English

مضامین 

مولوی لئیق احمدنعمانی

ہنسی مزاح بھی انسانی زندگی کا ایک خوش کن عنصر ہے جس کے باعث انسان اپنی طبیعت میں خوشی وفرحت محسوس کرتا ہے اور غم وپریشانی کو بھول جاتا ہے۔ ہنسی مزاح بزرگی کے خلاف نہیں بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ بزرگ وہ انسان ہوتا ہے جو بالکل خاموش اور ہروقت اللہ اللہ کرتا ہو اور کبھی کسی سے کوئی مزاح وغیرہ نہ کرے حالانکہ ایسا نہیں بلکہ خوش طبع اور ہنس مکھ ہونا انسانی فطرت کا تقاضا ہے جو بزرگی کے منافی نہیں۔ چنانچہ آنحضرت ﷺ خود ہنس مکھ اور خوش طبع تھے۔ حضرت ابو امامہ ؓ فرماتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ لوگوں میں سب سے زیادہ ہنس مکھ اور خوش طبع تھے۔ حضرت مرہ ؓ کے والد فرماتے ہیں کہ جب آپﷺ کو زیادہ ہنسی آتی تو آپﷺ اپنا دست مبارک منہ پر رکھ لیتے۔(کنز العمال ، جلد7صفحہ نمبر140)
آپﷺ نے یہاں تک فرمایا کہ کسی دوسرے مسلمان کو دیکھ کر مسکرانا بھی صدقہ ہے۔(ترمذی )
ہمارے پیارے نبی ﷺ کے بارے میں حضرت جریر بن عبداللہ البجلی ؓ بیان کرتے ہیں کہ ’’رسول اللہ ﷺ جب بھی مجھے دیکھتے تو مسکراتے تھے‘‘(شمائل ترمذی )
پھر اگر کسی بلند پایہ او رمقدس شخصیت کی طرف سے چھوٹی اور معمولی حیثیت کے کسی آدمی کے ساتھ ہنسی مزاح کا برتائو ہو تو وہ اس کیلئے ایسی مسرت اور عزت افزائی کا باعث ہوتا ہے جو کسی اور طرح حاصل نہیں 
کی جاسکتی۔ چنانچہ احادیث مبارکہ میں ایسے بہت سے واقعات ملتے ہیں جس میں آپ ﷺ نے بطور مزاح کے کوئی بات ارشاد فرمائی یا کوئی کام کیا۔
حضرت حسن بصریٰؒ فرماتے ہیں کہ حضور اقدس ﷺ کی خدمت میں ایک بوڑھی عورت حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ دعا فرما دیجئے کہ حق جل شانہ مجھے جنت میں داخل فرما دے، حضورﷺ نے فرمایا کہ جنت میں بوڑھی عورت داخل نہیں ہوسکتی، وہ عورت روتی ہوئی لوٹنے لگی، حضورﷺ نے فرمایا، اس سے کہہ دو کہ جنت میں بڑھاپے کی حالت میں داخل نہیں ہوگی، بلکہ حق تعالیٰ جل شانہ، سب اہل جنت عورتوں کو نوعمر کنواریاں بنادیں گے۔(شمائل ترمذی، باب ماجاء فی صفۃ مزاح رسول اللہ ا  ح 6:)
حضرت انس ؓ کہتے ہیں کہ ایک شخص جنگل کے رہنے والے جن کا نام زاہربن حرام ؓ تھا وہ جب حاضر خدمت ہوتے ، جنگل کے ہدایہ سبزی ترکاری وغیرہ حضور اقدسﷺ کی خدمت میں پیش کیا کرتے تھے اور وہ جب مدینہ منورہ سے واپس جانے کا ارادہ کرتے تو حضور اقدسﷺ شہری سامان خوردونوش کا ان کو عطا فرماتے تھے، ایک مرتبہ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا کہ زاہر ہمارا جنگل ہے اور ہم اس کے شہر ہیں ۔ حضور اقدسﷺ کو ان سے خصوصی تعلق تھا۔ ایک مرتبہ کسی جگہ کھڑے ہوئے وہ اپنا کوئی سامان فروخت کررہے تھے کہ حضور اقدس ﷺ تشریف لائے اور پیچھے سے ان کی کولی ایسی طرح بھری کہ وہ حضورﷺ کو دیکھ نہ سکیں ، انہوں نے کہا ارے کون ہے مجھے چھوڑ دے؟ لیکن جب کن انکھیوں وغیرہ سے دیکھ کر حضور اکرمﷺ کو پہچان لیا تو اپنی کمر کو بہت اہتمام سے پیچھے کو کرکے حضور اقدسﷺ کے سینہ مبارک سے ملنے لگے (کہ جتنی دیر بھی تلبس رہے ہزار نعمتوں اور لذتوں سے بڑھ کر ہے) حضورﷺ نے ارشاد فرمایا کہ کون شخص ہے جو اس غلام کو خریدے؟ زاہرؓ نے عرض کیا کہ حضورﷺ اگر آپ مجھے فروخت فرما دیں گے تو کھوٹا اور کم قیمت پائیں گے، حضورﷺ نے فرمایا کہ نہیں! اللہ کے نزدیک تو تم کھوٹے نہیں ہو یا یہ فرمایا کہ بیش قیمت ہو۔(شمائل ترمذی)
ہمارے اکابر کا طور وطریقہ بھی یہی تھا کہ وہ اپنے متوسلین اور طلبہ کے ساتھ ہنسی مزاح کے طور پر کوئی مزاحیہ جملہ یا واقعہ سنادیا کرتے تھے۔ چنانچہ حضرت انور شاہ کشمیری ؒ کے بارے میں آتا ہے کہ ایک دن بخاری شریف کا درس دے رہے تھے عصر اور مغرب کے درمیان کا وقت تھا۔ اچانک کتاب بند کردی اور فرمایا! شمس الدین چلا گیا تو اب کتاب پڑھنے کا کیا فائدہ؟
سب طلباء حیران رہ گئے کہ شمس الدین کو ن ہے کیونکہ اس نام کا کوئی طالب علم جماعت میں نہیں تھا اور نہ ہی کوئی طالب علم اٹھا تھا۔ ایک طالب علم نے پوچھا تو مسکراتے ہوئے فرمایا :جاہلو! شمس یعنی سورج غروب ہورہا ہے اب کیا اندھیرے میں سبق پڑھو گے۔(تقدس ِ انور،صفحہ نمبر37)
حضرت مولانا نعیم الدین صاحب (دامت برکاتم العالیہ)بیابہ مجلسِ نفیس میں حضرت نفیس الحسینی شاہ صاحب ؒ کے خوش مزاجی اور مزاح کے عنوان کے تحت یہ واقعہ نقل کرتے ہیں کہ :
ایک دفعہ عید کے موقع پر ہم حضرت کی خدمت میں حاضر تھے اور حضرت نہایت خوشگوار موڈ میں بیٹھے باتیں کررہے تھے اس موقع پر حضرت نے یہ دلچسپ لطیفہ سنایا کہ ’’ ایک دفعہ لکھنو کے ایک نواب نے کسی پنجابی پہلوان کی دعوت کی۔ پہلوان صاحب دعوت میں شرکت کی غرض سے نواب صاحب کے گھرپہنچے ۔ نواب صاحب نے پر تکلف دعوت کا اہتما م کررکھا تھا۔ دعوت میں ہر قسم کی چیزیں موجود تھیں: اتفاق سے میٹھی چیز کوئی نہیں تھی۔ نواب صاحب نے ملازم کو آواز دی (اوجمن) جی حضور، ملازم بولتا ہوا آگے بڑھا، نواب صاحب نے ملازم سے کہا کہ بھئی دستر خوان پر کوئی میٹھی چیز نہیں ہے جلدی سے میٹھی چیز لائو۔ جمن فوراً ہی میٹھی چیز لینے چلا گیا۔ اس کے جانے کے بعد نواب صاحب خود سے باتیں کرنے لگے کہ اب جمن نے جوتی پہنی وہ باہر گیا، سڑک پار کی سامنے مٹھائی والے کی دکان سے مٹھائی لی اور واپس چلا اور اب گھر آگیا او جمن جی حضور جمن بولا۔ نواب صاحب نے پوچھا مٹھائی لے آیا۔ وہ بولا جی ہاں! مٹھائی حاضر ہے۔ پہلوان جی اس  سے بہت متاثر ہوئے اور دل میں کہنے لگے کہ ہم بھی انہیں اپنی تیزی اور ملازم کی خدمت میں چابکدستی اور سلیقہ مندی دکھلائیں گے۔ چنانچہ پہلوان جی نے بھی نواب صاحب کی دعوت کی، نواب صاحب وقت مقررہ پر تشریف لے آئے، کھانا چناگیا، پہلوان جی نے کہا کہ سب چیزیں موجود ہیں لسی نہیں ہے وہ منگوانی چاہیے۔ چنانچہ انہوں نے اپنے ملازم کو آواز دی ، اوئے ماجھے! جی پہلوان جی، ماجھا بولا۔ ماجھے جالسی لے آ۔ ہور ویکھ چھیتی آئیں۔ ماجھا لسی لینے چلا گیا۔ پہلوان جی خود سے باتیں کرنے لگے کہ ماجھا گیا، اس نے جوتی پہنی باہر نکل کر سڑک پار کی ۔ سامنے دودھ دہی والے سے لسی لے کر واپس ہوا اب گھر آگیا۔ اوئے ماجھیا پہلون جی بولے۔ اوئے لسی لے آندی اے۔ ماجھا بولا پہلوان جی اجے تے جتیاں لبنا پیاں واں۔ &(ابھی تو جوتا ڈھونڈرہا ہوں)یہ لطیفہ سنا کر حضرت بہت ہنسے۔
مسکراہٹ کے آداب:۔
رسول اللہ ﷺ نے امت کو اس بارے میں بھی واضح ہدایات دی ہیں کہ ہنسی مزاح جیسے موقعوں پر کیا رویہ اختیا کیا جائے، اس سلسلہ میں آپ کی ہدایات اور تعلیمات یہ ہیں کہ بندہ اپنے فطری ، معاشرتی تقاضوںکو وقار اور خوبصورتی کے ساتھ پورا کرے لیکن ہر حال میں اللہ کو اور اس کے ساتھ اپنی بندگی کی نسبت کو اس کے احکامات، اپنے عمل اور رویہ کے اخروی انجام اور آداب کی رعایت کو پیش نظر رکھے چنانچہ مشہور مقولہ ہے ؟؟باآدب بانصیب بے آدب بے نصیب ‘‘
ہنسے تو کیا کیفیت ہو:۔
حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ میں نے آپﷺ کو کھلکھلا کر ہنستا ہو ا کبھی نہیں دیکھا کہ دانت کے جبڑے نظر آجائیں ۔ مطلب یہ ہے کہ آپ کو کھلکھلا کر باآواز ہنستا کبھی نہیں دیکھا گیا۔ زیادہ سے زیادہ ایساتو ہوا کہ کسی عجیب وغریب واقعہ سے متاثر ہو کر ہنسے کہ کچھ دندان مبارک نظر آگئے۔
علامہ مناوی نے شرح شمائل میں لکھا ہے کہ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کی عادت مسکرانے کی ہی تھی کھلکھلا کر ہنستے نہیں تھے۔(حاشیہ جمع الوسائل صفحہ15)
ہنسی زیادہ آئے تو کیا کیا جائے۔
حضرت مرہ ؓاپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ نبی پاکﷺ کو جب ہنسی آتی تھی تو دست مبارک کو منہ مبارک پر رکھ لیتے تھے۔(کنز العمال جلد7صفحہ14)
ہنسی مزاح کرتے ہوئے بھی جھوٹ نہ بولا جائے۔
جناب رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ جھوٹ بولنا مسلمانوں کی شان نہیں اور ایمان اور جھوٹ ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتے چنانچہ مذاق میں بھی دو سروں کے ہنسانے کو جھوٹ نہ بولو۔ ہاں! ہم ایسی بات کہہ سکتے ہیں جس کے اندر جھوٹ نہ ہو لیکن مزاح بھی ہوجائے۔
