English

مضامین 

مفتی شعیب احمد
جامعہ دارالتقوی لاہور




استخارہ
(حقیقت، اہمیت اور طریقہ کار)


دارالافتاء میں جہاں لوگ اپنی زندگی کے دیگر عملی مسائل مثلاً نماز، روزے ، حج، زکوۃ خرید و فروخت اور دیگر جائز ناجائز چیزوں کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ وہاں کچھ عرصے سے یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ بعض لوگ فون پر یہ کہتے ہیں: حضرت ہم نے استخارہ کروانا ہے، آپ کر دیتے ہیں؟ یا آپ کے پاس کوئی ایسا آدمی ہے جو ہمیں استخارہ کر کے دے سکے۔
پہلے تو سرسری سا سوال پیدا ہوتا تھا کہ یہ کیا ہے، استخارہ! اور آپ کر دیں… یہ لوگوں کی طرف سے کیسا سوال ہے ؟ لیکن چند دن پہلے ایک اخبار میں یہ اشتہار نظر سے گزرا۔ ’’معروف روحانی اسکالر سے استخارہ کروایئے‘‘ تب یہ بات سمجھ میں آئی کہ لوگوں کی طرف سے یہ مطالبہ کیوں سامنے آتا ہے۔ اس لیے ضروری معلوم ہوا کہ مختصراً استخارہ کا مطلب، طریقہ کار اور اس کے بارے میں پائی جانے والی غلط فہمیوں کا ذکر کر دیا جائے۔
استخارہ کی حقیقت
لغت کے اعتبار سے استخارہ کا مطلب ہے، خیر طلب کرنا یعنی کسی سے اپنے لیے اچھی بات کا مطالبہ اور درخواست کرنا۔ چنانچہ المنجد میں ہے: 
استخارہ استخارۃً طلب الخیر۔ و(استخار) اللہ طلب منہ ان یختارلہ ما یوا فقہ۔ (المنجد: ص۲۰۱)
ترجمہ: استخارے کا مطلب، اچھی چیز کو طلب کرنا ہے اور اللہ تعالیٰ سے استخارے کا مطلب ہو گا، اللہ رب العزت سے درخواست کرنا کہ اے اللہ! میرے لیے جو چیز مناسب اور میرے حالات کے اعتبار سے موافق و بہتر ہے وہ طے کر دیجئے۔
شریعت میں بھی استخارہ کا مطلب یہی ہے  جو اوپر مذکور ہوا ہے۔ 
استخارہ کیوں کیا جائے ؟
انسان کو دنیا میں بے شمار معاملات سے واسطہ پڑتا ہے بعض مواقع تو ایسے ہوتے ہیں جہاں آدمی خود ہی فیصلہ کر لیتا ہے کہ میں نے کیا کرنا ہے اور کیوں کرنا ہے۔مثلاً آپ کے سامنے دو راستے ہیں دونوں راستے پر امن ہیں اور باقی ہر اعتبار سے برابر ہیں لیکن ان راستوں میں سے ایک راستہ طویل ہے اور دوسرا مختصر ہے، اب ظاہر ہے ایک عقل مند آدمی مختصر راستے کو ہی اختیار کرے گا۔ اور ایسا کرنے میں اسے کسی سے نہ مشورہ کی ضرورت ہے نہ سوچنے اور تردد کرنے کی اس لیے وہاں تو استخارےکی ضرورت نہیں۔ زندگی کے بیش تر مسائل ایسے ہی ہیں جہاں تردد نہیں ہوتا بہت زیادہ سوچنا نہیں پڑتا۔ اس لیے وہاں تو استخارے کی ضرورت نہیں۔
لیکن زندگی میں کچھ امور ایسے ہوتے ہیں جہاں دونوں طرف ترجیحات کے پہلو یکساں ہوتے ہیں دونوں طرف سے یہ اپیل ہوتی ہے کہ اسے کر لیا جائے۔ اور ذہن کبھی ایک طرف جاتا ہے تو کبھی دوسری طرف۔ ایسے موقع پر انسان متذبذب ہو جاتا ہے اور عام طور سے اپنے قریبی اور مخلص لوگوں سے مشورہ کرتا ہے کہ یار بتائو میں کیا کروں ؟ کون سا کام کروں اور کون سا چھوڑ دوں۔ اس مشورے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آپ اپنے عزیز یا دوست سے اپنے لیے بہتر پہلو کی طرف راہنمائی طلب کر رہے ہوتے ہیں کیونکہ آپ یہ سوچ رہے ہوتے ہیں کہ ہو سکتا ہے یہ مشورہ دینے والا کسی ایسے پہلو کی طرف رہنمائی کر دے جو میری نگاہ سے اوجھل ہے اور میری اس تک رسائی نہیں ہو سکی۔ بعینہٖ یہی بات آپ اللہ رب العزت کے حضور دعا کی شکل میں کر سکتے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ بندوں سے جو آپ راہنمائی طلب کریں گے وہ مشورہ یا استشارہ ہو گا اور اللہ رب العزت سے جو راہنمائی طلب کریں گے وہ استخارہ کہلائے گی۔ چنانچہ حدیث میں آتا ہے:
ماخاب من استخار و ماندم من استشار۔ (کنز العمال:  ۲۱۵۳۲)
ترجمہ: جوآدمی اپنے معاملات میں استخارہ کرتا ہو وہ کبھی ناکام نہیں ہوتا، اور جو شخص اپنے کاموں میں مشورہ کرتا ہو وہ کبھی نادم اور پشیمان نہیں ہوتا۔
اس تفصیل کی روشنی میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ استخارہ کا مطلب صرف اتنا ہوتا ہے کہ آدمی کسی معاملے میں اللہ کے حضور دست دعا دراز کرتے ہوئے یہ درخواست کرتا ہے کہ یا اللہ میرے معاملے میں جو پہلو بہتر ہے وہ مقدر فرما دے۔
استخارہ کی اہمیت
چونکہ اللہ رب العزت کا علم کامل ہے وہ ہر بات کے تمام پہلوئوں کو جانتے ہیں اور انہیں یہ معلوم ہے کہ ہمارے لیے کیا بہتر ہے اور کیا نقصان دہ۔ کون سی بات ہمارے لیے مناسب ہے اور کون سی نامناسب ہے اس لیے جو خیر اللہ سے طلب کی جائے گی وہ بندوں سے مشورہ کی نسبت زیادہ اہمیت کی حامل ہو گی۔ اس لیے شریعت نے استخارے کو بہت اہمیت دی ہے: ایک حدیث میں ہے:
عن سعد بن ابی وقاصص قال قال رسول اللہ ا من سعادۃ ابن آدم کثرۃ استخارتہ اللہ و رضاہ بما قضیٰ اللہ تعالیٰ لہ ومن شقاوہ ابن آدم ترکہ استخارۃ اللہ وسخطہ بما قضی اللہ لہ۔ (ترمذی ۱ ۲۱۵۱)
ترجمہ: حضرت سعد بن ابی وقاصص کہتے ہیں۔ رسول اللہ ا نے فرمایا آدمی کا اللہ سے کثرت سے استخارہ کرنا اور جو اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے فیصلہ فرما دیا ہے اس پر راضی رہنا اس کی سعادت اور نیک بختی ہے اور اس کا اللہ تعالیٰ سے استخارہ نہ کرنا اور اللہ تعالیٰ کے فیصلے پر راضی نہ ہونا اس کی بدبختی ہے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کو اپنے اکثر معاملات میں استخارہ کرنا چاہئے کیونکہ یہ اس کی سعادت ہے۔ اسی وجہ سے رسول اللہ ا اس کی تعلیم کا اہتمام فرماتے تھے:
عن جابرص قال۔ کان رسول اللہ یعلمنا الاستخارۃ فی الامور کما یعلمنا السورۃ من القران۔ (بخاری حدیث نمبر ۱۱۶۲)
یعنی رسول اللہ ا ہم کو اسی اہتمام سے استخارہ سکھاتے تھے جس اہتمام سے قرآن کی کوئی سورت سکھاتے تھے۔
اسی طرح پیچھے حدیث گزری ہے کہ استخارہ کرنے والا ناکام و نامراد نہیں ہوتا۔ ان تمام احادیث سے اتنا اندازہ ہوتا ہے کہ استخارہ کی شریعت میں بہت اہمیت ہے۔
استخارہ کا مسنون طریقہ
