English

مضامین 

لئیق احمد نعمانی
ہر قوم وملت میں سال کے کچھ دن جشن ومسرت منانے کیلئے مقرر کئے جاتے ہیں۔ جنہیں تہوار کہا جاتا ہے۔ تہوار منانے کیلئے ہر قوم کا مزاج اور طریقہ کار تو مختلف ہوسکتا ہے لیکن مقصود خوشی منانا ہی ہوتا ہے۔ چونکہ انسان کی طبیعت میں یہ بات داخل ہے کہ وہ معمولات کی یکسانی سے کبھی کبھی گھبرا اٹھتا ہے۔ اس لیے وہ ایسے شب وروز کا خواہش مند ہوتا ہے جن میں اپنے روز مرہ کے معمولات سے ذرا ہٹ کر اپنے ذہن ودل کو فارغ کرے اور کچھ وقت بے فکری کے ساتھ ہنس بول کر گزارے ۔ انسان کی یہی طبیعت تہوار کو جنم دیتی ہے ۔ جو مخصوص پس منظر کی بنیاد پر بعض اوقات کسی قوم کا شعار بھی بن جاتے ہیں۔ 
جب آنحضرت ﷺ مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ ﷺ نے دیکھا کہ اہل مدینہ نیروز اور مہرجان کے نام سے خوشی کے دو تہوار مناتے ہیں صحابہ کرام ؓ نے آپﷺ سے پوچھا کہ کیا ہم ان تہوار وں میں شرکت کرلیا کریں؟ آپﷺ نے فرمایا کہ اللہ پاک نے تمہیں ان کے بدلے ان سے بہتر دو دن عطا فرمائے ہیں۔ 
1۔ عید الفطر کا دن 2عید الاضحی کا دن
عید الفطر رمضان المبارک کی عبادات یعنی صوم وصلوۃ ، تراویح واعتکاف کی انجام دہی کے بعد اظہار تشکر ومسرت کے طور پر منائی جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس دن عبادت کی توفیق دی اورعید الاضحی اس وقت منائی جاتی ہے جب مسلمان ایک عظیم الشان اجتماعی عبادت حج کی تکمیل کررہے ہوتے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ عبادات کے اختتام اور انجام پانے کی خوشی کوئی دینوی خوشی نہیں ہے جس کا اظہار دنیاوی رسم ورواج کے مطابق کرلیا جاتا یہ ایک دینی خوشی ہے اور اس کے اظہار کا طریقہ کار بھی دینی ہی ہونا چاہیے۔ اس لیے اس مسرت کے اظہار اور اس خوشی کے منانے کا اسلامی طریقہ یہ قرار پایا کہ اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ شکر بجا لائے، اپنے خالق حقیقی کے گیت گاتے ہوئے عید گاہ میں جمع ہو کر اجتماعی طور پر سجدہ ریز ہوا جائے اور اس طرح اپنے مالک کی توفیق اور اس کی عنایات کا شکرادا کیا جائے۔
اس دن میں بھی رسول اللہ ﷺ نے اپنے طرز عمل سے امت کو ہدایت اور رہنمائی عطا فرمائی۔
اسی وجہ سے قرآ ن پاک میں ہے ’’لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ‘‘
چنانچہ امت کو چاہیے کہ عید کے اس مبارک موقع کی ہر ساعت کو آنحضرت ﷺ کے مبارک طریقوں کے مطابق ہی گزارے تاکہ اس کا ہر ہر لمحہ نہ صرف وقتی خوشی کا باعث بنے بلکہ واقعی اور دائمی خوشی کا بھی سبب بنے۔
اس دن جہاں2رکعت نماز چھ زائد تکبیروں کے ساتھ اللہ پاک کی کبریائی کے اظہار کے طور پر پڑھنا بہت بڑی عبادت ہے وہیں اس دن کی اہم ترین عبادت قربانی کرنا ہے۔ 
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ،، یوم نحر میں (یعنی دس ذو الحجہ کے روز)  قربانی کے جانور کے سینگھ اس کے بال اور اس کے کُھر (یہ سب) آدمی کی نیکیوں کے میزان ہوں گے،اور اس قربانی کا خون زمین پر گرنے سے بھی پہلے اللہ رب العزت کی برگاہ میں (قبولیت کے لئے) پہنچ جاتا ہے،سو یہ (بشارت) تمھیں مبارک ہو‘‘(سنن الترمذی،باب ماجاء فی فضل الاضحیۃ و رقم الحدیث:1493)

