English

فقہی مضامین

     

تاریخ قراءات متواترہ
اور چند ضروری مباحث

ڈاکٹر مفتی عبد الواحد صاحب

بسم اللہ حامدا و مصلیا
کتابی صورت میں جمع قرآن
          قرآن کا مدار ہمیشہ سے ضبط و حفظ پر رہا ہے مگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت حضور نبی کریم ﷺ کے عہد میں حضور ﷺکے حکم اور ہدایت کے مطابق اس کو لکھتی رہتی تھی اور چونکہ قرآن 23 سال کے عرصہ میں تدریجاً نازل ہوا تھا اس لئے قرآن کے نزول کے وقت ان میں سے جو لوگ حاضر ہوتے تھے وہ لکھ لیتے تھے۔ اس طرح حضور ﷺ کی حیات مبارکہ میں قرآن لکھا جا چکا تھا مگر ایک جگہ جمع نہ تھا بلکہ کاتبین کے پاس ہی متفرق طور سے لکھا ہوا تھا یا بعض حضرات نے اپنے طور پر لکھ رکھا تھا۔ صحابہ کرام کا اصل اعتماد حضور ﷺ کی تعلیم اور اپنے حفظ پر تھا اور ان میں سے بعض کو تمام اور بعض کو نصف، بعض کو چوتھائی اور بعض کو اس سے کم یا زیادہ یاد تھا اور ایسا کوئی نہ تھا جس کو چند سورتیں بھی یاد نہ ہوں۔
          حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے دور خلافت میں 11ھ میں مسلیمہ کذاب کے ساتھ یمامہ کی لڑائی ہوئی۔ اس میں قرآن کے پانچ سو سے زیادہ قراء شہید ہوئے۔ اس سے حضرت عمرؓ کو اندشیہ ہوا کہ کہیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی وفات سے قرآن معدوم نہ ہو جائے۔ انہوں نے حضرت ابوبکر ؓ سے درخواست کی کہ قرآن کو ایک جگہ جمع کرائیں۔ حضرت ابوبکرؓ نے پہلے انکار کیا اور کہا کہ جو کام حضور ﷺ نے نہیں کیا میں اس کو کیسے کروں، مگر پھر حضرت عمر ؓکے متواتر توجہ دلانے سے آمادہ ہو گئے اور حضرت زید بن ثابت انصاری ؓکو اس خدمت پر مامور کیا۔ حضرت زید ؓ اس کو ایک بہت بڑی ذمہ داری کا کام سمجھتے ہوئے کہتے ہیں۔ ’’اگر مجھے پہاڑ کے اٹھانے کا حکم دیا جاتا تو اس سے آسان ہوتا۔‘‘ حضرت زیدؓ نے حافظ ہونے کے باوجود ایک ایک آیت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی گواہی سے لکھی اور تمام قرآن کو جمع کیا، مگر وہ بھی متفرق صحیفے تھے جو پہلے حضرت ابوبکر ؓ کے اور پھر حضرت عمر ؓ کے پاس رہے اور آپ کی شہادت کے بعد ام المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے قبضہ میں آئے۔
         30 ہجری میں حضرت حذیفہ بن الیمان ؓ آرمینیہ و آذر بائیجان کی لڑائیوں میں شریک ہوئے تو انہوں نے دیکھا کہ مسلمان قرآن کی ترتیب وغیرہ کے بارہ میں اختلاف کرتے ہیں اور ہر شخص اپنی قراء ت کو دوسرے کی قراء ت سے بہتر کہتا ہے۔ اس سے جناب موصوف کو بے حد رنج ہوا اور آپ نے مدینہ میں حاضر ہو کر حضرت عثمان ؓ سے عرض کیا کہ ’’اے امیر المومنین قرآن کے متعلق امت محمدی کا تفرقہ مٹایئے اور اس سے قبل کہ ان میں یہود و نصاریٰ کے مانند اختلاف ہو ان کی دست گیری کیجئے۔‘‘ حضرت عثمان ؓ نے وہ صحیفے حضرت حفصہ ؓ سے منگا کر حضرت زید بن ثابت انصاری ؓ حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ ، حضرت عبدالرحمن بن الحارث بن ہشام ؓ اور حضرت سعید  1؎  بن عاص ؓ  قرشیین کو ان کی نقلیں کرنے پر مقرر کیا اور حکم دیا کہ اگر کسی بات میں حضرت زید ؓ  اور باقی حضرات کے درمیان اختلاف ہو تو اس کو لغت قریش میں لکھیں کیونکہ قرآن قریش کی زبان پر نازل ہوا ہے۔

        جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اجماع و اتفاق سے آٹھ 2؎ نقلیں تیار ہو گئیں تو حضرت عثمان ؓ نے ایک ایک نسخہ مکہ معظمہ، بصرہ، دمشق، کوفہ، یمن اور بحرین میں بھیجا اور ایک مدینہ منورہ میں اور ایک خاص اپنے لئے رکھ لیا۔ (اسی کا نام امام ہے اور اسی پر آپ کی شہادت کے وقت آپ کا خون گرا تھا۔ محقق ابن جزری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے زمانہ میں اس کو قاہرہ میں دیکھا تھا اس وقت تک اس پر خون کے نشانات تھے۔ اب یہ مصحف قسطنطنیہ میں ہے۔)۔ انہیں قرآنوں کو مصاحف عثمانیہ ؓ کہتے ہیں اور اس وقت کے صحابہ کا اس پر اجماع ہو گیا تھا کہ جو کچھ ان مصاحف میں نہیں ہے وہ قرآن نہیں ہے۔

