English

مضامین 

محمد فیصل حمید


حضور سرور دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم  کے جمال بے مثال کو لفظوں مین بیان کر دینا طاقت انسانی کے لیے ممکن نہیں ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف خلقیہ کو بیان کرنے والے صحابہ کرام میں سے ہر ایک نے اپنے ظرف کے بقدر ان اوصاف کا ادراک کیا اور اپنی اپنی تعبیرات میں انھیں  بیان کیا ، کسی نے ماہ کامل اور کسی نے چاند کا ٹکڑا کہا ،کسی نے ابھرتے سورج کے ساتھ تشبیہ دی تو کسی نے کہا ــ:گویا کہ آفتاب اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ آپ کے رخ انور میں اتر آیا ہو،اور کسی نے تو یہ کہتے ہوئے معذرت ہی کر لی کہـ :  ’’آپ علیہ الصلاۃ و السلام کے اوصاف تو وہ بیان کرے جس نے کبھی نظر بھر کر آپ کو دیکھا ہو ، ہمیں تو ہیبت نبوی کی وجہ سے کبھی جی بھر کر دیکھنے کی ہمت ہی نہ ہوئی۔
کتب احادیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ کے اوصاف سے متعلق صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے جو روایات  منقول ہیں ان سے جہاں آپ کا حلیہ مبارک امت کے سامنے آتا ہے وہیں یہ بھی پتا چلتا کہ صحابہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کس درجہ محبت تھی کہ انھوں نے کس باریک بینی کے ساتھ آپ کے اوصاف کو بیان کیا، حضور سروردوعالم کے حلیہ مبارک کا ایک اجمالی سا خاکہ یہ ہے :
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا  قد مبارک نہ پست تھا نہ بہت لمبا بلکہ آپ درمیانے سے کچھ اونچے قد والے تھے ۔۔۔کوئی کتنا ہی بلند قامت آپ کے ہمراہ چل رہا ہوتا لیکن آپ سے پست ہی دکھائی دیتا ۔۔۔ مجلس میں تشریف فرما ہوتے تو آپ کے کندھے دوسروں سے اونچے ہی نظر آتے۔
سر مبارک انتہائی خوبصورتی کے ساتھ بڑا تھا ۔۔۔بال نہ بہت گھنگریالے تھے نہ بالکل سیدھے بلکہ ان میں تھوڑا سا خم تھا ۔۔۔ان میں خود بخود مانگ نکل آتی تو باقی رہنے دیتے ورنہ یونہی چھوڑ دیتے ۔۔۔ آپ کا کنگھی کے ساتھ ماگ نکالنا بھی ثابت ہے ۔۔۔آپ نے اکثر بڑے بال رکھے ہیں۔۔۔ جو کبھی کانوں کی لوو ں سے کچھ اوپر۔۔۔ کبھی ان کے برابر۔۔۔ اور کبھی ان سے کچھ نیچے تک ہوتے ۔۔۔انھیں کاٹ لیتے تو کانوں کی لووں سے نہ بڑھتے ۔۔۔اور چھوڑ دیتے تو کندھوں تک بھی پہنچ جاتے ۔۔سر اور داڑھی مبارک میں سفید بالوں کی تعداد بیس سے زائد نہ تھی۔۔۔ اور یہ سفید بال کچھ کنپٹیوں اور کچھ مانگ نکالنے کی جگہ پر تھے۔۔۔ پیشانی مبارک  ہمواراور کشادہ ،  بھنویں گھنی ،خم دار  اور  تراشیدہ تھیں ۔۔۔اوریہ دونوں آپس میں ملی ہوئی نہ تھیں ۔۔۔ان کے درمیان ایک رگ تھی جو غصے کے وقت پھڑکنے لگتی تھی۔ 
