English

مضامین 

مولانا مفتی محمد تقی عثمانی

۱۲/ ربیع الاول کو عید میلاد النبی صلی الله علیہ وسلم منانے کارواج کچھ عرصہ سے مسلسل چلا آرہا ہے، چونکہ عہد صحابہ کرام رضوان الله تعالیٰ علیہم اجمعین اور قرون اولیٰ میں اس ”عید“ کا کوئی پتا نشان نہیں ملتا۔ اس لئے اکابر علمائے حق ہمیشہ یہ کہتے آئے ہیں کہ یہ دن منانے کی رسم ہم میں عیسائیوں اور ہندوؤں سے آئی ہے، تاریخ اسلام کے ابتدائی دور میں اس کی کوئی بنیاد نہیں ملتی، لہٰذا اس رسم کی حوصلہ افزائی کے بجائے حوصلہ شکنی کرنی چاہیے، مسلمانوں کااصل کام یہ ہے کہ وہ ان رسمی مظاہروں کے بجائے سرکار دوعالم صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات کی طرف متوجہ ہوں اور ایک دن میں عید میلاد مناکر فارغ ہوجانے کے بجائے اپنی پوری زندگی کو آپ صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات کے سانچے میں ڈھالنے کی فکر کریں۔
یہ علمائے دیوبند اور علمائے اہل حدیث کا موقف تھا اور بریلوی مکتب فکر کے حضرات اس سے اختلاف کرتے تھے لیکن اب چند سالوں سے جو صورت حا ل سامنے آرہی ہے، اس میں یہ مسئلہ صرف دیوبندی مکتب فکر کا نہیں رہا، بلکہ ہر اس مسلمان کا مسئلہ بن گیا ہے جو سرور کائنات صلی الله علیہ وسلم کی عظمت و محبت اور حرمت و تقدیس کا کوئی احساس اپنے دل میں رکھتا ہو، اب صرف علمائے دیوبند اور علمائے اہل حدیث ہی کو نہیں بلکہ علمائے بریلی کو بھی اس پر پوری سنجیدگی کے ساتھ غور کرنا چاہیے کہ جشن عیدمیلاد النبی صلی الله علیہ وسلم کے نام پر یہ قوم دینی تباہی کے کس گڑھے کی طرف جارہی ہے، کیونکہ جن حضرات نے ابتدا میں محفل میلاد وغیرہ کو مستحسن قرار دیا تھا، ان کے چشم تصور میں بھی غالباً وہ باتیں نہیں ہوں گی جو آج ”جشن میلادالنبی صلی الله علیہ وسلم“ کا جزو لازم بنتی جارہی ہیں۔
شروع میں محفل میلاد کا تصور ایک ایسی مجلس کی حد تک محدود تھا جس میں سرور کائنات صلی الله علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کا بیان کیا جاتا ہو، لیکن انسان کا نفس اس قدر شریر واقع ہوا ہے کہ جو کام وحی کی رہنمائی کے بغیر شروع کیا جاتا ہے، وہ ابتدا میں خواہ کتنا مقدس نظر آتا ہو، لیکن رفتہ رفتہ اس میں نفسانی لذت کے مواقع تلاش کرلیتا ہے اور اس کا حلیہ بگاڑ کر چھوڑتا ہے، چنانچہ اب الله کے محبوب ترین پیغمبر صلی الله علیہ وسلم کے مقدس نام پر جو کچھ ہونے لگا ہے، اسے سن کر پیشانی عرق عرق ہوجاتی ہے۔
ہر سال ”عید میلاد النبی“ کے نام سے صرف کراچی میں ظلم و جہالت کے ایسے ایسے شرمناک مظاہرے کیے جاتے ہیں کہ ان کے انجام کے تصور سے روح کانپ اٹھتی ہے، مختلف محلوں کو رنگین روشنیوں سے دلہن بنایا جاتا ہے اور شہر کے تقریباً تمام ہوٹلوں میں عید میلاد اس طرح منائی جاتی ہے کہ لاؤڈ اسپیکر لگاکر بلند آواز سے شب و روز ریکارڈنگ کاطوفان برپا رہتا ہے۔ بہت سے سینما ”عیدمیلاد کی خوشی میں“ سینکڑوں بلب لگا کر ان اخلاق سوز اور برہنہ تصویروں کو اور نمایاں کردیتے ہیں جو اپنی ہر ہر ادا سے سرکار دوعالم صلی الله علیہ وسلم کے احکام کی نافرمانی کی برملا دعوت دیتی ہیں اور انہی مقامات پر انسانیت کی تصویروں کے سائے میں شاید تبرک کے خیال سے خانہ کعبہ اور روضہ اقدس کی تصویریں بھی چسپاں کردی جاتی ہیں، ایک محلہ میں قدم قدم پر روضہ اطہر اور مسجد نبوی کی شبیہیں بناکر کھڑی کی جاتی ہیں، جنہیں کچھ بے فکرے نوجوان ایک تفریح گاہ کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور کچھ بے پردہ عورتیں انہیں چھو چھوکر ”خیر و برکت“ حاصل کرتی ہیں اور اور ظاہر ہے کہ جب پورے محلہ کو روشنیوں میں نہلاکر جگہ جگہ محرابیں کھڑی کرکے اور قدم قدم پر فلمی ریکارڈ بجاکر ایک میلے کا سماں پیدا کردیا جائے تو پھر عورتیں اور بچے ایسے میلے کو دیکھنے کے لیے کیوں نہ پہنچیں جس میں میلے کا لطف بھی ہے اور (معاذ الله) تعظیم رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا ثواب بھی، چنانچہ راتوں کا دیر تک یہاں تفریح باز مردوں، عورتوں اور بچوں کا ایسا مخلوط اجتماع رہتا ہے جس میں بے پردگی، غنڈہ گردی اور بے حیائی کو کھلی چھوٹ ملی ہوتی ہے۔
راقم الحروف ایک روز اس محلے سے گزرتے ہوئے یہ دلدوز مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا اور اس آیت قرآنی کے تصور سے روح کانپ رہی تھی، جس کا ترجمہ یہ ہے:
” اور ایسے لوگوں سے بالکل کنارہ کشی اختیار کرلو جنہوں نے اپنے دین کو کھیل تماشہ بنارکھا ہے اور دنیاوی زندگی نے ان کو دھوکہ میں ڈال دیا ہے اور اس قرآن کے ذریعے ان کو نصیحت کرو تاکہ کوئی شخص اپنے کیے میں اس طرح گرفتار نہ ہوجائے کہ الله کے سوا اس کا کوئی حمایتی اور سفارش کرنے والا نہ ہو اور اگر وہ دنیا بھر کا معاوضہ دے ڈالے تب بھی نہ لیا جائے، یہ وہی لوگ ہیں جو اپنے کیے میں گرفتارہوئے، ان کے لیے کھولتا ہوا پانی پینے کے لیے ہوگا اور کفر کے سبب دردناک سزا ہوگی۔“
الله تعالیٰ ہر مسلمان کو اس آیت کا مصداق بننے سے محفوظ رکھے، لیکن واقعہ یہ ہے کہ اس محلے سے گزرتے ہوئے ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے خاتم النبین صلی الله علیہ وسلم کا لایا ہوا دین پکار پکار کر یہ فریاد کررہا ہے کہ ”محمد عربی صلی الله علیہ وسلم کے نام لیواؤ! تم گمراہی اور بے حسی کے کس اندھے غار میں جاگرے ہو؟ کیا سرور کائنات صلی الله علیہ وسلم کے احسانات کا بدلہ یہی ہے کہ انہی کی محبت و عظمت کے نام پر ان کی ایک ایک تعلیم کو جھٹلاؤ؟ ان کے ایک ایک حکم کی نافرمانی کرو؟ اور ان کی یاد منانے کے بہانے جاہلیت کی ان تمام رسموں کو زندہ کرکے چھوڑو جنھیں اپنے قدموں تلے روندنے کے لیے آپ صلی الله علیہ وسلم تشریف لائے تھے؟ خدا کے لیے سوچو کہ جس ذات کو سازو رباب اور چنگ و بربط کے توڑنے کے لیے مبعوث کیا گیا تھا، اس کے ”جشن ولادت“ میں ساز ورباب سے کھیل کر تم کس غضب الٰہی کو دعوت دے رہے ہو؟ جس ذات نے عورت کے سر پر عفت و عصمت کا تاج رکھا تھا اور جس نے اس کے گلے میں عزت و آبرو کے ہارڈالے تھے، اس کی محبت و تقدیس کے نام پر تم عورت کو بے پردگی اور بے حیائی کے کس میلے میں کھینچ لائے ہو؟ جس ذات نے نام و نمود، ریا و نمائش، اسراف و تبذیر سے منع کیا تھا، یہ نمائشیں منعقد کرکے تم کس کی خوشنودی حاصل کرنا چاہتے ہو؟ اگر دین کی کوئی صحیح خدمت تم سے نہیں ہوسکتی، اگر تم اپنی عام زندگی میں الله کی نافرمانیوں کو ترک نہیں کرسکتے، اگرمحمد عربی صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات تمہارے عیش پرست مزاج کوبار معلوم ہوتی ہیں، توتمہاری زندگی کے بہت سے شعبے اس عیش پرستی کے لیے کافی ہیں، خدا کے لیے الله کے محبوب ترین پیغمبر صلی الله علیہ وسلم کے نام پر ہوا و ہوس کا یہ بازار لگاکر اس نبی رحمت صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات کا مذاق تو نہ اڑاؤ، اس کے تقدس اور پاکیزگی کے آگے فرشتوں کی گردنیں بھی خم ہوجاتی ہیں، اپنے گریبانوں میں منہ ڈال کر دیکھو کہ رسول کریم صلی الله علیہ وسلم کے ایک ایک حکم کی نافرمانی کرنے کے بعد تم کس چیز کی خوشی میں اپنے درودیوار پر چراغاں کررہے ہو؟ کیا تمہیں اس بات کی خوشی ہے کہ تم نے اپنی عملی زندگی میں اس دین برحق کی کوئی قدر صحیح سالم نہیں دیکھی؟“ لیکن عیش و نشاط کی گونجتی ہوئی محفلوں میں کون تھا جو دین مظلوم کی اس فریاد کو سن سکتا؟
جن لوگوں کا مقصد ہی اس قسم کے ہنگاموں سے عیش و نشاط کا سامان پیدا کرنا ہے، ان کا تو کوئی ذکر ہی نہیں، لیکن جو لوگ واقعتاً آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی تعظیم و محبت ہی کے خیال سے اس قسم کے جشن مناتے ہیں، وہ بھی یہ بات فراموش کررہے ہیں کہ اسلام اور اکابر اسلام کو دوسرے مذاہب اور ان کے پیشواؤں پر قیاس نہیں کیا جاسکتا۔ اسلام نے جہاں ہمیں ان کی تعظیم اور ان کے تذکرے کو برقرار رکھنے کا حکم دیا ہے، وہاں ہمیں اس کا طریقہ بھی بتایا ہے، یہ وہ دین حق ہے جو ہمیں دوسرے مذاہب کی طرح رسمی مظاہروں میں الجھانے کے بجائے زندگی کے اصلی مقصد کی طرف متوجہ کرتا ہے اور اس کے لیے یہ اکابر اس دنیا میں تشریف لائے تھے۔ ورنہ اگر اسلام بھی دوسرے مذاہب کی طرح ان رسمی مظاہروں کی طرح جانا جاتا تو آج ہم اس بات پر فخر محسوس نہ کرسکتے کہ ہمارا دین بفضلہ تعالیٰ اسی شکل میں محفوظ ہے جس شکل میں آنحضرت صلی الله علیہ وسلم اسے لے کر دنیا میں تشریف لائے تھے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ جب کسی مذہب کے پیروکار محض ظاہری رسموں اور نمائشوں میں الجھ جاتے ہیں تو رفتہ رفتہ اس مذہب کی اصل تعلیمات مٹتی چلی جاتی ہیں اور بالآخر بے جان رسوم کا ایک ایسا ملغوبہ باقی رہ جاتا ہے جس کا مقصد انسانی نفسانی خواہشات کی حکمرانی کے سوا کچھ نہیں ہوتا اور جو مادہ پرستی کی بدترین شکل ہے، ان تمام تقریبات کا اصل مقصد تو یہ ہونا چاہیے تھا کہ ان کے ذریعہ وہ خاص شخصیت یا وہ خاص واقعہ ذہن میں تازہ ہو جس کی یاد میں وہ تقریب منعقد کی جارہی ہے اور پھر اس سے اپنی زندگی میں سبق حاصل کیا جائے، لیکن انسان کا نفس بڑا شریر واقع ہوا ہے، اس نے ان تہواروں کی اصل روح کو تو بھلا کرنابود کردیا اور صرف وہ چیزیں لے کر بیٹھ گیا جس سے لذت اندوزی اور عیش پرستی کی راہ کھلتی تھی۔ اس کی وضاحت ایک مثال سے ہوسکے گی۔