         محقق ابن جزری رحمۃ اللہ علیہ النشر میں فرماتے ہیں۔
فکتبت المصاحف علی اللفظ الذی استقر علیہ فی العرضۃ الاخیرۃ عن رسول اللہ ﷺ کما صرح بہ غیر واحد من ائمۃ السلف کمحمد بن سیرین و عبیدۃ السلمانی و عامر الشعبی، قال علی بن ابی طالب ؓ لو ولیت فی المصاحف ماولی عثمان لفعلت کما فعل (ص 8ج 1)۔
         مصاحف اس لفظ پر لکھے گئے جس پر عرضہ اخیرہ میں رسول اللہ ﷺ کو برقرار رکھا گیا تھا۔ (یعنی جو عرضہ اخیرہ میں منسوخ نہیں ہوئے تھے) بہت سے ائمہ سلف مثلاً محمد بن سیرین، عبیدہ سلمانی اور عامر شعبی رحمہم اللہ نے اس کی تصریح کی ہے۔ حضرت علی ؓ کہتے ہیں۔’’مصاحف کے بارے میں جو کچھ عثمان نے کیا اگر مجھے موقع ملتاتو میں بھی وہی کرتا۔‘‘
         محقق ابن جزری رحمۃ اللہ علیہ النشر میں لکھتے ہیں۔
’’ولا شک ان القرآن نسخ منہ و غیر فیہ فی العرضۃ الاخیرۃ فقد صح النص بذلک عن غیر واحد من الصحابۃ و روینا باسناد صحیح عن زر بن حبیش قال قال لی ابن عباس ای القراء تین تقرأ قلت الاخیرۃ قال فان النبی ﷺ کان یعرض القرآن علی جبریل علیہ السلام فی کل عام مرۃ قال فعرض علیہ القرآن فی العام الذی قبض فیہ النبی ﷺ مرتین فشھد عبداللہ یعنی ابن مسعود ما نسخ منہ و ما بدل فقراء ۃ عبداللہ الاخیرۃ۔
          واذا قد ثبت ذلک فلا اشکال ان الصحابۃ کتبوا فی ہذا المصاحف ماتحققوا انہ قرآن و ما علموہ استقر فی العرضۃ الاخیرۃ و ما تحققوا صحتہ عن النبی ﷺ ممالم ینسخ و ان لم تکن داخلۃ فی العرضۃ الاخیرۃ ولذلک اختلفت المصاحف بعض اختلاف اذ لو کانت العرضۃ الاخیرۃ فقط لم تختلف المصاحف بزیادۃ نقص وغیر ذلک و ترکوا ما سوی ذلک و لذلک لم یختلف علیھم اثنان حتی ان علی بن ابی طالب ؓ لما ولی الخلافۃ بعد ذلک لم ینکر حرفا ولا غیرہ مع انہ ہو الراوی ان رسول اللہ ﷺ یا مرکم  ا ان تقرؤا القرآن کما علمتم و ہو القائل لو ولیت من المصاحف ما ولی عثمان لفعلت کما فعل…
           ثم ان الصحابۃ رضی اللہ عنھم لما کتبوا تلک المصاحف جردوھا من النقط والشکل لیحتملہ ما لم یکن فی العرضۃ الاخیرۃ مماصح عن النبی ﷺ و انما اخلوا المصاحف من النقط والشکل لتکون دلالۃ الخط الواحد علی کلا اللفظین المنقولین المسموعین المتلوین شبیھۃ بدلالۃ اللفظ الواحد علی کلا المعنیین المعقولین المفھومین فان الصحابۃ رضوان اللہ علیھم تلقوا عن رسول اللہ ﷺ ما امرہ اللہ تعالیٰ بتبلیغہ الیھم من القرآن لفظہ و معناہ جمیعا ولم یکونوا لیسقطوا شیئا من القرآن الثابت عنہ ﷺ ولا یمنعوا من القرائۃ بہ (ص 32 ج النشر)۔
            ترجمہ: اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ عرضہ اخیرہ میں قرآن میں نسخ اور تغیر ہوا۔ اس کی تصریح صحیح سند سے بہت سے صحابہ سے منقول ہے۔ صحیح سند سے ہے زر بن حبیشؒ کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے مجھ سے پوچھا تم کون سی قراء ت پڑھتے ہو تو میں نے جواب دیا کہ آخری والی۔ پھر یہ وضاحت کی کہ نبی ﷺ جبریل علیہ السلام کو ہر سال میں ایک مرتبہ قرآن پاک سناتے تھے اور جس سال آپ ﷺ کا انتقال ہوا اس سال آپ نے حضرت جبریل کو دوبار قرآن سنایا تو اس وقت جو کچھ نسخ اور تبدیلی ہوئی حضرت عبداللہ بن مسعودؓ اس کے شاہد اور گواہ ہیں اور ان کی قراء ت آخری قراء ت ہے۔ 
            جب یہ ثابت ہوا تو اس میں کچھ اشکال نہیں رہا کہ ان مصاحف میں صحابہ رضی اللہ عنہم نے صرف وہی کچھ لکھا جس کی ان کو تحقیق تھی کہ وہ قرآن ہے اور جو عرضہ اخیرہ کے وقت قائم رہا تھا اور نبی ﷺ سے جس کی صحت ثابت تھی اور منسوخ نہیں ہوا تھا اگرچہ نبی ﷺ نے عرضہ اخیرہ میں اس کو پڑھا نہیں تھا۔ اسی وجہ سے مصاحف میں بعض اختلاف نظر آتا ہے۔ کیونکہ اگر قرآن فقط وہی ہوتا جو نبی ﷺ نے عرضہ اخیرہ میں پڑھا تھا تو مصاحف میں زیادت اور کمی کا اختلاف اور دیگر اختلاف نہ ہوتے اور صحابہ نے عرضہ اخیرہ میں جو کچھ پڑھا گیا تھا اس کے علاوہ کو ترک کر دیا ہوتا۔ اسی لئے صحابہ کے اس عمل پر کسی دو کا بھی اختلاف نہیں ہوا یہاں تک کہ حضرت علی ؓ جو خود اس بات کے راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ تم کو حکم دیتے ہیں کہ تم (میں سے ہر ایک) اس طرح قرآن پڑھو جیسے تم سکھلائے گئے ہو جب انہوں نے خلافت کی ذمہ داری سنبھالی تو نہ کسی حرف کو غلط کہا اور نہ ہی اس میں کچھ تبدیلی کی اور فرمایا کہ مصاحف کے بارے میں جو کچھ عثمان ؓ نے کیا اگر مجھے موقع ملتا تو میں بھی وہی کرتا۔ پھر صحابہ نے جب یہ مصاحف لکھے تو نقطہ و اعراب سے ان کو خالی رکھا تاکہ ان میں وہ قراء تیں بھی شامل ہو جائیں جو اگرچہ عرضہ اخیرہ میں پڑھی نہیں گئیں لیکن نبی ﷺ سے صحت کے ساتھ ثابت ہیں۔ انہوں نے مصاحف کو جو نقطہ و اعراب سے خالی رکھا تو اس وجہ سے کہ ایک ہی خط کی دلالت دو منقول و مسموع اور متلو لفظوں پر ہو جائے جیسا کہ ایک لفظ (مشترک) کی دو معقول و مفہوم معانی پر دلالت ہوتی ہے۔ کیونکہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے نبی ﷺ سے وہی کچھ سیکھا جس کو لفظ و معنی سمیت ان تک پہنچانے کا اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو حکم دیا تھا اور صحابہ ایسے نہیں تھے کہ نبی ﷺ سے ثابت قرآن میں سے کچھ ساقط کر دیتے اور اس طرح اس کی قراء ت سے روکنے والے بن جاتے۔
یہاں ہم ایک اشکال کا دفعیہ کرتے ہیں۔
اشکال
            محقق ابن جزری رحمۃ اللہ نے عرضہ اخیرہ میں قرآن میں نسخ و تغیر ہونے کی تصریح کی ہے اور مولانا تقی عثمانی مدظلہ مقدمہ معارف القرآن میں لکھتے ہیں کہ ’’اس موقعہ پر بہت سی قراء تیں منسوخ کر دی گئیں اور صرف وہ قراءتیں باقی رکھی گئیں جو آج تک تواتر کے ساتھ محفوظ چلی آتی ہیں۔‘‘
            نیز علوم القرآن میں فرماتے ہیں۔ ’’اس سے صاف ظاہر ہے کہ عرضہ اخیرہ کے وقت بہت سی قراءتیں خود اللہ تعالیٰ کی جانب سے منسوخ قرار دے دی گئی تھیں‘‘۔
جواب
            ہم کہتے ہیں کہ مولانا کی بات سے معلوم ہوتا ہے کہ قراء ات عشرہ جو آج تک تواتر کے ساتھ محفوظ چلی آتی ہیں ان کے علاوہ باقی قراء تیں عرضہ اخیرہ کے وقت منسوخ ہو گئی تھیں۔ یہ بات صحیح نہیں کیونکہ امام ابو محمد مکی فرماتے ہیں کہ ’’کتابوں میں ان ستر صاحب اختیار ائمہ کی قراء ات مذکور ہیں جو قراء سبعہ سے مقدم تھے‘‘۔ اور محقق نے اپنے اس قول میں نہ تو یہ تصریح کی ہے کہ عرضہ اخیرہ میں مرادفات کا نسخ ہوا اور نہ ہی اس کو صراحت سے ذکر کیا ہے کہ اور قسم کی قراءات منسوخ ہوئی تھیں۔ انہیں نے صرف نسخ اور تغیر کا ذکر کیا ہے اور جیسا کہ ہم حروف سبعہ کی شرح میں وضاحت سے ذکر کر چکے ہیں اس نسخ و تغیر کا اصل مصداق صرف مرادفات ہیں۔ کسی اور قراء ت کو منسوخ ماننا محتاج دلیل ہے۔ زربن حبیش رحمۃ اللہ علیہ کا یہ قول کہ ’’حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے مجھ سے پوچھا کہ تم دو میں سے کونسی قراء ت پڑھتے ہو اور میں نے کہا کہ آخری‘‘ اس کو مرادفات کے علاوہ بعض دیگر قراء ات کے نسخ پر دلیل بنانا واضح بھی نہیں ہے اور صحیح بھی نہیں۔
صحابہ کرام ؓ اور تابعین میں سے شیوخ قراء ات
            صحابہ کرام ؓ  سب کے سب قاری (3) تھے پھر ان میں سے بعض حافظ اور بعض خصوصیت کے ساتھ معلم قراء ات تھے۔ امام ابو عبید قاسم ؓ  بن سلام ان معلمین قراء ات کے متعلق کتاب القراء ات میں کہتے ہیں۔ ’’مہاجرین میں سے حضرت ابو بکرؓ ، حضرت عمر ؓ ، حضرت عثمان ؓ ، حضرت علی ؓ ، حضرت طلحہ ؓ ، حضرت سعد ؓ ، حضرت ابن مسعود ؓ ، حضرت حذیفہ ؓ ، حضرت ابو موسیٰ ؓ ، حضرت سالم ؓ ، حضرت ابوہریرہ ؓ ، حضرت ابن عمر ؓ ، حضرت معاویہ ؓ ، حضرت عبداللہ بن السائب ؓ  ، امہات المومنین حضرت عائشہ، حضرت حفصہ، حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہن اور انصار میں سے حضرت ابی ؓ ، حضرت معاذ ؓ ، حضرت ابوالدرداء ؓ ، حضرت زید ؓ ، حضرت ابوزید ؓ ، حضرت مجمع بن جاریہ ؓ ، حضرت انس بن مالک ؓ ، سے وجوہ قراء ات منقول ہیں، ‘‘ اسی گروہ میں سے حضرت عیاش ؓ اور آپ کے فرزند ابو الحارث عبداللہ بن عیاش قرشی ؓ ، حضرت فضالہ بن عبید انصاری ؓ ، اور حضرت واثلۃبن اسقع لیثی ؓ  ہیں۔
           ان میں سے اکثر حضرات نے حضور نبی ﷺ سے براہ راست اور بعض نے دوسرے صحابہ کے واسطہ سے قرآن پڑھا تھا اور تمام جماعت روزانہ حضور ﷺ کی زبان مبارک سے سنتی رہتی تھی۔ اس برگزیدہ جماعت نے ہر حرکت و اسکان اور حذف و اثبات کو حضور ﷺ سے ضبط کیا تھا اور جس طرح پڑھا تھا اسی طرح تابعین کو پڑھا دیا۔
           صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بعد قرآن پڑھانے والے تابعین عظام ہیں جو اسلامی دنیا کے ہر گوشہ میں موجود تھے۔ ان میں سے پانچوں اسلامی مرکزوں میں حسب ذیل حضرات خصوصیت کے ساتھ قراء ات کے معلم تھے۔
           مدینہ طیبہ میں حضرت امام زین العابدینؒ،  سید التابعین حضرت سعید بن مسیبؒ، حضرت عروہ بن زبیرؒ ، حضرت سالم بن عبداللہؒ ،، حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ، حضرت سلیمان بن یسار و حضرت عطاء بن یسارؒ، حضرت معاذ بن حارث معروف بمعاذ قاری، حضرت امام محمدد بن ہرمز الاعرجؒ، حضرت محمد بن شہاب الزہریؒ، حضرت مسلم بن جندب ہذلی قاضی، حضرت زید بن اسلم، حضرت یزید بن رومان، حضرت صالح بن خوات، حضرت عکرمہ بربری مولی حضرت ابن عباسؒ ،حضرت امام جعفر صادق  ؒ وغیرہ۔
           مکہ معظمہ میں حضرت عبید بن عمیر، حضرت عطاء ابن ابی رباح، حضرت طائوسؒ ، حضرت مجاہد بن جبرؒ ، حضرت عکرمۃ بنن خالدؒ ، حضرت ابن ابی ملیکۃؒ ، حضرت درباس، مولی حضرت ابن عباس ؒ وغیرہ۔
           کوفہ میں حضرت علقمہ بن قیس، حضرت اسود بن یزید، حضرت عبیدہ بن عمرو، حضرت عمرو بن شرحبیل، حضرت مسروق بنن اجدع، حضرت عاصم بن ضمرہ سلولیؒ، حضرت زید بن وہبؒ، حضرت حارث بن قیس، حضرت حارث بن عبداللہ الا عور ہمدانی، حضرت ربیعع بن خثیم، حضرت عمرو بن میمون، حضرت ابو عبدالرحمن سلمی، حضرت زر بن حبیش، حضرت سعد بن الیاس، حضرت عبید بن نضیلہ، حضرت ابوزرعۃ بن عمرو بن جریر، حضرت سعید جبیر والبی، حضرت ابراہیم بن یزید بن قیس، حضرت عامر شعبی حضرت حمران بن اعین، حضرت ابو اسحاق سبیعی، حضرت منصور بن معتمر بن مقسم ضبی ضریر، حضرت زائدہ بن قدامہ حضرت منہال بن عمر واسدی وغیرہ۔
          بصرہ میں حضرت عامر بن عبدقیس، حضرت ابو العالیۃؒ، حضرت ابوالرجاء، حضرت نصر بن عاصم، حضرت قتادہ، حضرت ابوو الاسود دولی، حضرت عطان بن عبداللہ رقاشی وغیرہ۔
          دمشق میں حضرت مغیرہ بن ابی شہاب اور حضرت خلید بن سعد وغیرہ۔
           ان میں سے بعض نے حضرات صحابہ کرام سے براہ راست اور بعض نے تابعین کے واسطہ سے قرآن پڑھا تھا اور ہر حرف کو ضبط کیا تھا پھر بعض نے اپنا تمام وقت اور بعض نے اکثر اور بعض نے ایک حصہ خدمت قرآن کے لئے وقف کر رکھا تھا۔
صاحب اختیار ائمہ قراء ات
           انہیں تابعین اور تبع تابعین میں سے وہ حضرات ہیں جنہوں نے سب کچھ چھوڑ کے اپنے آپ کو خدمت قرآن کے لئے وقف کر دیا۔ حصول قراء ات اور ان کے ضبط و حفظ میں انتہائی جدوجہد کی حتی کہ مقتدائے روز گار ائمہ بن گئے۔ ان میں سے بعض نے کئی کئی صحابہ کرام سے اور بعض نے صحابہ کرام اور تابعین سے اور بعض نے صرف تابعین سے اور بعض نے تابعین اور تبع تابعینؒ سے قرآن پڑھا۔ ان ائمہ میں سے ہر ایک نے اپنے اساتذہ کی تعلیم کردہ وجوہ قراء ات میں سے عربیت میں اقویٰ اور موافق رسم وجوہ سے اپنے لئے جدا جدا قراء ات اختیار کر لیں اور عمر بھر انہی کو پڑھتے پڑھاتے رہے۔ تمام مفسرین و محدثین اور جملہ فقہاء و مجتہدین ان کی اختیار کردہ قراء توں کو بلا عذر قبول کرتے تھے اور مذکورہ بالا اسلامی مرکزوں میں سے کوئی شخص ان کے ایک حرف کا بھی انکار نہیں کرتا تھا۔ بلکہ دوسری صدی سے دنیائے اسلام میں وہی پڑھی اور پڑھائی جانے لگیں۔ اسلامی ممالک کے بعید ترین علاقوں سے اور ہر شہر و قصبہ سے طلباء سفر کر کے ان سے پڑھنے آتے تھے اور ان قراء توں کو ان کے نام سے منسوب کرتے تھے جو آج تک انہی کے نام سے معنون چلی آتی ہیں۔ ان صاحب اختیار حضرات میں سے …
          مدینہ منورہ میں امام ابو جعفر یزید بن القعقاع قاری، امام شیبۃ بن العصاح قاضی اور ان کے بعد امام نافع بن عبدالرحمن تھے۔
          مکہ معظمہ میں امام عبداللہ بن کثیر، امام حمید بن قیس الاعرج امام محمد بن عبدالرحمن بن محیصن سہمی۔ کوفہ میں امام یحییٰ بنن وثاب اسدی، امام عاظم بن ابی النجود، امام سلیمان بن مہران الا عمشؒ، ان کے بعد امام حمزہ بن حبیب الزیات، پھر امام ابوالحسن علی الکسائیی پھر امام خلف بن ہشام البزار تھے۔
         بصرہ میں امام عبداللہ بن ابی اسحق حضرمی، امام عیسی بن عمروؒ و ہمدانی ضریر، امام ابو عمروؒ بن العلاءؒ ان کے بعد امام عاصمؒ بنن حجاج حجدری، پھر امام یعقوبؒ بن اسحاق حضرمی تھے۔
         دمشق میں امام عبداللہ بن عامر، امام عطیہؒ بن قیس کلابی، امام اسماعیلؒ بن عبداللہ بن مہاجر۔ ان کے بعد امام یحییٰ بن حارث ذماری،، پھر امام شریح بن زید حضرمی مشہور صاحب اختیار ائمہ تھے۔
         اختیار قراء ات کا یہ سلسلہ بے حد وسیع تھا جو صدیوں جاری رہا اور خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ کتنے صاحب اختیار ائمہ پیدا ہوئے۔     امام ابو محمد مکی کہتے ہیں ’’کتابوں میں ان ستر صاحب اختیار ائمہ کی قراء ات مذکورہ ہیں جو قراء سبعہ سے مقدم تھے۔‘‘ اس سے قیاس کریں کہ ان کے ہم مرتبہ اور ان سے کم اور کمتر کتنے ائمہ ہوں گے۔
         ائمہ کے تلامذہ اور رواۃ ان گنت تھے اور پھر ان میں سے ہر ایک کی جانشین ایک قوم بنی جن کے تعداد خدائے تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا اور نہ کسی مصنف کی یہ طاقت ہے کہ ان کا پورا شمار کر سکے۔
         قراء ات سبعہ صاحب اختیار ائمہ کے صرف دو دو شاگرد جو زیادہ معروف ہوئے ذکر کئے جاتے ہیں۔ یہ راوی کہلاتے ہیں اور پھر راویوں سے مثلا علامہ دانی صاحب تیسیر رحمۃ اللہ علیہ تک جن واسطوں سے قراء ات پہنچیں ان کو طرق کہتے ہیں۔

