English

فقہی مضامین

مشاجرات صحابہؓ سے متعلق چند اُصول

ڈاکٹر مفتی عبد الواحد صاحب

بسم اللہ حامدا و مصلیا
           مشاجرات صحابہ رضی اللہ عنہم کے بارے میں وقتاً فوقتاً بعض لوگ اپنی آراء پیش کرتے رہے ہیں۔ کچھ عرصے پیشتر بھی ایسی ہی ایک بحث چھڑ گئی تھی اور اس سے متعلق تحریریں جامعہ مدنیہ کے دارالافتاء میں بھی بھیجی گئیں۔ اس وقت یہ چند اصولی باتیں ذکر کی گئی تھیں۔
پہلا مقدمہ 
           فخر الاسلام بزووی رحمہ اللہ اپنے اصول میں لکھتے ہیں۔
           ’’فالحاصل ان الحق فی موضع الخلاف واحد أو متعدد فعندنا الحق واحد۔ وقال  بعض الناس وھم المعتزلۃ الحقوق متعددۃ… واختلف أھل المقالۃ الصحیحۃ فقال بعضھم ان المجتھد اذا اخطأ کان مخطأ ابتداء و انتھاء وقال بعضھم بل ہو مصیب فی ابتداء اجتھادہ لکنہ مخطیٔ انتھاء فیما طلبہ۔ وھذا القول الآخر ھوالمختار عندنا۔ وقد روی ذلک عن ابی حنیفۃ رحمہ اللہ انہ قال کل مجتھد مصیب  والحق عنداللّٰہ تعالٰی واحد۔ و معنی ہذا الکلام ما قلنا… وقال ابو حنیفۃ رحمہ اللہ فی مدعی المیراث اذا لم یشھد شھودہ انا لا نعلم لہ وارثا غیرہ انی لا اکفل المدعی و ہذا شیٔ احتاط بہ القضاۃ و ھو جورسماہ جورا و ھو اجتھاد لانہ فی حق المطلوب مائل عن الحق و ھو معنی الجور والظلم۔ (اصول البزدوی علی ہامش کشف الاسرار ص 24-17 ج 4)
          اختلاف کے موقع میں حق ایک ہوتا ہے یا متعدد ہوتا ہے ؟ تو ہمارے نزدیک حق صرف ایک ہوتا ہے جب کہ معتزلہ کا کہنا ہے کہ حق متعدد ہوتا ہے… پہلا قول جو صحیح ہے اس کے قائلین کا پھر آپس میں اختلاف ہوا اور ان میں سے بعض کا کہنا ہے کہ مجتہد سے جب خطا ہو تو ابتداء و انتہاء دونوں ہی میں خطا شمار ہوتی ہے، جب کہ دوسروں کا کہنا ہے کہ وہ ابتدائے اجتہاد میں تو درستگی پر ہوتا ہے … البتہ آخر میں حکم کو معلوم کرنے میں وہ خطا کر جاتا ہے۔ یہ دوسری بات ہمارے نزدیک مختار و پسندیدہ ہے۔ یہی بات امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے اس طرح روایت کی گئی ہے۔ ہر مجتہد ( نفس اجتہاد کرنے میں) درستگی پر ہوتا ہے البتہ حق اللہ تعالیٰ کے نزدیک صرف ایک ہوتا ہے … امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے میراث کے اس مدعی کے لئے کہ جس کے گواہوں نے اپنی گواہی میں یہ نہ کہا ہو کہ ہم اس کے علاوہ اور وارثوں کا ہونا نہیں جانتے کہا ہے کہ میں اس مدعی سے کفیل و ضامن طلب نہیں کروں گا جب کہ دوسرے قاضیوں نے اس بارے میں احتیاط کو اختیار کیا ہے لیکن یہ جور و ظلم ہے۔ امام صاحب نے اس کے اجتہاد ہونے کے باوجود اس کو جور و ظلم کیونکہ یہ مطلوب کے حق میں حق سے میلان و اعراض ہے اور یہی جور و ظلم کا معنی ہے۔
         علامہ عبدالعزیز بخاری رحمہ اللہ اصول بزددی پر اپنی شرح کشف الاسرار میں لکھتے ہیں۔
         … ولما کان لقائل ان یقول الحق و ان کان واحدا فی المجتھدات لکن کل مجتھد مصیب فی حق العمل مامور بالعمل باجتھادہ فلا یجوز تسمیۃ ما ثبت بالا جتھاد جورا۔ اشار الشیخ الی الجواب فی الدلیل فقال انما سماہ جورا لانہ ای القاضی الذی امر باخذ الکفیل احتیاطا فی حق المطلوب و ہوا خذا لکفیل مائل عن الحق و ھو عدم تکلیف المدعی با عطاء الکفیل لان حق الحاضر معلوم قد ثبت بالحجۃ و حق الآخر موھوم فلا یجوز تاخیر حق الحاضر لآخر موھوم لا امارۃ علیہ۔