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں بڑی اور سیاہ تھیں ۔۔۔ان میں سرمہ لگائے بغیر بھی یوں لگتا تھا کہ سرمہ لگاہے ۔۔۔ آنکھوں کی پتلیاں خوب سیاہ اور سفید حصے میں سرخ ڈوریاں تھیں ۔۔۔ناک مبارک ستواں تھی ۔۔۔اور آنکھوں کی روشنی سے نور کا ایک ہالہ اس پر چھایا رہتا تھا جس کی وجہ سے اچانک نظر پڑنے پر کچھ بلند معلوم ہوتی تھی ۔۔۔رخسار مبارک نرم و نازک تھے۔۔۔ اوریہ کبھی کبھی شدید غصے میں اتنے سرخ بھی ہوگئے  جیسے سرخ انار کے دانے ان پر نچوڑ دیے گئے ہوں ۔۔۔ ہونٹوں کا دہانا خوبصورتی کے ساتھ چوڑا تھا ۔۔۔ دانت سفید، چمک دار ، آب دار اور تہہ بہ تہہ موتیوں کی مانند باہم مربوط تھے ۔۔۔سامنے کے دانتوں میں ہلکے سے خلا نے ان کی خوبصورتی کو اور بڑھا رکھا تھا ۔۔۔ گفتگو فرماتے تو ان سے نور پھوٹتا ہوا دکھائی دیتا تھا ۔۔۔ خوشی کے وقت چہرہ مبارک یوں کھل اٹھتا گویا کہ چاند کا ٹکڑا ہو ۔
آپ با لکل گورے چٹے نہ تھے۔۔۔ بلکہ آپ کا روشن چہرہ سفیدی کے ساتھ کسی قدر سرخی لیے ہوئے تھا۔۔۔ اور اس کے ساتھ معمولی سا گندمی پن رخ انور کے حسن کو چار چاند لگا دیتا تھا ۔۔۔چہرہ مبارک پھولا ہوا اور بالکل گول نہ تھا۔۔۔ بلکہ اس میں تھوڑی سی گولائی تھی ۔۔۔داڑھی گھنی تھی ۔۔۔گردن مورتی کی مانند تراشیدہ اور چاندی کی طرح شفاف تھی ۔ـــــ
سینہ مبارک چوڑاتھا ۔۔۔ کندھے گوشت سے پرتھے اور ان کے درمان فاصلہ زیادہ تھا ۔۔۔ پشت پر دونوں کندھوں کے درمیان کچھ بائیں کندھے کی طرف کر کے مہر نبوت تھی ۔۔۔یہ رسولی کی مانند گوشت کا ابھرا ہو حصہ تھا ۔۔۔اس کے اوپر اور دائیں بائیں تہہ بہ تہہ بال تھے۔۔۔ اور مسّوں جیسے بہت سے  سیاہ تل اس کے ارد گرد تھے ۔۔۔یہ بناوٹ میں بند مٹھی یا سیب کے مشابہہ۔۔۔ اور حجم میں کبوتر کے انڈے یا چھپر کھٹ کی گھُنڈی کے جتنی تھی ۔۔۔اس کا حجم مختلف اوقات میں گھٹتا اور بڑھتا رہتا تھا۔۔۔ (اسی وجہ سے صحابہ کرام سے اس کے حجم کے بارے میں مختلف روایات منقول ہیں )۔۔۔اور صحیح یہ ہے کہ اس پر کچھ لکھا ہوا نہ تھا ۔۔۔(وہ مہر نبوت جس پر ـ ’’ محمد الرسول اللہ‘‘ لکھا ہوا تھا آپ کی انگوٹھی مبارک میں تھی )۔