قاریراویطرق
1.نافع مدنی1. قالون1. ابو نشیط، 2. ابو حسان، 3. ابن بویان، 4. ابراہیم بن عمر مقری، 5. عبد الباقی، 6. ابو الفتح
2. ورش1. ازرقا، 2. نحاس، 3. تجیبی، 4. ابو القاسم خاقانی
2. ابن کثیر مکی1. بزی1. ابو ربیعہ، 2. نقاش، 3. ابو القاسم فارسی
2. قنبل1. ابن مجاہد، 2. ابو احمد سامری، 3. ابو الفتح
3. ابو عمرو بصری1. دوری1. ابن عبدوس، 2. ابن مجاہد، 3. عبد الواحد، 4. ابو القاسم فارسی
2. سوسی1. ابن جریر، 2. ابو احمد سامری، 3. ابو الفتح
4.ابو عامر شامی1. ہشام1. الحلوانی، 2. ابن عبدان
2. ابن ذکوان1. اخفش، 2. نقاش، 3. ابو القاسم فارسی
5.عاصم کوفی1. ابوبکر

1. بحیی، 2. صریفینی، 3. الاصم، 4. ابراہیم بن عبد الرحمن، 5. عبد الباقی، 6. ابو الفتح

2. حفص1. عبید، 2. شنانی، 3. ہاشمی، 4. ابو الحسن
6.حمزہ1. خلف1. ادریس حداد، 2. ابن بویان، 3. حرتکی، 4. ابو الحسن
2. خلاد1. جوہری، 2. ابن شنبوذ، 3. ابو احمد سامری، 4. ابو الفتح
7. کسائی1. ابو الحارث

1. کسائی صغیر، 2. بطی، 3. زید بن علی، 4. عبد الباقی، 5. ابو الفتح

2. دوری1. ابو الفضل، 2. ابن جلندا، 3. عبد الباقی، 4. ابو الفتح

سلسلہ اختیار کی وجہ
          کلمات قرآنی کی دو قسمیں ہیں۔ ایک متفق علیہ جن کو تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ایک طرح پڑھا ہے۔ان میں کوئی اختلاف نہیں تھا۔ دوسری مختلف فیہ جن کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے لغوی اختلاف یا نحوی وجوہ کی بناء پر مختلف طرح پڑھا ہے۔
          دونوں قسم کے الفاظ منزل من اللہ اور نبی ﷺکے تعلیم کردہ ہیں۔ مثلاً ایک صحابی ؓ نے صلہ، اظہار، تسہیل اور فتح کے ساتھ پڑھنا سیکھا۔ دوسرے نے غیر صلہ، اظہار، تسہیل اور فتح کے ساتھ سیکھا۔ تیسرے نے غیر صلہ، ادغام، تسہیل اور امالہ کے ساتھ پڑھنا سیکھا۔ اس طرح اور بہت سے شکلیں ہو سکتی ہیں۔
           مثلاً ان چار اختلافی وجوہ میں کل سولہ شکلیں بنتی ہیں جو یہ ہیں۔

1.صلہاظہارتسہیلفتح
2.//ادغام////
3.//اظہارتحقیق//
4.//ادغام////
5.//اظہارتسہیلامالہ
6.////تحقیق//
7.//ادغامتسہیل//
8.////تحقیق//
9.ترک صلہاظہارتسہیلفتح
10.//ادغام////
11.//اظہارتحقیق//
12.//ادغام////
13.//اظہارتسہیل امالہ
14.////تحقیق//
15.//ادغامتسہیل//
16.////تحقیق//

             ان چار قسم کے اختلافات میں اتنی بہت سی شکلیں بن گئیں۔ ان کے ساتھ جب ہم دیگر اختلافات کو بھی ملائیں خواہ وہ اصول کے ہوں جیسے مد و قصر اور تفخیم اور ترقیق اور یاء ات اضافت کا اختلاف، حرکت و اسکان یا حذف و اثبات وغیرہ یا وہ فرش کے ہوں جیسے حذف و اثبات یا افراد و جمع یا معروف و مجہول وغیرہ تو پھر اور بہت سی شکلیں بن سکتی ہیں۔ چونکہ ان اختلافات کی کوئی ترتیب بعینہ واجب نہ تھی لہٰذا تابعین و تبع تابعینؒ نے اپنے اساتذہ کی قراء ات سے شرائط کی پابندی کرتے ہوئے نئی ترتیب سے قراء ات اختیار کر لیں۔ یعنی ممکنہ شکلوں میں سے دوسری شکلیں اختیار کر لیں۔ اسی وجہ سے صدر اول کی قراء ات کا کوئی شمار نہیں بتایا۔ محقق کہتے ہیں ’’امام ابوعبیدؒ، قاضی اسمٰعیلؒ اور امام ابو جعفرؒ ابن جریر طبری نے اپنی کتابوں میں قراء سبعہ سے مقدم وہ پندرہ قراء ات بیان کی ہیں جو صحابہ کرامؓ کے عہد میں پڑھی جاتی تھیں اور جن سے وہ نماز پڑھتے تھے۔

