English

فقہی مضامین

نماز میں سلام پھیرنے کا مسنون طریقہ

ڈاکٹر مفتی عبد الواحد صاحب

         انجمن احیاء السنۃ باغبانپورہ لاہور کی جانب سے ایک کارڈ کی نشرو اشاعت کی گئی ہے جس میں نماز کے آخر میں سلام پھیرنے کا مسنون طریقہ ذکر کیا گیا ہے۔ کارڈ کی عبارت درج ذیل ہے۔
          نماز کے آخر میں سلام پھیرنے کا مسنون طریقہ۔ جو میری سنت کو زندہ کرے گا اسے سو شہیدوںکا ثواب ملے گا۔ (مفہوم حدیث)
          وَلَعَلَّہ یُریْدُ اَنَّ الْمَقصُوْدَ بَیَانُ کَیْفِیَّۃِ السَّلَاَمِ ہٰکَذَا لَاَ بَیَانُ الْعَدَدِ وَالْکَیْفِیَّۃُ ہٰذِہٖ مِنْ اِبْتِدَائِہٖ تِلْقَائَ الْوَجْہِ وَ اِنْتِھَائِہٖ فِیْ جَانِبِ الْیَمِیْنِ، ذَکَرَہٗ فِی ’’الْمَجْمُوْعِ‘‘ وَ ’’الْمُغْنِیْ‘‘ وَھُوَ الْمَعْمُوْلُ بِہٖ عِنْدَنَا ثُمَّ رَاَیْتُ التَّاوِیْلَ المَذْکُوْرَ فِی الْمُغْنِیْ (596-1) عَنِ ابْنِ عَقِیْلٍ فَقَالَ: یُسَلِّمُ تِلْقَائَ وَجْھِہٖ‘‘ مَعْنَاہٗ: اِبْتداء ’’ الَسَّلَاَمُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ‘‘ یَکُوْنُ فِیْ حَالِ اِلْتِفَاتِہٖ۔ (اَلْمُغْنِیْ صفحہ 596 جلد 1)معارف السنن صفحہ 110 ،  جلد 3  قَالَ اِبْنُ عَقِیْلٍ یَبْتَدِیْ بِقَوْلِہٖ اَلسَّلَاَمُ عَلَیْکُمْ اِلی الْقِبْلَۃِ ثُمَّ یَلتَفِتُ قَائِلاًً، وَ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَنْ یَمِیْنِہٖ وَیَسَارِہٖ لِقَوْلِ عَائِشَۃَ رضی اللہ عنھا، کَانَ النَّبِیُّ ﷺ یُسَلِّمُ تِلْقَائَ وَجْھِہٖ‘‘ مَعْنَاہٗ اِبْتِداء اَلسَّلاََمُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ یَکُوْنُ فِیْ حَالِ اِلْتِفَاتِہٖ۔
          اور شاید کہ ارادہ اس کا یہ ہے کہ وہ اس سے السلام علیکم و رحمۃ اللہ کی کیفیت بیان کرے نہ کہ تعداد۔ اور کیفیت اس کی یہ ہے کہ ابتداء میں متوجہ ہو گا قبلہ کی طرف اور اس کا اختتام کرے گا دائیں جانب، اس کا حوالہ، مجموع، اور مغنی میں ہے اور اسی پر احناف کا عمل ہے۔ پھر مغنی میں اسی تفصیل کو میں نے دیکھا۔
          حضرت ابن عقیلؒ فرماتے ہیں کہ ’’السلام علیکم‘‘ قبلہ رخ ہو کر کہے اور ’’ورحمۃ اللہ‘‘ دائیں، بائیں منہ پھیرتے وقت کہے۔
حضرت ابن عقیلؒ فرماتے ہیں کہ آں حضرت ﷺ ’’اسلام علیکم‘‘قبلہ رخ ہی فرماتے تھے اور ’’ورحمۃ اللہ‘‘ کہتے ہوئے دائیں جانب اور پھر بائیں جانب چہرہ اقدس پھیرتے تھے۔ جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آں حضرت ﷺ ’’السلام علیکم‘‘ تو بالکل قبلہ رخ ہو کر ناک کی سیدھ میں کہا کرتے تھے اور ’’و رحمۃ اللہ‘‘ دائیں اور بائیں جانب فرمایا کرتے تھے۔ ‘‘
ہم کہتے ہیں کہ
          سلام پھیرنے کے جس طریقے کی اشاعت کی جا رہی ہے اور اس کو مسنون کہا جا رہا ہے حدیث میں اس طریقے کی صراحت نہیں ہے بلکہ یہ تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ایک حدیث کی تاویل کے تحت کیفیت سلام کی ایک احتمالی صورت ہے جس کو ابن عقیل رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے۔