سینے پر اُوپر کی جانب کچھ بال تھے ۔۔۔اور بالوں کا ایک باریک خط سینے سے ناف تک چلا گیا تھا ۔۔۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کلائیوں اور کندھوں پر بھی بال تھے ۔۔۔ ان کے علاوہ جسم اطہر پر معمولی سے زائد بال نہ تھے ۔۔۔ہاتھوں اور پا ئوں کی انگلیا ں قدرے لمبی تھیں۔۔۔۔ (لیکن اتنی لمبی نہ تھیں کہ حد اعتدال سے نکل جائیں اور آنکھوں میں نہ  جچیں )۔۔۔ ہتھیلیاں چوڑی اور گوشت سے پرُ تھیں ۔۔۔ یہ عام حالات میں حریر و ریشم کی سے زیادہ نرم ہوتیں ۔۔۔لیکن جہاد کے موقع پر ان میں سختی آجاتی تھی ۔۔۔آپ کی کلائیاں لمبی ۔۔۔تلوے گہرے ۔۔قدم ہموار اور پُرگوشت تھے ۔۔۔ ان کے صاف ستھرا اور نرم و ملائم ہونے کی وجہ سے پانی ان پر ٹھہرتا نہ تھا اور فورا ڈھلک جاتا ۔۔۔ بڑے  بڑے جوڑوں (مثلا: کہنیوں اور گھٹنوں کے ملنے )کی ہڈیاں بڑی تھیں ۔۔۔تمام اعضائے مبارک خلقت میں غایت اعتدال پر تھے اور گوشت ان پر زیادہ تھا ۔۔۔جو اعضالباس مین ڈھکے ہوئے نہ ہوتے ( مثلا: چہرہ، ہتھیلیاں اور قدم )نہایت روشن تھے۔
آپ علیہ الصلاۃ والسلام قدرے تیز چلتے ۔۔۔بڑے بڑے قدم لیتے ۔۔۔اور آگے کو جھک کر یوں چلتے جیسے بلندی پر سے اتر رہے ہوں۔۔۔ قدم مبارک قوت سے اٹھاتے اور نرمی سے زمین پر  رکھ  دیتے ۔۔۔ کسی کی طرف توجہ فرماتے تو صرف گردن گھما نہ دیکھتے بلکہ ہمہ تن اس کی طرف متوجہ ہو جاتے ۔۔۔ نظریں اکثر جھکائے رکھتے ۔۔۔اور وحی کے اشتیاق میں آسمان کی طرف بھی بار بار نظریں اٹھاتے رہتے تھے ۔۔۔ لیکن آپ کی نظریں آسمان سے زیادہ زمین کی طرف رہتی تھیں ۔۔۔ غایت شرم و حیا کی وجہ سے کسی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر نہ دیکھتے ۔۔۔ بلکہ صر ف گوشہء چشم  سے دیکھتے ۔۔سر میں تیل  زیادہ لگاتے ۔۔۔اور داڑھی میں کنگھی بھی زیادہ کیا کرتے تھے۔۔۔ لیکن اتنی زیادہ بھی نہیں کہ ہر وقت اسی کی فکر میں رہتے ہوں۔
آپ کا پسینہ مبارک  مشک و عنبر سے زیادہ  خوشبودار تھا ۔۔۔جس راستے سے گزر جاتے وہ خوشبو سے مہک اٹھتا ۔۔۔اور آپ کے بعد وہاں سے گزرنے والا خوشبو سے پہچان لیتا کہ آپ یہاں سے گزر کر گئے ہیں ۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ میری آنکھوں نے کبھی آپ جیسا خوبصورت انسان نہیں دیکھا نہ آپ سے پہلے نہ آپ کے بعد۔۔۔ اور حضرت براء بن عازب فرماتے ہیں کہ(صرف انسان ہی نہیں بلکہ ) کسی  چیز کو بھی میں نے آپ سے زیادہ خوبصورت نہیں دیکھا۔۔ ۔ او ر حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ تو یہ فرماتے ہیں کہ: میں نے ایک چاندنی رات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سرخ جوڑے میں ملبوس دیکھا۔۔۔ میں کبھی آپ کو دیکھتاکبھی چاند کو۔۔۔ بالآخر میں نے آپ کو چاند سے زیادہ خوبصورت پایا۔
صلی اللہ علیہ وسلم 

نیوز لیٹر سبسکرپشن
سبسکرپشن کے بعد آپ ادارہ کے بارے میں تازہ ترین اپ ڈیٹ حاصل کر سکتے ہیں