قراء ت، روایت اور طریقہ کا فرق
           اگر کسی قراء ت کے تمام راوی اس پر متفق ہیں تو یہ قراء ت کہلاتی ہے اور اگر کسی قراء ت کے رواۃ میںاختلاف ہے مگر روایت کے طرق متحد ہیں تو یہ روایت کہلاتی ہے اور اگر راوی کے شاگردوں میں اختلاف ہے خواہ کسی طبقہ میں ہو تو یہ طریقہ کہلاتا ہے۔
           مثلاً امام عاصم سے جب ان کے تمام شاگرد یعنی راوی مثلاً حفص اور شعبہ ان کی کسی اختیار کردہ قراء ت پر متفق ہوں تو وہ قراء ت کہلاتی ہے۔ اور اگر ان کی کسی اور اختیار کردہ قراء ت کو نقل کرنے میں ان کے شاگردوں کا اختلاف ہو مثلاً حفص اس کو روایت کرتے ہوں شعبہ نہ کرتے ہوں تو یہ امام عاصم سے حفص کی روایت کہلائے گی۔ اسی طرح شعبہ امام عاصم کی کسی اختیار کردہ قراء ت کو نقل کرتے ہوں جس کو حفص نقل نہ کرتے ہوں تو وہ امام عاصم سے شعبہ کی روایت کہلائے گی۔
           پھر مثلاً حفص کی روایت بھی اس وقت کہلائے گی جب حفص کے تمام شاگرد اس کو نقل کرنے میں متفق ہوں۔ اگر ان کے شاگرد ان سے کوئی اور قراء ت نقل کرنے میں مختلف ہوں جیسے عبید ایک طرح سے پڑھتے ہوں اور دیگر شاگرد دوسرے طریقے سے پڑھتے ہوں تو ان میں سے ہر ایک کے نقل کردہ کو طریقہ کہتے ہیں۔
           غرض یہ کہ قراء ت ہو یا روایت یا طریقہ وہ سب در حقیقت امام عاصم سے ہی منقول ہوں گے لیکن جس قراء ت میں نیچے تک اتفاق ہوں اس کو تو امام عاصم کی قراء ت کہتے ہیں اور جس میں حفص و شعبہ کا اختلاف ہو لیکن پھر ان کے شاگرد سب متفق ہوں تو اس کو حفص یا شعبہ کی روایت کہتے ہیں اور جس قراء ت میں ان کے شاگردوں کا بھی باہم اختلاف ہو تو اس کو مثلاً طریقہ عبید کہتے ہیں۔
خلاصہ کلام
            یہ ہے کہ حضرات صحابہ کرامؓ جن جن وجوہ پر قرآن پڑھتے تھے وہ سب صحیح اور منزل من اللہ تھیں یعنی ہر صحابیؓ کو جو حرف نبی ﷺ نے پڑھایا تھا وہ ان کے لئے کسی کی تائید و تصدیق اور کسی گواہ کے بغیر بھی حجت تھا۔ پھر جب صحابہ کرام ؓ نے مصاحف عثمانیہ پر اجماع کر لیا تو امت کے لئے ان کا اتباع ضروری ہو گیا۔
            حضرات تابعینؒ کبار نے صحابہ کرام سے قرآن پڑھا اور مصاحف عثمانیہ کے مطابق دیگر تابعینؒ و تبع تابعینؒ کو پڑھایا۔ ان دونوں جماعتوں کے متعدد حضرات نے کئی کئی شیوخ سے قرآن پڑھا اور مشہور وجوہ کا انتخاب کر کے اپنے لئے جدا جدا قراء ات اختیار کر لیں اور رسم الخط کا اتباع کرتے ہوئے اپنے اختیار میں آحاد اور غیر مشہور سے اجتناب کیا کیونکہ ان کے بعض واسطوں کے غیر ثقہ یا غیر عادل ہونے کی وجہ سے ان کے حق میں شذوذ و ضعف پیدا ہو گیا تھا اور نیز انہوں نے عربیت میں اقوی وجہ کا لحاظ رکھا۔
ضابطہ قراء ات
            ائمہ کے تلامذہ اور پھر ان کے تلامذہ میں سے بعض ضبط و اتقان روایت و درایت وغیرہ میں کامل امام اور حجت تھے اور بعض میں کسی وصف کی کمی تھی جس سے کچھ اختلاف کا اندیشہ ہونے لگا اس وقت محقق علمائے امت اور مجتہدین ملت کتاب اللہ کی خدمت کے لئے کھڑے ہو گئے انہوں نے طرق و روایت کو جانچا، حروف کی پڑتال کی،متواتر کو آحاد سے، مشہور کو شاذ سے، اور صحیح کو فاسد سے ممتاز کیا اور ان میں فرق کرنے کے لئے ارکان و اصول مقرر کئے اور قبول قراء ات کا حسب ذیل ضابطہ بنایا جو تین ارکان پر مشتمل ہے جو یہ ہیں۔
1. قراء ت عربیت کے موافق ہو اگرچہ یہ موافقت بوجہ (4) ہو۔
2. مصاحف عثمانیہ میں سے کسی ایک 5؎ کے رسم الخط کے مطابق ہو خواہ یہ مطابقت  احتمالاً 6؎ ہو۔
3. صحیح و متصل سند سے ثابت ہو اور ائمہ فن کے یہاں مشہور 7؎ ہو۔
            جس قرآء ت میں یہ تینوں باتیں پائی جاتی ہوں وہ قراء ت صحیح اور ان حروف سبعہ میں سے ہے جن پر قرآن نازل ہوا۔
            محقق ؒ کہتے ہیں۔ ’’جو قراء ۃ اس طرح ثابت ہو یعنی اس ضابطہ پر پوری اترتی ہو اس کا ردو انکار جائز نہیں بلکہ مسلمانوں پر اس کا قبول کرنا واجب ہے خواہ ائمہ سبعہ کی قراء ات ہوں یا عشرہ کی ہوں یا ان کے علاوہ کی ہوں۔ اگر مذکورہ ارکان ثلثہ میں سے کوئی رکن مختل ہو جائے تو وہ ضعیف، شاذیا فاسد و باطل ہے خواہ سبعہ سے ہو یا مافوق سبعہ سے ہو۔ تمام محققین ائمہ سلف و خلف اس تعریف کو صحیح کہتے ہیں۔
            حافظ ابو عمرو دانی، ابو محمد مکی مہدوی نے بھی یہی تصریح کی ہے باقی تمام متقدمین کا بھی یہی مذہب ہے اور ان میں سے کوئی اس کے خلاف نہیں۔‘‘
            حافظ ابو شامہ مرشد الوجیز میں کہتے ہیں، ہر اس قراء ت کو جو ائمہ سبعہ کی جانب منسوب ہو اور صحیح کہلاتی ہو اسی وقت منزل من اللہ اور صحیح کہہ سکتے ہیں، جب وہ اس ضابطہ میں آ جائے اور ضابطہ کے ساتھ مطابقت کی صورت میں کوئی مصنف اس کی نقل میں متفرد نہیں ہو سکتا اور نہ وہ کسی امام سے مختص ہو سکتی ہے۔ اصل اعتماد ان اوصاف ثلثہ پر ہے نہ انتساب پر۔ اور بیشک ہر قراء ت میں خواہ سبعہ میں سے ہو یا غیر سبعہ سے صحیح اور شاذ دونوں قسم کی وجوہ پائی جاتی ہے۔ البتہ قراء ات سبعہ میں شہرت اور متفق علیہ صحیح وجوہ کی کثرت کی وجہ سے طمانینت اور میلان خاطر زیادہ ہوتا ہے۔‘‘
صحت قراء ت کے لئے بعض متاخرین کا تواتر کو شرط کہنا صحیح نہیں
            ابو شامہ مرشد الوجیز میں کہتے ہیں۔ ’’متاخرین مقریوں اور ان کے مقلدین کی زبان پر چڑھا ہوا ہے کہ قراء ات سبعہ بتمام و کمال متواتر ہیںیعنی قراء سبعہ سے جو حرف منقول ہے وہ متواتر منزل من اللہ اور واجب التسلیم ہے۔ ہم بھی یہی کہتے ہیں مگر صرف ان حروف کے بارے میں جن کو ائمہ سے نقل کرنے میں تمام طرق اور رواۃ متفق ہیں اور کوئی منکر نہیں۔ جب کہ بعض حروف میں تفرقہ و اختلاف شائع اور مشہور ہے۔ پس اس حال میں کم از کم ان حروف کے اندر تو یہ ضابطہ ماننا پڑے گا جن میں تواتر ثابت نہیں ہوا‘‘۔
(1) مقصد یہ ہے کہ اس قراء ۃ کو عادل ضابط نبی ﷺ تک اپنے مثل سے روایت کرتے ہوں اور ائمہ ضابطین کے نزدیک مشہور بھی ہو۔ یعنی غلط اور شاذ نہ سمجھی جاتی ہو۔
            محقق ابن جزری رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں۔ بعض متاخرین نے صحت قراء ۃ کے لئے رسم و عربیت کی موافقت کے ساتھ تواتر کی شرط لگائی ہے اور صحت سند کو کافی نہیں سمجھا۔ وہ کہتے ہیں کہ تواتر کے بغیر قرآن ثابت نہیں ہو سکتا، مگر ان لوگوں نے یہ خیال نہیں کیا کہ جب کوئی حرف تواتر سے ثابت ہو جائے تو اس کے لئے نہ عربیت کی موافقت کی شرط ہے اور نہ رسم کی مطابقت کی بلکہ اس کا قبول کرنا بلا شرط واجب ہے، کیونکہ وہ قطعاً قرآن ہے۔ لیکن جب ہم ہر حرف کے لئے تواتر کی شرط لگا دیں تو قراء سبعہ کی بہت سی اختلافی وجوہ مرتفع ہو جائیں گی۔ (یعنی ان کے ثبوت کی کوئی بنیاد باقی نہیں رہے گی۔) پہلے میرا بھی یہی خیال تھا مگر جب مجھے اس کی خرابی معلوم ہوئی تو میں نے ائمہ سلف کی رائے کی جانب رجوع کر لیا۔‘‘
            حضرت محققؒ نے متاخرین کی جس رائے کا ذکر کیا ہے وہ چھٹی صدی کے بعد بعض علمائے مصر نے قائم کی تھیں۔ جس پر وہ صدیوں قائم رہے، چنانچہ علامہ سیدؒ غیث النفع میں کہتے ہیں۔ ’’مذاہب اربعہ کے فقہا اور اصولی اور تمام محدثین و قراء کا مذہب ہے کہ صحت قراء ۃ کے لئے تواتر شرط ہے۔‘‘ اس کے بعد مذکورہ بالا ضابطہ نقل کر کے وہ ان الفاظ سے اس ضابطہ کی تردید کرتے ہیں۔ ’’یہ بدعت ہے جس سے غیر قرآن، قرآن کے مساوی ہو جاتا ہے۔ اور اختلاف قراء ۃ سے تواتر کے ثبوت میں کوئی خرابی نہیں آتی کیونکہ ایک قراء ۃ کسی قوم کو متواتراً پہنچی اور دوسری کو نہیں پہنچی۔ اسی وجہ سے کسی قاری نے دوسرے کی قراء ت نہیں پڑھی۔ کیونکہ وہ اس کو تواتر کے طریق سے نہیں پہنچی تھی۔‘‘ الخ پھر کہتے ہیں۔ ’’جومتواتر نہیں وہ شاذ ہے اور اس وقت عشرہ کے علاوہ ہر قراء ت شاذ ہے۔‘‘