         جب ایک کہنے والا یہ کہہ سکتا ہے کہ اجتہادی مسائل میں حق ایک ہونے کے باوجود جب ہر مجتہد عمل کی حد تک درستگی پر ہوتا ہے اور اپنے اجتہاد پر عمل کرنے کا مامور ہوتا ہے تو جو حکم اس نے اجتہاد سے حاصل کیا اس کو جورو ظلم کہنا جائز نہیں ہونا چاہئے۔ شیخ نے دلیل میں جواب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ امام صاحب نے اس کو جور اس لئے کہا کہ وہ قاضی جس نے ازروئے احتیاط کفیل وضامن طلب کرنے کا حکم دیا ہے اس نے حق (جو یہ ہے کہ مدعی کو کفیل پیش کرنے کا پابند نہ کیا جائے) سے اعراض کیا ہے، کیونکہ مدعی کا حق معلوم ہو چکا ہے اور دلائل سے ثابت ہو چکا ہے، جب کہ کسی دوسرے وارث کا حق ہونا وہمی ہے۔ لہٰذا ایسی وہمی بات جس کا کوئی قرینہ نہیں ہے اس کی خاطر مدعی اور موجود وارث کے حق کو مؤخر کرنا جائز نہیں ہے۔
دوسرا مقدمہ
          وقال اہل السنۃ کان الحق مع علی رضی اللہ عنہ و اِن من حاربہ مخطیٔ فی الاجتھاد فھو معذور وان کلا من الفریقین عادل صالح ولا یجوز الطعن فی أحد منھم للاحادیث المشھورۃ فی مدح الصحابۃ والنھی عن سبھم و ہذا ہو الحق فماذا بعد الحق الا الضلال (نبراس ص 503)
          اہل سنت کا قول ہے کہ حق حضرت علی ص کے ساتھ تھا اور جن لوگوں نے ان سے لڑائی کی وہ ان کی اجتہادی خطا تھی اور وہ معذور تھے اور دونوں فریق عادل اور نیک تھے اور مدح صحابہ کی اور ان کو بُرا کہنے سے ممانعت کی مشہور احادیث کی بنا پر ان میں سے کسی ایک پر بھی طعن و تشنیع جائز نہیں ہے۔
          علامہ سعد الدین تفتازانی رحمہ اللہ شرح مقاصد میں فرماتے ہیں۔
           قاتل علی ؓ ثلث فرق من المسلمین علی ما قال النبی ﷺ انک تقاتل الناکثین والمارقین والقاسطین۔ فالناکثون ھم الذین نکثوا العھد والبیعۃ و خرجوا الی البصرۃ و مقدمھم طلحۃ والزبیر رضی اللہ تعالیٰ عنھما وقاتلوا علیا ؓ یعسکر مقدمھم عائشۃ رضی اللہ عنہا فی ھودج علی جمل۔۔۔۔ والمارقون ھم الذین نزعوا الید عن طاعۃ علی  ؓ بعد ما بایعوہ و تا بعوہ فی حرب اہل الشام زعما منھم  انہ کفر حیث رضی بالتحکیم … والقاسطون معاویۃ و اتباعہ الذین اجتمعوا علیہ وعدلوا عن طریق الحق الذی ہو بیعۃ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ والدخول تحت طاعتہ ذھابا الی أنہ مال علی قتل عثمان  ؓ حیث ترک معاونتہ وجعل قتلتہ خواصہ و بطانتہ فاجتمع الفریقان بصفین … والذی اتفق علیہ اہل الحق ان المصیب فی جمیع ذلک علیٌ  ؓ لما ثبت من امامتہ ببیعۃ اھل الحل والعقد وظھر من تفاوت ما بینہ و بین المخالفین سیما معاویۃ و احزابہ وتکاثر من الاخبار فی کون الحق معہ وما وقع علیہ الاتفاق حتی من الاعداء الی أنہ افضل زمانہ و أنہ لا احق بالامامۃ منہ والمخالفون بغاۃ لخروجھم علی الامام الحق بشبھۃ ہی ترکہ القصاص من قتلۃ عثمان  ؓ ولقولہ ﷺ لعمار تقتلک الفئۃ الباغیۃ وقد قتل یوم صفین علی ید اہل الشام ولقول علیص اخواننا بغوا علینا ولیسوا  کفارا ولا فسقۃ ولا ظلمۃ لما لھم من التاویل وان کان باطلا۔ فغایۃ الامرانھم اخطاء وا فی الاجتھاد و ذلک لا یوجب التفسیق فضلا عن التکفیر۔ ولھذا منع علی  ؓ اصحابہ من لعن اہل الشام وقال اخواننا بغوا علینا کیف وقد صح ندم طلحۃ والزبیر رضی اللہ عنھما و انصراف الزبیر رضی اللہ عنہ عن الحرب واشتھر ندم عائشۃ رضی اللّٰہ عنھا۔
           فان قیل لا کلام فی ان علیا اعلم و افضل و فی باب الاجتھاد اکمل لکن من این لکم ان اجتھادہ فی ہذہ المسئلۃ و حکمہ بعدم القصاص علی الباغی أو باشتراط زوال المنعۃ صواب و اجتھاد القائلین بالوجوب خطأ لیصح لہ مقاتلتھم و ھل ہذا الاکما اذا خرج طائفۃ علی الامام وطلبوا منہ الا قتصاص ممن قتل مسلما با لمثقل قلنا لیس قطعنا بخطاء ھم فی الاجتھاد عائدا إلی حکم المسئلۃ نفسہ بل إلی اعتقاد ھم ان علیا رضی اللہ عنہ یعرف القتلۃ باعیانھم و یقدر علی الاقتصاص منھم کیف و قد کانت عشرۃ الاف من الرجال یلبسون السلاح وینادون اننا کلنا قتلۃ عثمان۔
            حضرت علی ؓ نے مسلمانوں کی تین جماعتوں سے لڑائی کی جیسا کہ نبی ﷺ نے ان سے فرمایا تھا کہ تم ناکثین اور مارقین اور قاسطین سے لڑائی کرو گے۔ ناکثین تو وہ ہیں جنہوں نے عہد اور بیعت کو توڑا اور بصرہ کی طرف نکلے۔ ان میں پیش پیش حضرت طلحہ ؓ  اور حضرت زبیر ؓ  تھے۔ ان لوگوں نے حضرت علی  ؓ سے ایسے لشکر کے ساتھ لڑائی جس کے آگے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ایک اونٹ پر ہودج میں سوار تھیں…
            مارقین وہ لوگ تھے جنہوں نے حضرت علی  ؓ کے ہاتھ پر بیعت کی اور اہل شام کے ساتھ لڑائی میں ان کا ساتھ دیا، لیکن پھر یہ خیال کر کے کہ تحکیم پر راضی ہو کر حضرت علی  ؓ کافر ہو گئے ہیں۔ انہوں نے ان کی اطاعت سے ہاتھ کھینچ لیا۔ اور قاسطین حضرت معاویہ  ؓ اور ان کے متبعین تھے جو حضرت علی ؓ کے خلاف اکٹھے ہوئے اور جو حق راہ تھی یعنی حضرت علی ؓ کے ہاتھ پر بیعت کرنا اور ان کی اطاعت کرنا اس سے انہوں نے روگردانی کی یہ خیال کرتے ہوئے کہ حضرت علی ؓ نے قاتلین عثمان ؓ کی طرف جھکائو اختیار کیا ہے کہ حضرت عثمان ؓ کی (خاطر خواہ) مدد نہیں کی اور ان کے قاتلین کو اپنے خاص لوگوں میں داخل کر لیا ہے اور اس طرح صفین میں دونوں کا معرکہ ہوا۔ اہل حق نے اس پر اتفاق کیا ہے کہ ان تمام امور میں حضرت علی ؓ حق پر تھے کیونکہ ایک تو اہل حل و عقد کی بیعت کی وجہ سے وہ خلیفہ تھے اور دوسرے ان کے اور ان کے مخالفین خصوصاً حضرت معاویہ ؓ وغیرہ کے مابین جو تفاوت تھا وہ سامنے آیا اور تیسرے بہت سی حدیثوں سے حضرت علی ؓ کا حق پر ہونا ثابت ہے اور سب کا بشمول دشمنوں کے اس پر اتفاق ہوا کہ حضرت علی  ؓ اپنے زمانے میں سب سے افضل تھے اور کوئی ان سے زیادہ خلافت کا لائق نہ تھا اور مخالفین باغی ہیں کیونکہ انہوں نے امام حق کے خلاف خروج کیا اگرچہ اس شبہہ سے کہ حضرت علی  ؓ نے قاتلین عثمان  ؓ سے قصاص لینے کو ترک کیا۔ اور ان کو باغی کہنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ نبی ﷺ نے حضرت عمار  ؓ سے فرمایا تھا کہ باغی جماعت تمہیں قتل کرے گی اور وہ اہل شام کے ہاتھوں صفین میں قتل ہوئے۔ ایک اور وجہ حضرت علی ؓ کا یہ فرمان ہے کہ ہمارے بھائیوں نے ہمارے خلاف بغاوت کی اور یہ مخالفین نہ تو کافر تھے اور نہ فاسق تھے اور نہ ظالم تھے۔ کیونکہ انہوں نے تاویل کی تھی اگرچہ وہ درست نہ تھی۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ انہوں نے اجتہاد میں خطا کی اور اس سے کفر تو کجا آدمی فاسق بھی نہیں ہوتا۔ اسی لئے حضرت علی  ؓ نے اپنے ساتھیوں کو اہل شام پر لعنت کرنے سے منع کیا اور فرمایا (یہ) ہمارے ہی بھائی ہیں جنہوں نے ہمارے خلاف بغاوت کی ہے۔ اور فاسق کہا بھی کیسے جا سکتا ہے جب کہ حضرت طلحہ اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہما کی ندامت اور حضرت زبیر ؓ کا جنگ سے پلٹنا ثابت ہے اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی ندامت مشہور ہے۔
             اگر کہا جائے کہ اس بارے میں تو کوئی کلام نہیں ہے کہ حضرت علی  ؓ سب سے زیادہ عالم اور فضیلت والے تھے اور اجتہاد میں بھی فائق تھے لیکن تم یہ کیسے کہہ سکتے ہو کہ اس مسئلہ میں اور باغی سے عدم قصاص کے حکم میں یا اس سے قصاص لینے میں اس کے زور کے ٹوٹنے کی شرط لگانے میں ان کا اجتہاد صحیح تھا اور وجوب قصاص کے قائلین کا اجتہاد خطا تھا اور اس طرح حضرت علی  ؓ کے لئے ان سے لڑائی جائز ہوئی بلکہ یہ تو صرف ایسی صورت ہے کہ ایک جماعت امام کے خلاف خروج کرے اور اس سے ایسے شخص سے قصاص کا مطالبہ کرے جس نے کسی مسلمان کو بھاری چیز سے قتل کیا ہو۔ جواب میں ہم کہتے ہیں کہ نفس مسئلہ کے حکم کے اعتبار سے ہم نے ان کے اجتہاد میں خطا کی قطعیت کا قول نہیں کیا بلکہ ان کے اس اعتقاد کے اعتبار سے کیا ہے کہ حضرت علی  ؓ قاتلین عثمان  ؓ کو جانتے تھے اور ان سے قصاص لینے پر قدرت رکھتے تھے۔ حالانکہ یہ بات بداہۃً خلاف واقع ہے کیونکہ دس ہزار مسلح افراد سامنے آ جاتے تھے اور اعلان کرتے تھے کہ ہم سب قاتلین عثمان ؓ ہیں۔
         مذکورہ بالا عبارات سے مندرجہ ذیل امور حاصل ہوئے۔
1. مجتہد باغی اور جائر بھی ہو سکتا ہے۔
        جب ایک بات کا حق ہونا یا ایک کا حق پر ہونا ثابت ہو تو دوسرے کی جانب سے اس سے ہٹ کر جو کچھ پایا جائے گا وہ مائل عن الحق یعنی حق سے ہٹا ہوا ہو گا اگرچہ مبنی بر اجتہاد ہو۔ اور حق سے ہٹنے یعنی مائل عن الحق ہونے ہی کو جور و ظلم کہتے ہیں۔
        سماہ جورا و ھو اجتھاد لانہ فی حق المطلوب مائل عن الحق و ھو معنی الجور و الظلم۔
2. حضرت علی رضی اللہ عنہ کا حق پر ہونا دلائل سے ثابت ہے 
        ان میں سے ایک اجماع بھی ہے
        والذی اتفق علیہ اہل الحق ان المصیب فی جمیع ذلک علی  ؓ لما ثبت من امامتہ ببیعۃ اہل الحل والعقد وظھر من تفاوت ما بینہ و بین المخالفین سیما معاویۃ و احزابہ و تکاثر من الاخبار فی کون الحق معہ و ما وقع علیہ الاتفاق حتی من الاعداء إلی انہ افضل زمانہ و أنہ الاحق بالامامۃ منہ… ولقولہ علیہ السلام لعمار تقتلک الفئۃ الباغیۃ … وقد صح ندم طلحۃ والزبیر رضی اللہ  عنہما وانصراف الزبیر  ؓ عن الحرب واشتھر ندم عائشۃ رضی اللہ عنہا۔
