English

فقہی مضامین

مسافت سفر کیا گھر سے شمار ہو گی
یا بستی کی آبادی کے کنارے سے ؟

ڈاکٹر مفتی عبد الواحد صاحب


             25 ذوالحجہ 1421ھ کو دارالعلوم کراچی کے دارالافتاء سے ایک فتویٰ جاری کیا گیا ۔ فتویٰ لکھنے والے مولانا مفتی محمد کمال الدین راشدی صاحب ہیں جب کہ اس پر تصدیق نائب مفتی مولانا محمود اشرف صاحب کی ہے۔ مولانا تقی عثمانی صاحب بھی اس کی تائید کرتے ہیں۔
             وہ فتویٰ یہ ہے
             ’’اگر اس مقام سے جہاں سے سفر شروع کیا جا رہا ہے اس مقام تک جہاں جانا ہے کل مسافت اڑتالیس میل یعنی ساڑھے 77 کلو میٹر ہے تو شہر کی حدود سے نکلنے کے بعد مذکورہ شخص پر احکام سفر جاری ہوں گے خواہ دونوں شہروں کا درمیانی فاصلہ ساڑھے 77 کلو میٹر نہ ہو کیونکہ مسافت سفر میں اس مقام اور جگہ کا اعتبار ہے جہاں سے سفر شروع کیا جا رہا ہے اور جہاں تک اسے جانا ہے لہٰذا اگر دونوں جگہوں کا درمیانی فاصلہ مسافت سفر کے بقدر ہے تو شہر کی حدود سے باہر نکلنے کے بعد احکام سفر جاری ہوں گے ورنہ نہیں۔‘‘
             دارالعلوم کے اس فتوے کا مطلب یہ ہے کہ اگر زید کراچی شہر کے اندر کی ایک ایسی جگہ سے چلتا ہے کہ آبادی کے کنارے تک پہنچنے میں ہی اس کو تیس میل (یعنی 48 کلو میٹر) چلنا پڑتا ہے اور آبادی کے کنارے سے آگے بیس میل (32 کلو میٹر) پر اس کو ایک بستی میں جانا ہے تو زید مسافر ہے کیونکہ اس کے چلنے کی کل مسافت 50 میل (80کلو میٹر) ہے اگرچہ وہ کراچی شہر ہی کے اندر 30 میل (یعنی 48 کلو میٹر چلتا رہا ہے البتہ وہ قصر اس وقت کرے گا جب وہ شہر کی آبادی سے باہر نکلے گا۔
تنبیہ: ہم اس بات کو مکرر ذکر کرتے ہیں کہ دارالعلوم کے فتوے کا مطلب یہ ہے کہ مذکورہ مثال میں زید کے اپنے گھر سے نکلتے ہیی سفر شروع ہو گیا اور وہ مسافر ہے اگرچہ حکم سفر مثلا نماز میں قصر کرنا شہر کی آبادی سے باہر نکل کر جاری ہو گا۔
  ہم کہتے ہیں
          دارالعلوم کا یہ فتویٰ بالکل ہی غلط ہے اور ہم ان کے دلائل کو ذکر کر کے ان کا جواب دیں گے لیکن اس سے پہلے مناسب یہ ہے کہ ہم صحیح مسئلہ کو دلائل سے واضح کر دیں۔
          صحیح مسئلہ یہ ہے کہ مسافت سفر کو شہر کی آبادی کے کنارے سے ناپا جائے گا اور آدمی جب تک اپنے شہر کی آبادی میں چلتا رہے وہ مقیم رہتا ہے مسافر نہیں ہوتا اور نہ ہی اس کے چلنے کو سفر شمار کیا جاتا ہے۔ شہر کی آبادی کے کنارے سے نکل کر جب اس کو ایسی بستی میں جانا ہو کہ اس شہر کی آبادی کے کنارے سے اس بستی کی آبادی کے کنارے تک کا فاصلہ 48 میل (ساڑھے 77 کلو میٹر) یا زائد ہو تو اب اس کا چلنا سفر کہلائے گا اور وہ مسافر بنے گا۔
          ہماری بات کے دلائل یہ ہیں۔
1. بدائع الصنائع میں ہے۔