            سیدؒ نے شدت سے کام لیا ہے ورنہ مندرجہ ذیل وجوہات کی بناء پر ایسا کہنا صحیح نہیں:
اول: اصولی فقہاء و محدثین کہتے ہیں کہ قرآن متواتر ہے یہ نہیں کہتے کہ اس کی ہر اختلافی وجہ متواتر ہے۔ باقی رہے قراء تو ان میں سےے مشاہیر ائمہ کا مسلک اوپر بیان ہوا اور حضرت محققؒ کی اس تصریح کے بعد کہ جملہ اسلاف کا یہی مذہب ہے اور ان میں سے کوئی اس کےے خلاف نہیں سید کا پہلا دعویٰ قابل قبول نہیں۔
دوم: قراء ات سبعہ اور عشرہ کی ہر اختلافی وجہ کے متواتر ہونے کا کسی نے دعویٰ بھی نہیں کیا بلکہ علامہ دانی وغیرہ کی تصریحات اسس کے متواتر ہونے کے خلاف موجود ہیں۔ 
سوم: کسی وجہ کے غیر متواتر ہونے سے یہ لازم تو نہیں آتا کہ وہ ضرور شاذ ہے جب کہ ان کے درمیان صحیح و مشہور کا مرتبہ اور موجودد ہے۔ خود سیدؒ اور دیگر شیوخ مصر نے اپنی کتابوں میں ایسی وجوہ بیان کی ہیں۔ اور سید ؒ کا یہ کہنا کہ کسی قاری نے دوسرے کی قراء ۃ اسس لئے نہیں پڑھی کہ وہ اسے تواتر سے نہیں پہنچی بے معنی بات ہے۔ شاید وہ رواۃ اور طرق  کے اختلاف کے بارہ میں بھی یہی کہیں گے حالانکہ وہاں تو شیخ اور امام ایک ہی ہے اور آیا یہ ممکن ہے جو وجہہ عاصمؒ اور ابن کثیر کو تواتر سے پہنچی ہو وہ بصریؒ کو جو ان کے شاگرد ہیں نہیں پہنچی اور جو حرف حمزہؒ کو پہنچا وہ کسانیؒ کو نہیں پہنچا حالانکہ یہ امام حمزہ کے شاگرد ہیں۔ ہر گز نہیں۔
           حق بات وہی ہے جو ائمہ سلف نے بیان کی اور نتیجہ بحث یہ ہے کہ قرآن میں جو الفاظ پڑھے جاتے ہیں ان کی تین قسمیں ہیں۔
(1) جو سب کے نزدیک بالا تفاق متواتر ہے۔ اس میں کوئی اختلاف نہیں ہو سکتا۔
(2) جو ایک جماعت کے نزدیک متواتر ہو۔ جن حضرات کو تواتر سے پہنچی ان کے طرق کا اس پر اجماع و اتفاق ہونا چاہئے۔
           ان دونوں قسموں کے الفاظ کے لئے نہ عربیت کی موافقت کی شرط ہے اور نہ رسم کی مطابقت کی، مگر امر واقع میں ناممکن ہے کہ یہ عربیت کی کسی وجہ کے اور رسم کے احتمالاً مطابق نہ ہو کیونکہ متواتر ہونے کی صورت میں اس کا نبی ﷺ سے منقول ہونا اور اس کا منجانب اللہ ہونا قطعی ہو گا جو عربیت کے مخالف نہیں ہو سکتا۔
(3) صحیح و مشہور جس کو نبی ﷺ سے ثقہ و ضابطہ و عادل بسند متصل روایت کریں اور ائمہ فن کے نزدیک مشہور ہو مگر تواتر کی حد کو نہ پہنچی ہو اس کو اسی شرط سے قبول کیا جائے گا کہ وہ اس ضابطہ کے موافق ہو ورنہ ضعیف و شاذو یا باطل ہے۔ کمامر۔
اشکال
           جب نبی ﷺ سے صاحب اختیار تک تواتر شرط نہیں ہے صرف صحت نقل کافی ہے تو قراء ات کو متواتر کیونکر کہا جا سکتا ہے ؟
جواب
          مناھل العرفان فی علوم القرآن میں عبدالعظیم زرقانیؒ لکھتے ہیں۔
          ان ہذہ الارکان الثلاثۃ تکاد تکون مساویۃ للتواتر فی افادۃ العلم القاطع بالقراء ات المقبولۃ۔ بیان ہذہ المساواۃ ان ماا بین دفتی المصحف متواتر و مجمع علیہ من الائمۃ فی افضل عھودھا و ھوعھد الصحابۃ فاذا صح سند القراء ۃ و  وافقتت  قواعد اللغۃ ثم جاء ت موافقۃ لخط ہذا المصحف المتواتر کانت ہذہ الموافقۃ  قرینۃ علی افادۃ ہذا الروایۃ للعلم القاطع وان کانت احادا ولا تنس ما ھو مقرر فی علم الائر من ان خبر الآحاد یفید العلم اذا احتفت بہ قرینۃ تو جب ذلک۔
          فکان التواتر کان یطلب تحصیلہ فی الاسناد قبل ان یقوم المصحف وثیقۃ متواترۃ بالقرآن۔ اما بعد وجود ہذا المصحف المجمع علیہ فیکفی فی الروایۃ صحتھا و شھر تھا حتی وافقت رسم ہذا المصحف ولسان العرب۔
          قال صاحب الکواکب الدریۃ نقلا عن المحقق ابن الجزری مانصہ قولنا ’’وصح سندھا‘‘ نعنی بہ ان یروی تلک القراء ۃ العدل الضابط عن مثلہ و ہکذا حتی ینتھی و تکون مع ذلک مشہورۃ عند ائمۃ ہذا الشان الضابطین لہ غیر معدودۃ عندھم من الغلط او مما شذ بہ بعضھم۔(ص 421، 420)
          ترجمہ: مقبول قراء ات کے بارے میں (ضابطہ کے) یہی تین ارکان علم قطعی کا فائدہ دینے میں تواتر کے مساوی ہیں۔ اس مساوات کا بیان یہ ہے کہ مصحف کے اندر (کتابت شدہ صورت میں) جو کچھ ہے اس پر سب سے بہتر زمانہ کے یعنی صحابہ کے زمانے کے ائمہ کا تواتر اور اجماع تھا۔ پھر جب کسی وجہ کی روایت کی سند صحیح ہو تو قواعد لغت اور مصحف متواتر کی رسم کے ساتھ موافقت روایت کے علم قطعی کا فائدہ دینے پر قرینہ بن جاتی ہے اگرچہ روایت آحاد میں سے ہو۔ نیز یہ بھی مت بھولو کہ علم حدیث میں یہ بات طے شدہ ہے کے قرآئن کے ہوتے ہوئے خبر واحد علم قطعی کا فائدہ دیتی ہے۔
           گویامصحف کے متواتر وثیقہ بننے سے پیشتر تو سند میں تواتر کو طلب کیا جا سکتا تھا، لیکن متفقہ مصحف کے وجود کے بعد روایت کی صحت و شہرت ہی کافی ہے جب کہ وہ رسم خط اور عربی زبان کے موافق ہو۔
           کواکب دریہ میں محقق ابن جزری رحمۃ اللہ علیہ سے منقول ہے کہ روایت کی سند کے صحیح ہونے سے ہماری مرادیہ ہے کہ عادل وضابطہ اپنے جیسوں سے اس قراء ت کو روایت کریں اور اسی طرح یہ سلسلہ آخر تک چلے۔ پھر وہ قرآء ت ماہرین فن کے نزدیک غلط اور شاذنہ ہو بلکہ مشہور ہو۔
           اس کلام کا حاصل یہ ہے کہ مصحف میں جو کچھ ہے وہ تو اجماعی اور متواتر ہے۔ اب صرف اس کی ادائیگی کا مسئلہ رہ گیا ؟ تو اس کی ادائیگی کا کوئی طریقہ اگر سند صحیح سے ہو اگرچہ متواتر نہ ہو ، تب بھی وہ متواتر کے حکم میں ہے اور اس کا وہی حکم ہو گا جو متواتر کا ہوتا ہے۔ غرض حکم کے اعتبار سے وہ متواتر ہے۔ اس لئے ان کو قراء ات متواترہ کہا جاتا ہے۔
قراء ات میں کمی واقعی ہونے کی وجہ
            قرون ثلاثہ میں ان گنت قراء ات پڑھی جاتی تھیں اور تیسری صدی تک علماء وائمہ متعدد مختلف قراء ات پڑھتے اور پڑھاتے اور روایت کرتے تھے۔ اور جب تیسری صدی میں تصنیف و تالیف کا سلسلہ شروع ہوا تو ہر مصنف اپنی کتاب میں ان قراء ات کو بیان کرتا جو اس کو صحیح و متصل سند سے پہنچی ہوتی تھیں چنانچہ امام ابو عبیدؒ اور قاضی اسماعیل نے پچیس پچیس قراء تیں بیان کی ہیں لیکن خیر القرون کے بعد سند کی طوالت نے جب اکثر لوگوں میں کسل پیدا کر دیا اور بعض کے ضبط و حفظ میں ضعف اور شوق و ہمت میں فرق آ گیا تو علماء نے مروجہ تعداد میں کمی کر دی۔ چنانچہ امام ابو بکر بن مجاہد مقریؒ بغدادی نے جو اس وقت دنیائے اسلام میں امام الائمہ تھے مروجہ قراء ات میں سے ایک تو شہرت اور وجوہ صحیحہ کی کثرت کی وجہ سے اور دوسرے رسم کی موافقت اور عربیت میں اقویٰ ہونے کی بناء پر ائمہ سبعہ کو منتخب کر کے ان کی قراء ات میں کتاب السبعہ تصنیف کی اور اس کے مطابق روایات و قراء ات پڑھانے لگے۔ یہ پہلی کتاب ہے جس میں سبعہ پر اقتصار کیا گیا ہے۔ یہ امر منجانب اللہ ہے کہ ان کو ان کے انتخاب کا دھیان آیا ورنہ بقول امام ابو محمد مکی ستر (70)  ائمہ کی قراء ات ان سے مقدم موجود تھیں اور باقی ائمہ ثلاثہ کی قراءات تو ہر لحاظ سے ان کے برابر تھیں مگر امامؒ موصوف کا یہ اعتقاد ہر گز نہ تھا کہ ان کے سوا دیگر قراء ات شاذیا غیر صحیح ہیں۔
           اکثر اولو العزم معاصرین نے امام موصوف کے اس عمل کو ناپسند کیا اور سات کی تعداد پر تو ان کو خاص اعتراض تھا، مگر امام ابن مجاہدؒ کی فقید المثال شخصیت و شہرت ان کی کتاب ’’سبعہ قراء ات‘‘ کے رواج کا باعث بن گئی اور باقی قراء ات کی تعلیم میں کمی آنے لگی۔ پھر امام ابو عبداللہ قیروانیؒ ، امام ابوالقاسم طرسوسیؒ اور امام ابو لعباسؒ مہدوی نے مشرق میں سبعہ کو اور مشہور کر دیا۔ 
           چوتھی صدی کے آخر تک اندلس اور بلاد مغرب میں ان مشہور سبعہ قراء ات کا رواج نہ تھا۔ سب سے پہلے امام ابو عمر طلمنکی نے اور ان کے بعد امام ابو محمد مکیؒ قیروانی اور امام علامہ حافظ ابو عمر ودانی نے مصر وغیرہ سے پڑھ کر قراء ات سبعہ اندلس میں پہنچائیں۔ 
