English

مضامین 

مفتی فیصل حمید صاحب

دین اسلام محبت ، مودت ،الفت ،ہمدردی اور بھائی چارے کا دین ہے، یہ دوسروں کی خوشیوں میںخوش ہونے اور ان کے غم میں شریک ہونے کا درس دیتا ہے، دوسروں کے دکھ درد بانٹنے کی تعلیم دیتا ہے، پریشان حال لوگوں کے ساتھ غم وخواری کا سبق سکھاتا ہے اور ہرحال میں ہر ایک کی خیر خواہی کو فروغ دیتا ہے ، حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے’’الدین النصیحۃ‘‘ (دین تو سراسر خواہی(کانام)ہے)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان کے دوسرے مسلمان پر جو حقوق بتائے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ جب وہ بیمار ہوجائے تو اس کی عبادت اور تیمارداری کی جائے ، ذخیرہ احادیث میں خود حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے اس پر عمل کی بے شمار مثالیں ملتی ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سے اس کی اس قدر اہمیت ثابت ہوتی ہے کہ آپ لوگوں کی چھوٹی چھوٹی تکالیف پر بھی عبادت فرمایا کرتے تھے ، چنانچہ حضرت زیدبن ارزم رضی اللہ تعالی عنہ کی آنکھ دکھنی آئی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی عیادت فرمائی۔(سنن ابی داوود) ایک یہودی لڑکا بیمار ہوا تو آپ اس کی بھی عیادت کرنے کے لئے تشریف لے گئے ، جس کی بدولت اللہ رب العزت نے اسے اسلام قبول کرنے کی توفیق دی۔(سنن ابی داود)
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا راشاد مبارک ہے کہ جوشخص کسی مسلمان کی عبادت کرتا ہے تو(جب تک وہ چلتا رہتا ہے) جنت کے میوے چنتارہتا ہے (یعنی اس راستے پر چل رہا ہوتا ہے جو جنت میں لے جانے والا ہے) یہاں تک کہ وہ بیٹھ جائے ، اور جب بیٹھ جاتا ہے (یعنی بیمار کے پاس)تو رحمت اسے ڈھانپ لیتی ہے، اور اگر صبح کا وقت ہوتو شام تک سترہزار فرشتے اس کے لئے دعائے مغفرت کرتے رہتے ہیں اور اگر شام کا وقت ہو تو ستر ہزار فرشتے اس کے لئے دعائے مغفرت کرتے رہتے ہیں(ترمذی) اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بھی فرمان ہے کہ جو آدمی اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے کسی بیمار کی عیادت کرتا ہے تو ہو اللہ رب العزت کی رحمت میں داخل ہوجات ہے ، اور جب بیٹھ جات ہے تو اللہ کی رحمت میں پورا کا پورا بھیگ جاتاہے (جس طرح نہر وغیرہ میں داخل ہوکر بھیگ جاتا ہے) (شعب الایمان)
البتہ عبادت اور تیمارداری کے کچھ آداب ہیں جن کی رعایت کرنا بہت ضروری ہے اور ان آداب کی رعایت کرنا اجر و ثواب کو بھی بہت بڑھا دینا ہے اور بیمار کو بھی اس سے راحت ہوتی ہے۔یہ آداب درج ذیل ہیں:
بیمار کے سرہانے کی طرف بیٹھیں اور (اگر وہ غیر محرم نہ  ہو تو) اس کے ہاتھ یا پشانی پر ہاتھ رکھ کر طبیعت کے بارے میں پوچھیں ، بیمار سے زیادہ سوالات نہ کریں، اسے تسلی اور حوصلہ دلائیں، اس کی صحت یابی کی دعاکریں ، خاص طور پر جو مسنون دعائیں اس موقع کی احادیث مبارکہ میں آئی ہیں ان کا اہتمام کریں،اس کے سامنے ایسی باتیں کریں جس سے اس کی طبیعت میں بشاشت آئے اور اسے خوشی ہو، ناامید کی باتیں نہ کریں ، اس کے سامنے اسے لمبی عمر اور صحت کی دعادیں اور اس سے اپنے لئے دعا کروائیں کیونکہ بیمار کی دعا قبولیت میں فرشتوں کی دعا جیسی ہوتی ہے ، مریض اگر مرض الوفات میں ہو تو اسے اس کی نیکیاں یاد دلاکر اللہ تعالیٰ کی رحمت کی امید دلائیں ، بیمار کا اگر کچھ کھانے کا دل چاہ رہا ہو تو وہ منگا کر دے دیں ، اسے کھانا کھانے پر مجبور نہ کریں،بیماری اگر زیادہ طویل ہوجائے وقفے وقفے سے عیادت کے لئے جاتے رہیں تاہم ہر روز نہ جائیں ، کم ازکم ایک دن کا وقفہ کریں یا ایک بار عیادت کرکے دوبارہ چوتھے دن جائیں اور عیادت کے لئے جائیں تو زیادہ دیر تک نہ بیٹھے رہیں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ بیمار کو آرام یا قضائے حاجت وغیرہ کی ضرورت درپیش ہو لیکن وہ شرم کے مارے اس کا اظہار نہ کرسکے اور نتیجتا اسے پریشانی ہو، البتہ اگر مریض کو کسی سے ایسا اُنس اور بے تکلفی ہو کہ اس کا بیٹھا رہنا ہی مریض کے لئے خوش کن اور راحت کا باعث ہو تو اس کے زیادہ دیر تک بیٹھے رہنے میں بھی کو ئی حرج نہیں ہے ، اس لئے کہ انسان کو بعض اوقات کسی سے ایسا لگائو اور قلبی تعلق ہوتا ہے کہ اس کی آمد اور ملاقات ہی وہ کا کرجاتی ہے جو برسوں کی دوائیں بھی نہیں کرپاتیں ، بقول اکبر الٰہ آبادی۔

