لیا ہے اور حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ اور حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ دونوں ہی نے اس جماعت میں جو بات مشاہدہ کی جو کہ زمانہ سعادت میں نہیں پائی گئی اور اس میں افراط و تفریط کا شائبہ بھی تھا وہ اجتماعی ذکر کرنے کا التزام تھا۔ یہی بات محط انکار ہے اور یہی وہ خاص کیفیت منکرہ ہے جس پر ممانعت محمول ہے جس کی دلیل یہ ہے کہ طبرانی میں ہے فامرھم ان یتفرقوا (حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے ان کو متفرق ہونے کا حکم دیا) اور یہ حکم اس لئے تھا کہ ان کے ذکر میں تفرق ہو جائے ورنہ مسجد میں ہوتے ہوئے ان کے تفرق ابدان سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا بلکہ مجلس قائم رہتی ہے۔
              علاوہ ازیں ہم ممانعت کو مطلق بھی نہیں لیتے اور وہ مجالس ذکر جو تداعی کے بغیر ہوں اور جن میں اجتماعی ذکر کا التزام نہ کیا گیا ہو ان مجالس ذکر کو جائز سمجھتے ہیں اور صرف ان مجالس ذکر کی تخصیص کرتے ہیں جن کے لئے تداعی کی گئی ہو یا جن میں اجتماعی ذکر کا التزام کیا گیا ہو کہ یہ محط انکار ہو سکتی ہیں۔
حضرت مفتی کفایت اللہ صاحب رحمہ اللہ سے تائید
               حضرت مفتی کفایت اللہ صاحب رحمہ اللہ لکھتے ہیں: 
               ’’حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی روایت سے روز روشن کی طرح واضح ہو گیا کہ ان لوگوں کا یہ فعل باوجودیکہ ذکر الٰہی اور تکبیر و تسبیح و تہلیل ہی تھا مگر چونکہ اس کی وضع اور ہیئت ایسی مقرر کی گئی تھی جس کا ثبوت شریعت مطہرہ سے نہیں تھا حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کے نزدیک ناجائز اور بدعت تھا۔ اس پر بدعت کا حکم لگانے کی وجہ کیا تھی۔ صرف یہی کہ ذکر اللہ اگرچہ ہر وقت مطلوب اور محبوب ہے مگر اس کے لئے یہ اہتمام و اجتماع کرنا حدود شریعت سے تجاوز کرنا تھا۔ ہر شخص کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ بطور خود جس قدر چاہے ذکر اللہ کرے لیکن یہ اختیار نہیں کہ ایک جدید اور نئی صورت اور ہیئت ایجاد کرے اور پھر اسے طریق شرعی اور موجب ثواب اعتقاد کرے۔ (کفایت المفتی ج 4 ص 121)
مولانا مفتی عبدالستار صاحب مدظلہ کے فتوی سے تائید
               خیر الفتاوی ص 708 ج 2 میں مولانا مفتی عبدالستار مدظلہ تحریر فرماتے ہیں۔
               حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کا انکار کسی ہیئت خاصہ کی بناء پر تھا نفس اجتماعی ذکر پر نہ تھا اجتماعی ذکر کی ایک شکل یہ ہے کہ سب ذاکرین قصدا آواز ملا کر ذکر کرنے کا التزام کریں یا ایک کہلائے باقی مجمع اس کے پیچھے اسی کلمہ کو دہرائے جیسے بچوں کو گنتی یا پہاڑے یاد کرائے جاتے ہیں۔ اجتماعی ذکر کی یہ دونوں صورتیں محل کلام ہیں اور تیسری شکل یہ ہے کہ ذاکرین ایک جگہ مجتمع ہوں اور سب اپنا اپنا ذکر کریں کسی دوسرے کے ذکر کی طرف قطعاً متوجہ نہ ہوں۔ وقت و محل کی وحدت کے اعتبار سے یہ اجتماعی ذکر ہے، لیکن نفس ذکر کے لحاظ سے انفرادی ہے۔ یہ درست ہے پس ممکن ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کا انکار پہلی دوسری قسم کے بارے میں ہو جس کا آپ نے وہاں مشاہدہ کیا۔ (ص: 708)
              حضرت مفتی عبدالستار صاحب مدظلہ نے جماعتی صورت میں ذکر جہری کا حکم تو بتایا البتہ ذکر سری سے سرے سے تعرض نہیں کیا لیکن دارمی کی روایت اس کے عدم جواز پر کافی دلیل ہے۔
فصل پنجم: اجتماعی ذکر کے بدعت ہونے کی تائید
               اجتماعی ذکر کرنا خواہ جہری ہو یا سری ہو بدعت ہے اس کی تائید علامہ ابن الحاجؒ کی اس بات سے بھی ہوتی ہے فرماتے ہیں۔
               فالذی ینبغی للعالم الیوم بل یجب علیہ ان لاینظر الی العوائد التی اصطلحنا علیھا ولا بکون سلفنا مضوا علیھا اذ قد یکون فی بعضھا غفلۃ أو غلط أوسھو ولکن  ینظر الی القرون المتقدم ذکرھا۔ فان فعل ہو منھا شیئا مما یراہ مصلحۃ فی  وقتہ فینبغی لہ اویجب علیہ ان یبین ذلک و یعترف بین الناس انہ محدث و یبین السبب الذی لاجلہ  فعل ذلک  قد کان سیدی ابو محمد المرجانی یا خذ ہذہ الاحزاب و یقراھا جماعۃ و یذکر ھا جماعۃ بعد الصبح و العصر ولم یزل علی ذلک دابہؒ الی موتہ و کان رحمہ اللّٰہ یخبر ان ذلک بدعۃ وانما فعلہ لضرورۃ و ھی ان  الھمم قد قلت و قل فقیر ان یصلی الصبح او العصر ثم یقوم یذکر اللہ تعالیٰ و یقرأ فی ھذین الوقتین المشھودین الا انھم یقومون من مصلاھم اما للنوم ان کان فی الصبح أو للتحدث فیما لا یعنی انکان فی العصر ان سلموا من الغیبۃ والنمیمۃ فلما ان تحققوا وقوع ہذا المحذور ودعوہ ہذا المکروہ لان ارتکاب المکروہات اولی  بل او جب من ارتکاب المحذورات ہکذا یجب ان تکون المحافظۃ علی السنن و حفظھا فینبہ الناس علیھا و یعلمھم بالعوائد المتخذۃ انھا لیست منھا و یخبر ہم بالضرورات التی کانت سببا لفعلھا ولاجل الغفلۃ عن ہذا التنبہ وقع ما وقع من الادعاء بھا بانھا سنۃ السلف والخلف لان الغالب علی الناس تحسین ظنھم بمشایخھم و علمائھم و انھم لا یخالفون و انھم علی سبیل الاتباع و ترک الابتداع، الاتری انھم قالوا من لم یرخطأ شیخہ صوابا لم ینتفع بہ فیحمل لاجل ہذا ما یصدر منھم علی انہ سنۃ مامور بھا۔ (المدخل، ص: 93، ج: 1)