عیسائی قومیں ہر سال 25دسمبر کو کرسمس کا جشن مناتی ہیں، یہ جشن دراصل حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا جشن ولادت ہے اور اس کی ابتدا اسی مقدس انداز سے ہوئی تھی کہ اس دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور آپ کی تعلیمات کو لوگوں میں عام کیا جائے گا، چنانچہ ابتداء میں اس کی تمام تقریبات کلیسا میں انجام پاتی تھیں اور ان میں کچھ مذہبی رسوم ادا کی جایا کرتی تھیں، رفتہ رفتہ اس جشن کا سلسلہ کہاں سے کہاں تک پہنچ گیا؟ اس کی مختصر داستان، جشن و تقریبات کی ایک ماہر مصنفہ ہیزلٹائن ہے، اس سے سنیے، وہ انسائیکلوپیڈیا پر برٹانیکا کے مقالہ ”کرسمس“ میں لکھتی ہیں:
”کئی صدیوں تک کرسمس خالصتاً ایک کلیسا کا تہوار تھا، جسے کچھ مذہبی رسوم ادا کرکے منایا جاتا تھا، لیکن جب عیسائی مذہب بت پرستوں کے ممالک میں پہنچا تو اس میں ”سرمانی نقطہ انقلاب“ کی بہت سی تقریبات شامل ہوگئیں اور اس کا سبب گریگوری اعظم (اول) کی آزاد خیالی اور اس کے ساتھ مبلغین عیسائیت کا تعاون تھا، اس طرح کرسمس ایک ایسا تہوار بن گیا جو بیک وقت مذہبی بھی تھا اور لادینی بھی، اس میں تقدس کا پہلو بھی تھا اور لطف اندوزی کا سامان بھی۔“
اب کرسمس کس طرح منایا جانے لگا؟ اس کو بیان کرتے ہوئے میری ہیرزلٹائن لکھتی ہیں:
”رومی لوگ اپنی عبادت گاہوں اور اپنے گھروں کو سبز جھاڑیوں اور پھولوں سے سجاتے تھے، ڈرائڈس (پرانے زمانے کے پادری) بڑے تزک و احتشام سے امربیلیں جمع کرتے اور اسے اپنے گھروں میں لٹکاتے، سیکسن قوم کے لوگ سدابہار پودے استعمال کرتے۔“
انھوں نے آگے بتایا ہے کہ:
”کس طرح شجر کرسمس( Chirstmas Tree) کا رواج چلا، چراغاں اور آتش بازی کے مشغلے اختیار کیے گئے، قربانی کی عبادت کی جگہ شاہ بلوط کے درخت نے لے لی، مذہبی نغموں کی جگہ عام خوشی کے نغمے گائے گئے اور : ”موسیقی کرسمس کا ایک عظیم جزو بن گئی۔“
مقالہ نگار آگے رقمطراز ہے:
”اگرچہ کرسمس میں زیادہ زور مذہبی پہلو پر دیا گیا تھا، لیکن عوامی جوش و خروش نے نشاط انگیزی کو اس کے ساتھ شامل کرکے چھوڑا۔“
اور پھر… ”گانا بجانا، کھیل کود، رقص، ناٹک بازی اور پریوں کے ڈرامے تقریبات کا حصہ ہوگئے۔“ (انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا ص، ۶۴۲۔اے ج ۵، مطبوعہ ۱۹۵۰ء مقالہ “کرسمس“)
ایک طرف کرسمس کے ارتقاء کی یہ مختصر تاریخ ذہن میں رکھیے اور دوسری طرف اس طرز عمل پر غور کیجیے، جو چند سالوں سے ہم نے جشن عید میلاد النبی صلی الله علیہ وسلم منانے کے لیے اختیار کیا ہوا ہے، کیا اس سے یہ حقیقت بے نقاب نہیں ہوتی کہ:
ایں رہ کہ تومی روی بہ ترکستان است
