English

مضامین 

ڈاکٹر مفتی عبدالواحد مدظلہ

-1مرض 
مسئلہ: اگر مریض کو اپنی جان ضائع ہونے یا کسی عضو کے بیکار ہوجانے یا بگڑجانے یا کسی اور نئے مرض کے پیدا ہوجانے یا موجودہ مرض کے بڑھ جانے یا دیر میں صحت ہونے کا خوف ہو تو اس کو روزہ نہ رکھنا یا توڑ دینا جائز ہے۔ اور یہ حکم اس شخص کیلئے بھی ہے جس کو طلوع فجر سے پہلے مرض لاحق ہو اور اس کیلئے بھی جس کو روزہ رکھنے اور طلوع فجر کے بعد مرض لاحق ہوا ہو۔ 
تنبیہ: اوپر مذکور خوف کے ثابت ہونے کے لئے شرط یہ ہے کہ مریض کو کسی علامت یا اپنے تجربہ سے یا کسی ایسے دوسرے شخص کے تجربہ سے جس کو ایسا مرض لاحق ہوچکا ہو یا کسی ایسے مسلمان حاذق طبیب کے آگاہ کرنے سے جو کھلا ہوا فاسق نہ ہو گمان غالب حاصل ہوجائے۔ پس غیر حاذق طبیب کی رائے پر عمل کرنا جائز نہیں اور کافر طبیب کی بات پر تو عبادات میں اعتماد ہی نہیں کیا جاتا۔
مسئلہ: اگر تندرست آدمی کو روزہ سے مرض لاحق ہوجانے کا ڈر ہو تو وہ بھی مریض کے حکم میں ہے اور ڈر سے مراد یہ ہے کہ کسی علامت یا تجربہ سے یا کسی مسلمان حاذق طبیب کے آگاہ کرنے سے جو کھلا فاسق نہ ہو گمان غالب حاصل ہو جائے۔
مسئلہ: جو شخص مریضوں کی تیمارداری کرتا ہے اور اس کو خوف ہے کہ اگر روزہ رکھے گا تو کمزوری ہوجانے کی وجہ سے وہ بیمار کی تیمار داری نہیں کرسکے گا اور بیمار ہلاک ہوجائیں گے تو وہ بھی مریض کے حکم میں ہے اور اس کو روزہ نہ رکھنا جائز ہے۔

مسئلہ: دودھ پیتا بچہ جس کو پیٹ کی بیماری ہو اور اس بیماری سے اس کی موت کا خوف غالب ہو اور طبیبوں کا گمان غالب ہو کہ اگر اس کی دائی یعنی دودھ پلانے والی عورت فلاں دوا پئے گی تو وہ بچہ صحت یاب یا قریب الصحت ہوجائے گا اور اس دودھ پلانے والی عورت کو رمضان المبارک میں دن کے وقت اس دواکا پینا ضروری ہے تو اس دائی کو روزہ نہ رکھنے یا رکھا ہو تو توڑنے کی اجازت ہے جبکہ یہ بات حاذق اور مسلمان اطباء نے کہی ہو۔
مسئلہ: اگر کسی پیشہ ور کو اپنا خرچہ کمانے کیلئے روزہ کے ساتھ اپنے پیشے میں مشغول ہونے سے ایسی بیماری و ضرر کا خوف ہو جس سے روزہ توڑ دینا مباح ہوجائے تو اس کو بیمار ہونے سے پہلے روزہ توڑنا حرام ہے۔ 
2-حمل اور دودھ پلانا
اگر حاملہ عورت یا دودھ پلانے والی اپنی یا بچے کی جان پر نقصان یا ہلاکت کا خوف کرے تو اس کو روزہ توڑ دینا جائز ہے۔
3-بے ہوشی
مسئلہ: ایام بے ہوشی کے تمام روزوں کی قضا کرے اگرچہ پورے ماہ رمضان میں بے ہوش رہا ہو۔
مسئلہ: جس شخص کو ماہ رمضان میں بے ہوشی ہوگئی اور وہ روزہ سے ہو تو جس دن بے ہوشی شروع ہوئی اس دن کے روزہ کی قضا نہ کرے کیونکہ اس دن کا روزہ پایا گیاجبکہ وہ ایسا بد عمل نہ ہو کہ سرے سے رمضان کا روزہ رکھتا ہی نہ ہو۔
اور اگر کسی کو رمضان کی پہلی رات میں بے ہوشی طاری ہوگئی تو چونکہ عام طور سے مسلمان کی روزہ رکھنے کی نیت شروع وقت سے ہوتی ہے اس لئے وہ سوائے پہلے دن کے تمام روزوں کی قضا کرے جبکہ مریض کا تمام روزے رکھنے کا معمول ہو۔ یہ اس وقت ہے جبکہ پہلے دن میں روزہ کے اوقات میں کسی ذریعہ سے معدہ وغیرہ میں کوئی غذا یا دوا داخل نہ کی گئی ہو۔ ورنہ اس دن کی بھی قضا کرے۔
مسئلہ: اگر شعبان کے آخری دن میں بے ہوشی ہوئی اور تمام رمضان بے ہوشی رہی تو وہ پورے ماہ رمضان کے روزہ قضا کرے کیونکہ رمضان شروع ہونے سے پہلے روزے کی نیت کرنا صحیح نہیں ہے۔

 