’’استخارہ‘‘ کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ آدمی دو رکعت نفل استخارہ کی نیت سے پڑھے۔ (بشرطیکہ اس وقت نفل کے لیے ممنوع وقت نہ ہو) نیت یہ کرے کہ میرے سامنے دو راستے ہیں، ان میں سے جو راستہ میرے حق میں بہتر ہو، اللہ تعالیٰ اس کا فیصلہ فرما دیں۔ نماز کے بعد استخارہ کی وہ مسنون دعا پڑھے جو حضور اقدس ا نے تلقین فرمائی ہے۔
استخارہ کی دعا
اَللّٰھُمَّ اِنَّیْ اَسْتَخِیْرُکَ بِعِلْمِکَ وَاَسْتَقْدِرُکَ بِقُدْ رَتِکَ وَ اَسْئَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ الْعَظِیْمِ فَاِنَّکَ تَقْدِرُ وَلَا اَقْدِرُ وَتَعْلَمُ وَلَاَ اَعْلَمُ وَاَنْتَ عَلَّامُ الْغُیُوبِ اَللّٰھُمَّ اِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ اَنَّ ہٰذَا الْاَمْرَخَیْرٌ لِیْ فِیْ دِینِیْ وَمَعَاشِیْ وَعَاقِبَۃِ اَمْرِیْ فَاقْدِ رْہُ لِیْ وَیَسِّرْہُ لِیْ ثُمَّ بَارِکْ لِیْ فِیْہِ وَاِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ اَنَّ ہٰذَا الْاَمْرَ شَرٌّ لِّیْ فِیْ دِیْنِیْ وَمَعَاشِیْ وَعَاقِبَۃِ اَمْرِیْ فَاصْرِفْہُ عَنِّیْ وَاصْرِفْنِیْ عَنْہُ وَاقْدِرْلِیَ الْخَیْرَحَیْثُ کَانَ ثُمَّ اَرْضِنِیْ بِہٖ ط ۔
ترجمہ: ’’اے اللہ ! میں آپ کے علم کا واسطہ دے کر آپ سے خیر طلب کرتا ہوں اور آپ کی قدرت کا واسطہ دے کر میں اچھائی پر قدرت طلب کرتا ہوں آپ غیب کو جاننے والے ہیں۔ اے اللہ! آپ علم رکھتے ہیں، میں علم نہیں رکھتا۔ (یعنی یہ معاملہ میرے حق میں بہتر ہے یا نہیں۔ اس کا علم آپ کو ہے مجھے نہیں۔) اور آپ قدرت رکھتے ہیں اور میرے اندر قدرت نہیں۔ یا اللہ ! اگر آپ کے علم میں ہے کہ یہ معاملہ (اس موقع پر اس معاملہ کا تصور دل میں لائے جس کے لیے استخارہ کر رہا ہے) میرے حق میں بہتر ہے۔ میرے دین کے لیے بھی بہتر ہے، میری معاش اور دنیا کے اعتبار سے بھی بہتر ہے اور انجام کار کے اعتبار سے بھی بہتر ہے تو اس کو میرے لیے مقدر فرما دیجئے اور اس کو میرے لیے آسان فرما دیجئے اور اس میں میرے لیے برکت پیدا فرما دیجئے اور اگر آپ کے علم میں یہ بات ہے کہ یہ معاملہ میرے حق میں برا ہے، میرے دین کے حق میں برا ہے یا میری دنیا اور معاش کے حق میں برا ہے یا میرے انجام کار کے اعتبار سے برا ہے تو اس کام کو مجھ سے پھیر دیجئے اور مجھے اس سے پھیر دیجئے، اور میرے لیے خیر مقدر فرما دیجئے جہاں بھی ہو۔ (یعنی اگر یہ معاملہ میرے لیے بہتر نہیں ہے تو اس کو تو چھوڑ دیجئے اور اس کے بدلے جو کام میرے لیے بہتر ہو اس کو مقدر فرما دیجئے،) پھر مجھے اس پر راضی بھی کر دیجئے اور اس پر مطمئن بھی کر دیجئے۔ (بحوالہ: اصلاحی خطبات) 
استخارہ کے بارے میں چند تنبیہات
استخارہ کا مسنون طریقہ صرف وہی ہے جو اوپر ذکر ہواہے یعنی یہ کہ جب بھی کوئی اہم بات پیش آ جائے اور فیصلہ کرنے میں مشکل پیش آ رہی ہو تو دو رکعت نفل پڑھے اور اس کے بعد مسنون دعا مانگ لے۔ اس کے علاوہ لوگوں میں استخارہ کی نسبت متعدد غلط فہمیاں پائی جائیں۔ جن میں سے چند یہ ہیں۔
استخارہ اور خواب