          کیفیت سلام کے بارے میں حدیثوں سے دو طریقے ملتے ہیں:
1. دائیں بائیں رخ کرنے کے بعد سلام کہنا۔
2. سلام کے کلمات کی ابتداء اس وقت کرنا جب چہرہ ابھی قبلہ رخ ہو اور دائیں بائیں رخ کرنے کے دوران ان کلمات کو مکمل کرنا۔
کیفیت سلام کا پہلا طریقہ
        عن ابن مسعودؓ قال ان رسول اللہ ﷺ کان یسلم عن یمینہ السلام علیکم و رحمۃ اللہ حتی یری بیاض خدہ الایمن و عن یسارہ السلام علیکم و رحمۃ اللہ حتی یری بیاض خدہ الاسیر (رواہ ابوداؤد، النسائی و الترمذی)
        حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ دائیں جانب سلام کہتے تھے السلام علیکم و رحمۃ اللہ یہاں تک کہ آپ کے دائیں رخسار کی سفیدی دیکھی جاتی تھی اور آپ بائیں جانب سلام کہتے تھے السلام علیکم و رحمۃ اللہ یہاں تک کہ آپ کے بائیں رخسار کی سفیدی دیکھی جاتی تھی۔
        ملا علی قاری رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
        (کان یسلم) ای من صلاتہ حال کونہ ملتفتا بخدہ (عن یمینہ) ای مجاوزا نظرہ عن یمینہ کما یسلم احد علی من یمینہ (مرقات ص 354ج 2)
آپ ﷺ نماز سے نکلتے ہوئے سلام کہتے تھے اس حال میں کہ آپ اپنے رخسار کے ساتھ دائیں جانب پھرے ہوتے تھے یعنی آپ اپنی نظروں کو دائیں جانب کئے ہوئے تھے جیسا کہ کوئی شخص اپنی دائیں جانب موجود شخص کو سلام کہتے ہوئے کرتا ہے۔
        اسی طریقے کو جامع الرموز میں صراحت کے ساتھ ذکر کیا ہے۔
        ثم یحول المصلی وجھہ اولا کما فی الحقائق حتی یری بیاض خدہ کما فی المبسوط ثم یسلم الامام (المصلی)… فیقول السلام علیکم و رحمۃ اللہ۔ (جامع الرموز ص 161ج 1)
        نمازی (امام) پہلے اپنا چہرہ پھیرے جیسا کہ حقائق میں ہے یہاں تک کہ اس کے رخسار کی سفیدی دیکھی جائے جیسا کہ مبسوط میں ہے۔ پھر امام سلام کرے اور کہے السلام علیکم و رحمۃ اللہ۔
کیفیت سلام کا دوسرا طریقہ
        عن عائشۃ رضی اللہ عنھا قالت کان رسول اللہ وسلّم یسلم فی الصلاۃ تسلیمۃً تلقاء وجھہ ثم یمیل الی الشق الایمن شیئا۔ (رواہ الترمذی)
        حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نماز میں سلام کہتے تھے سامنے کے رخ پھر دائیں طرف کو کچھ رخ پھیر لیتے تھے۔
        ملا علی قاری رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
        ای یبداء بالتسلیم محاذاۃ وجھہ قال ابن حجرای یبتدأ بھا و ھو مستقبل القبلۃ۔
         یعنی سلام کو سامنے کے رخ سے شروع کرتے تھے۔ ابن حجر نے کہا مطلب یہ ہے کہ سلام کی ابتداء کرتے تھے جب کہ آپ قبلہ رخ ہوتے تھے۔
         معارف السنن میں مولانا یوسف بنوری رحمہ اللہ اس حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں۔