         اسی لئے جمل و صفین میں فریق مخالف کی جانب سے میلان عن الحق کا تحقق ہوا۔ اور چونکہ یہ میلان عن الحق امام حق کے خلاف خروج کی صورت میں ہوا، لہٰذا اہل شام باغی بھی کہلائے کیونکہ شرعی اصطلاح میں امام حق کے خلاف ناحق خروج کو بغاوت کہتے ہیں۔ در مختار میں بغاۃ کی تعریف یوں کی  ھم الخارجون علی الامام الحق بغیر الحق اور رد المحتار میں ہے۔ ھم کما فی الفتح قوم مسلمون خرجوا علی امام العدل۔ بغاوت کی اس تعریف کو سامنے رکھیں تو حضرت حسین  ؓ کے خروج کو بغاوت نہیں کہا جا سکتا۔
         والمخالفون بغاۃ لخروجھم علی الامام الحق… ولقولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلّم لعمار تقتلک الفئۃ الباغیۃ وقد قتل یوم صفین علی ید اہل الشام و لقول علی رضی اللّٰہ عنہ اخواننا بغوا علینا۔
3. یہ جور یعنی میلان عن الحق بنا بر اجتہاد تھا اگرچہ اس میں خطا ہوئی۔
        وان من حاربہ مخطیٔ فی الاجتھاد۔ فغایۃ الامرانھم اخطاء وا فی الاجتھاد۔
4. خطا فی الاجتھاد کی بناء پر یہ معذور ٹھہرے 
        اور ان کی تفسیق یا ان پر کسی قسم کا طعن جائز نہیں خصوصاً جب کہ صحابی ہوں۔
         وان من حاربہ مخطیٔ فی الاجتھاد فھو معذور۔ وان کلا من الفریقین عادل صالح ولا یجوز الطعن فی أحد منھم للاحادیث المشھورۃ فی مدح الصحابۃ والنھی عن سبھم۔
   فغایۃ الامر انھم اخطأوا فی الاجتھاد و ذلک لا یوجب التفسیق فضلا عن التکفیر و لھذا منع علی ص اصحابہ من لعن اھل الشام و قال اخواننا بغوا علینا۔
         حضرت علی ؓ نے ان کو اخواننا (ہمارے بھائی) کہا۔
         اوپر کی عبارات سے معلوم ہوا کہ خطا اجتہادی کے ساتھ بغاوت اور جور جمع ہو سکتے ہیں، لیکن ایسا فقط نفس الامر کے اعتبار سے ہے جب کہ خود مجتہد مخطی اس کو اپنی حد تک بغاوت اور جور خیال نہیں کر رہا ہوتا اور وہ اپنے اجتہاد پر عمل کرنے میں معذور ہوتا ہے۔
         الحق وان کان واحدا فی المجتھدات لکن کل مجتھد مصیب فی حق العمل مامور بالعمل باجتھادہ۔ (کشف الاسرار)
         جن دلائل کی بناء پر ہم کسی مجتہد کو مخطی سمجھتے ہیں خود وہ دلائل یا تو اس مجتہد کے علم میں نہیں ہوتے یا وہ اس کی نظر میں مؤول ہوتے ہیں۔ اس طرح ان دلائل کے اعتبار سے وہ مجتہد معذور ہوتا ہے ہاں جب مجتہد کو دلائل سے اپنے اجتہاد کے خطا ہونے اور دوسرے کے حق پر ہونے کا علم ہو جاتا ہے تو وہ اپنی خطا سے رجوع کر لیتا ہے اور حق کو اختیار کرتا ہے جیسا کہ حضرات طلحہ و زبیر اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہم کے بارے میں ملتا ہے۔ یہ ممکن نہیں کہ خطا جانتے ہوئے بھی وہ اس پر اصرار کرے۔
5. یہ تخطیہ اور تصویب دیگر مجتہد فیہ مسائل کے برخلاف قطعی ہے
