English

مضامین 

مولوی لئیق احمد نعمانی
جامعہ دارالتقویٰ لاہور

قرآن پاک نے بعثت نبوی ﷺ کے مقاصد کو بیان کرتے ہوئے ایک مقصد یہ بھی بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ لوگوں کے سامنے قرآن پاک کے الفاظ بھی تلاوت کرے۔
ھو الذی بعث فی الامیین رسولا۔۔ الآخر
ترجمہ۔ ”وہی ہے جس نے امی لوگوں میں انہی میں سے ایک رسول کو بھیجا جو ان کے سامنے اس کی آیتوں کی تلاوت کریں اور ان کو پاکیزہ بنائیں اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیں، جبکہ وہ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے تھے“۔
(آسان ترجمہ از قلم مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم العالیہ)
چنانچہ ان مقاصد کے حصول کیلئے آپ ﷺ نے دو مدرسے قائم کیے ہوئے تھے ایک مکہ مکرمہ کے اندر حضرت زید بن ارقمؓ کے گھر میں دارارقم کے نام سے دوسرا مدینہ طیبہ میں مسجد نبوی سے متصل ایک چبوترہ جو صفہ کے نام سے مشہور ہوا وقتاً فوقتاً  صحابہ کرام تشریف لاتے اور علم وعرفان سے آراستہ ہو کر اپنے اپنے علاقوں میں جاتے اور اس پر عمل کے ساتھ ساتھ اس کی اشاعت میں مصروف کار ہو جاتے۔ مدارس کو دین کی نشرواشاعت میں جو اہمیت حاصل ہے وہ کسی سے مخفی نہیں۔جہاں مدارس میں دوسرے شعبہ جات ہوتے ہیں وہیں مدارس عربیہ میں ایک شعبہ حفظ وناظرہ کا بھی ہوتا ہے ۔ چنانچہ آپﷺ نے ارشاد فرمایا۔
’’خیر کم من تعلم القرآن وعلمہ‘‘ 
”تم میں سے بہترین انسان وہ ہے جو قرآن سیکھے اور دوسروں کو سیکھائے۔“
حضرت اوس تقفی ؓنے حضور اقدس ﷺ سے نقل کیا ہے کہ کلام اللہ شریف کا زبانی پڑھنا ہزار درجہ ثواب رکھتا ہے اور قرآن پاک میں دیکھ کر پڑھنے کا ثواب دو ہزاردرجے تک بڑھ جاتاہے۔
حافظ قرآن کو ایک اعزاز یہ بھی ملے گا کہ قیامت والے دن اس سے کہا جائے گا کہ تو اپنے گھرانے میں سے دس ایسے آدمیوں کی شفاعت کرلے جن پر جہنم کی آگ واجب ہوچکی ہو۔
حضرت علی ؓنے حضور اقدس ﷺ کاارشاد نقل کیا ہے کہ جس شخص نے قرآن پڑھا ، پھراس کے حلال کو حلال جانا اور حرام کو حرام ۔ حق تعالیٰ شانہ اس کو جنت میں داخل فرمائیں گے۔ اور اس کے گھرانے میں سے ایسے دس آدمیوں کے بارے میں اس کی شفاعت قبول فرمائیں گے۔ جن کیلئے جہنم واجب ہوچکی ہو۔
اورحافظ قرآن کے والدین کو ایک ایسا تاج پہنا یا جائےگا جس کی روشنی آفتاب کی روشنی سے بھی زیادہ ہوگی۔ چنانچہ حدیث شریف میں حضرت معاذ جہنیؓ نے آپ ﷺ کا ارشاد نقل کیا ہے کہ جو شخص قرآن پڑھے اور اسی پر عمل کرے اس کے والدین کو قیامت کے دن ایک تاج پہنایا جائے گا جس کی روشنی آفتاب کی روشنی سے بھی زیادہ ہوگی۔ اگر وہ آفتاب تمہارے گھروں میں ہو۔ پس کیا گمان ہے تمہارے اس شخص کے متعلق جو خود عامل ہے۔(راوہ احمد وابو داود )