         وتأول فیہ بعض المتأولین بان البداء ۃ کان بہ من تلقاء الوجہ ممتدا بہ الی الیمین و مثلہ ذکرہ فی الکوکب الدری… والکیفیۃ ہذہ من ابتدائہ تلقاء الوجہ و انتھائہ فی جانب الیمین ذکرہ فی المجموع و المغنی وہوا لمعمول بہ عندنا۔(معارف السنن ص110 `111 ج 3)
         بعض تاویل کرنے والوں نے یہ تاویل کی کہ ابتدا اس وقت ہو جب چہرہ قبلہ رخ ہو اور اس کو دائیں جانب تک پھیلا دے۔ یہی بات الکوکب الدری میں بھی ذکر کی ہے… کیفیت یوں ہے کہ سلام کی ابتدا سامنے کی طرف ہو اور انتہا دائیں جانب ہو۔ اسی کو مجموع اور مغنی میں ذکر کیا ہے اور اسی پر ہمارے ہاں عمل ہے۔
         حاصل یہ ہے کہ مذکورہ بالا دونوں طریقے حدیث سے ہی نکلتے ہیں، البتہ دوسرے طریقے میں یہ فائدہ بھی ہے کہ اس میں پہلی یعنی حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث پر عمل کو جمع کیا جا سکتا ہے۔ اسی وجہ سے معارف السنن میں مولانا بنوری رحمہ اللہ نے وھوا المعمول بہ عندنا کہہ کر اس طریقے کو ترجیح دی ہے۔
         رہی سلام کی وہ کیفیت جو مغنی میں ابن عقیل سے مذکور ہے اس میں اس حد تک تو اتفاق ہے کہ ابن عقیل رحمہ اللہ نے بھی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں اسی تاویل کو اختیار کیا ہے جو الکوکب الدری میں مذکور ہے لیکن اس تاویل کے تحت کیفیت سلام کی جو مکمل صورت انہوں نے ذکر کی ہے مولانا یوسف بنوری رحمہ اللہ نے معارف السنن میں اس کو اختیار نہیں کیا ہے یعنی یہ کہ السلام علیکم کے کلمات تو قبلہ رخ ہوتے وقت کئے جائیں اور صرف و رحمۃ اللہ کے کلمات دائیں بائیں رخ کرتے ہوئے کہے جائیں اسی وجہ سے انہوں نے معارف السنن میں اس کو ذکر بھی نہیں کیا۔ 
          غرض ابن عقیل رحمہ اللہ کی ذکر کردہ کیفیت سلام کو مولانا بنوری رحمہ اللہ نے وہوالمعمول بہ عندنا نہیں کہا بلکہ تاویل سے اتفاق کرتے ہوئے اس سے کچھ مختلف کیفیت کو اختیار کیا ہے یعنی چہرہ ابھی قبلہ رخ ہو کہ سلام کہنا شروع کرے خواہ اس حالت میں آدھے لفظ ہی کی ادائیگی کی ہو اور پھر رخ پھیرنے کے دوران کہتا جائے اور انتہا دائیں یا بائیں رخ ہونے پر ہو۔ اسی کو انہوں نے  وہو المعمول بہ عندنا کہا ہے اور اسی کا قول ابن حجر اور ملا علی قاری رحمہمااللہ نے کیا ہے۔
           لہٰذا جب کہ لوگوں کا عمل حدیث پر ہی ہے تو اس کے مقابلہ میں ابن عقیل کی ذکر کردہ کیفیت کو مسنون طریقہ بتانا اور اس کی اشاعت کرنا کوئی مفید کام نہیں بلکہ لوگوں میں تشویش اور انتشار کا باعث ہے جس سے پرہیز ضروری ہے۔ سو شہیدوں کا ثواب اس سنت کو زندہ کرنے میں ملتا ہے جس کے مقابلے میں بدعت رائج ہو گئی ہو اور جہاں ایک حدیث کی جگہ دوسری حدیث پر عمل ہو رہا ہو یا حدیث کی ایک احتمالی صورت کی جگہ دوسری احتمالی صورت پر عمل ہو رہا ہو تو وہ موقع اس فضیلت کا محل نہیں ہے۔
نیوز لیٹر سبسکرپشن
سبسکرپشن کے بعد آپ ادارہ کے بارے میں تازہ ترین اپ ڈیٹ حاصل کر سکتے ہیں