              اس زمانہ میں عالم کے لئے جو مناسب ہے بلکہ اس پر جو واجب ہے وہ یہ ہے کہ وہ ان رسوم کی طرف نظر نہ کرے جو ہم میں رواج پا گئی ہیں یا ہم سے پہلے لوگوں کا ان پر عمل رہا ہے کیونکہ یہ بعض باتیں غفلت یا غلطی یا سہو کی وجہ سے رائج ہو جاتی ہیں بلکہ قرون (اولی) کی طرف نظر رکھے۔ اور اگر ان رسوم میں سے کسی کو مصلحت وقت کی بناء پر اختیار کرے تو اس پر واجب ہے کہ اس کو تفصیل سے بیان کر دے اور لوگوں کے سامنے اعتراف کر لے کہ یہ بدعت ہے اور جس سبب سے اس کو اختیار کیا ہے اس کو بھی بیان کر دے۔ سیدی ابو محمد مرجانی رحمہ اللہ ان احزاب و اوراد کا جماعتی صورت میں فجر اور عصر کے بعد ذکر کرتے تھے اور آپ کا یہ طریقہ آپ کی وفات تک جاری رہا۔ لیکن آپ متعلقین کو بتا دیتے تھے کہ یہ طریقہ بدعت ہے اور انہوں نے اس کو محض ضرورت کی بنا پر اختیار کیا ہے اور وہ ضرورت یہ ہے کہ ہمتیں کم ہو گئی ہیں اور کم ہی فقیر (صوفی) ایسے ہیں جو فجر یا عصر پڑھ کر ان دو مشہود وقتوں میں اللہ تعالیٰ کے ذکر اور قراء ت میں مشغول ہوتے ہوں۔ عام طور سے فجر کی نماز کے بعد تو سو جاتے ہیں۔ اور عصر کے بعد لا یعنی باتوں میں مشغول ہو جاتے ہیں۔ یہ بھی صرف اسی صورت میں ہے۔ جب ان کی باتیں چغل خوری اور غیبت سے خالی ہوں۔ جب ابو محمد مرجانی رحمہ اللہ کو لوگوں کے اس حرام میں مبتلا ہونے کا تحقق ہوا تو انہوں نے حرام سے چھڑانے کے لئے ان کو مکروہ طریقے میں لگایا کیونکہ مکروہات کا ارتکاب حرام کے ارتکاب سے بچنے کے لئے اولیٰ بلکہ واجب ہے۔ اس طرح سے سنتوں کی محافظت اور حفاظت ضروری ہے لہٰذا لوگوں کو ان باتوں پر تنبیہ کر دے اور ان کو بتائے کہ اختیار کردہ رسوم سنت نہیں ہیں اور ان کو بتائے کہ کس وجہ سے ان کو اختیار کیا ہے۔ اسی تنبیہ و تنبہ سے غفلت کی بناء پر یہ دعوے وجود میں آئے کہ یہ رسوم سلف و خلف کی سنت ہیں کیونکہ لوگوںپر اپنے مشائخ و علماء کے بارے میں حسن ظن غالب ہوتا ہے کہ وہ سنت کی مخالفت نہیں کرتے اور وہ اتباع سنت اور ترک بدعت کے طریقے پر ہی قائم رہتے ہیں کیا دیکھتے نہیں ہو کہ یہاں تک کہا ہے کہ جو اپنے شیخ کی خطا کو بھی درستگی پر نہ سمجھے اسے نفع حاصل نہیں ہوتا۔ اسی وجہ سے لوگ اپنے مشائخ کی ہر بات کو مامور بہ اور سنت سمجھتے ہیں۔
             دیکھئے علامہ ابن الحاج رحمہ اللہ کس طرں ابو محمد مر جانی رحمہ اللہ کا یہ قول بلا نکیر نقل کرتے ہیں کہ اجتماعی و جماعتی صورت میں ذکر اور اوراد کی قرائت بدعت اور مکروہ ہے۔ 
اس عبارت پر ہم تین تنبیہیں ذکر کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔
تنبیہ نمبر 1: سنت و بدعت کے تقابل کے وقت سنت سے مراد وہ عمل ہے جس کے لئے شرع میں کوئی دلیل ہو اور بدعت سے مراد وہ عمل ہے جس کے لئے شرع میں کوئی دلیل نہ ہو۔
            جاننا چاہئے کہ بدعت کے مقابلہ میں جب سنت کو بولا جاتا ہے تو اس سے مراد وہ شے ہوتی ہے جس کے لئے شرع میں کوئی دلیل ہو۔ مولانا خلیل احمد سہارنپوری رحمۃ اللہ فرماتے ہیں:
            … بلکہ اس کے یہ معنی ہیں کہ جو شے قرون ثلاثہ میں موجود ہو وہ سنت ہے اور جو بوجود شرعی موجود نہ ہو وہ بدعت ہے۔ اب سنو کہ وجود شرعی اصطلاح اصول فقہ میں اس کو کہتے ہیں جو بدون شارع کے بتلانے کے اور فرمانے کے معلوم نہ ہو سکے اور حس اور عقل کو اس میں دخل نہ ہو پس اس شے کا وجود شارع کے ارشاد پر موقوف ہوا خواہ صراحتاً ارشاد ہو یا اشارۃ و دلالۃً۔ پس جب کسی نوع ارشاد سے حکم جواز کا ہو گیا تو وہ شے وجود شرعی میں آ گئی۔ اگرچہ اس کی جنس ابھی خارج میں نہ آئی ہو… اور یہ بھی یاد رہے کہ حکم کا اثبات قرآن و حدیث سے ہی ہوتا ہے اور قیاس مظہر حکم کا ہے مثبت حکم کا نہیں ہوتا۔ پس جو قیاس سے ثابت ہوتا ہے وہ بھی کتاب و سنت ہی سے ثابت ہوتا ہے۔‘‘ (براہین قاطعہ، ص: 32)
            نیز فرماتے ہیں:
            ’’اور جس کے جواز کی دلیل نہیں تو خواہ وہ ان قرون میں بوجود خارجی ہوا یانہ ہو اوہ سب بدعت ضلالہ ہے۔‘‘ (براہین قاطعہ، ص: 32)
            جب یہ بات واضح ہو گئی کہ اجتماعی ذکر خواہ سری ہو یا جہری ہو اصل اعتبار سے بدعت و مکروہ ہے اور اس کے جواز کے لئے شریعت میں کوئی دلیل نہیں بلکہ اس کے عدم جواز پر نص موجود ہے تو اس سے بعض حضرات کا یہ تو ہم دور ہو جانا چاہئے کہ ہم یہ مجالس فرض و واجب یا سنت سمجھ کر نہیں کرتے کیونکہ پھر وہ اس کو مستحب یا مباح تو ضرور خیال کرتے ہیں۔ حالانکہ مستحب و مباح تو وہ ہوتا ہے جس کے جواز پر شرعی دلیل موجود ہو اور یہ بھی کچھ محتاط قسم کے لوگوں کا معاملہ ہو سکتا ہے ورنہ تو جیسا کہ علامہ ابن الحاج رحمہ اللہ نے تصریح کی ہے عام لوگ اس کو سنت ہی اعتقاد کرتے ہیں بایں معنی کہ رسول اللہ ﷺ کی سنت ہے یا صحابہ رضی اللہ عنہم کا طریقہ ہے۔ تو اس میں کتنا بڑفا مفسدہ ہے کہ ایک امر مکروہ اور بدعت کو سنت اعتقاد کیا جا رہا ہے۔ حالانکہ کسی مباح یا سنت زائدہ کو سنت مقصودہ اعتقاد کرنا اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ اس مباح اور سنت زائدہ کو علی الوجوب ترک کر دیا جائے تو مکروہ و بدعت میں ایسا اعتقاد تو بطریق اولی ترک کا موجب ہو گا۔
            مولانا اشرف علی تھانویؒ مباح و مستحب کاموں کے بارے میں یہ ضابطہ لکھتے ہیں:
            ’’اگر کسی مامور بہ میں کوئی مفسدہ ہو تو وہاں مفسدہ کی اصلاح کر دی جاتی ہے۔ مگر مباح میں جب صلاح دشوار ہو نفس فعل کو ترک کر دینا لازم ہوتا ہے بلکہ مباح تو کیا چیز ہے اگر سنت زائدہ میں ایسے مفاسد کا احتمال قوی ہو اس کا ترک مطلوب ہو جاتا ہے۔ یہ سب قواعد کتب شرعیہ اصولیہ و فرعیہ میں موجود مذکور ہیں … البتہ یہ شبہہ شاید ہو سکے کہ جس کو غلو ہو اس کو روکنا چاہئے اور محتاط خوش عقیدے کو کیوں روکا جائے تو اس کا جواب اوپر کی تقریر سے معلوم ہو چکا ہے کہ جس طرح ضرر لازم سے بچنا واجب ہے اس طرح ضرر متعدی سے بھی۔ جس حالت میں کسی شخص نے گو احتیاط کے ساتھ یہ عمل کیا مگر دوسرے دیکھنے والے اس سے سند پکڑ کر بے احتیاطی کرتے رہے تو ضرر متعدی ظاہر ہے۔ اب اس قاعدے و حکم کی تائید کے لئے ایک آدھ نظیر پیش کرتا ہوں۔