جہاں اس شعبہ میں پڑھنے پڑھانے والوں کے بے حد فضائل آئے ہیں وہیں آجکل اس شعبہ میں بہت سی کوتاہیاں بھی جنم لے رہی ہیں۔ 
1۔بچوں سے ان کے تعلیمی اوقات میں اپنا ذاتی کام لینا
 بچوں سے ان کے تعلیمی اوقات میں اپنا ذاتی کام لینا ہمارے اسلاف کا طریقہ کار نہیں تھا ہمارے اکابر اپنے ذاتی کام کیلئے طلباء سے ان کے تعلیمی اوقات میں کام نہیں لیتے تھے۔ 
ہاں! جب وہ فارغ ہوں اس میں ان سے کچھ خدمت بھی لے لی جائے تو کچھ حرج نہیں۔ پھر اگر کوئی استاذ کسی طالب علم کو کام کیلئے بھیج ہی دیں اور طالب علم کام ٹھیک نہ کرکے آئے تو اس کی خیر نہیں۔ 
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ میں نے جناب رسول اللہ ﷺ کی دس سال خدمت کی مگر آپ نے مجھے کبھی اف تک نہیں کہا اور نہ ہی یہ کہا کہ تو نے یہ کیوں نہ کیا اور نہ یہ فرمایا یہ تو نے کیوںکر کیا(اگر کسی کام میں خطا ہو گئی تو آپ نے یہ بھی نہ فرمایا کہ تو نے ایسا کیوں کیا۔ اگر کبھی آپ نے فرمایا اور میں نے نہ کیا تو آپ نے کبھی نہ فرمایا کہ تو نے کیوں نہ کیا۔۔۔۔(بخاری ومسلم)
حضرت معاویہ بن حکم ؓ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ ایک دن میں رسول اللہﷺ کے ساتھ نماز پڑھ رہا تھا اچانک ایک آدمی کوچھینک آگئی۔ میں نے یر حمک اللہ کہا۔ لوگوں نے مجھ کو گھورنا شروع کیا۔میں نے کہا کہ تمہاری ماں تمہیں گم کردے۔ تم لوگ مجھے کیوں گھور رہے ہو۔ لوگوںنے اپنی رانوں پر اپنے ہاتھ مارنے شروع کئے۔ میں نے دیکھا کہ لوگ مجھے خاموش کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن میں خاموش رہا جب رسول اللہ ﷺ نماز پڑھ چکے میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، میں نے ایسا اچھا معلم (تعلیم دینے والا)نہ آپ ﷺ سے پہلے دیکھا تھا اور نہ ہی بعد میں دیکھا۔ اللہ کی قسم نہ تو آپ ﷺ نے مجھے ڈانٹا نہ مارا اور نہ ہی مجھے بُرا کہا۔۔۔۔(مشکوۃ المصابیح جلد اوّل کتاب الصلوٰۃ)
یہ تھے آپ ﷺ کے اخلاق، غلطی ہونے پر کس قدر تحمل مزاجی کے ساتھ سمجھا یا۔ چنانچہ اگر ہمارے طلباء سے بھی کام کے اندر کچھ غلطی ہوجائے تو ان کو سمجھایا جائے کہ بیٹا یہ کام اس طرح نہیں اس طرح کرتے ہیں تو امید ہے کہ آئندہ وہ ایسی غلطی نہیں کریں گے۔ 
2۔طلباء کی خبر گیری نہ رکھنا 