          وفعل السفر لا یتحقق الا بعد الخروج من المصر فمالم یخرج لا یتحقق قران النیۃ بالفعل فلا یصیر مسافرا (ص 94ج 1)
         سفر کے فعل کا تحقق صرف اسی وقت ہوتا ہے جب آدمی شہر سے باہر نکل جائے۔ جب تک وہ شہر کی آبادی سے باہر نہیں نکلتا نیت کا فعل کے ساتھ جوڑ نہیں ہوتا اس لئے آدمی مسافر بھی نہیں بنتا۔
         اسی طرح بدائع الصنائع میں ہے
         فالذی یصیر المقیم بہ مسافرا نیۃ مدۃ السفر و الخروج من عمران المصر۔ (ص 93 ج 1)
         مقیم جن چیزوں سے مسافر بنتا ہے وہ یہ ہیں (1) مدت سفر کی نیت اور (2) شہر کی آبادی سے باہر نکلنا۔
         والثالث الخروج من عمران المصر فلا یصیر مسافرا بمجرد نیۃ السفر مالم یخرج من عمران المصر۔ (ص 94 ج 1)
         مسافر بننے کے لئے تیسری شرط شہر سے باہر نکلنا ہے لہٰذا جب تک شہر کی آبادی سے باہر نہیں نکلے گا محض سفر کی نیت سے مسافر نہیں بنے گا۔
         بدائع الصنائع کی یہ تینوں عبارتیں اس پر صریح ہیں کہ سفر کے فعل کے تحقق کے لئے اور مقیم کے مسافر بننے کے لئے شہر کی آبادی سے باہر نکل جانا شرط ہے۔ آدمی جب تک شہر کی آبادی کے اندر اندر ہو نہ تو سفر کا تحقق ہوتا ہے اور نہ ہی آدمی مسافر بنتا ہے۔
         اسی طرح شرح منیہ میں یوں لکھا ہے۔
         من فارق بیوت موضع ہو فیہ من مصر او قریۃ ناویا الذہاب الی موضع بینہ و بین ذلک الموضع المسافۃ المذکورۃ صار مسافرا
         جو شخص اپنی بستی کی آبادی سے اس حال میں نکلا کہ اس کا ایسی بستی میں جانے کا ارادہ ہے کہ (جس وقت کہ وہ بستی سے باہر ہے) اس کے اور اس بستی کے درمیان (سفر کی) مذکور مسافت ہے تو اب وہ مسافر بن گیا۔
         اس عبارت میں بھی واضح طور پر تصریح ہے کہ آدمی مسافر اس وقت بنتا ہے جب وہ شہر کی آبادی سے باہر نکل جائے۔
         بہشتی زیور میں بھی یہی بات ذکر ہے۔
         ’’جو کوئی تین منزل چلنے کا قصد کر کے (شہر کی آبادی سے باہر۔ ناقل) نکلے وہ شریعت کے قاعدے سے مسافر ہے۔ جب اپنے شہر کی آبادی سے باہر ہو گئی تو شریعت سے مسافر بن گئی اور جب تک آبادی کے اندر اندر چلتی رہی تب تک مسافر نہیں۔‘‘ (باب 21)
         فتاوٰی رحیمیہ میں اس سوال پر کہ اب شہر وسیع ہو گئے ہیں پورا شہر مختلف محلوں حلقوں اور کالونیوں پر مشتمل ہوتا ہے جن کے نام جدا جدا ہوتے ہیں۔ اب سفر میں جانے والا شخص اپنے محلہ یا حلقہ کی حدود سے نکل کر مسافر بنے گا یا شہر کی حدود سے نکل کر مسافر بنے گا ؟ مفتی عبدالرحیم لاجپوری لکھتے ہیں:
         ’’وطن اصلی یا وطن اقامت کی آبادی سے باہر ہو جانے پر شرعی مسافر کا اطلاق ہو گا‘‘۔(ص 363 ج 6)