        اگرچہ فریقین کا عمل اجتہاد پر مبنی تھا، لیکن جب خارجی دلائل سے (مثلاً  تقتلک الفئۃ الباغیۃ اور  اخواننا بغوا علینا، اور حضرات طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہما کا جنگ سے انحراف اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی ندامت اور مزید بریں امت کا اجماع و اتفاق)۔ یہ ثابت ہوا کہ حضرت علی  ؓ قطعاً حق پر تھے اور فریق مخالف قطعاً خطا پر تھے تو حضرت علی ؓ کو صواب پر اور دوسرے حضرات کو خطا پر مانا جائے گا، البتہ خطا کے اجتہادی ہونے کی بناء پر ان پر کوئی طعن جائز نہیں۔
ایک سوال اور اس کا جواب
         ایک سوال یہ ہو سکتا ہے کہ جب خطا اجتہاد سے تھی تو شارع کی جانب سے باغی جیسے الفاظ کو جو فی ذاتہ موجب قدح ہیں ان حضرات کی شان میں استعمال کرنا کیسا ہے ؟ اس کا جواب ہم مولانا تھانوی رحمہ اللہ کے بیان القرآن سے نقل کرتے ہیں۔
1. حضرت آدم علیہ السلام کے قصے میں لکھتے ہیں۔
’’اگر کسی کو خلجان ہو کہ خطا تاویل سے ہو وہ اس قدر داروگیر کے قابل نہیں جواب یہ ہے کہ جس قدر فہم و خصوصیت زیادہ ہوتی ہے اس پر ملامت زیادہ ہوتی ہے اور اسی وجہ سے کہا گیا ہے حسنات الابرار سیئات المقربین اور حاصل اس کا یہ ہوتا ہے کہ تم نے زیادہ غور سے کیوں کام نہیں لیا۔ (ص 14 ج 1 مطبوعہ تاج کمپنی)
2. مسائل السلوک میں ہے 
        قولہ تعالیٰ لولا کتٰبٌ من اللّٰہ لمسکم فیما اخذتم فیہ عذابٌ  عظیمٌ۔ جس خطاء اجتہادی پر اجر وارد ہے اس پر عتاب اس مقولہ کی صحت کی دلیل ہے حسنات الابرار سیئات المقربین۔ (ص 382ج1 مطبوعہ تاج کمپنی)
        تقتلک الفئۃ الباغیۃ وغیرہ میں شارع کی جانب سے ایسا ہی عتاب ہے اور ضرورت کے موقع پر شارع کے اس تخطیہ و عتاب کو محض نقل کرنا تنقیص و سوء ادب نہیں ہے۔
ایک رائے کا رفع
        بعض حضرات کا خیال ہے کہ حضرت معاویہ  ص میں ہوائے خفی موجود تھا۔ ہم کہتے ہیں کہ حضرت معاویہ  ص کو اس کا ادراک یا تو حاصل ہو گا یا نہ ہو گا۔ اگر ان کو اس کا ادراک حاصل نہ تھا تو وہ ان کے لئے مضر نہیں۔ کیونکہ وہ مؤثر نہیں ہے اور اگر ان کو اس کا ادراک حاصل تھا تو وہ ان کے حق میں خفی نہ رہا اور جب انہوں نے ہوائے نفس کے تقاضے پر عمل کیا اور شریعت کے تقاضوں کو پس پشت ڈالا تو وہ مجتہد کہاں رہے ؟ اور چونکہ یہ بات اجماع کے خلاف ہے اور باطل ہے لہٰذا ہوائے خفی کا قول صحیح نہیں ہے۔
 مشاجرات صحابہ کے بارے میں اہل سنت کا طرز عمل
1. اہل سنت کا طریقہ صحابہ رضی اللہ عنہم کی شان میں تنقیص و طعن سے اجتناب ہے اور جو فتنے و جنگیں صحابہ رضی اللہ عنہم کے درمیان واقع ہوئیں ان کے بارے میں اہل سنت ہی کے کچھ لوگوں کا طریقہ مکمل سکوت کا ہے کہ نہ تخطیہ کرتے ہیں نہ تصویب۔
        شرح مواقف میں ہے۔
        واما الفتن والحروب الواقعۃ بین الصحابۃ فالشامیۃ انکروا وقوعھا ولا شک انہ مکابرۃ للتواتر فی قتل عثمان و واقعۃ الجمل والصفین۔ والمعترفون بوقوعھا منھم من سکت عن الکلام فیھا بتخطیۃ او تصویب و ھم طائفۃ فان ارادوا انہ اشتغال بما لا یعنی فلا باس بہ اذ قال الشافعی رحمہ اللہ وغیرہ من السلف تلک دماء طھر اللہ عنھا أیدینا فلنطھر عنھا السنتنا (جزو 8) 
        عدم ضرورت کے موقع پر سکوت ہی بہتر ہے۔