           پانچویں صدی کے اوائل تک قراء ات سبعہ اکثر روایات و طرق مشہورہ کے ساتھ پڑھی اور پڑھائی جاتی تھیں۔ چنانچہ علامہ دانی نے جامع البیان میں پانچ سو روایات و طرق بیان کئے ہیں۔
روایات کے کم ہونے کی وجہ
           اس کے بعد ہمتیں اور گھٹ گئیں اور طلباء مزید اختصار کے خواستگار ہونے لگے۔ اس پر علامہ دانیؒ نے تیسیر لکھی۔ اس کے شروع میں خود کہتے ہیں۔ ’’آپ صاحبوں نے مجھ سے خواہش کی تھی میں آپ کے لئے قراء سبعہ کے مذاہب پر ایک ایسی مختصر کتاب لکھوں جس کا پڑھنا پڑھانا اور یاد کرنا آسان ہو اور اس میں وہ مشہور روایات و طرق بیان کروں جو تھوڑے زمانہ میں حفظ ہو سکیں۔‘‘
پھر کہتے ہیں۔ ’’لہٰذا میں نے آپ کی خواہش کے مطابق یہ کتاب لکھی اور اس میں ہر قاری سے دو دو روایات بیان کی ہیں۔‘‘ تیسیر کے بعد                ائمہ سبعہ کی دیگر روایات کا رواج بھی کم ہو گیا اور چھٹی صدی کے آخر میں امام العلامہ شاطبیؒ نے تیسیر کو نظم کر کے اس کی روایات و طرق کو چاروانگ عالم میں مشہور کر دیا۔
           جن قراء ات کا رواج کم ہوتا گیا وہ بالکل مٹ گئیں۔ قراء ات ثلثہ بھی غائب ہو جاتیں اگر ابن مہرانؒ ، ابن غلبونؒ، ابن شیطاؒ ، اہوازیؒ قلانسیؒ، حافظ ابوالعلاً اور محققؒ وغیرہ ائمہ ان کو پڑھنے پڑھانے سے اور نصنیف و تالیف سے ان کی حفاظت نہ کرتے اور اہل مصر وغیرہ ان کی خدمت نہ کرتے رہتے۔ ائمہ سبعہ کی باقی روایات کی بھی یہی کیفیت ہے کہ وہ بھی تیسیر کے بعد مٹ گئیں اور جس طرح ان روایات کے مٹ جانے کا باعث شذوذ نہیں اسی طرح سابقہ قراء ات کے مٹنے کا سبب بھی سذوذ نہیں ہے بلکہ علماء فوت ہو گئے اور علم ان کے ساتھ چلا گیا۔ آئندہ کوئی جانشین نہ بنا۔ اب امت کے پاس سبعہ مشہورہ متواترہ کی دو دو روایات اور قراء ات ثلثۃ متواترہ کی دو دو روایات اور چار دیگر قراء ات باقی ہیں۔ یہ چاروں بھی صدیاں گزر گئیں پڑھی پڑھائی نہیں جاتیں صرف کتابوں میں بیان ہوتی ہیں۔ عشرہ پڑھائی جاتی ہیں۔
           غرض پڑھانے والوں نے جب لوگوں کا کسل اور ان کی ہمتوں میں قصور و فتور دیکھا تو پہلے سبعہ پر اور پھر سبعہ کے ایک قلیل حصہ پر قانع ہو گئے۔
ایک شبہ کا ازالہ
            بعض لوگوں کو اس سے شبہ پیدا ہو گا کہ اس طرح سے شاید قرآن کا کوئی حرف فوت و مفقود نہ ہو گیا ہو جس سے تمام امت گناہگار ہوئی ہو اور نیز حفاظت قرآن کے وعدہ الٰہی میں تخلف ہو گیا ہو۔ نعوذ باللہ من ذلک۔ اس کا جواب یہ ہے کہ تمام اختلافات سات قسم کے ہیں۔
 اول: یہ کہ صرف حرکات میں اختلاف ہو معنی اور صورت میں کوئی فرق نہ ہو۔ جیسے بِالْبُخْلِ اور بِالْبَخَلِ۔ یَحْسَبُ اور یَحْسِبُ وغیرہ اور اسی قسم میں اصولی اختلافات داخل ہیں۔ 
دوم: حرکات و معنی میں اختلاف ہو صورت میں نہیں جیسے ادم من ربہ کلمت  مرفوع و منصوب اور منصوب و مرفوع۔ 
سوم: معنی میں اختلاف ہو حرکات و معنی میں نہیں۔ جیسے  بَصْطَۃ اور بَسْطَۃ صِرَاطِ سِرَاط وغیرہ تمام لغوی اختلافات۔
 پنجم: صورت و معنی دونوں میں اختلاف ہو۔ حرکات میں نہیں ہوتا جیسے اَشَدَّ مِنْکُمْ۔ اَشدَ مِنْھُمْ۔ 
ششم: تقدیم و تاخیر سے جیسے فَیَقْتُلُوْنَ وَیُقْتَلُوْنَ۔ 
ہفتم: زیادۃ و نقصان سے جیسے وَوَصّٰی۔ وَاَوْصٰی۔ وَقَالُوا۔ اور قَالُوْا وغیرہ ان کے سوا اور قسم کا اختلاف ہرگز نہیں ہوتا۔ خواہ قراء ات متواترہ مروجہ ہوں یا غیر مروجہ، شاذ ہوں یا ضعیف اور یہ تمام اختلافات علی سبیل البدلیت مروی ہیں۔ یعنی ان میں سے جو وجہ پڑھی جائے وہ ہی کافی ہے اور قرآن ہے اور امت کے ہر فرد پر تمام وجوہ کا پڑھنا واجب و لازم نہیں ہے جس کی واضح دلیل  فاقرء وا ما تیسر منہ ہے نتیجہ یہ ہے کہ متعدد قراء ات و روایات و طرق کے مٹ جانے کے باوجود قرآن علی حالہ باقی ہے۔ اس میں کوئی کمی نہیں ہوئی۔ البتہ تنوع اور طریقہ ترکیب کا بعض حصہ مٹ گیا۔  فافہم و تدبر۔
قراء ات سبعہ تیسیر و شاطبیہ میں منحصر نہیں ہیں
          بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ قراء ات سبعہ تیسیر، شاطبیہ، تبصرہ اور عنوان وغیرہ میں محصور ہیں۔ یہ بھی محض ایک تخیل ہے۔ ان مختصرات میں حضرات ائمہ سے دو دو راوی مذکور ہیں۔ ائمہ سبعہ نے 75 سال سے 99 سال تک عمر پائی اور ہر ایک نے ساٹھ برس سے زیادہ خدمت قرآن میں صرف کئے۔ تذکروں اور طبقات سے معلوم ہوتا ہے کہ روزانہ ان گنت طلبہ شریک درس ہوتے تھے۔ امام نافع، نماز فجر سے قبل پڑھانا شروع کرتے تھے جو عشاء کے بعد تک جاری رہتا تھا اور ہر شخض کے لئے تیس آیتوں کا وقت مقرر تھا بڑی جدوجہد سے سید نا ورشؒ کو بعد از تہجد زیادہ وقت ملا تھا۔ امام بو عمروؒ کے گرد طلباء کا ازدحام دیکھ کر خواجہ حسن بصریؒ نے تعجب سے کہا تھا کہ کیا علماء رب بن گئے ؟ امام عاصمؒ سے پڑھنے کا موقع مشکل سے ملتا تھا۔ امام کسائیؒ سے عرضاً و قراء ۃً پڑھنا ناممکن ہو گیا تھا بلکہ کثرت طلباء کی بناء پر دور بیٹھنے والوں کو شکل دیکھنی بھی دشوار تھی۔ اسی وجہ سے امام کسائی منبر پر بیٹھ کر خود پڑھتے تھے اور شائقین آپ کی قراء ۃ اخذ کرتے جاتے تھے۔ یہی حال دیگر ائمہ کا تھا۔ خدا تعالیٰ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا کہ ان سے کتنی مخلوق نے پڑھا اور استفاضہ کیا۔ دنیائے اسلام کی کونسی بستی ان کے خوشہ چنیوں اور شاگردوں سے خالی تھی ؟پھر کون کہہ سکتا ہے کہ ان کے راوی یہی دو دو ہیں۔
          امام ابوحیانؒ کہتے ہیں۔ ’’ان مختصرات میں امام ابو عمروؒ (جن کی قرأت شام و مصر میں زیادہ مروج ہے) کے ایک شاگردیزیدیؒ اور ان سے دوریؒ وسوسیؒ دو راوی درج ہیں اور اہل نقل کے نزدیک ابو عمروؒ کے تلامذہ میں سے یزیدیؒ، شجاعؒ، عبدالوارث ابن سعید، عباس بن فضلؒ سعید بن اوسؒ ، ہارون الاعورؒ، الخفافؒ، عبید بن عقیلؒ، حسین الجعفیؒ ، یونس بن حبیب نحویؒ، لولویؒ، محبوبؒ، خارجہؒ، الجہضمیؒ، عصمہؒ، اصمعیؒ اور ابوجعفر رواسی سترہ شخص مشہور ہیں لہٰذا ابو عمروؒ کی قراء ت یزیدیؒ پر کیسے منحصر ہو سکتی ہے اور باقی رواۃ کو جو تعداد میں کثیر تھے اور ثقہ و ضابط اور صاحب روایت تھے بلکہ ممکن ہے کہ ان میں سے بعض یزیدیؒ سے زیادہ عالم اور زیادہ ثقہ ہوں ان کو کیسے نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔‘‘
          پھر یزیدیؒ سے دوریؒ ، سوسیؒ، ابوحمدونؒ، محمد بن احمد بن جبیرؒ، اوقیہ ابولفح ابو خلاو،ؒ جعفر بن حمدان سجادہؒ، ابن سعدان،ؒ احمد بن محمد بن یزیدیؒ اور ابوالحارثؒ دس شخص مشہور ہیں۔ لہٰذا دوریؒ و سوسیؒ پر کیسے اقتصار کیا جا سکتا ہے اور باقی جماعت کو کس دلیل سے چھوڑا جا سکتا ہے۔ ممکن ہے کہ بعض دوریؒ وسوسی سے اوثق و اضبط ہوں۔
          پھر دوریؒ سے ابن فرخؒ ابن بشارؒ ، ابوالزعراءؒ ابن مسعود السراجؒ، الکاغذی ابن برزہؒ، احمد بن حرب المعدلؒ اور پھر ابن فرحؒ سے زید بن ابی بلالؒ عمر بن عبدالصمدؒ، ابو العباس بن محریزؒ، ابو محمد قطان اور المطوعی مشہور ہیں اور ہمارے زمانہ تک ہر طبقہ کا یہی حال ہے۔
امام نافعؒ (جن کی قراء ۃ مغرب میں زیادہ مشہور ہے) مختصرات میں ان کے قالونؒ و درشؒ دو راوی مذکور ہیں اور اہل نقل کے نزدیک قالونؒ، ورشؒ، اسماعیل بن جعفر،۔ ابو خلید ابن جمازؒ، خارجہ اصمعیؒ، کردم اور مسیبیؒ، نو حضرات مشہور ہیں اور باقی ائمہ سبعہ کے تلامذہ کا بھی یہی حال ہے۔ پس کیسے ممکن ہے کہ ان ائمہ کے علم کو دو دو راویوں میں مختصر سمجھ لیا جائے اور باقی حضرات کی روایت کو معطل کر دیا جائے۔ ان دونوں بزرگوں کو باقی اصحاب پر کیا فوقیت تھی جب کہ وہ سب ایک شیخ کے شاگرد ضابط اور ثقہ تھے۔‘‘
انکار قراء ات کا حکم