            کسی نعمت جدیدہ کی خبر سن کر سجدہ شکر کرنا حدیث صحیح سے ثابت ہے اور پھر بھی ہمارے امام ہمام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اس کو مکروہ فرماتے ہیں، چنانچہ کتب فقہ میں مذکور ہے اس کی وجہ بقول علامہ شامی صرف یہی ہے کہ اس میں احتمال ہے کہ عوام اس کو سنت مقصود نہ سمجھ جاویں۔ اب ملاحظہ فرمایئے کہ عوام کی غلط اعتقادی کے احتمال پر خواص کے لئے بھی وہ فعل مکروہ قرار دیا گیا، حالانکہ جواز اس کا نص سے ثابت ہے اور مسنون ہونا اور بھی اس کا مسلم ہے مگر سنت زائدہ ہے۔ سنت مقصودہ نہیں۔ عقیدے میں اتنے فرق سے حکم کراہت کا کر دیا جاتا ہے۔
            دوسری نظیر یہ ہے کہ اذان و اقامت مغرب کے درمیان دو رکعت نفل پڑھنا حدیث سے ثابت اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اس کو مکروہ فرماتے ہیں۔ اس کی وجہ بھی یہی احتمال اعتقاد سنت مقصودہ ہے۔ اس احتمال کا موجب کراہت ہونا خود حدیث سے ثابت ہے، چنانچہ اسی حدیث تُنَفَّلُ بین الاذان والا قامۃ میں حضور ﷺ نے تیسری بار میں ارشاد فرمایا لِمَنْ شَائَ اس کی وجہ راوی فرماتے ہیں۔ کراھۃ ان یتخذ ھا الناس سنۃ (اس کراہت سے کہ کہیں لوگ اس کو سنت مقصود نہ سمجھنے لگیں)۔
            تیسری نظیر یہ ہے کہ صلوۃ جنازہ میں فاتحہ پڑھنا احادیث سے ثابت ہے اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اس کو منع فرماتے ہیں۔ یہاں بھی یہی وجہ ہے کہ نماز جنازہ اصل میں دعا ہے اور حضورؐ سے فاتحہ جو ثابت ہے وہ بطریق دعا ہے سو اگر کوئی علی وجہ التلاوت پڑھے مکروہ ہے۔ صرف اتنا تفاوت ہے کہ جو چیز علی وجہ الدعاء پڑھی جاوے اس کو علی وجہ التلاوت کسی نے پڑھ دیا تو کراہت آ جاتی ہے۔ پھر صرف اسی شخص کو منع نہیں کیا بلکہ مطلقاً منع کر دیا ہے تاکہ یہ عادت شائع نہ ہو۔
           اور بھی بے شمار اس کے نظائر فقہیہ موجود ہیں۔ ان سب نظائر سے یہ امر کالشمس فی نصف النھار واضح ہو گیا کہ جس طرح اپنے عقیدہ و دین کی حفاظت ضروری ہے عوام کے عقیدہ و دین کی حفاظت بھی ضروری ہے۔ اب ممکن ہے کہ بعض کرنے والے احتیاط کر لیں، مگر عوام جو ان کے معتقد و مقلد ہیں ان کو نہ ان خرابیوں پر نظر ہے نہ ان سے بچنے کی احتیاط نہ ان کو یہ خبر ہے کہ ہمارے بزرگوں کے اور ہمارے عمل میں کیا فرق ہے صرف انہوں نے یہ دیکھ لیا کہ ہمارے فلاں بزرگ یہ عمل کرتے ہیں پس خود بھی جس طرح چاہا کرنے لگے۔ (مواعظ میلاد النبی، ص: 244-243)
            خیال رہے کہ مولانا تھانوی رحمہ اللہ نے یہ ساری تفصیل مباح و مستحب کاموں کے بارے میں ذکر کی ہے، مکروہ و بدعت کے بارے میں نہیں۔ ابو محمد مرجانی رحمہ اللہ جیسے لوگوں نے تو یہ جرات کی کہ اپنے متعلقین کو بتا دیا کہ ہم مکروہ و بدعت کا ارتکاب کر رہے ہیں اور ان کے سامنے ہمارے جیسے دور کی بے احتیاطی و بد عقیدگی بھی نہیں ہو گی۔ آج کل تو عام طور پر بہت سے مقتدا حضرات کو اس کا شعور و ادراک نہیں ہوتا کہ خاص اس عمل کو جسے انہوں نے اختیار کیا ہے اس کی اپنی شرعی حیثیت اصل میں کیا ہے تو وہ اپنے متعلقین کو کیا بتائیں گے اور اس کی جرات کس میں ہو گی کہ کہے کہ ہم گو ضرورت ہی کی خاطر ایک مکروہ و بدعت کا ارتکاب کر رہے ہیں اور ویسے تو اصل سے ابو محمد مرجان رحمہ اللہ کا مسلک ہی کمزور و ضعیف ہے جیسا کہ اگلی تنبیہ میں ہم بیان کر رہے ہیں۔
تنبیہ نمبر 2: بعض حضرات کا مسلک کہ محرمات سے بچنے کیلئے یا دیگر اعلیٰ مقاصد کے حصول کے لئے مکروہات کا ارتکاب جائز ہے۔
اگرچہ بعض حضرات وقتی ضرورت اور مصلحت کی بنا پر محرمات سے بچنے کے لئے مکروہات کے ارتکاب کو اس کی شرائط کے ساتھ جائز سمجھتے ہیں جیسا کہ علامہ رحمہ اللہ کی عبارت سے ابو محمد مرجانی رحمہ اللہ کا طرز عمل سامنے آیا، لیکن سلسلہ سید احمد شہید رحمہ اللہ اور اکابر دیوبند رحمۃ اللہ علیہم کا مسلک اس سے مختلف ہے۔
            مولانا گنگوہی رحمہ اللہ کے ساتھ اپنی مکاتبت میں مولانا تھانوی رحمہ اللہ نے یہ لکھ کر: 
            ’’… اور یوں خیال ہوتا ہے کہ اگر خود ایک مکروہ کے ارتکاب سے دوسرے مسلمانوں کے فرائض و واجبات کی حفاظت ہو تو اللہ تعالیٰ سے امید تسامح ہے … بہر حال میرے خیال میں یہ امور خلاف اولیٰ ضرور ہیں مگر مصالح دینیہ سے ان کے فعل میں گنجائش نظر آتی ہے۔ الخ 
            ابو محمد مرجانی رحمہ اللہ جیسے حضرات کے طرز عمل کو اختیار کیا۔ اس کے جواب میں مولانا گنگوہی رحمہ اللہ نے صاف فرمایا:
           ’’فی الحقیقت جو امر خیر کہ بذریعہ نامشروعہ حاصل ہو وہ خود ناجائز ہے۔‘‘
           اسی بناء پر گنگوہ، تھانہ بھون اور رائے پور جوکہ اکابر دیوبند کی خانقا ہیں تھیں، ان میں جماعتی و اجتماعی ذکر یا وقتی مصلحت و ضرورت کی بناء پر کسی مکروہ و بدعت کو اختیار نہیں کیا گیا اور ہمارے اکابر کا مسلک ہی اسلم  و احوط ہے جس پر تجربہ و مشاہدہ کافی و شافی دلیل ہے۔ علاوہ ازیں اسی میں سنت پر پورا عمل اور بدعت سے کلی طور پر اجتناب ہے۔
ایک اشکال اور اس کا حل
           ان مذکورہ تنبیہات سے بعض حضرات کے اس اشکال یا استدلال کا جواب بھی بخوبی معلوم ہو گیا کہ بعض خانقا ہوں میں اجتماعی ذکر اور درود شریف کی مجالس ہوتی تھیں۔ ہم ان حضرات کے بارے میں سوء ظن نہیں رکھتے لیکن ہمارے سامنے جو دلائل ہیں اور حضرت سید احمد شہید اور اکابر دیوبند کا جو مسلک و طریقہ ہے اس کی روشنی میں ہم ان کے طرز عمل کو مرجوح یا موؤل خیال کرتے ہیں۔
دوسرا اشکال اور اس کا حل
           بعض حضرات کا خیال ہے کہ مندرجہ ذیل حدیثوں سے خارج مسجد اجتماعی ذکر کے جواز پر استدلال کیا جا سکتا ہے۔
(1) اخرج الحاکم عن شداد بن اوس قال انا لعند النبی ﷺ اذ قال ارفعوا ایدیکم فقولوا لا الہ اللّٰہ ففعلنا فقال اللّٰھم انک بعثتنی بھذہ الکلمۃ و امرتنی بھا و وعدتنی علیھا الجنۃ انک لا تخلف المیعاد ثم قال ابشروا فان اللّٰہ قد غفرلکم (الحاوی للفتاوی، ج: 1)