         مذکورہ بالا حوالوں سے مسئلہ کی اصل حقیقت جو ہم نے بتائی وہی ثابت ہوئی اور دارالعلوم والوں کا فتوی غلط ثابت ہوا۔
تنبیہ: سفر کا حکم صرف نماز کے قصر میں منحصر نہیں بلکہ سفر کے اور بھی احکام ہیں مثلا روزہ ترک کرنے کی رخصت اور جماعت سے نماز ترک کرنے کی رخصت، جمعہ و عید کی نماز ترک کرنے کی رخصت اور تین دن تک موزوں پر مسح کرنے کی اجازت وغیرہ۔ کراچی کا وہ شخص جو آبادی سے نکلنے سے پہلے ہی تیس میل چلے گا اگر کسی گاڑی میں سفر کرنے کے بجائے پیدل سفر کرے اور آبادی سے نکلنے سے پہلے تقریباً دو دن کراچی کی آبادی کے اندر اندر ہی چلتا رہے تو دارالعلوم والے کہتے ہیں کہ وہ مسافر ہے اور وہ آبادی سے باہر نکل کر قصر کرے گا لیکن مذکورہ بالا دیگر احکام بھی اس مسافر پر جاری ہوں گے یا نہیں۔ دارالعلوم والے معلوم نہیں ان کے بارے میں کیا جواب دیں گے۔

دارالعلوم کے دلائل اور ان پر تبصرہ

پہلی دلیل:
امداد الفتاوی ج 1 ص 394 میں یہ سوال و جواب ہے۔
سوال: ہمارے مکان سے چاٹگام شہر خشکی کی راہ سے تین دن کی راہ پر ہے اسی طرح معمولی کشتی پر جانے سے تین دن کا راستہ ہے ان دونوں صورتوں میں قصر پڑھے لیکن اسٹمیر ہی چند سال سے چلتا ہے۔ جہاز دخانی (یعنی اسٹیمر) پر سوار ہونے سے آدمی آٹھ گھنٹہ میں پہنچتا ہے سو اگر ہم جہاز (یعنی اسٹیمر)پر سوار ہو کر چاٹگام جائیں تو راہ میں اور وہاں شہر میں پہنچ کر قصر کریں یا نہ کریں ؟
جواب: ہاں قصر کیا جائے۔ مسافت کا اعتبار ہے گو سواری کے تیز ہونے سے وہ جلدی قطع ہو جائے جیسا کہ ریل کے سفر میں یہ حکم ہے۔
تبصرہ:
        ہم کہتے ہیں کہ اس سوال و جواب کا تعلق اس مسئلہ سے ہے کہ مسافت سفر کسی تیز سواری سے جلد قطع ہو جائے تو کیا سفر کا حکم پھر بھی جاری ہو گا یا نہیں۔ یہ مسئلہ کہ مسافت سفر آدمی کے گھر سے شمار کی جائے یا آبادی کے کنارے سے اس کا سوال و جواب سے سرے سے کوئی تعلق نہیں۔
        البتہ دارالعلوم والوں نے بظاہر سوال میں مذکور ’’ہمارے مکان سے چاٹگام شہر خشکی کی راہ سے تین دن کی راہ پر ہے‘‘ ان الفاظ سے استدلال کیا ہے۔ استدلال انتہائی تعجب خیز ہے۔ مکان سے گھر مراد لینا قطعی نہیں بلکہ اس میں یہ احتمال زیادہ قوی ہے کہ مکان سے مراد مقام ہو جو علاقہ اور بستی کے لئے بھی بولا جاتا ہے۔ اس احتمال کے قوی ہونے کی دلیل یہ ہے کہ سوال میں یہ بھی لکھا ہے کہ ’’(ہمارے مکان سے) معمولی کشتی پر جانے سے تین دن کا راستہ ہے‘‘۔ اور اس کی کوئی دلیل نہیں کہ سائل کا گھر دریا کے کنارے عین اس جگہ پر ہو جہاں سے کشتی اپنا سفر شروع کرتی ہو۔ 
دوسری دلیل
        امداد الفتاوی ج1 ص 399 پر ہے۔