         التحقیق الذی یؤ یدہ الدلیل ہو ان القراء ات العشر کلھا متواترۃ و ھورای المحققین من الاصولیین و القراء کا بن السبکی و ابن الجزری والنویری بل ھورای ابی شامۃ فی نقل آخر صححہ الناقلون عنہ۔  (ص 434 مناھل العرفان)
         تحقیقی بات جس کی تائید دلیل سے ہوتی ہے یہ ہے کہ قراء ات عشرہ سب کی سب متواتر ہیں اور یہی محقق اصولیوں اور قراء مثلاً ابن سبکی، ابن جزری اور نویری رحمہم اللہ کا قول ہے بلکہ ابو شامہ رحمۃ اللہ علیہ کا یہ قول بھی منقول ہے اور نقل کرنے والوں نے اس قول کو صحیح کہا ہے۔
         لیکن قراء ات کا جو ضابطہ ذکر ہو چکا ہے اس کی رو سے ان کی سند دو مرحلوں میں ہے۔ ایک مرحلہ وہ ہے جو ہم سے صاحب اختیار ائمہ یعنی قراء سبعہ و عشرہ تک پہنچتا ہے اور دوسرا مرحلہ وہ ہے جو ان قراء عشرہ سے رسول اللہ ﷺ تک جاتا ہے۔
پہلا مرحلہ
        علامہ سیوطی رحمہ اللہ علامہ ابن الجزری رحمۃ اللہ علیہ سے نقل کرتے ہیں کہ قراء ات کی دو نوع ہیں۔
الاول: المتواتر وھوما رواہ جمع من جمع لا یمکن تواطئھم علی الکذب عن مثلھم۔ مثالہ، ما اتفقت الطرق فی نقلہ عن السبعۃ و ہذا ھو الفائق فی القراء ت
الثانی المشہور ہو ما صح سندہ بان رواہ العدل الضابط عن مثلہ و ہکذا و وافق العربیۃ ووافق احد المصاحف العثمانیۃ سواء أ کان عن الائمۃ السبعۃ ام العشرۃ ام غیر ہم من الائمۃ المقبولین واشتھر عند القراء فلم یعد وہ من الغلط ولا من الشذوذ الا انہ لم یبلغ درجۃ المتواتر مثالہ ما اختلفت الطرق فی نقلہ عن السبعۃ فرواہ بعض الرواۃ عنھم دون بعض و ہذان النوعان ھما اللذان یقرأ بھما مع و جوب اعتقاد ہما ولا یجوز انکار شئی منھما۔ (ص 434 مناھل العرفان)
         پہلی نوع متواتر کی ہے اور یہ وہ ہے کہ جس کو ایک اتنی بڑی جماعت نے اتنی ہی بڑی جماعت سے نقل کیا ہو کہ جس کا جھوٹ پر اتفاق ممکن نہ ہو۔ اس کی مثال قراء ت کا وہ حصہ ہے جس میں تمام طرق متفق ہوں اور قراء ات میں اکثر حصہ ایسا ہی ہے۔
         دوسری نوع مشہور کی ہے اور یہ وہ ہے کہ جس کو عادل و ضابط نے اپنے جیسے سے نقل کیا ہو اور یہ سلسلہ ایسے ہی چلا ہو۔ علاوہ ازیں یہ عربیت کے موافق بھی ہو اور مصاحف عثمانیہ میں سے کسی ایک کے مطابق بھی جو خواہ قراء سبعہ سے منقول ہو یا عشرہ سے منقول ہو یا دیگر مقبول ائمہ قراء سے نقل ہو۔ پھر قراء میں اس کی شہرت ہو گئی ہو اور انہوں نے اس کو غلط یا شذوذ میں سے شمار نہ کیا ہو۔ یہ نوع درجہ متواتر کو نہیں پہنچی۔ اس کی مثال قراء ت کا وہ حصہ ہے جس کے نقل میں طرق کا اختلاف ہے۔
         یہ دونوں انواع وہ ہیں جن کی قراء ت کی جاتی ہے اور جن پر اعتقاد رکھنا واجب ہے اور ان میں سے کسی شے کا بھی انکار جائز نہیں۔
         علامہ ابن الجزری رحمۃ اللہ علیہ کے اس قول سے یہ معلوم ہوا کہ ائمہ قراء ات تک تواتر قراء ت کے صرف اتنے حصے میں ہے جن میں طرق کا اتفاق ہے اور جو مختلف فیہ حصہ ہے اس میں شہرت تو پائی جاتی ہے تواتر نہیں پایا جاتا۔
دوسرا مرحلہ
          قراء ات کے بارے میں جو ضابطہ پہلے ذکر ہو چکا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اصحاب اختیار ائمہ نے اخذ قراء ت میں تواتر کو شرط قرار نہیں دیا بلکہ عربیت اور رسم مصحف کی موافقت کے ساتھ صرف صحت سند پر اکتفا کیا۔ علاوہ ازیں بعض متاخرین نے تواتر کو شرط قرار دیا تو ان کے قول کو رد کیا گیا اور علامہ ابن اجزری رحمۃ اللہ علیہ نے بھی تواتر کے شرط ہونے کے قول سے رجوع کیا۔
          امام ابو محمد مکی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں۔
          ان جمیع ما روی من القراء ات علی اقسام۔ قسم یقرأ بہ الیوم و ذلک ما اجتمع فیہ ثلاث خلال و ھن ان ینقل عن الثقات عن النبی ﷺ ویکون وجھہ فی العربیۃ التی نزل بھا القرآن سائغا و یکون موافقا لخط المصحف۔
          نقل کردہ تمام قراء ات کی چند قسمیں ہیں۔ ایک قسم وہ ہے جس کی آج کل قراء ت کی جاتی ہے اور یہ وہ ہے جس میں تین باتیں جمع ہوں۔ وہ تین باتیں یہ ہیں کہ وہ نبی ﷺ سے ثقہ لوگوںکے واسطے سے منقول ہو۔ دوسرے یہ کہ عربیت جس میں قرآن نازل ہوا ہے اس میں اس کی کوئی وجہ بنتی ہو اور خط مصحف کے موافق بھی ہو۔
          ہم کہتے ہیں کہ اگرچہ یہ ہو سکتا ہے کہ فی نفسہ تواتر پایا گیا ہو، لیکن جب ائمہ نے ضابطہ میں تواتر کا التزام نہیں کیا تو تواتر کا قول کرنا بہرحال ممکن نہیں بلکہ صحت سند پر ہی اقتصار کیا جائے گا۔
          مذکورہ بالا دونوں مرحلوں کو جب جمع کیا جائے تو حاصل یہ ہو گا کہ قراء ات کی نقل میں تواتر ضروری مفقود ہے۔ البتہ بعد کے قرون میں تواتر اور تلقی بالقبول کے پائے جانے کے باعث یہ چونکہ مفید علم ہے اس لئے یہ تواتر تقدیری یا تواتر نظری ہے۔
         ان تمام باتوں کے ساتھ مندرجہ ذیل باتیں بھی پیش نظر رہیں۔
1. قرآن اور چیز ہے اور قراء ات اور چیز ہیں۔ قرآن تو اس کا نام ہے جو مصاحف کے اندر ثبت ہے اور رسول اللہ ﷺ پر نازل کیا گیا اور تواتر سے نقل ہوتا چلا آیا۔ جب کہ قراء ات زبان سے اس کی ادائیگی کا نام ہے۔ قرآن ایک ہے اور قراء ات متعدد ہیں۔
2. مناہل العرفان میں عبدالعظیم زرقانی لکھتے ہیں۔
          و تناقش ہذا الدلیل بانا لانسلم ان انکار شئی من القراء ات یقتضی التکفیر علی  القول بتواتر ھا و انما یحکم بالتکفیر علی من علم تواترھا ثم انکرہ۔ والشئی قد یکون متواترا عند قوم غیر متواتر عند آخرین و یمکن مناقشۃ ہذا الدلیل ایضاً بان طعن الطاعنین انما ہو فیما اختلف فیہ وکان من قبیل الاداء، اما ما اتفق علیہ فلیس بموضع طعن ونحن لا نقول الا بتواتر ما اتفق علیہ دون ما اختلف فیہ۔
          بعض بڑے علماء نے قراء ات پر طعن کیا ہے حالانکہ اگر قراء ات متواتر ہوں تو انکا طعن موجب تکفیر ہو گا۔ اس کا جواب دیتے ہوئے مناہل العرفان کے مصنف لکھتے ہیں) کہ تواتر کے قول کو لیتے ہوئے کسی قراء ت کا انکار ضروری نہیں کہ موجب تکفیر ہو کیونکہ تکفیر اس وقت کی جاتی ہے جب کوئی اس کے تواتر کا علم ہوتے ہوئے انکار کرے جب کہ یہ ہو سکتا ہے کہ ایک شے کے بارے میں کچھ لوگوں کے نزدیک تواتر ثابت ہو اور کچھ لوگوں کے نزدیک  تواتر ثابت نہ ہو۔
          اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان حضرات کا طعن مختلف فیہ حصہ میں ہو جو ادائیگی کے قبیل سے ہو۔ رہا متفق علیہ حصہ تو وہ طعن کا محل نہیں ہے اور ہم تواتر کا قول صرف متفق علیہ میں کرتے ہیں مختلف فیہ میں نہیں کرتے۔‘‘
3. نبی ﷺ سے منقول اختلافات کی کوئی ترتیب بعینہ واجب نہیں تھی لہٰذا اصحاب اختیار ائمہ نے شرائط کی پابندی کرتے ہوئے اپنی اپنی ترتیب سے قراء ات اختیار کیں۔ (اس کی تفصیل پہلے گزر چکی ہے)۔
انکار قراء ات کا حکم
1. قرآن یا اس کے کسی جزو کا انکار کفر ہے۔
2. کوئی اگر بعض قراء توں کو تسلیم کرتا ہو مثلاً روایت حفص کو مانتا ہو اور دیگر کا انکار کرتا ہو تو اس میں مندرجہ ذیل شقیں ہیں۔
الف۔ کسی محقق کے نزدیک دیگر قراء توں کا تواتر ثابت نہ ہو اس وجہ سے ان کا انکار کرتا ہو۔ اس پر تکفیر نہ ہو گی۔
ب۔ اس کو دیگر قراء توں کا تواتر سے ثابت ہونا معلوم نہ ہو جیسا کہ عام طور سے عوام کو دیگر قراء توں کا علم نہیں ہوتا اور صرف ان ہی لوگوں کا ان کو علم ہوتا ہے جو ان کے پڑھنے پڑھانے میں لگے ہوں۔ ایسی لا علمی کی وجہ سے انکار پر بھی تکفیر نہ کی جائے گی،البتہ ایسے شخص کو حقیقت حال سے باخبر کیا جائے گا۔
ج۔ تواتر تسلیم ہونے کے بعد بھی انکار کر لے تب بھی تکفیر نہیں کی جائے گی۔ کیونکہ حقیقتاً یہ تواتر ضروری و بدیہی نہیں بلکہ نظری و حکمی ہے جس کے انکار پر تکفیر نہیں کی جاتی۔ البتہ یہ سخت گمراہی کی بات ہے۔ 