           حضرت شداد بن اوس ؓ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس تھے کہ آپ ﷺ نے فرمایا تم اپنے ہاتھ اوپر اٹھائو اور لا الہ الا اللہ کہو۔ ہم نے ایسا ہی کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا اے اللہ آپ نے مجھے اس کلمہ کے ساتھ مبعوث فرمایا اور مجھے اس کا حکم فرمایا اور اس پر مجھ سے جنت کا وعدہ فرمایا بلا شبہ آپ وعدے کے خلاف نہیں کرتے۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا خوشخبری حاصل کرو کیونکہ اللہ نے تمہیں بخش دیا ہے۔
ہم کہتے ہیں اس حدیث سے اجتماعی ذکر پر استدلال صحیح نہیں کیونکہ اس واقعہ میں محض ذکر کرانا مقصود نہیں بلکہ ہاتھ اٹھوانا اس پر دلیل ہے کہ شہادت و گواہی کے طور پر کلمہ کہلوایا گیا گویا تجدید ایمان کرائی گئی اور اس گواہی پر آپ نے ان کو بشارت سنائی۔
(2)  اخرج الامام احمد فی الزہد عن ثابت قال کان سلمان فی عصابۃ یذکرون اللہ فمر النبی ﷺ وسلم فکفوا فقال ما کنتم تقولون قلنا نذکر اللّٰہ اللّٰہ قال انی رایت الرحمۃ تنزل علیکم فاحببت ان اشارککم فیھا ثم قال الحمد للّٰہ الذی جعل فی امتی من امرت ان اصبر نفسی معھم۔ (ایضاً)
           حضرت سلمان ؓ ایک جماعت کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے اور سب لوگ اللہ کا ذکر کر رہے تھے۔ نبی ﷺ وہاں سے گزرے تو یہ لوگ خاموش ہو گئے۔ آپ ﷺ نے پوچھا تم لوگ کیا کر رہے تھے۔ انہوں نے جواب دیا کہ ہم اللہ اللہ کا ذکر کر رہے تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا میں نے رحمت تم پر نازل ہوتے دیکھی تو میں نے چاہا کہ اس میں تمہارے ساتھ شریک ہو جائوں پھر آپ ﷺ نے فرمایا تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جس نے میری امت میں ایسے لوگ بنائے کہ مجھے حکم دیا گیا کہ میں اپنے آپ کو ان کے ساتھ روکوں۔
           اس روایت میں نہ تو اس بات پر کوئی دلالت موجود ہے کہ وہ اجتماع تداعی کے ساتھ ہوا تھا اور نہ ہی اس بات پر کوئی دلالت موجود ہے کہ شرکائے مجلس نے ایک ہی کلمہ کا ذکر کرنے کا التزام کیا تھا اور جس مجلس ذکر میں یہ دونوں باتیں مفقود ہوں اس کے جواز میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ لہٰذا یہ حدیث بھی مدعا پر دلیل نہیں بن سکتی۔
  تنبیہ نمبر3 اجتماعی ذکر کی مجالس کا معمولات مشائخ میں سے ہونا۔
           حضرت مولانا مفتی سید عبدالشکور ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کے فتوی کی فوٹو سٹیٹ نقل ہمیں ایک واسطے سے ملی۔ یہ فتویٰ بعینہ یوں ہے۔
           ’’احقر کی سمجھ میں یہ آتا ہے کہ مشائخ عظام کے یہاں یہ مجالس ذکر بطور علاج کے ہوتی ہے اور ان کی تربیت کا یہ حصہ ہیں اسی لئے کسی جگہ یہ ہوتی ہیں کسی جگہ نہیں ہوتیں کیونکہ تربیت کے مختلف طریقے ہیں۔ ایک ہی طریقہ سب کے لئے نہیں ہوتا اس لئے جن مشائخ کے یہاں یہ معمول ہو ان کو اس پر عمل کرنا علاج سمجھ کر مفید ہو گا۔ دوسری جگہ از خود اس طرح نہ کیا جائے۔یہ معمولات مشائخ میں سے ہیں ان کو سنت نہ سمجھا جائے۔
            سنت سمجھ کر اجتماعی ذکر کی مجالس منعقد کرنا اور ان کے لئے تداعی قرآن و سنت کی روشنی میں مکروہ ہے۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم۔ (فتویٰ جاری کردہ 22 صفر 1415ھ)
            اس کے بارے میں ہم کچھ وضاحتیں کرنا چاہتے ہیں۔
            اول تو حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے بھی مشائخ کے یہاں کی مجالس ذکر کے مسنون ہونے کی نفی کی جس کا مطلب مذکور قاعدے کے مطابق یہ ہے کہ اس کے جواز کی شرع میں کوئی دلیل نہیں ہے ورنہ کم از کم یہ ہے کہ یہ نہ تو نبی ﷺ سے منقول اور نہ ہی صحابہ رضی اللہ عنہم سے نقل شدہ۔ اس سے واضح طور پر معلوم ہوا کہ احادیث میں ذکر کے جن حلقوں اور مجالس کا ذکر ہے وہ معمولات مشائخ کی مجالس سے مختلف تھیں اور ان کے مابین فرق اسی میں ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے دور میں اجتماعی ذکر نہیں تھا اور جنہوں نے کیا صحابہ رضی اللہ عنہم نے ان پر فوری اور سخت نکیر کی۔ دوسرے حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے ان کے لئے تداعی کو بھی مکروہ کہا اور یہی ہم بھی ثابت کر آئے ہیں۔
            تیسری بات جس سے حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے فتویٰ میں زیادہ تعرض نہیں کیا وہ مجالس ذکر کا معمولات مشائخ میں سے ہونا ہے۔ اس بات کو ہم قدرے تفصیل سے بیان کرتے ہیں۔
            مولانا گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ، مولانا تھانوی رحمہ اللہ کے نام اپنے مکتوب میں تحریر فرماتے ہیں۔
            ’’آپ بغور ملاحظہ کریں کہ اشغال مشائخ کی قیود و تخصیصات جو کچھ ہیں وہ اصل سے بدعت ہی نہیں… تحصیل نسبت اور توجہ الی اللہ مامور من اللہ تعالیٰ ہے اگرچہ یہ کلی مشکک ہے کہ ادنی اس کا فرض اور اعلیٰ اس کا مندوب اور صدہا آیات و احادیث سے مامور ہونا اس کا ثابت ہے۔
            پس جس چیز کا مامور بہ ہونا اس درجہ کو ثابت ہے، اس کی تحصیل کے واسطے جو طریقہ مشخص کیا جاوے گا وہ بھی مامور بہ ہو گا اور ہر زمانہ و ہر وقت میں بعض موکد ہو جاوے گا اور بعض غیر موکد۔ لہٰذا ایک زمانہ میں صوم و صلوٰۃ و قرآن و اذکار مذکورہ احادیث اس مامور بہ کی تحصیل کے واسطے کافی و وافی تھے۔ اس زمانہ میں یہ اشغال بایں قیود اگرچہ جائز تھے مگر ان کی حاجت نہ تھی۔ بعد چند طبقات کے جو رنگ نسبت کا دوسری طرح پر بدلا اور طبائع اس اہل طبقہ کے سبب بعد زمانہ خیریت نشان کے دوسرے ڈھنگ پر آگئیں تو یہ اوراد اس زمانہ کے اگرچہ تحصیل مقصود کر سکتے تھے مگر بدقت و دشواری۔ لہٰذا طبیبان باطن نے کچھ اس میں قیود بڑھائیں اور کمی و زیادتی اذکار کی کی۔ گویا کہ حصول مقصود ان قیود پر موقوف ہو گیا تھا …‘‘