لہذا حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ کسی شخص نے حضور اقدس ﷺ سے درخواست کی کہ کوئی سواری کا جانورمجھے عطا فرما دیا جائے۔ حضورﷺ نے فرمایا ایک اونٹنی کا بچہ تم کو دیں گے، سائل نے عرض کیا کہ حضور ﷺ میں بچہ کیا کروں گا؟ (مجھے تو سواری کے لیے چاہیے) حضورﷺ نے فرمایا کہ ہر ایک اونٹ کسی اونٹنی کا بچہ ہی تو ہوتا ہے۔(شمائل ترمذی۔ باب ماجاء فی صفتہ مزاح رسول اللہﷺ ح  4)
حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ حضور اقدس ﷺ نے ان کو ایک مرتبہ مزاحاً ’’ یاذالا ذنین‘‘ فرمایا اے دو کانوں والے!(شمائل ترمذی ۔ باب ماجاء فی صفتہ مزاح رسول اللہﷺ  ح  1)
اپنے سے بڑے کے ساتھ مزاح:۔
آداب کی رعایت رکھتے ہوئے اپنے سے بڑے کے ساتھ بھی مزاح کرسکتے ہیں ۔ ایک دفعہ حضرت صہیب ؓ چھوہارا کھار ہے تھے او ران کی ایک آنکھ دکھتی تھی تو آپ ﷺ نے فرمایا: صاحب آنکھ تو دکھتی ہے اور چھوہارا کھار ہے ہو۔ انہوں نے مزاحاً جواب دیا کہ یا رسول اللہ ﷺ دوسری طرف سے کھا رہا ہوں، یعنی جس طرف کی آنکھ دکھتی ہے اس ڈاڑھ سے نہیں کھاتا۔
مزاح میں کسی دوسرے مسلمان کی دل آزاری:۔
مزاحاً بھی کسی دوسرے مسلمان کی دل آزاری نہ کی جائے۔ آپ ﷺ نے تو ارشاد فرمایا:
المسلم من مسلم المسلمون من لسانہ ویدہ
اور سیدنا وائلہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا تو اپنے بھائی کی مصیبت پر خوشی کا اظہار مت کر۔ ورنہ اللہ اس پر رحم فرمائے گا اور تجھے مصیبت میں مبتلا کردے گا۔(ترمذی شریف)
ہنسی مزاح کے باب میں ہم دوچیزوں کی بالکل بھی احتیاط نہیں کرتے۔
1۔جھوٹ،
2۔دوسرے مسلمان کی دل آزاری
حالانکہ یہ دونوں ہی کبیرہ گناہوں میں سے ہیں۔ آپ ﷺ نے کسی دوسرے مسلمان کی آبروریزی کے بارے میں حجۃ الوداع کے موقع پر یہاں تک فرمایا: کہ تمہارے مال، خون یعنی جان اور عزتیں ایک دوسرے کیلئے اس دن ،اس شہر ،اور اس مہینے کی طرح قابل احترام ہیں۔
ساری بات کا لب لباب یہ ہے کہ انسان کو نہ تو ایسا سخت ہونا چاہیے کہ وہ مسکراتا ہی نہ ہو۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے کسی نے پوچھا کہ کیا رسول اللہ ﷺ کے اصحاب ہنسا بھی کرتے تھے؟انہوں نے فرمایا: ہاں۔ بے شک ! وہ (ہنسنے کے موقع پر )ہنستے بھی تھے لیکن اس وقت بھی ان کے قلوب میں ایمان پہاڑوں سے عظیم تر ہوتا تھا۔ (یعنی ان کا ہنسنا غافلین کا ساہنسنا نہیں ہوتا تھا جو قلوب کو مردہ کردینا ہے)