اگر کوئی بیمار بھی ہو تو اساتذہ عام طور پر اس کی عیادت نہیں کرتے اور نہ ہی ان کی خیر خبر لیتے ہیں اس سے طلباء کے دل میں استاذ کی وقعت نہیں رہتی اس کا نتیجہ ہے کہ طلباء قراء حضرات سے دور رہنے لگے ہیں۔ اور حفظ مکمل ہونے کے بعد استاذ اور شاگرد میں جو تعلق ہوتا ہے وہ بھی رفتا رفتا ختم ہو جاتاہے اور پھر اگر کوئی حافظ استاذ کو پاس سے گزرتا ہوا دیکھ لے یا تو وہ نظریں پھیر لیتا ہے یا سلام کرنا بھی پسند نہیں کرتا۔ حالانکہ اگر حفظ کے اساتذہ تھوڑا خیال کریں اور بچوں کی خبر گیری اور ان کے ساتھ شفقت وپیار محبت کا معاملہ کرے تو حفظ کے طلباء بھی ان شاء اللہ اپنے استاذ کے ساتھ اچھا برتاؤ کریں۔
حضرت مولانا نعیم الدین صاحب (دامت برکاتہم العالیہ) فرماتے ہیں کہ ہمارے استاد جی قاری عبدالرشید صاحبؒ کی یہ عادت مبارکہ تھی کہ جب کوئی طالب علم بیمار ہوجاتا تو خود اس کی عیادت کوجاتے اور جتنا ہوسکتا اس کی معاونت فرماتے۔چنانچہ ایک دفعہ ہمارا بڑا بیٹا محمد فہیم الدین بیمار ہوگیا حضرت قاری صاحب کو پتہ چلا تو حضرت قاری صاحب گھر تشریف لائے اور عیادت کے بعد خود دوائی دلوائی اور واپس گھر چھوڑا۔اس کا اثر تھا کہ ہمیں قاری صاحب کے ساتھ بہت تعلق رہا ۔
 میں(سعید احمد) جب دارالعلوم دیو بند سے رخصت ہو کر دارالعلوم اشرفیہ راندیر کیلئے مدرس ہو کر چلا تو میں نے حضرت الاستاذ علامہ محمد ابراہیم بلیاوی صاحب سے آخری ملاقات میں عرض کیا۔ حضرت مجھے کوئی کام کی بات بتا دیجئے جسے میں حرز جان بنالوں ، حضرت نے فرمایا۔ ’’مولوی صاحب۔فن دیکھ کر پڑھانا۔شرحیں دیکھ کر مت پڑھانا۔علم آئے گا اور طلبہ کو اپنی اولاد سمجھنا، وہ تم سے محبت کریں گے، اور سنت کی پیروی کرنا، لوگوں کے دلوں میں وقعت پیدا ہوگی، یہ تین باتیں میرے لئے کسی قدر مفید ثابت ہوئیں۔ یہ میں بیان نہیں کرسکتا۔(تحفۃالالمعی جلد نمبر 5 افادات مفتی محمدسعیداحمدپالن پوری صاحب)
3۔ سنت کی پابندی اور نماز کا اہتمام
اساتذہ میں سنت کی پابندی اور نماز کا خیال کرنا یہ بھی بہت کم ہوتا جارہا ہے جب ہم اساتذہ ہی سنت کی پابندی اور نمازوں کا خیال نہیں کریں گے تو طلباء کے اندر کیسے اتباع سنت اور تقویٰ پیدا ہوگا۔ بچے ہمیں جس طرح دیکھیں گے وہ پھراسی طرح کریں گے۔اگر بچپن سے ان کے اندر اتباع سنت کا جذبہ نہ پیدا کیا گیا تو بڑے ہو کر متبع سنت بن جائے ایسا بہت مشکل ہے اور ان بچوں کی سب سے پہلی درس گاہ حفظ کا شعبہ ہی ہے۔ لیکن بہت معذرت کے ساتھ کہ اساتذہ کو عام طور پر یہی نہیں پتہ کہ اس کام میں سنت عمل کیا ہے جب خود کو نہیں پتہ تو بچوں میں اتباع سنت کا جذبہ اور عمل کیسے پیدا کریں گے،حالانکہ ہمارے اکابرمیں اتباع سنت اور نمازوں کی پابندی حد درجے کی تھی،چنانچہ ہم سب کے شیخ حضرت میاں جی نور محمد صاحب  ؒ کے بارے میں حضرت شیخ الحدیث ؒ”تاریخ مشائخ چشت “میں لکھتے ہیں ،حضرت میاں جیؒ قصبہ لوہاری جو تھانہ بھون کے قریب ہے وہاں ایک مکتب میں لڑکوں کو قرآن شریف پڑھایا کرتے تھے،اتباع ِ سنت کا یہ عالم تھا کہ تیس سال تک تکبیر اولیٰ فوت نہیں ہوئی۔ 