           مولانا گنگوہی رحمہ اللہ نے بڑی صراحت سے یہ بات فرمائی ہے کہ مشائخ کی قیودات اور ان کے اشغال و معمولات اصل سے بدعت نہیں اور جائز ہیں۔ بالفاظ دیگر ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ مشائخ اپنے لئے صرف ان چیزوں کو معمولات بنا سکتے ہیں جو اصل سے بدعت نہ ہوں اور جو جائز ہوں۔ 
           ایک طرف تو یہ مذکورہ بالا قاعدہ ہمیں حاصل ہوا اور دوسری طرف ہم یہ جان چکے ہیں کہ اجتماعی ذکر اصل ہی سے بدعت اور ناجائز ہے۔ لہٰذا قاعدے کی رو سے اجتماعی ذکر کو معمول بنانا اور اس کو علاج کے لئے عمل میں لانا جائز نہیں۔
           البتہ اگر شیخ ضرورت کی وجہ سے یوں کریں کہ جن کو ضرورت ہو ان کو خانقاہ میں بلالیں یا خانقاہ نہ ہو تو کسی اور جگہ میں مثلاً مسجد میں ان کو ٹھہرنے کو کہیں اور ہر ایک کو ضرورت کاذکر اور اس کا طریقہ بتا دیں کہ ہر شخص اجتماعی اور جماعتی صورت اختیار کئے بغیر اپنا اپنا ذکر کرے۔ اس طرح سے مجلس ذکر بھی حاصل ہو جائے گی اور علاج بھی میسر ہو جائے گا اور یہ مجلس ذکر بدعت بھی نہ ہو گی بلکہ یہ تو بعینہ ویسی ہی مجلس ذکر ہو گی جیسا کہ دور صحابہ میں پائی جاتی تھی۔
            اور اگر ہم ان لوگوں کی بات کو بھی لے لیں جو ضرورت کے لئے مکروہ کے ارتکاب کو جائز قرار دیتے ہیں تو جاننا چاہئے کہ جو ضرورت کی وجہ سے ہو وہ بقدر ضرورت ہوتا ہے لہٰذا اول تو مشائخ کو یہ دیکھنا ہو گا کہ متعلقین میں سے کس کو اجتماعی ذکر کی ضرورت ہے اور کسی کو نہیں۔ پھر جن کو ہے ان کے لئے کتنے اجتماع کی ضرورت ہے۔ ایک شخص کے ساتھ ایک اور کا اجتماع کافی ہے یاد و کا یا زیادہ کا۔ لہٰذا فقط جس کو ضرورت اور جتنے اجتماع کی ضرورت ہو اس کے لئے اجتماع مہیا کیا جائے۔ اس سے زیادہ کا اہتمام یا عمومی اجتماعی ذکر کرنا اور کرانا تو ان حضرات کے نزدیک بھی جائز نہیں ہو گا۔
گزشتہ فصلوں کا حاصل
مندرجہ ذیل نکات ہیں: 
(1) مجلس ذکر کے لئے تداعی جائز نہیں بلکہ مکروہ ہے۔
(2) اجتماعی ذکر یعنی جب ذاکرین یہ التزام کریں کہ سب بیک وقت ایک ہی ذکر کریں پھر ذکر خواہ سری ہو یا جہری ہو، بدعت و مکروہ ہے۔ چاہے مسجد میں ہو یا غیر مسجد میں اور اگرچہ اجتماع بغیر تداعی کے ہوا ہو۔
(3) تعلیم کی غرض سے اجتماعی ذکر کرانے کو بقدر ضرورت اختیار کیا جا سکتا ہے لیکن اس کو معمولات مشائخ میں داخل کرنا صحیح نہیں کیونکہ مشائخ کے معمولات میں فقط وہ چیزیں داخل ہو سکتی ہیں جو اصل سے جائز ہوں اور بدعت نہ ہوں۔
(4) وہ مجالس ذکر جو تداعی سے بھی خالی ہوں اور جن میں کسی ایک خاص ذکر کرنے کا التزام بھی نہ کیا گیا ہو پھر خواہ شرکاء مجلس کا ذکر علیحدہ علیحدہ ہو یا اتفاقیہ ایک ہی ہو، ایسی مجالس ذکر جائز ہیں اور احادیث میں جن مجالس ذکر کا تذکرہ ہے صحابہ رضی اللہ عنہم کے عمل سے ان کی یہی صورت تھی۔ اجتماع کے تمام فوائد بغیر کسی مفسدہ و خرابی کے اندیشہ کے اسی قسم کی مجالس میں حاصل ہو سکتے ہیں۔
(5)  رقیہ و علاج اور دفع مصائب کے لئے اجتماعی ذکر اور قرآن خوانی اور ختم خواجگان و ختم بخاری شریف جائز ہیں کیونکہ یہ عبادت اور ثواب کے طور پر نہیں ہوتے۔ بلکہ ان کی حیثیت عملیات اور علاج کی ہے۔ البتہ عوام میں ایک عام معمول کے طور پر ان کو رواج دینے کی تحریک کرنا صحیح نہیں۔
فصل ششم: بعض مروجہ مجالس ذکر اور ان کے احکام 
1. دعا کی خاطر قرآن خوانی کے لئے لوگوں کو جمع کرنا۔
           ایک شخص نے حضرت حسنؒ سے پوچھا کہ اے ابو سعید تم ہماری اس مجلس کو کیسا سمجھتے ہو کہ ہم اہل سنت و الجماعت کے چند آدمی جو کسی پر طعن نہیں کرتے ایک گھر میں جمع ہو جاتے ہیں۔ آج ایک شخص کے گھر میں کل دوسرے کے گھر میں اور جمع ہو کر قرآن خوانی کرتے ہیں اور اپنے لئے اور عام مسلمین کے لئے دعا کرتے ہیں۔ راوی کہتے ہیں کہ حضرت حسنؒ نے اس کو نہایت شدت سے منع کیا۔ ایسے ہی ابن عباس اور طلحہ ص سے بھی منقول ہے۔ (امداد المفتین، ص: 209)
2. مجلس درود شریف
          یہ بھی جب تداعی کیساتھ ہو اور اجتماعی صورت پر مشتمل ہو تو بدعت و مکروہ ہے۔
ایک صاحب عبدالرشید پانی پتی نام کے انہوں نے مولانا محمد یوسف لدھیانوی رحمۃ اللہ علیہ کی طرف ایک استفتاء بھیجا جس میں یہ تحریر ہے۔
          ’’عرض ہے کہ حضرت اقدس… صاحب مدظلہ خلیفہ مجاز حضرت مولانا محمد زکریا صاحبؒ نے حکم فرمایا کہ اس وقت فتنوں کا دور ہے اکابرین کا طریقہ یہ رہا ہے کہ جب کوئی مصیبت اور فتنہ سر اٹھاتے ہیں تو وہ حضور ﷺ کے وسیلہ سے دعا اور درود شریف کی کثرت کراتے ہیں۔ چنانچہ دلائل الخیرات، قصیدہ بردہ، حصن حصین کی وجہ تالیف مشہور ہے تو حضرت نے فرمایا کہ درود شریف کی کثرت کرو، مساجد میں گھروں میں درود شریف کی مجالس کرو تاکہ اللہ پاک کی ناراضگی دور ہو۔ اسی وجہ سے ہم نے سکھر میں اپنی مسجد میں درود شریف کی مجلس شروع کی۔ جمعہ کا دن مقرر کیا تاکہ سب ساتھی آسانی سے شریک ہو سکیں اور طریقہ یہ ہوتا ہے کہ کھجور کی گٹھلیوں پر درود شریف پڑھتے ہیں اس کے بعد دعا کر لیتے ہیں اس کا ہمیں یہ فائدہ ہوا کہ بریلوی طبقہ بھی ہمارے ساتھ شریک ہونے لگا اور ان کے بھی عقائد صحیح ہو گئے۔ اس کے بعد ہم نے ایک اور مسجد میں بروز پیر بعد نماز عشاء درود شریف کی مجلس شروع کی… ہمارا ایمان ہے کہ ہمارے بزرگ ہمیں کبھی بھی ایسی چیز کا حکم نہیں دے سکتے جو بدعت ہو۔ ان مجالس کی وجہ سے ہمارے ساتھی ہزاروں مرتبہ درود شریف پڑھ لیتے ہیں۔‘‘