مسئلہ: اگر کسی شخص کے رمضان کے روزے مرض کی وجہ سے فوت ہو گئے اور مرض کا عذر ابھی باقی تھا کہ وہ مر گیا تو اس پر ان روزوں کی قضا واجب نہیں ہے کیونکہ عذر کی حالت میں مرجانے کی وجہ سے اس نے وہ دن ہی نہیں پائے جن میں اس پر فوت شدہ روزوں کی قضا واجب ہوتی اور اس پر فتنہ کے لیے وصیت کرنا بھی واجب نہیں ہے، کیونکہ فدیہ کی وصیت کا واجب ہونا قضا لازم آنے کی فرع ہے… یہ حکم اس وقت ہے وہ مریض یہ امید رکھتا ہو کہ اس کا مرض جاتا رہے گا۔ (عمدۃ الفقہ ص 344 ج 3)
فدیہ کا بیان 
مسئلہ: جسکو اتنا بڑھاپا ہوگیا ہو کہ روزہ رکھنے کی طاقت نہیں رہی یا اتنا بیمار ہے کہ اب اچھے ہونے کی امید نہیں نہ روزہ رکھنے کی طاقت ہے تو وہ روزہ نہ رکھے اور ہر روزہ کے بدلے ایک مسکین کو صدقہ فطر کے برابر یعنی پونے دو کلو گندم یااس کا آٹا یا اس کی قیمت دے دے یا صبح و شام پیٹ بھر کر کھانا کھلاد ے۔ 
مسئلہ: اگر ایک فدیہ دو یا زائد مسکینوں میں تقسیم کیا تو یہ بھی درست ہے۔
مسئلہ: ایک مسکین کو ایک دن میں ایک سے زیادہ فدیہ نہ دیا جائے۔ امام ابو یوسف رحمہ اللہ کی اس بارے میں دو روایتیں ہیں۔ ایک روایت کے مطابق یہاں مذکور ہے۔ دوسری روایت کے مطابق ایک مسکین کو دو دن کے روزوں کے فدیہ میں ایک صاع گندم دے دیے تو جائز ہے بخلاف کفارہ یمین وغیرہ کے کیونکہ اس میں تعداد نص سے ثابت ہے۔ (عمدۃ الفقہ ص 343 ج 3)
مسئلہ: پورے مہینہ کا فدیہ شروع رمضان میں بھی دیا جا سکتا ہے اور آخر رمضان میں بھی۔
مسئلہ: پھر اگر کبھی طاقت آگئی یا بیماری سے اچھا ہوگیا تو سب روزے قضا رکھنے پڑیں گے اور جو فدیہ دیا ہے اس کا ثواب الگ ملے گا ۔
مسئلہ: اگر فقر و تنگ دستی کی وجہ سے فدیہ دینے پر قدرت نہیں ہے تو بس اللہ تعالی سے استغفار کرے۔  
مسئلہ: کسی بھی قسم کا ٹیکہ خواہ وہ عضلاتی ہو یا وریدی ہو لگانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔ یہاں تک کہ اگر کسی طبی ضرورت سے گلو کوز کی بوتل بھی چڑھائی جائے تب بھی روزہ نہیں ٹوٹتا۔ اسی طرح خون چڑھانے(Blood  Transfusion)سے بھی روزہ نہیں ٹوٹتا۔ اس کی دو وجہیں ہیں۔ (1) دوا جسم کے اندر کسی منفذ (Opening)سے داخل نہیں ہوئی(2) دوا کسی جوف (Cavity) میں داخل نہیں ہوئی۔

مسئلہ: محض روزہ کی مشقت کم کرنے کیلئے(Drip)لگوانا مکروہ ہے پھر بھی روزہ نہیں ٹوٹتا۔ 
مسئلہ: انجائنا (Angina Pectoris) کے مریض اگر روزہ کی حالت میں Angised گولی زبان کے نیچے رکھ لیں اور اس کا خیال رکھیں کہ لعاب حلق کے نیچے اترنے نہ پائے تو منہ کی اندرونی تہہ سے اس کے جذب ہونے سے روزہ نہیں ٹوٹتا اور اگر لعاب حلق میں چلا گیا تو روزہ ٹوٹ جائے گا لہٰذا احتیاط بہتر ہے۔ 
مسئلہ: روزہ دار نے دوا چکھی اور اس کا مزہ اپنے حلق میں پایا لیکن دوا حلق میں نہیں گئی تو روزہ نہیں ٹوٹے گا۔ 
مسئلہ: نشے والا آدمی اگر نیت کا وقت گزرنے سے پہلے ہوشیار ہوگیا اور اس وقت اس نے روزہ کی نیت کرلی تو اس کا روزہ صحیح ہوجائے گا کیونکہ رمضان کے روزے کیلئے رات کو نیت کرنا شرط نہیں ہے اور اگر ہوشیار ہونے سے پہلے روزہ کی نیت کا وقت گزرگیا تو اس روزہ کی قضا لازم ہوگی۔ 
   مسئلہ:پچھنے لگوانے(Cupping)اور اسی طرح فصد کھلوانے (Venesection) اور کسی مریض کیلئے خون دینے(Blood  Donation)سے بھی روزہ نہیں ٹوٹتا۔ البتہ اس سے ہونے والے ضعف کی بنا پر بہتر ہے کہ روزہ کی حالت میں ایسا نہ کرے۔ 
عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِیَّ ا اِحْتَجَمَ وَھُوَ صَائِمٌ (بخاری)
حضرت عبداللہ بن عباس ا سے روایت ہے کہ نبی ا نے پچھنے لگوائے (اور خون نکلوایا) جبکہ آپ روزہ سے تھے۔

نیوز لیٹر سبسکرپشن
سبسکرپشن کے بعد آپ ادارہ کے بارے میں تازہ ترین اپ ڈیٹ حاصل کر سکتے ہیں