ان کے دیکھے سے جو آجاتی ہے منہ پر رونق
وہ  سمجھتے  ہیں کہ  بیمار کا  حال اچھا  ہے


یہ سارے کے سارے وہ آداب ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ نے اپنے عمل سے ان کی تعلیم دی ہے، چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت شریفہ یہ تھی کہ جب آپ کسی مریض کی بیمار پرسی کے لئے تشریف لے جاتے تو اس کے سرہانے کے پاس تشریف فرما ہوتے اور پھر سات بار یہ دعا پڑھتے:’’ اسال اللہ العظیم رب العرش العظیم ان یشفیک ‘‘ (میں اللہ بزرگ و برتر سے جو عظیم الشان عرش کا ر پروردگار ہے یہ دعا کرتا ہوں کہ آپ کو شفاء عطار فرمائے) اس کا اثریہ ہوتا کہ اگر اس کی ابھی زندگی ہوتی تو وہ اس بیماری سے شفا یا ب ہوجاتا (صحیح ابن حبان) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک عادت شریفہ یہ بھی تھی کہ مریض کی عیادت کے لئے جاتے تو اس کے لئے یہ دعا کرتے’’ لاباس طھور ان شاء اللّٰہ‘‘( صحیح بخاری ) اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عیادت کے وقت یہ دعا بھی پڑھا کرتے تھے۔اذھب الباء س رب الناس واشف انت الشافی لا شفاء الا شفائک شفاء لایغادر سقما‘‘ (صحیح مسلم) اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے کہ جب تم کسی بیمار کی عیادت کے لئے جائو تو اُسے لمبی عمر کی دعا دو،گو تمھاری دعا تقدیر کو تونہیں بدل سکتی لیکن بیماری کو تو اس سے راحت ہوگی(سنن ترمذی) نیز مریض اگر مرض الوفات میں ہو تو اسے اس کی نیکیاںاور اچھے اعمال یا د دلاکر اللہ رب العزت کی رحمت کی امید دلانی چاہیے، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مرض الوفات میں عیادت کے لئے تشریف لے گئے تو انہیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اچھی صحبت اور مسلمانوں کے ساتھ ان کے اچھے برتائوکو یاد دلاکر رحمت الٰہی کی امید دلائی (صحیح بخاری)
یہی ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مرض الوفات میں ان کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ اللہ تبارک کہ اللہ تبارک و تعالیٰ انشاء اللہ آپ کے ساتھ آسانی ہی کا معاملہ فرمائیں گے کہ آپ حضور اقدس صلی اللہ علیہ و سلم کی زوجہ،مطہرہ ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کے علاوہ اور کی دوشیزہ سے شادی نہیں کی ، اور (جب آپ پر تہمت لگائی گئی تو) اللہ تعالیٰ نے آسمان سے آپ کی (پاک دامنی کی) گواہی نازل کی (صحیح بخاری)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے کہ مکمل عیادت یہ ہے کہ اپناہاتھ بیمار کی پیشانی یا ہاتھ پر رکھ کر پوچھے کہ وہ اب کیسا ہے ؟(الاذکار للنووی) اورحضرت ابو مجلہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ بیمار سے ایسی باتیں کی جائیں جن سے وہ خوش ہو (الاًداب للبیہقی) اور عیادت کرنے والے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ بیمار سے دعا کی درخواست کرے،اس لئے کہ اُس کی دعا (قبولیت کے اعبار سے)فرشتوں کی دعا جسی ہے۔(شعب الایمان)
