English

مضامین 

مفتی ڈاکٹر عبدالواحدصاحب

قیام سے متعلق مسائل 
اگر آدمی کھڑے ہونے پر قادر ہو تو فرض اور واجب نماز کو کھڑے ہو کر پڑھنا ضروری ہے۔ اسی طرح فجر کی سنتوں میں بھی کھڑے ہونے کا زیادہ اہتمام ہونا چاہئے۔
مسئلہ :جو شخص بیماری یا عذر کی وجہ سے کھڑے ہوکر نماز پڑھنے سے عاجز ہو وہ بیٹھ کر فرض نماز پڑھے اور رکوع و سجود کرے۔  
   تنبیہ: عذر کا معنی یہ ہے کہ اسکو کھڑے ہونے سے ضرر ہوتا ہو خواہ نماز شروع کرنے سے پہلے موجود ہو یا نماز کے اندر پیش آیا ہو۔ اور خواہ وہ عذر حقیقی ہو جیسے اگر کھڑا ہو تو گر پڑے یا حکمی ہو مثلاً کھڑے ہونے سے مرض کی زیادتی کا یا دیر میں اچھا ہونے کا یا چکر آنے کا خوف ہو یا کھڑے ہونے سے بدن میں کسی جگہ شدید اور ناقابل برداشت درد ہوتا ہو۔ ان سب صورتوں میں قیام ترک کرے اور بیٹھ کر رکوع و سجود سے نماز پڑھے ۔اور اگر تھوڑا یعنی قابل برداشت درد یا تکلیف ہو تو قیام کا چھوڑنا جائز نہیں۔
 تنبیہ: عموماً یہ بات دیکھی جاتی ہے کہ جہاں ذرا بخار آیا یا خفیف سی تکلیف ہوئی بیٹھ کر نماز شروع کردی حالانکہ وہی لوگ اسی حالت میں دس دس پندرہ پندرہ منٹ بلکہ زیادہ کھڑے ہوکر ادھر ادھر کی باتیں کرلیا کرتے ہیں یہ صحیح نہیں ہے ۔
مسئلہ: اگر تھوڑی دیر قیام پر قادر ہے اور ساری نماز میں قادر نہیں تو جس قدر کھڑا ہوسکتا ہے اتنی دیر کھڑا ہونا فرض ہے لہٰذا اگر صرف اس پر قادر ہے کہ کھڑے ہوکر تکبیر تحریمہ کہے اور قراء ت کے واسطے قیام نہیں کرسکتا تو اسی قدر کھڑا ہونا فرض ہے پھر قراء ت کیلئے بیٹھ جائے یا گر تکبیر کہہ کر تھوڑی سی قراء ت کے واسطے بھی قیام کرسکتا ہے پوری قراء ت کے واسطے قیام نہیں کرسکتا تو اس کیلئے حکم ہے کہ کھڑے ہوکر تکبیر کہے اور جس قدر کھڑے ہوکر پڑھ سکتا ہے اگرچہ ایک آیت ہی ہو اتنی دیر کھڑے ہوکر قراء ت کرے پھر عاجز ہو تو بیٹھ جائے۔ 

اگر دیوار وغیرہ کا سہارا لگا کر کھڑے ہونے پر قادر ہے تو سہارا لگا کر کھڑے ہوکر نماز پڑھے اس کے سوا اور کچھ جائز نہیں۔ اسی طرح اگر (لاٹھی کا یا اپنے خادم یعنی کسی فرمانبردار کا سہارا لے کر کھڑا ہو سکتا ہے تو سہارے سے کھڑے ہو کر نماز پڑھنا فرض ہے ورنہ نماز درست نہ ہوگی اور اسکا لوٹانا فرض ہوگا اس لئے کہ جس طرح پورے قیام پر قادر ہونے سے پورا قیام فرض ہے اسی طرح بعض قیام پر قادر ہونے سے بعض قیام فرض ہے۔
عَنْ أُمِّ قَیْسٍ بِنْتِ مِحْصَنٍ أَنَّ رَسُوْلَ اللہ لَمَّا أَسَنَّ وَحَمَلَ اللَّحْمَ اتَّخَذَ عُمُوْدًا فِیْ مُصَلَّاہُ یَعْتَمِدُ عَلَیْہِ (ابوداؤد)
حضرت ام قیس بنت محصن رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ جب عمر رسیدہ ہوئے اور جسم بوجھل ہوگیا تو اپنے مصلے پر آپ نے ایک ستون سا بنوا لیا جس سے (نماز پڑھتے ہوئے بوقت ضرورت) سہارا لیتے تھے۔ 
مسئلہ: اگر مریض اتنا کمزور ہو کہ گھر میں نماز پڑھے تو قیام کرسکتا ہے اور مسجد میں جماعت کیلئے جانے کے بعد قیام پر قادر نہ ہوگا تو وہ مسجد میں نہ جائے بلکہ اپنے گھر میں کھڑے ہو کر نماز پڑھ لے۔
مسئلہ: اگر کھڑے ہو کر نماز پڑھنے سے رمضان المبارک کے روزے سے عاجز ہوجائے گا بیٹھ کر نماز پڑھے اور مضان المبارک کے روزے بھی رکھے۔
بیٹھ کر نماز پڑھنا 
حضرت انسؓ کہتے ہیںکہ رسول اللہ گھوڑے سے گر گئے اور آپ کا دایاں پہلو چھل گیا۔ ہم آپ کے پاس آپ کی عیادت کیلئے گئے تو نماز کا وقت ہوگیا۔ آپ نے ہمیں بیٹھ کر نماز پڑھائی۔(بخاری و مسلم)
مسئلہ: قیام پر قادر نہ ہونے پر مریض و معذور جب بیٹھ کر نماز پڑھے تو اس کو کسی خاص طریقے سے بیٹھنا ضروری نہیں ہے بلکہ جس طرح اس کو آسان ہو اسی طرح بیٹھے۔ لیکن اگر دو زانو بیٹھنا (یعنی جس طرح تشہد میں بیٹھتے ہیں) آسان ہو یا کسی دوسری طرح بیٹھنے کے برابر ہو تو دو زانو بیٹھنا بہتر ہے ورنہ گھٹنوں کے بل یا چار زانو یا اور جس طرح آسانی سے بیٹھ سکے بیٹھے اور تشہد کے وقت اگر ہوسکے تو دو زانو ہو جائے ورنہ اس میں بھی جس طرح آسانی ہو اس طرح بیٹھے ۔