        اور اہل سنت ہی کا طریقہ فریقین کے اجتہاد کا تخطیہ و تصویب بھی ہے۔ نبر اس میں ہے۔
        وقال اہل السنۃ کان الحق مع علی رضی اللہ عنہ وان من حاربہ مخطیٔ فی الاجتھاد فھو معذور وان کلا من الفریقین عادل صالح ولا یجوز الطعن فی أحد منھم… الخ۔
        ان دونوں طریقوں کے درمیان کوئی منافات نہیں ہے کیونکہ
        اولاً۔ پہلا طریقہ عدم ضرورت کے موقع پر محمول ہے جب کہ دوسرا طریقہ ضرورت کے موقع پر محمول ہے 
        ثانیاً۔ پہلے کا محمل یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کسی فریق پر ایسا حکم لگانے سے احتیاط مقصود ہو جو غلط ہو جائے مثلاً یہ کہ اجتہادی کی قید کے بغیر خاطی کہنا یا کسی فریق پر ہوائے خفی کا الزام لگانا۔
        وسئل بعضھم عنھا ایضا فقال تلک دماء قد طھر اللّٰہ منھا یدی فلا اخضب بھا لسانی، یعنی فی التحرزمن الوقوع فی خطأ والحکم علی بعض بمالا یکون مصیبا فیہ۔ (تفسیر قرطبی بحوالہ مقام صحابہ ص 91)
        مناسب معلوم ہوتا ہے کہ آخر میں تفسیر قرطبی کی ایک عبارت نقل کر دی جائے۔
        لا یجوز ان ینسب الی أحد من الصحابۃ خطأ مقطوع بہ اذ کانوا کلھم اجتھدوا فیما فعلوہ وارادوا اللّٰہ عزوجل و ھم کلھم لنا ائمۃ و قد تعبدنا بالکف عما شجر بینھم ولا نذکرھم الا باحسن الذکر لحرمۃ الصحبۃ ولنھی النّبی ﷺ عن سبھم وان اللہ غفرلھم و اخبر بالرضاء عنھم ہذا مع ما قد ورد من الاخبار من طرق مختلفۃ عن النبی ﷺ ان طلحۃ شہید یمشی علی وجہ الارض فلو کان ماخرج الیہ من الحرب عصیانا لم یکن القتل فیہ شہیدا۔ و کذلک لوکان ماخرج الیہ خطأ فی التاویل و تقصیرا فی الواجب علیہ لان الشہادۃ لا تکون الا بقتل فی طاعۃ فوجب حمل امرھم علی ما بیناہ۔ ومما یدل علی ذلک ما قد صح و انتشر من اخبار علی بان قاتل الزبیر فی النار و قولہ سمعت رسول اللہ ﷺ یقول بشر قاتل ابن صفیۃ بالنار۔ واذا کان کذلک فقد ثبت ان طلحۃ والزبیر غیر عاصیین ولا آثمین بالقتال لان ذلک لوکان کذلک لم یقل النبی ﷺ فی طلحۃ شھید ولم یخبر ان قاتل الزبیر فی النار۔ و کذلک من قعد غیر مخطیٔ فی التاویل بل صواب اراھم اللہ الاجتھاد۔ واذا کان کذلک لم یوجب ذلک لعنھم والبراء ۃ منھم و تفسیقھم وابطال فضائلھم وجھاد ھم و عظیم غنائھم فی الدین رضی اللہ عنھم۔ وقد سئل بعضھم عن الدماء التی اریقت فیما بینھم فقال تلک امۃ قد خلت لھا ماکسبت ولکم ماکسبتم ولا تسألون عما کانوا یعملون۔ وسئل بعضھم عنھا ایضا فقال تلک دماء قد طھر اللہ منھا یدی فلا اخضب بھا لسانی یعنی فی التحرز من الوقوع فی خطأ والحکم علی بعضھم بما لا یکون مصیبا فیہ۔
وقد سئل الحسن البصری عن قتالھم فقال قتال شھدہ اصحاب محمد  ص وغبنا و علموا وجھلنا واجتمعوا فاتبعنا واختلفوا فوقفنا۔ (تفسیر القرطبی بحوالہ مقام صحابہ ص 92)