4۔مار پیٹ 
سب سے بڑی کوتاہی اس شعبہ میں مارپیٹ بہت زیادہ ہوتی جارہی ہے۔ حضرت مولانا نعیم صاحب دامت برکاتہم العالیہ )بیابہ مجلس نفیس میں لکھتے ہیں۔ قراء حضرات کے روپے پر افسوس بچوں کی تعلیم کے سلسلے میں بات چل پڑی توحضرت شاہ نفیس الحسینیؒ نے فرمایا۔ قراء حضرات کے رویہ پر سخت افسوس ہوتا ہے یہ بچوں کو مارتے بہت ہیں اور اس وجہ سے پھر خود بھی پریشانیوں کا شکار ہوتے ہیں۔
ایک مدرسہ کے استاذ کا حال۔
اس ضمن میں لاہور کے ایک مدرسے کے استاذ کا حال سنایا کہ انہوں نے ایک لڑکے کو ایسا مارا کہ بازو توڑ دیا۔ اس کے باپ وغیرہ نے قاری صاحب سے بدلہ لیا اور اتنا مارا کہ ادھ موا(نیم مرا ہوا)کردیا اور منتظمین پر اصرار کررہے ہیں کہ انہیں یہاں سے نکالو، وہ استاذ لائق ہیں ان کی اہلیہ بھی پڑھاتی ہیں اب اگر وہاں سے جاتے ہیں تو بچے بچیوں سب کا حرج ہے اس سلسلہ میں فرمایا کہ مجھے نظیری نیشا پوری کا یہ شعر پسند ہے۔
درس ادیب اگر بود زمزمہ محبتے
جمعہ بہ مکتب آوُ رد طفلِ گریز پای را
اس موقع پر حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ کا ملفوظ یاد آگیا ۔
 ایک صاحب اپنے بچہ کو لے کر حاضر ہوئے اور ایک معلم صاحب کے زیادہ مارنے کی شکایت کی اس پر ان کو بلایا گیا تنبیہ شرعیہ کے طور پر حضرت نے ان سے فرمایا کہ جب تم کو مارنے کو منع کردیا ہے (اس کے قبل بہت سختی کے ساتھ ممانعت کردی گئی تھی) پھر تم نے خلاف کیوں کیا۔ اس پر انہوں نے کوئی معقول جواب نہیں دیا۔ حضرت نے ان کو اپنے پاس سے اٹھادیا اور فرمایا تمہارا فیصلہ مہتمم صاحب  کے آنے پر ہوگا(مہتمم صاحب باہر گئے ہوئے تھے طلبہ سے مارنے کی وجہ یہ معلوم ہوئی کہ اس نے یہ کہہ دیا تھا کہ چھٹی کا وقت آگیا۔ اس پر اس کو بے حد مارا اورگلا دبالیا تھا۔ جس سے گلے پر نشان پڑ گئے تھے) یہ سن کر فرمایا یہ تو جنون ہے کہ ذرا سی بات پر اسقدر سزا۔ اسی واسطے حدیثوں میں آتا ہے کہ آدمی کو بلا نکاح نہیں رہنا چاہیے(یہ معلم مجرد تھے)ایسے آدمی کا غصہ سب دماغ ہی میں بھرا رہتا ہے۔ ہنس کر فرمایا کیا کہا جائے ۔اس زمانہ میں بیوی بھی تو دقت سے ملتی ہے(یہ معلم سن رسیدہ تھے)پھر حضرت نے معلم صاحب کو مخاطب کرکے فرمایا۔ تم کو یہاں رہنے کی تو اجازت ہے لیکن جب تک یہاں رہو میرے سامنے نہ پڑو اور طلباء کو فرمایا کہ تم ان کے پاس نہ پڑھو۔ ۔۔۔