عَنْ حُمَیْدٍ قَالَ رَأَیْتُ أَنَسَاً یُصَلِّیْ مُتَرَبِّعَاَ عَلٰی فِرَاشِہٖ (بخاری)
حمید رحمہ اللہ کہتے ہیں میں نے حضرت انس ؓ کو عذر کی وجہ سے اپنے بستر پر چوکڑی مار کر بیٹھے نماز پڑھتے دیکھا۔
مسئلہ: اگر مریض سیدھا بیٹھنے پر قادر نہیں اور کسی دیوار کا یا کسی فرمانبردار شخص کا یا تکیہ وغیرہ کا سہارا لے کر بیٹھنے پر قادر ہے تو اس پر فرض ہے کہ اس سہارے سے بیٹھ کر نماز پڑھے اس کو لیٹ کر نماز پڑھنا جائز نہیں۔
عَنْ أُھْبَانَ بْنِ أَوْسٍ وَکَانَ اشْتَکٰی رُکْبَتُہٗ فَکَانَ إِذَا سَجَدَ جَعَلَ تَحْتَ رُکْبَتِہٖ وِسَادَۃً (بخاری)
حضرت اہبان بن اوسؓ کے گھٹنے میں تکلیف ہوئی تو وہ جب سجدہ کرتے تو اپنے گھٹنے کے نیچے تکیہ رکھ لیتے تھے۔ 
مسئلہ: اگر قیام اور رکوع و سجود سے عاجز ہے اور بیٹھنے پر قادر ہے تو بیٹھ کر اشارہ سے نماز پڑھے اور اشارہ کی حقیقت سر کا جھکا دینا ہے اور سجدہ کا اشارہ رکوع کے اشارہ سے زیادہ نیچے تک کرنا ضروری ہے۔ اگر رکوع و سجود کے اشارے برابر مقدار کے کرے گا تو نماز صحیح نہ ہو گی۔  
مسئلہ: اگر رکوع و سجود سے عاجز ہے یا صرف سجدہ نہیں کرسکتا اور قیام پر قادر ہے تو مستحب اور افضل یہ ہے کہ بیٹھ کر اشارہ سے نماز پڑھے اور اگر کھڑے ہو کر اشارہ سے نماز پڑھے تب بھی جائز ہے۔ مسئلہ: اشارہ سے نماز پڑھنے والا سجدہ سہو اور سجدہ تلاوت بھی اشارہ سے کرے۔
”نافع رحمہ اللہ سے روایت ہے حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے تھے کہ جب مریض کو سجدہ کرنے کی طاقت نہ ہو تو وہ اپنے سر سے اشارہ کرے (اور سر کو کچھ جھکا دے) اور (سجدہ کی خاطر) اپنے ماتھے تک کوئی چیز نہ اٹھائے“
مسئلہ: اگر پیشانی پر زخم ہو جس کی وجہ سے پیشانی پر سجدہ نہ کر سکے تو اس کو اشارہ سے نماز پڑھنا درست نہیں اور اس کو ناک پر سجدہ کرنا فرض ہے۔ اگر ناک پر سجدہ نہ کیا اور اشارہ سے نماز پڑھی تو جائز نہ ہوگی ،اگر پیشانی اور ناک دونوں میں عذر مثلاً زخم ہے تو سجدہ کے لیے سر سے اشارہ کرلینا کافی ہے سجدہ نہ کرے۔ 
===

نیوز لیٹر سبسکرپشن
سبسکرپشن کے بعد آپ ادارہ کے بارے میں تازہ ترین اپ ڈیٹ حاصل کر سکتے ہیں