عید الاضحیٰ کے دن مسنون اور مستحب اعمال
1۔عید کے دن عید مبارک کہنا جائز ہے۔
2۔عید کے دن صبح سویرے اٹھنا۔
3۔شریعت کے موافق طہارت اور نظافت و صفائی ستھرائی اور زیب وزینت اختیار کرنا۔
4۔خوب اہتمام کے ساتھ میل کچیل دور کرکے غسل کرنا ۔
5۔مسواک کرنا۔
6۔فاضل (یعنی زیر ناف اور بغلوں اور مونچھوں کے ) بال اور ہاتھ پائوں کی انگلیوں کے ناخن کاٹنا۔
7۔پاک صاف عمدہ لباس جو میسر ہوپہننا۔
8۔خوشبو لگانا(مگر خواتین تیز خوشبو لگانے سے پرہیز کریں)
9۔حسب حیثیت اپنے اہل وعیال میں وسعت اور فراخی کرنا۔
10۔عید کی نماز کیلئے جلدی پہنچنا۔
11۔کوئی عذر نہ ہو تو عید کی نماز ادا کرنے کیلئے پیدل جانا۔
12۔عید کی نماز کیلئے جاتے ہوئے راستے میں تکبیر کہنا۔
13عید الاضحیٰ کے دن عید کی نماز تک کچھ نہ کھانا اگرچہ قربانی نہ بھی ہو اگر کچھ کھا لیا تو مکروہ نہیں قربانی کرنے والے کے لئے مستحب یہ ہے کہ وہ اس روز سب سے پہلے اپنی قربانی کا گوشت میں سے کھائے۔
14۔جس راستے سے عید کی نماز کیلئے جائیں اس کے علاوہ سے واپس آنا۔
15۔اپنی وسعت کے مطابق مساکین ومستحقین کو صدقہ کرنا۔
16۔گھر والوں، عزیزوں اور دوستوں کے ساتھ خوش اخلاقی سے پیش آنا۔
نوٹ۔ عید کی نماز کے بعد عید کا ایک عمل سمجھ کر گلے ملنا یا مصافحہ کرنا ناجائز اور بدعت ہے اگر نماز عید کے لیے اکٹھے عید گاہ گئے ہوں یا پہلے مل چکے ہوں تو نماز کے بعد پھر گلے ملنا بذات خود ایک بے موقع عمل ہے۔ حالانکہ دین میں مصافحہ اور معانقہ کا موقع متعین ہے۔ کسی سے کچھ وقفہ بعد ملیں تو اس سے مصافحہ کرنا مسنون ہے اور جس سے طویل وقفہ بعد ملیں تو اس سے معانقہ کیا جاسکتا ہے۔
عید کی نماز کا طریقہ
یہ نیت کرکے کہ میں دورکعت واجب نمازِ عید مع چھ زائد تکبیروں کے پڑھتا ہوں اللہ اکبر کہہ کر ہاتھ باندھ لے اور سبحانک اللھم آخر تک پڑھ کر تین مرتبہ اللہ اکبر کہے اور ہر مرتبہ تکبیر تحریمہ کی طرح دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھائے اور تکبیر کے بعد ہاتھ چھوڑ دے اور ہر تکبیر کے بعد اتنی دیر توقف کرے کہ تین مرتبہ سبحان اللہ کہہ سکیں۔ تیسری تکبیر کے بعد ہاتھ نہ چھوڑے بلکہ باندھ لے اور اعوذباللہ ، بسم اللہ پڑھ کر سورۃ فاتحہ اور کوئی دوسری سورۃ پڑھ کر حسب دستور رکوع وسجدہ کرکے کھڑا ہو اور دوسری رکعت میں سورۃ فاتحہ اور سورۃ پڑھ لے۔ اس کے بعد تین تکبیریں اسی طرح کہیے لیکن یہاں تیسری تکبیر کے بعد ہاتھ نہ باندھے بلکہ چھوڑے رکھے اور پھر تکبیر کہہ کر رکوع میں چلا جائے۔ اور باقی نماز مکمل کرلے۔
عید اور ہماری کوتاہیاں
اس دن میں یہ عمدہ لباس اور ظاہری زیبائش وآرائش کا مقصد بھی اپنے دوسرے مسلمانوں بھائیوں کے ساتھ عید گاہ میں پہنچ کر شکرانے کے طور پر عبادت کا ادا کرنا ہی ہوتا ہے اور اس ساری زینت وآرائش کی غرض بھی ایک عبادت کی تکمیل اور اس کو عمدہ طریقے پر ادا کرنا ہی ہے۔ مگر افسوس کہ مسلمان اپنی مسرت وخوشی کے اظہار میں بے لگام اور سرکش ہو کر نفسانی خواہشات کے پیچھے لگ گئے اور دوسری قوموں کی طرح خوشی میں عیش ونشاط کی محفلیں آراستہ کرنے اور لذت وسرور میں بدست ہو کر خدافراموشی کرنے لگے اور عید کو ایک قومی تہوار ، محض کھیل تماشے اور فلم بینی کا دن سمجھ لیا۔ حالانکہ اگر غور وفکر سے کام لیا جائے تو عید کے اس اسلامی جشن مسرت میں قدم قدم پر احساس دلایا جاتا ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں اور اس کی مرضی کے خلاف کوئی کام کرنے کا ہمیں کوئی اختیار نہیں ہے۔ عید کے دن سنت کے مطابق غسل کرنا ، عمدہ لباس پہننا، عید گاہ کے راستہ میں اللہ تعالیٰ کی کبریائی اور بڑائی کا اعلان اللہ اکبر کے ذریعے کرتے جانا پھرہوگانہ  نماز میں عام نمازوں سے چھ مرتبہ زیادہ اللہ اکبر کہہ کر اللہ تعالیٰ کی بڑائی کا اقرار کرنا ہمارے لیے ایک تزکیہ ہے اظہار خوشی کے اس اسلامی طریقے پر عمل کرنے کے بعد کیا کسی ہوشمند انسان کیلئے یہ گنجائش رہ جاتی ہے کہ وہ عیش ونشاط اور کھیل تماشے کی مجلسوں میں شریک ہو اور خدافراموشی کا مظاہرہ کرے۔ 


===
نیوز لیٹر سبسکرپشن
سبسکرپشن کے بعد آپ ادارہ کے بارے میں تازہ ترین اپ ڈیٹ حاصل کر سکتے ہیں