حضر سعد بن معاذ غزوہ حنین میں زخمی ہوگئے تھے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وقتا فوقتا ان کی عیادت کرتے رہنے کے لئے مسجد ہی میں خیمہ لگالیا تھا (سنن ابی داوود) اور آپ صلی علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے کہ (جب ایک سے زائد بار عیادت کرنی ہو تو)عیادت کرنے میں ایک دن کا ناغہ کرلو یا (ایک بار عیادت کرکے)دوبارہ چوتھے دن جائو (شعب الایمان) اور حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے کہ اجر کے اعتبار سے سب سے بہتر عیادت وہ ہے جو بس تھوڑی دیر کے لئے ہو(شعب الایمان)۔
حضرت ابو العالیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ بیمار کے پاس زیادہ دیر نہ بیٹھو، ممکن ہے کہ اُسے کوئی حاجت درپیش ہو لیکن وہ پاس بیٹھے ہوئے لوگوں کی شرم کی وجہ سے اس کا اظہار نہ کرسکے (شعب الایمان)شیخ فراء رحمہ اللہ بیمار ہوئے تو ایک آدمی ان کی عیادت کے لئے آیا اور کافی دیر ان کے پاس بیٹھا ان کی طبیعت کے بارے میں سوالات کرتا رہا، بالاًخر اُنھوں نے اُسے اپنے قریب بلا کر یہ اشعار پڑھے:


حق    العیادۃ    یوم   بین     یومین
و جلسۃ مثل لحظ الطرف بالعین
لا تبر   من   مریضا   فی     مسائلہ 
یکفیک   من   ذاک  ما بحرفین

ترجمہ: عیادت کا حق ایک دن چھوڑ کر ایک دن کرنا اور مریض کے پاس پلک جھپکنے کے بقدر بیٹھا ہے، بہت زیادہ سوالات کرکے مریض کو پریشان نہ کرو، تمھارے لئے بس اتنا کافی ہے کہ حرفوں میں طبیعت دریافت کر لو۔(شعب الایمان) 
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک بار ایک آدمی کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے اور اس سے پوچھا کیا تمھارا کچھ کھانے کا جی چاہ رہا ہے؟ کیا کیک کھائو گے؟اُس نے کہا:جی! تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لئے کیک منگادیا۔(عمل الیوم و اللیلۃ لابن السنی) اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بھی ارشاد مبارک ہے کہ اپنے بیمار وں کو کھانا کھانے پر مجبور نہ کرو، اللہ تعالیٰ انھیں خود ہی کھلاتا بھی اور پلاتا بھی ہے۔(سنن ترمذی)

نیوز لیٹر سبسکرپشن
سبسکرپشن کے بعد آپ ادارہ کے بارے میں تازہ ترین اپ ڈیٹ حاصل کر سکتے ہیں