          ہم کہتے ہیں کہ یہاں بنیاد تو کچھ اور ہے اور اس پر عمارت کچھ اور تعمیر کی ہے۔ بنیاد تو ہے حضور ﷺ کے وسیلہ سے دعا اور درود شریف کی کثرت کرانا اور اس پر عمارت جو تعمیر کی ہے وہ یہ ہے کہ گھروں میں اور مساجد میں درود شریف کی مجالس کرو حالانکہ نبی ﷺ کے وسیلہ سے دعا اور درود شریف کی کثرت کوئی مجالس پر موقوف نہیں ہے۔ لوگ اپنی اپنی جگہ رہتے ہوئے اور متفرق اوقات میں بھی یہ کر سکتے ہیں۔ اس طرح سے تو جناب …… صاحب نے مجالس درود شریف کا ایک سلسلہ شروع کرا دیا جو صحیح عقیدہ والوں کو بھی اہل بدعت کے قریب تر کر رہا ہے۔ اس سے خبر دار اور محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔
3. بعض حضرات نے درود شریف کے لئے ایک صورت یہ اختیار کی ہے کہ جمعہ کے دن مسجد میں جب عصر کے فرضوں سے امام سلام پھیرتا ہے تو امام سمیت تمام یا اکثر (یا بعض) مقتدی فرضوں کے بعد کے اوراد و تسبیحات کے ساتھ (دعا سے پہلے ہی) اسی مرتبہ یہ درود شریف پڑھتے ہیں۔
          ’’اللّٰھم صل علیٰ محمد النبی الامی و علی آلہ وسلم تسلیما‘‘
          اس سے فراغت کے بعد دعا ہوتی ہے۔
          یہ طریقہ بھی واجب الترک ہے۔ کیونکہ اس میں زیادت فی الدین ہے۔ فرائض کے بعد جو اوراد و وظائف شریعت نے بتائے ہیں ان میں درود شریف کا یہ وظیفہ شامل نہیں ہے۔ مسائل اور وظائف کی کتابیں اس پر گواہ ہیں۔ ایک ایسے وظیفہ کو جو عصر کی نماز سے بالکلیہ یعنی دعا سے بھی فارغ ہو کر انفرادی اور غیر اجتماعی صورت میں کرنے کا ہے اس کو نماز کے ملحقات میں سے کر دیا اور اسے اجتماعی صورت بھی دے دی۔ یہ بھی قبیح بدعت ہے۔
4. مکان و دکان کے افتتاح کے لئے اجتماعی قرآن خوانی
          مفاسد مذکورہ یعنی تداعی، اجتماعی صورت میں ذکر، سبب داعی قدیم ہونے کے باوجود خیر القرون میں موجود نہ ہونے کے سبب سے یہ طریقہ صحیح نہیں، البتہ برکت کے لئے اجتماع کے اہتمام کے بغیر قرآن خوانی مفید ہے۔
5. ایک سوال کہ طریق شاذلیہ میں ذکر جلی بافراط لوگوں کو لے کر کھڑے ہو کر کرتے ہیں جائز ہے یا نہیں ؟ کے جواب میں مولانا تھانوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں۔
         ’’پس بعد ثبوت مشروعیت جہر کسی طور وہیئت کے ساتھ مقید نہیں بلکہ بوجہ اطلاق اولہ مطلق ہے خواہ منفرد ہو یا مجتمع حلقہ باندھ کر ہو یا صف باندھ کر یا کسی اور صورت سے کھڑے ہو کر یا بیٹھ کر ہر طور سے جائز ہے۔  (امداد الفتاوی ص : 154/5)
         اس سے کسی کو شبہہ ہو کہ اجتماعی صورت میں ذکر کا جواز ملتا ہے۔ اس شبہہ کا جواب یہ ہے کہ اول تو یہ مولانا تھانوی رحمہ اللہ کے اوائل دور کا فتویٰ ہے۔ یعنی 1304 ھ کا جو کہ مولانا گنگوہی رحمہ اللہ سے مکاتبت سے بھی پہلے کا دور ہے۔ دوسرے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کے قصہ سے معلوم ہو چکا کہ اجتماعی ذکر جہری بھی بدعت و کروہ ہے لہٰذا ادلہ مطلق کہاں رہے بلکہ مقید ہوئے اور۔
          حضرت مولانا سرفراز خان صاحب مدظلہ العالی بھی اپنی کتاب راہ سنت میں فرماتے ہیں۔
          ’’سوال یہ ہے کہ کیا اجتماعی صورت میں اور وہ بھی مسجد میں جہر سے ذکر کرنا اور اسی ہیئت کے ساتھ جہر سے درود شریف پڑھنا حضرت عبداللہ بن مسعود ص سے ثابت ہے یا وہ اس کو منع کرتے اور اس کو بدعت کہتے ہیں ؟ آپ نے صحیح روایات سے یہ معلوم کر لیا کہ وہ ان دونوں کو بدعت اور ان پر عمل کرنے والوں کو بدعتی کہتے ہیں اور ان کا وجود تک مسجد میں گوارا نہیں کرتے اور فوراً ان کو مسجد سے باہر نکال دیتے ہیں۔‘‘ (راہ سنت، ص: 129)
          مولانا مدظلہ العالی کی یہ عبارت اس بات میں واضح ہے کہ اجتماعی ذکر جہری بدعت و مکروہ ہے۔
6. بعض مقامات پر جمعہ کے دن اذان جمعہ کے بعد مسجد میں جمع ہو کر اس طرح سورہ کہف پڑھتے ہی کہ ایک آدمی زور سے ایک رکوع پڑھتا ہے اور دوسرے سنتے ہیں اس طرح یکے بعد دیگرے زور سے پڑھتے ہیں جس سے نمازیوں اور وظیفہ خواں حضرات کا حرج ہوتا ہے۔ اس بارے میں جواب یہ ہے کہ جمع ہو کر بلند آواز سے پڑھنے کی رسم غلط ہے۔ متفرق طور پر اس طرح پڑھیں کہ کسی کی نماز اور وظیفہ میں خلل نہ ہو تو مضائقہ نہیں۔ علامہ ابن الحاجؒ کتاب المدخل میں تحریر فرماتے ہیں:
           واما اجتما عھم لذلک فبدعۃ کما تقدم واللہ تعالیٰ اعلم 
           یعنی جمعہ کے دن سورہ کہف مسجد وغیرہ میں جمع ہو کر پڑھنے سے منع کیا جائے کہ یہ بدعت ہے۔ (ص: 81، ج: 2 (فتاویٰ رحیمیہ، ص: 247 ، ج: 1)
7. بعض حضرات نے یہ سلسلہ شروع کیا ہے کہ اپنے متعلقین کو جمع کرتے ہیں اور دیگر معمولات کے ساتھ یہ معمول بھی اختیار کیا ہے کہ ایک صاحب درود شریف کے مختلف صیغے کچھ آواز سے پڑھتے ہیں اور باقی حضرات خاموشی سے بیٹھ کر سنتے ہیں۔
           یہ طریقہ بھی صحیح نہیں۔ قرآن پاک کا سماع تو منقول اور ثابت ہے، دیگر اذکار اور درود شریف کے سماع کو معمول بنانا منقول نہیں۔ خاموش بیٹھ کر سننے کے بجائے دوسرے حضرات متفرق طور پر اپنے اپنے ذکر میں مشغول رہیں تو درست اور سنت طریقہ پر رہیں۔
دفع مصائب کے لئے وظیفہ پڑھنے کے لئے اجتماع
           مولانا مفتی محمود الحسن گنگوہی رحمہ اللہ لکھتے ہیں۔
           دفع مصائب کے لئے جو ختم پڑھا جاتا ہے وہ بطور علاج ہے خواہ آیت کریمہ کا ختم ہو یا کلمہ طیبہ یا آیۃ الکرسی کا …جب اس کی شان معالجہ کی ہے تو بدعت کا سوال ہی ختم ہو جاتا ہے۔ اسی طرح ختم بخاری شریف بھی (دفع مصائب) کے لئے طریقہ علاج ہے نہ کہ تعبدو عبادت۔
           قرأ کثیر من المشائخ و العلماء والثقات صحیح البخاری لحصول المرادات و کفایۃ  المھمات و قضاء  الحاجات و دفع البلیات و کشف الکربات و صحۃ الامراض و شفاء  المریض عند المضائق والشدائد فحصل مرادھم وفازوا لمقاصد ھم و وجدوہ کالتر یاق مجربا وقد بلغ ہذا المعنی عند علماء الحدیث مرتبۃ الشھرۃ والا ستفاضۃ۔