          کسی صحابی کی طرف قطعی (یعنی غیر اجتہادی) خطا کی نسبت کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ انہوں نے جو کیا وہ انہوں نے اجتہاد سے کیا تھا اور اللہ عزوجل کی فرمانبرداری ان کی مراد تھی اور وہ سب ہمارے امام ہیں اور ہمیں حکم ہے کہ ان کے مابین جو جھگڑے پیش آئے ان میں ہم خاموش رہیں اور صحبت نبوی کے احترام کی وجہ سے اور اس بناء پر کہ نبی ﷺ نے ان کو برا کہنے سے منع کیا ہے اور اس بناء پر کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو بخش دیا ہے اور ان سے اپنے راضی ہونے کی خبر دی ہے ان کا صرف ذکر خیر کریں۔ اس کے علاوہ مختلف طرق سے وارد ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا طلحہ ایسے شہید ہیں جو روئے زمین پر چلتے ہیں۔ اگر ان کا لڑائی میں نکلنا نافرمانی اور عصیان کے سبب سے ہوتا تو لڑائی میں قتل سے وہ شہید نہ کہے جاتے۔ یہی بات اس وقت بھی ہوتی جب ان کا نکلنا تاویل باطل اور واجب میں تقصیر و کوتاہی کے سبب سے ہوتا کیونکہ شہادت تو اس وقت ہوتی ہے جب آدمی اللہ کی اطاعت میں قتل ہو۔ لہٰذا ان حضرات کے معاملہ کو اسی پر محمول کرنا چاہئے جو ہم نے ذکر کیا۔ اس کی تائید حضرت علی ص کے اس مشہور و معروف قول سے بھی ہوتی ہے کہ زبیر کا قاتل جہنمی ہے اور حضرت علی ص کی اس روایت سے بھی ہوتی ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ابن صفیہ (یعنی زبیر)کے قاتل کو جہنم کی بشارت دو۔ اور جب بات یوں ہے تو ثابت ہوا کہ حضرات زبیر اور طلحہ رضی اللہ عنہما لڑائی کرنے میں نافرمان اور گنہگار نہ تھے۔ کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو نبی ﷺ حضرت طلحہ کے بارے میں یہ نہ فرماتے کہ وہ شہید ہیں اور حضرت زبیر ص کے بارے میں یوں نہ فرماتے کہ زبیر کا قاتل جہنمی ہے۔ 
          اسی طرح وہ لوگ جو لڑائی میں شریک نہیں ہوئے انہوں نے تاویل میں خطا نہیں کی بلکہ درست بات تھی جو انہوں نے اجتہاد سے سمجھی اور اس بات سے ان پر لعن طعن کرنے کو یا ان سے تبرا کرنے کو یا ان کو فاسق قرار دینے کو واجب اور ان کے فضائل اور ان کے جہاد اور دین میں ان کے وافر حصے کو کالعدم قرار نہیں دیتی۔ بعض حضرات سے اس خونریزی کے بارے میں سوال کیا گیا جو صحابہ کے مابین ہوئی تو انہوں نے جواب دیا۔   تِلْکَ اُمَّۃُ قَدْ خَلَتْ لَھَا مَاکَسَبَتْ  ولَکُمْ مَا کَسَبْتُمْ  وَلَا تُسْئَلُوْنَ عَمَّا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ۔ وہ ایک جماعت تھی جو گزر چکی ان کے واسطے ہے جو انہوں نے کیا اور تمہارے واسطے ہے جو تم نے کیا اور تم سے کچھ پوچھ نہیں ان کے کاموں کی۔ 
          اور بعض نے یہ جواب دیا کہ یہ وہ خونریزی ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے میرے ہاتھ کو پاک رکھا تو میں اپنی زبان کو اس سے رنگین نہیں کروں گا۔ یعنی ان پر ناحق حکم نہیں لگائوں گا۔
          حضرت حسن بصری رحمہ اللہ سے صحابہ کی باہم لڑائی کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ یہ ایسی لڑائی تھی جس میں محمد ﷺ کے اصحاب موجود تھے اور ہم موجود نہ تھے، ان کو علم حاصل تھا اور ہمیں حاصل نہیں ہے، جس میں انہوں نے اتفاق کیا اس میں ہم نے ان کی پیروی کرتے ہیں اور جس میں ان کا اختلاف ہوا اس میں ہم توقف کرتے ہیں۔
نیوز لیٹر سبسکرپشن
سبسکرپشن کے بعد آپ ادارہ کے بارے میں تازہ ترین اپ ڈیٹ حاصل کر سکتے ہیں