حضرت جابر بن سمرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا معمول تھا کہ فجر کی نماز جس جگہ پڑھتے تھے آفتاب طلوع ہونے تک وہاں سے نہیں اٹھتے تھے، پھر جب آفتاب طلوع ہوجاتا تو کھڑے ہو جاتے اور (اس اثناء میں) آپ ﷺ کے صحابہ زمانہ جاہلیت کی باتیں(بھی ) کیا کرتے اور اس سلسلے میں خوب ہنستے اور رسول اللہ ﷺ بس مسکراتے رہتے۔(صحیح مسلم)
اورنہ ہی ایسا ہو کہ ہر وقت ہنسی مذاق ، بیہودہ باتو ںاور لغویات میں گزر جائے۔
چنانچہ حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضور ﷺ تشریف لائے تو صحابہ کرام ؓ ہنس رہے تھے۔ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ لذتوں کے توڑ دینے والی چیز کو کثرت سے یاد رکھا کرو۔۔۔
اس موقع پر ناچیز کو حضرت یحییٰ اور حضرت عیسی علیہ السلام)کا واقعہ یاد آگیا جو مولانا اشرف علی تھانویؒ کے حوالے سے مولانا نعیم الدین صاحب نے جواہر پارے کے اندر ذکر کیا۔’’حضرت یحییٰ علیہ السلام رشتے میںحضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ماموں لگتے ہیں۔ دونوں پیغمبر  ہم عصر تھے، لیکن دونوں کے مزاج میں بڑا فرق تھا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مزاج میں تبسم تھا۔ آپ اکثر مسکراتے رہتے اور حضرت یحییٰ علیہ السلام  کے مزاج میں گریہ تھاآپ اکثر روتے رہتے تھے۔حضرت تھانوی ؒ نے دونوں جلیل القدر پیغمبر وں کا ایک دلچسپ واقعہ ذکر فرمایا ہے۔ حضرت تھانوی ؒ فرماتے ہیں۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے حضرت یحییٰ علیہ السلام کی ملاقات ہوئی۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کثیر التبسم تھے (اکثر مسکراتے رہتے تھے) اور حضرت یحییٰ علیہ السلام کثیر البکاء تھے(اکثر روتے رہتے تھے) حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ : اے یحییٰ کیا تم خدا کی رحمت سے بالکل ناامے دہوگئے ہو کہ کسی وقت تمہارا رونا ختم نہیں ہوتا، حضرت یحییٰ علیہ السلام  نے فرمایا کہ : اے عیسیٰ کیا تم خدا تعالیٰ کے قہر سے بالکل مامون ہو کہ تم کو ہر وقت ہنسی ہی آتی رہتی ہے،
آخر ایک فرشتہ آیا اور کہا کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ہم تم دونوں میں فیصلہ کرتے ہیں کہ اے عیسیٰ جلوت میں (لوگوں کے سامنے) تو ایسے ہی رہو جیسے اب رہتے ہو۔ لیکن خلوت (تنہائی ) میںیحییٰ کی طرح گریہ وزاری کیا کرو اور اے یحییٰ خلوت میں تو ایسے ہی رو جیسے اب ہو لیکن لوگوں کے سامنے کچھ تبسم بھی کرلیا کرو کہ لوگوں کو میری رحمت سے مایوسی نہ ہوجائے کہ جب نبی کا یہ حال ہے تو ہم کو نجات کی کیا امید ہے۔
(جواہر پارے، جلد دوم، صفحہ نمبر147)از قلم حضرت مولانا نعیم الدین صاحب  دامت برکاتہم العالیہ


===

نیوز لیٹر سبسکرپشن
سبسکرپشن کے بعد آپ ادارہ کے بارے میں تازہ ترین اپ ڈیٹ حاصل کر سکتے ہیں