اسلام اس عالم الغیب کا مقرر کیا ہو ادین ہے جو اس کائنات کے ذرہ ذرہ سے باخبر ہے اور جس کے علم محیط کے آگے ماضی، حال اور مستقبل کی سرحدیں بے معنی ہیں، وہ انسانی نفس کی ان پر فریب کاریوں سے پوری طرح واقف ہے جو تقدس کا لبادہ اوڑھ کر انسانیت کو گمراہ کرتی ہیں، اس لیے اس نے خاص خاص واقعات کی یادگار قائم کرنے کے لیے ان تمام طریقوں سے پرہیز کا حکم دیا ہے، جو ان کی اصل روح کو فنا کرکے انہیں عیش و عشرت کی چند ظاہری رسوم کے لیے بہانہ بناسکتے ہوں، چنانچہ صحابہ رضوان الله تعالیٰ علیہم اجمعین اور تابعین کے دور میں ہمیں کہیں نظر نہیں آتا کہ انھوں نے سرور کائنات صلی الله علیہ وسلم کی ولادت باسعادت جیسے عظیم الشان واقعہ کا کوئی دن منایا ہو، اس کے برخلاف ان کی تمام تر توجہات آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات کو اپنانے اور آپ صلی الله علیہ وسلم کے پیغام کو پھیلانے کی طرف مرکوز رہیں اور اسی کا نتیجہ ہے کہ چودہ سو سال گزرنے پر بھی ہم مسلمان بیٹھے ہیں اور اگر اسلام پر عمل کرنا چاہیں تو یہ دین ٹھیک اسی طرح محفوظ ہے جس طرح آپ صلی الله علیہ وسلم نے صحابہ کرام علیہم الرضوان تک پہنچایا تھا۔
لہٰذا اگر ہم اپنے اسلاف کے اس طرز عمل کو چھوڑ کر غیر مسلم اقوام کے دن منانے کے طریقے کو اپنائیں گے تو مطلب یہ ہوگاکہ ہم دین کے نام پر کھیل تماشوں کے اسی راستے پر جارہے ہیں جس سے اسلام نے بڑی احتیاطی تدابیر کے ساتھ ہمیں بچایا تھا، آپ کو معلوم ہے کہ اسلام نے غیر مسلم اقوام کی مشابہت سے پرہیز کرنے کی جابجا انتہائی تدبیر کے ساتھ تلقین فرمائی ہے۔ انتہا یہ ہے کہ عاشورہ محرم کا روزہ جو ہر ا عتبار سے ایک نیکی ہی نیکی تھی، اس میں یہودیوں کی مشابہت سے بچانے کے لیے یہ حکم دیا گیا کہ صرف دس تاریخ کا روزہ نہ رکھا جائے، بلکہ اس کے ساتھ نو یا گیارہ تاریخ کا روزہ بھی رکھا جائے تاکہ مسلمانوں کا روزہ عاشورہٴ یہود سے ممتاز ہوجائے۔
غور فرمائیے! کہ جس دین حنیف نے اس باریک بینی کے ساتھ غیر مسلم اقوام کی تقلید بلکہ مشابہت سے بچانے کی کوشش کی ہے، اس کو یہ کیسے گوارا ہوسکتا ہے کہ سرور کائنات صلی الله علیہ وسلم کا یوم پیدائش منانے کے لیے ان کی نقالی شروع کردی جائے جنہوں نے اپنے دین کو بگاڑ بگاڑ کر کھیل تماشوں میں تبدیل کردیا ہے؟
مذکورہ بالا حقائق کے پیش نظر ہم اپنے ملک کے تمام علماء، دینی رہنماؤں، مذہبی جماعتوں اور با اثر مسلمانوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس مسئلے پر پوری سنجیدگی کے ساتھ غور فرمائیں، ہماری یہ اپیل صرف اہل حدیث اور دیوبندی مکتب فکر کے حضرات کی حد تک محدود نہیں بلکہ ہم بریلوی مکتب فکر کے حضرات سے بھی یہی گزارش کرنا چاہتے ہیں ”عید میلاد النبی صلی الله علیہ وسلم“ کے نام پر جو المناک حرکتیں اب شروع ہوگئی ہیں، وہ یقینا ان کو بھی گوارا نہیں ہوں گی۔

===

نیوز لیٹر سبسکرپشن
سبسکرپشن کے بعد آپ ادارہ کے بارے میں تازہ ترین اپ ڈیٹ حاصل کر سکتے ہیں