حاصل سوال: ضلع کے گیارہ قصبوں میں سے ایک قصبہ میرا مستقر ہے اور دیگر دس قصبوں اور اس کے مفصلاتی چوکیوں پر مجھ کو گشت کے لئے سفر کرنا ضروری ہے۔ جس کی صورت یہ ہے کہ میں مستقر پر دس روز سے زیادہ قیام نہیں کر سکتا اور جب گشت کے واسطے مستقر سے روانہ ہوتا ہوں تو کہیں دو کہیں تین کہیں چار کہیں پانچ کہیں دس کوس تک سفر کر کے قیام کا موقع ملتا ہے لیکن اس کے اندر تعین مدت اور تعین مسافت نہیں ہوتی حسب ضرورت قیام اور سفر کرتا ہوں لیکن مستقر سے جب چلنا ہوتا ہے تو کل ضلع کے گشت کا ارادہ ہوتا ہے اور کل مسافت طولا چالیس میل ضرور ہو گی اور محیط کو اگر لیا جائے تو یقین ہے کہ ستر اسی میل سے زائد ہی مسافت ہو گی۔ پس اس سوال میں میرے واسطے قصر نماز درست ہو گی یا نہیں۔
جواب: قواعد سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ اس دورہ میں جو مقام (یعنی قصبہ) ایسا ہو کہ وہاں پہنچ کر آگے بڑھنے کو مستقر کی طرف واپسی سمجھا جاتا ہو یعنی وہ مقام کے وہاں تک جانے سے تو مستقر سے وقتاً فوقتاً بعد بڑھتا جاتا ہے اور وہاں سے جب سفر کیا جائے تو مستقر سے قریب ہوتا جاتا ہے اس مقام کو منتہائے سفر کہا جائے گا اور مستقر سے اس مقام تک کی مسافت دیکھی جائے گی اگر وہ مسافت قصر پر ہو گی تو قصر کیا جائے گا جب کہ دوسرے شرائط قصر بھی پائے جائیں گے۔
تبصرہ
        ہم کہتے ہیں کہ پورے سوال و جواب کو پڑھا جائے اس میں کوئی بات بھی تو ایسی نہیں جو دارالعلوم والوں کے دعوے پر دلیل بن سکے۔ شاید جواب میں جہاں کہیں ’’مقام‘‘ کا لفظ آیا ہے اس سے انہوں نے وہ عمارت سمجھی ہے جہاں سائل جا کر رہتا ہو گا۔ لیکن سوال کو سامنے ر کھیں تو مقام سے قصبہ مراد ہونا متعین ہے اور اسی وجہ سے ہم نے بریکٹ میں مقام کی تفسیر قصبہ سے کی ہے۔
تیسری دلیل
         کفایت المفتی ج 3 ص 332 پر ہے۔
سوال: ایک شخص ملازم پیشہ ہے اور مکان سے اس کی ملازمت فاصلہ پر ہے اور ہیڈ کوارٹر میں جہاں قیام ہے رہنا پڑتا ہے اور وہیں سے دورہ کرنا ہوتا ہے۔ اس صورت میں قصر کہاں سے شمار ہو گا۔
جواب : ہیڈ کوارٹر جہاں قیام رہتا ہے وہاں سے مسافت سفر کا اعتبار ہو گا۔
تبصرہ
        ہم کہتے ہیں کہ دارالعلوم والوں نے دلیل کے طور پر یہ حوالجات تو لکھ دیئے ہیں لیکن وہ ان سے استدلال کس طرح کرتے ہیں اس سے کچھ تعرض نہیں کیا۔ پہلے دو حوالوں کا حال تو ہم اوپر ذکر کر چکے۔ تیسرے حوالہ کا دلیل ہونا بھی بہت بعید ہے۔ ہیڈکوارٹر سے کیا مراد ہے؟ کیا وہ سائل کے شہر کا حصہ ہے یا ہیڈ کوارٹر شہر سے باہر خاصے فاصلہ پر ہے یا کسی دوسری بستی میں ہے کہ جہاں سے سائل روزانہ اپنے گھر آ جا نہیں سکتا؟ ان احتمالات کے ہوتے ہوئے استدلال کرنا عجیب و بعید ہے۔
نیوز لیٹر سبسکرپشن
سبسکرپشن کے بعد آپ ادارہ کے بارے میں تازہ ترین اپ ڈیٹ حاصل کر سکتے ہیں