            بہت سے مشائخ اور علماء اور ثقہ لوگوں نے صحیح بخاری کی قراء ت کو مرادوں کے حصول اور اہم کاموں میں کفایت اور حاجتوں کے پورا ہونے اور مصائب کے دور ہونے اور پریشانیوں کے دور ہونے اور امراض کی صحت اور بیماریوں کی شفا کے لئے تنگی اور مصیبت میں کی تو ان کو مراد حاصل ہوئی اور ان کو اپنے مقاصد میں کامیابی ہوئی اور انہوں نے اس عمل کو تریاق کی طرح مجرب پایا۔ اور یہ بات علمائے حدیث کے نزدیک شہرت و استفاضہ کے مرتبہ کو پہنچی ہوئی ہے۔ (فتاویٰ محمودیہ،ص: 144 ، ج :12)
             اسی طرح دفع مصائب کے لئے اجتماعی طور پر قرآن پاک پڑھنے یا اکتالیس مرتبہ سورہ یٰسین پڑھنے یا سوا لاکھ مرتبہ آیت کریمہ پڑھنے کے بارے میں حضرت مولانا مفتی رشید احمد لدھیانوی مد ظلہ تحریر فرماتے ہیں۔
             ’’اس طرز عمل سے چونکہ مقصود رقیہ و علاج ہے نہ کہ ثواب و عبادت، لہٰذا اس میں عدم ثبوت مضر نہیں‘‘۔ (احسن الفتاویٰ، ص: 36 ، ج: 1)
ایصال ثواب کیلئے اجتماعی ذکر یا قرآن خوانی
              ایسے اجتماع کی دو بڑی قسمیں ہیں۔
(الف) وہ اجتماع جو دفن کے بعد اہل میت کے پاس ہو خواہ کہیں ہو اور جب بھی ہو یہ بالاتفاق ناجائز اور مکروہ ہے۔
              حضرت جریر بن عبداللہ ؓ فرماتے ہیں۔
              کنا نری الاجتماع الی اہل المیت وصنعۃ الطعام من النیاحۃ (ابن ماجہ، ص: 117 و مسند احمد)
              ہم (یعنی حضرات صحابہ کرام) میت کے گھر جمع ہونے کو اور میت کے گھر کھانا تیار کرنے کو نوحہ سمجھتے تھے۔
              مولانا خلیل احمد سہارنپوری رحمہ اللہ لکھتے ہیں۔
              اس حدیث میں اجتماع کو مطلق فرمایا ہے کوئی قید نہیں ہے کہ کس واسطے جمع ہونا تھا خواہ محض تعزیت مکررہ کے واسطے خواہ قرآن پڑھنے کو اور مطلق کو مقید کرنا بالرای حرام ہے اور طعام بھی مطلق ہے۔
              اس حدیث کو تمام فقہاء نے قبول فرمایا۔ دیکھو کہ حدیث جریر میں دو امر کا ذکر ہے اجتماع الی اہل میت اور صنعۃ الطعام جسس سے معلوم ہوا کہ دونوں امر کو صحابہ شنیع جانتے تھے اور ہر ہر امر کو بدعت و معصیت فرماتے تھے نہ کہ مجموع من حیث المجموع کوو مگر مجموعہ کی کراہت اس سے لازم ہے۔ (براہین قاطعہ، ص: 104)
              صاحب سفر السعادۃ فرماتے ہیں۔
              ’’عادت نبوو کہ برائے میت جمع شوندو قرآن خوانند و ختمات خوانند نہ برسر گورونہ غیر آں وایں مجموع بدعت است‘‘
              بعینہ یہی بات شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمہ اللہ نے فرمائی۔
              ’’عادت نبود کہ برائے میت مجمع شوند و قرآن خوانند و ختمات خوانند نہ برسرگورونہ غیر آں و ایں مجموع بدعت است‘‘ (بحوالہ راہ سنت، ص: 266)
              مولانا سہارنپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔
              ’’پس اس کو ہی (یعنی جو حدیث جریر کے ذیل میں مذکور ہوا) صاحب سفر السعادۃ کہتا ہے کہ اجتماع عادت صحابہ کی نہ تھی … جب کہ وہ قرون خیر و ثواب کے حریص اور نفع رسانی مسلم کی حیا و میتا مشغوف اس کام کو برا جان کر ترک کریں تو کسی دوسرے کو کرنااگر بدعت نہ ہو گا تو کیا ہووے گا‘‘۔ (براہین قاطعہ، ص: 106)
              رہا اس بات کا بیان کہ اہل میت کے پاس قرآن خوانی کے لئے جب بھی اجتماع ہو اس کی کراہت مطلق ہے تو مولانا خلیل احمد سہارن پوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔
              ’’شرح منہاج (کی اس عبارت الاجتماع  علی المقبرۃ فی الیوم الثالث و تقسیم الورد  و العود و اطعام الطعام فی الایام الخصوص کالثالث و الخامس و التاسع والعشرین والا ربعین والشھر السادس والسنۃ بدعۃ ممنوعۃ) میں تین چیزوں کا ذکر ہے۔ قبر پر تیسرے دن جمع ہونا اور عود اور ورد کی تقسیم مطلقاً قبر پر ہونا یا غیر قبر پر کسی روز ہو اور کھانا کھلانا ایام مخصوصہ میں اور ہر سہ کو وہ بدعت کہتا ہے اور اصل یہ ہے کہ حدیث جریر میں اجتماع الی اہل میت کو منع فرمایا ہے اور اس میں کوئی تعین یوم کی نہیں اور نہ تعین قبر کی۔ پس مطلق جمع ہونا بدعت ہے اور قبر پر ہر روز سوم جمع ہونا بھی فرد اس اجتماع کا ہے تو ہر چند مطلق اجتماع تو ممنوع ہے مگر ہر شخص اپنے ملک کی رسم کو منع کرتا ہے صراحتہً تو شارح منہاج کی بلاد میں اجتماع علی القبر یوم ثالث ہوتا تھا۔ اس نے اس کی تصریح کی، حالانکہ یہ قید واقعی ہے نہ احترازی کیونکہ حدیث جریر میں عموماً سب کو منع لکھا ہے … بہرحال اجتماع خواہ روز سوئم ہو یا پس و پیش قبر پر ہو (یا غیر قبر پر) حدیث جریر سے ممنوع ہے۔‘‘ (براہین قاطعہ، ص: 129)
ایک اعتراض
            مشکوۃ شریف میں یہ حدیث ہے کہ حضرت جابر ص فرماتے ہیں کہ جب سعد بن معاذ ص  دفنائے گئے تو رسول اللہ ﷺ نے سبحان اللہ پڑھا، ہم بھی آپ کے ساتھ دیر تک وہی پڑھتے رہے۔ پھر آپ نے اللہ اکبر پڑھا ہم بھی یہی پڑھتے رہے۔ پھر حضرت سے پوچھا گیا کہ اس کا کیا سبب ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ان کو قبر نے دبا لیا تھا۔ اس تسبیح و تکبیر کی برکت سے ان پر قبر ہر طرف سے فراخ ہو گئی۔
            مذکورہ بالا قسم کے اجتماع کے لئے بعض لوگ اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ قرآن نہ سہی، رسول اللہ ﷺ نے میت کے واسطے مل کر ذکر اللہ ہی کر لیا۔ لہٰذا جواز کے واسطے ایک اشارہ عندالفقہاء کافی ہے۔
جواب:
            مولانا سہارن پوری رحمہ اللہ نے اس اعتراض کا جو جواب دیا اس کا خلاصہ یہ ہے۔
(1) … جس اجتماع کو مکروہ بدعت کہا گیا ہے وہ وہ اجتماع ہے جو دفن کے بعد دوبارہ ختم قرآن کے واسطے یا بغیر اس کے اہل میت کے پاس ہو خواہ کہیں بھی ہو۔ جب کہ اس قصہ میں جو اجتماع مذکور ہے وہ دفن میت کے لئے تھا جو کہ فرض کفایہ ہے۔