_________________________

(1) بعض روایات میں حضرت سعید ؓ  کے بدلے حضرت عبداللہ بن عمر و بن العاص ؓ  اور حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کے نام ہیں یہ دونوں حضرت زید کے شاگرد تھے اور اس وقت جوان تھے۔ ممکن ہے کہ ان کو بھی بعد میں شریک و مدد گار بنایا گیا ہو۔

(2) اکثر اہل نقل چار نسخے بتاتے ہیں اور علامہ دانی نے بھی اسی کی تائید کی ہے اور بعض نے سات بتائے ہیں۔

(3) آج کل قاری اسے کہتے ہیں جو سبعہ یا عشرہ قراء ات جانتا ہو اور حافظ سے اس کا مرتبہ ارفع و اعلی تصور ہوتا ہے۔ صدر اول میں ہر قرآن پڑھنے والے کو قاری کہتے تھے اور حافظ کا درجہ اس سے بہت بلند تھا۔

(4) یعنی نحوی وجوہ میں سے کسی وجہ سے موافق ہو خواہ وہ فصیح ہو یا افصح۔ یہ مراد نہیں کہ نحاۃ میں سے کوئی اس کے خلاف نہ ہو۔ کیونکہ نحاۃ نے بعض قراء ات کا انکار کیا ہے مگر ائمہ قراء ۃ ان کے انکار کی ایک ذرہ کے برابر پرواہ نہیں کرتے، چنانچہ  باَرِئْکُمْ۔ یَاُمُرِکُمْ، لِسبَا۔ مکر السیئی وغیرہ کے اسکان۔ ھَلُ تَرَبَّضُوْنَ۔ اِذَ تَّلَقَّونَ وغیرہ (بقراء ۃ بزیؒ) شَھْرَ رَّمَضَانَ  عَفُوْ وَّ اَمَرْ وغیرہ(بقراء ت سوسیؒ) فَلَمَا اسْطَّاعُوْا (بقراۃ حمزہ) نِعْمَّا لَا یَھْدِیَ کے اجتماع ساکنین کُنْ فَیَکُوْنَ کے نصب وَالْاَرْحَامِ کے خفض عن سَأقَّیْھَا کے ہمزہ وَاِنَّ الْیَاسَ کے  وصل اور بعض دیگر حروف کا بعض نحوی انکار کرتے ہیں علامہ دانی بَارِئْکُمْ کے اسکان پر سیبویہ کا اعتراض نقل کر کے جامع البیان میں کہتے ہیں۔ ’’اسکان نقلاً اصح اور اداء اکثر کا مذہب اور میرے نزدیک مختار ہے۔ میں اسی کو لیتا ہوں۔‘‘ پھر ائمہ کے اقوال نقل کر کے کہتے ہیں۔ ’’ائمہ قراء ۃ قرآن کے کسی حرف میں اس پر عمل نہیں کرتے جو لغت میں زیادہ مشہور اور عربیت میں اقیس ہو بلکہ اس پر عمل کرتے ہیں جو اثر اثبت اور نقلاً وروایتاً اصح ہو اور جب اس طرح کوئی حرف ثابت ہو جائے تو اس کو نہ عربیت کا قیاس رد کر سکتا ہے اور نہ لغت کی شہرت کیونکہ قراء ت سنت متبعہ ہے جس کا قول کرنا واجب اور اس پر لازم ہے۔‘‘
(5) مثلاً قالوا اتخذ اللہ (بقر) مصحف شام میں بلاوائو۔  تجری من تحتھا (توبہ) مصحف مکہ میں بزیادۃ من، خیرا منھما (کہف) مصاحف حجاز و وشام میں بزیادۃ میم تشنیہ اور فان اللہ الغنی (حدید) مصحف مدینہ اور شام میں بغیر ھو مرسوم تھا۔
(6) احتمالی موافقت سے ہمارے ائمہ کی مراد یہ ہے کہ بعض کلمات میں بعض قراء ات رسم کے صریحاً مطابق ہوتی ہیں اور بعض تقدیراً جیسے ملک تمام مصاحف میں بلا الف مرسوم ہے پس قراء ۃ حذف صریحا اور قراء ۃ الف احتمالا موافق ہے اور النشاۃ بالف مرسوم ہے۔ پس قراء ۃ مد صریحاً اور قراء ۃ قصر احتمالاً موافق ہے۔ کیونکہ ممکن ہے کہ ہمزہ خلاف قیاس بصورت الف لکھا گیا ہو اور بعض کلمات میں تمام قراء ات احتمالاً موافق ہوتی ہیں جیسے السمٰوٰت۔ الصَّلِخٰت وَالَّیْلِ۔ الصَّلٰوۃِ۔ الربوا۔ وغیرہ میں اور جیسے و جآی دو جگہ 
بالف مرسوم ہے اور بعض کلمات میں تمام قراء ات صریحاً مطابق ہوتی ہیں۔ جیسے  اَنْصَارَ اللّٰہِ۔ فَنَادَتْہُ تَعْلَمُوْنَ ہیت۔ ان نعف نعذب وغیرہ کیونکہ مصاحف عثمانی نقاط و اعراب سے مجرو تھے۔
(7) مقصد یہ ہے کہ اس قراء ۃ کو عادل ضابط نبی ﷺ تک اپنے مثل سے روایت کرتے ہوں اور ائمہ ضابطین کے نزدیک مشہور بھی ہو۔ یعنی غلط اور شاذ نہ سمجھی جاتی ہو۔

نیوز لیٹر سبسکرپشن
سبسکرپشن کے بعد آپ ادارہ کے بارے میں تازہ ترین اپ ڈیٹ حاصل کر سکتے ہیں