پھر حضرت ایک دوسرے معلم جو کہ نوعمر تھے بلایا جب وہ آگئے تو ان سے فرمایا کہ معلوم ہوا تم بھی بچوں کو مارتے ہو ۔ اس کا صحیح اور معقول جواب دو تاویلات کو ہرگز نہ مانو گا یہ بتلاؤ کہ جب میں نے منع کردیا ہے تو پھر کیوں مارتے ہو۔ یہ شرارت نفس کی ہے یا نہیں۔ انہوں نے اقرار کیا کہ ہاں بیشک شرارت نفس کی ہے۔۔۔(ملفوظات حضرت حکیم الامت جلد نمبر11)
ایک دفعہ حضرت الاستاد مولانا مفتی حسن صاحب دامت برکاتہم العالیہ نے ’’طلبہ کو تنبیہاً مارنے‘‘پر فرمایا:پنڈی کی طرف کے ایک قاری صاحب تھے وہ فرماتے تھے پہلے طلبہ کی مثال لوہے کی سی تھی کہ اسے جتنا پیٹو وہ سنورتا جاتا تھا مگر اب طلبہ کی مثال کانچ کی ہے۔  فرمایا:’’ہمارے ایک استاذ صاحب فرمایا کرتے تھے کہ طلبہ کے ساتھ شفقت کا معاملہ ہو، شفت سے محبت پیدا ہوتی ہے اور محبت سے ادب پیدا ہوتا ہے‘‘
                                                                                             
(المجالس الحسنۃازقلم استاذالحدیث مفتی شعیب احمد صاحب)
میری اس بات کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ بچوں پر کچھ ڈانٹ ڈپٹ وغیرہ نہ ہو ۔ شرعیت کی حدود میں رہتے ہوئے کچھ سرزنش کرنی پڑ بھی جائے تو کچھ مذائقہ نہیں۔
چنانچہ ایک دفعہ آپﷺ نے حضرت معاذؓ کو 10چیزوں کی وصیت فرمائی ان میں سے ایک یہ بھی تھی کہ اے معاذ تنبیہ کے واسطے ان پر سے لکڑی نہ ہٹانا۔۔۔
آخری گزارش یہ ہے کہ دن میں ان پر خوب محنت کرنا اور رات میں اللہ پاک سے خوب رو رو کر ان کیلئے قبولیت کی دعائیں کرنا۔ چنانچہ ایک بچہ حضرت قاری رحیم بخش ؒ کے پاس حفظ کرنے آیا، بچہ ذہنی اعتبار سے کچھ کمزور تھا ۔ حضرت نے کافی محنت کی لیکن بچہ نہ چل سکا آخر حضرت نے جواب دے دیا وہ یہ کسی اور قاری صاحب کے پاس چلا گیا کچھ عرصے بعدحضرت قاری رحیم بخش صاحب سے ملنے آیا اور بتایا کہ استاد جی میرا حفظ مکمل ہوگیا اور میں الحمد للہ حافظ بن گیا۔ حضرت نے جائزہ لیا تو ماشاء اللہ بہت عمدہ یاد تھا۔ حضرت نے حیرت سے دریافت کیا کہ کون سے قاری صاحب سے حفظ کیا اور پھر ملنے کیلئے بھی گئے۔ حضرت قاری صاحب ؒ نے استاد جی سے دریافت کیاکہ آپ نے اس کو حفظ کیسے کروادیا۔ حالانکہ یہ ذہنی اعتبار سے کمزور ہے اور میں نے تو ان کو جواب دے دیا تھا۔ استاد جی نے عرض کیا کہ حضرت یہ بہت شوق سے آئے تھے ان کے شوق کو دیکھ کر میں رات کو اللہ کے ہاں رو رو کر بس یہی دعا کرتا تھا کہ اے اللہ یہ بچہ بہت شوق لے کر آیا ہے اگر آپ اس کو حافظ بنا دے تو آپ کا کیا جائے گا؟
بہرکیف ! اللہ پاک نے دعا قبول کی اور یہ بچہ حافظ بن گیا۔ حضرت قاری رحیم بخش ؒ فرمانے لگے بس یہی کمی کوتاہی ہوئی مجھ سے۔


===

نیوز لیٹر سبسکرپشن
سبسکرپشن کے بعد آپ ادارہ کے بارے میں تازہ ترین اپ ڈیٹ حاصل کر سکتے ہیں