(2) … اس واقعہ میں رسول اللہ ﷺ نے ذکر جہری کیا۔ یہ نہ تو ایصال ثواب کے لئے تھا اور نہ ہی آپ ﷺ نے ایصال ثواب کی دعا فرمائی۔
            مولانا رحمہ اللہ کے الفاظ یہ ہیں:
            ’’صاحب سفر السعادۃ قصداً ختم میت کے واسطے جمع ہونے کو کہتا ہے اور وہ اجتماع لدفن میت تھا۔ اس میں ضرورت اس ذکر کی ہو گئی تو اس کو فرمایا: غرض اجتماع للمیت جو مراد سفر السعادۃ کی ہے اس میں اور اجتماع میں جو دفن میت کے واسطے تھا کہ فرض کفایہ ہے اور اس میں ذکر کر دیا۔ فرق زمین آسمان کا ہے۔ اس کو اس سے کوئی مناسبت نہیں۔ پس یہ بھی نہ خلاف سفر السعادۃ کے ہے اور نہ حجت جواز اجتماع کی ہو سکے۔ کیونکہ اسفر السعادۃ اس اجتماع کو بدعت کہتا ہے کہ بعد دفن میت کے دوبارہ ختم قرآن کے واسطے یا بغیر اس کے اہل میت کے پاس جمع ہوں کہیں ہوں گور پریا غیر گور پر اور اس کو ہی حدیث جریر میں نیاحت میں داخل کیا ہے… معہذا یہ جاننا ضرور ہے کہ فخر عالم نے ذکر بجہر یہاں کیا ہے نہ ایصال ثواب اس کا اور جہرے سے دو کلمے فرماتے تھے، ورنہ خفی تو آپ کا ہر حال لازم تھا اس کا بھی خیال رہے۔‘‘(براہین قاطعہ، ص: 107)
 تنبیہ: اس حدیث سے اجتماعی ذکر پر استدلال کرنا صحیح نہیں کیونکہ ایک تو اس میں ذکر کے لئے تداعی نہ تھی بلکہ لوگ میت کے دفن کے لئے جمع تھے جو کہ شرعا جائز اجتماع تھا۔ دوسرے ایک ہی ذکر کرنے کا التزام نہ تھا۔ رسول اللہ ﷺ تسبیح کرنے لگے تو ہر صحابی بھی اپنے اپنے طور پر تسبیح و تکبیر کرنے لگے پہلے سے اس طرح کرنا طے نہ تھا۔
(ب) ایسا اجتماع جو اہل میت کے پاس نہ ہو۔
          اس میں علماء کا اختلاف ہے۔
(i) … بعض علماء نے جن میں صاحب سفر السعادۃ بھی ہیں اس اجتماع کو بھی مطلقاً ناجائز و مکروہ کہا ہے۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ صحابہ کا تعامل نہ تھا۔ علاوہ ازیں جب رسول اللہ ﷺ کو غزوہ موتہ کی خبر ملی اور زید بن حارثہ اور عبداللہ بن رواحہ اور جعفر طیار رضی اللہ عنہم کی شہادت معلوم ہوئی آپ ﷺ مسجد میں غمگین بیٹھے رہے اور صحابہ کی ایک جماعت بھی حاضر تھی۔ اسی طرح شہداء بیر معونہ کی خبر آپ ﷺ کو پہنچی تو یہی حال ہوا لیکن کوئی اجتماعی قرآن خوانی یا ایصال ثواب کے لئے مجلس ذکر نہیں کی گئی۔
(ii) … صاحب فتح القدیر نے قبر پر جمع ہو کر قرآن پڑھنا لوجہ اللہ تعالیٰ جائز کہا اور بعض دیگر علماء نے جمع ہو کر قرآن پڑھنا لوجہ اللہ کسی وقت غیر معین میں جائز کہا اور یہ جواز اس کے ساتھ مشروط ہے کہ اجتماع مباح ہو۔ بدعت نہ ہو یعنی اس کے لئے تداعی نہ کی گئی ہو۔
         فتح القدیر میں ہے۔
         واختلف فی اجلاس القارئین لیقرؤا عندالقبر والمختار عدم الکراہۃ
         یہی بات مولانا محمد اسحاق صاحب رحمہ اللہ نے مائۃ مسائل کے جواب میں لکھی۔
         حافظاں را برائے قراء ۃ قرآن نشاندن نزد قبر دریں مسئلہ علماء را اختلاف است مختار ہمیں است کہ جائز است۔
         علامہ عینی شرح ہدایہ کے باب الحج عن الغیر میں لکھتے ہیں۔
         ان المسلمین یجتمعون فی کل عصر و زمان و یقرء ون القرآن و یھدون ثوابہ  لموتاہم و علی ہذا اہل الصلاح و الدیانۃ من کل مذہب من المالکیۃ والشافعیۃ و غیر ہم و لا ینکر ذلک۔ منکر فکان اجماعاً۔
         بلا شبہہ مسلمان ہر دور اور ہر زمانے میں جمع ہو کر قرآن پڑھتے اور اس کا ثواب اپنے مردوں کو ہدیہ کرتے رہے ہیں۔ اس پر ہر فقہی مذہب کے اہل صلاح و دیانت لوگوں کا خواہ وہ مالکی ہوں یا شافعی وغیرہ ہوں عمل رہا ہے اور کسی نے اس پر انکار نہیں کیا لہٰذا یہ اجماع ہوا۔
         خزانۃ الروایات میں ہے۔ 
         اور خزانۃ الروایات کا فیصلہ اس قراء ت جماعت میں ہے کہ وہ اجتماع بدعت نہ ہو جیسا جمعہ کو جامع مسجد میں لوگ پڑھتے ہیں اس کو فیصلہ کرتا ہے اور ایسا ہی مولانا اسحاق رحمہ اللہ نے اجتماع جائز میں یہ فرمایا سو ہم کو بھی کچھ عذر نہیں کہ اگر مجمع مباح ہے اس میں آہستہ پڑھنا چاہئے… لاریب جمع ہو کر قرآن آہستہ پڑھنا درست مگر وہ جمع ہونا مباح ہونا چاہئے… علی ہذا روایت عینی شرح ہدایہ سے حال اجتماع مختلف فیہ کا دریافت ہوا نہ مبحوث عنہ متفق الکراہت…  (براہین قاطعہ ص: 111, 112)
         اس دوسرے قول کی تفصیل ہم نے محض نفس مسئلہ بتانے کے لئے ذکر کی ورنہ تو قاعدہ مشہورہ و معروفہ کہ مفاسد سے بچنے کے لئے مباح بلکہ سنت زائدہ کو بھی ترک کرنا واجب ہوتا ہے۔ موجودہ حالات اسی کے مقتضی ہیں کہ اس صورت کو بھی ترک کرنا ضروری سمجھا جائے۔ اس پر تفصیلی کلام پہلے گزر چکا ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ
(1)… ایصال ثواب کے لئے وہ اجتماع جو اہل میت کے پاس ہو خواہ جب بھی ہو اور کہیں بھی ہو، بالاتفاق ناجائز اور مکروہ ہے۔
(2) … ایصال ثواب کے لئے وہ اجتماع جو اہل میت کے پاس نہ ہو، لیکن اس کے لئے تداعی کی گئی ہو یہ بھی بالاتفاق ناجائز ہے۔
(3) … ایصال ثواب کے لئے وہ اجتماع جو نہ تو اہل میت کے پاس ہو اور نہ ہی اس کے لئے تداعی کی گئی ہو اس کے جواز میں اختلاف ہے۔
(الف) صاحب سفر السعادۃ نے اس کو ناجائز کہا ہے۔
(ب)  دیگر بعض حضرات نے اس کو جائز کیا ہے۔
          چونکہ پہلی دو قسموں کے متفق علیہ ناجائز اور مکروہ اجتماع کا عوام میں شیوع ہے اور وہ لا علمی کی وجہ سے بلکہ بہت سے عام علماء بھی لیاقت نہیں رکھتے کہ جائز و ناجائز اجتماعات کے درمیان فرق کر سکیں اور وہ جائز سے ناجائز کے جواز پر قیاس فاسد میں مبتلا ہوتے ہیں یا ان کے مبتلا ہونے کا قوی اندیشہ ہے۔ لہٰذا مفاسد سے بچنے کے لئے اس قسم سے بھی اجتناب کرنا بہتر ہے۔

نیوز لیٹر سبسکرپشن
سبسکرپشن کے بعد آپ ادارہ کے بارے میں تازہ ترین اپ ڈیٹ حاصل کر سکتے ہیں