عام طور پر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ’’استخارہ‘‘ کرنے کا کوئی خاص طریقہ اور خاص عمل ہوتا ہے، اس کے بعد کوئی خواب نظر آتا ہے اور اس خواب کے اندر ہدایت دی جاتی ہے کہ فلاں کام کرو یا نہ کرو۔ خوب سمجھ لیں کہ حضور اقدس ا سے ’’استخارہ‘‘ کا جو مسنون طریقہ ثابت ہے اس میں اس قسم کی کوئی بات موجود نہیں۔ اور خواب آنا کوئی ضروری نہیں کہ خواب میں کوئی بات ضرور بتائی جائے یا خواب میں کوئی اشارہ ضرور دیا جائے بعض مرتبہ خواب میں آ جاتا ہے اور بعض مرتبہ خواب میں نہیں آتا۔ (اصلاحی خطبات)
استخارے کے لیے کوئی وقت متعین نہیں
بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ استخارہ ہمیشہ رات کو عشا کے بعد سوتے وقت کرنا چاہئے احادیث نبویہ میں اس قسم کی کوئی قید نہیں۔ بلکہ جب بھی موقع ملے کر لینا چاہئے، اس سلسلے میں نہ رات کی کوئی قید ہے نہ دن کی نہ  سونے کی شرط ہے نہ جاگنے کی چنانچہ جب بھی دل میں کسی کام کی بابت خیال آئے اور فیصلہ کرنے میں تردد ہو تو اسی وقت مذکورہ مسنون عمل کرے اور دعا مانگے۔
مختصر استخارہ کا تصور
اصل تو یہی ہے کہ استخارے کے مسنون طریقے پر عمل کیا جائے۔ اور اسی کی ترویج و ترغیب دی جائے کیونکہ جو اثرات و برکات سنت طریقے میں ہیں وہ دوسرے طریقوں میں ہو ہی نہیں سکتے، البتہ اگر آدمی کے پاس وقت نہ ہو تو ایسی صورت میں مختصر طریقے سے بھی استخارہ کی کسی حد تک گنجائش ملتی ہے۔ چنانچہ حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب مدظلہ فرماتے ہیں:
’’میں نے اپنے والد ماجد مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو ساری عمر یہ عمل کرتے ہوئے دیکھا کہ جب کبھی کوئی ایسا معاملہ پیش آتا جس میں فوراً فیصلہ کرنا ہوتا کہ یہ دو راستے ہیں، ان میں سے ایک راستے کو اختیار کرنا ہے تو آپ اس وقت چند لمحوں کے لیے آنکھ بند کر لیتے، اب جو شخص آپ کی عادت سے واقف نہیں اس کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ یہ آنکھ بند کر کے کیا کام ہو رہا ہے، لیکن حقیقت میں وہ آنکھ بند کر کے ذرا سی دیر میں اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کر لیتے اور دل ہی دل میں اللہ تعالیٰ سے دعا کر لیتے کہ یا اللہ ! میرے سامنے یہ کشمکش کی بات پیش آ گئی ہے، میری سمجھ میں نہیں آ رہا کہ کیا فیصلہ کروں، آپ میرے دل میں وہ بات ڈال دیجئے جو آپ کے نزدیک بہتر ہو۔ بس دل ہی دل میں یہ چھوٹا سا اور مختصر سا استخارہ ہو گیا۔ (اصلاحی خطبات)
مذکورہ عمل سے معلوم ہوتا ہے کہ استخارے کی حقیقت کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس کے لیے نہ نفل نماز کی لازمی شرط ہے اور نہ کوئی اور خاص قید جسے لازم سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح استخارے کے لیے اگرچہ زیادہ بہتر دعا وہی ہے جو حدیث میں استخارے کے لیے آتی ہے اگر آدمی کے پاس وقت ہو تو اسی طرح کرنا چاہئے۔ لیکن بعض اوقات انسان کو اتنی جلدی میں فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ نماز کا وقت ہی نہیں ہوتا۔ یا تو اس وجہ سے کہ آدمی کے پاس وقت نہیں ہوتا یا اس وجہ سے کہ وہ وقت نماز پڑھنے کا نہیں ہوتا۔ ایسے موقع پر خود حدیث میں ہی ایک دو اور مختصر دعائوں کا ذکر بھی ملتا ہے: جو یہ ہیں:
اللّٰہُمّ خِرْلِیْ وَاخْتَرْلِی۔ (ترمذی)
اے اللہ میرے لیے پسند فرما دیجئے کہ مجھے کون سا پہلو اختیار کرنا چاہیے۔
دوسری دعا یہ ہے:
اللھُمَّ اھْدِنِیْ وَسَدِّدْنِی۔ (صحیح مسلم:۲۷۲۵)
’’ اے اللہ ! میری صحیح راہنمائی فرمایئے اور مجھے سیدھے راستے پر رکھئے‘‘۔
کیا عربی میں دعا مانگنا ضروری ہے؟
اسی طرح یہ بھی سمجھ لیا جائے کہ استخارہ کے لیے اگرچہ بہتر تو یہی ہے کہ عربی میں متعین دعا مانگی جائے کیونکہ وہی سنت ہے لیکن اگر ایسا نہ ہو تو اردو میں یا اپنی کسی بھی زبان میں بھی دعا مانگ سکتے ہیں۔ بلکہ زبان سے الفاظ نہ بھی ادا کر سکیں تو بھی استخارہ ہو جائے گا چنانچہ حضرت مولانا تقی عثمانی صاحب فرماتے ہیں: 
’’اگر عربی میں دعا یاد نہ آئے تو اردو ہی میں دعا کر لو کہ یا  اللہ! مجھے یہ کشمکش پیش آ گئی ہے آپ مجھے صحیح راستہ دکھا دیجئے۔ اگر زبان سے نہ کہہ سکو تو دل ہی دل میں اللہ تعالیٰ سے کہہ دو کہ یا اللہ یہ مشکل اور پریشانی پیش آ گئی ہے۔ آپ صحیح راستہ دل میں ڈال دیجئے۔ (اصلاحی خطبات)
استخارہ اور مشورہ
استخارہ جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے اللہ رب العزت سے خیر طلب کرنے کا نام ہے جو کہ دعا ہی کی ایک شکل ہے۔ لیکن جیسے عام دعائوں میںہم دعا کرنے کے باوجود دنیاوی اسباب سے صرف نظر نہیں کرتے اور انہیں کام میں لاتے ہیں ایسے ہی استخارہ کرنے سے پہلے بھی اور بعد میں بھی اسباب کو ترک نہیں کرنا چاہئے۔ مثلاً اگر کوئی کام پیش آ گیا ہے تو استخارہ بھی کریں اس کے ساتھ ساتھ اس کام سے متعلق اچھی رائے رکھنے والے اور مخلص لوگوں سے مشورہ بھی کریں۔ ہو سکتا ہے اللہ مشورے ہی کی برکت سے آپ کے دل میں خیر ڈال دیں اور پھر اس کام کو آپ کے لیے خیر بنا دیں۔ اسی وجہ سے حدیث میں جہاں استخارے کا ذکر ہے وہاں بندوں سے مشورہ کرنے کی بھی اہمیت بتلائی گئی ہے… فرمایا:
مَا خَابَ مَنِ اسْتَخَارَ وَمَانَدِمَ مَنِ اسْتَشَارَ۔ (کنز العمال: ۲۱۵۳۲)
’’استخارہ کرنے والا ناکام نہیں ہوتا اور مشورہ کرنے والا پشیمان نہیں ہوتا ‘‘
استخارے کا نتیجہ کیا ہو گا
استخارہ کرنے کے بعد عام طور سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ ذہن مکمل طور سے ایک طرف لگ جاتا ہے۔ لیکن ایسا کوئی ضروری نہیں۔ ہو سکتا ہے کہ ایسی کیفیت حاصل ہو جائے اور ہو سکتا ہے نہ بھی ہو، اصل بات استخارہ کا عمل کر لیا ہے، دعا مانگ لی ہے، تو استخارہ ہو گیا ہے، چاہے کسی ایک جانب رجحان نہ بھی بنے۔ اس سے استخارے کی صحت پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ پھر جب استخارہ کر لیا تو اب یہ یقین رکھنا چاہئے کہ اللہ میرے حق میں جو کریں گے، وہ بہتر ہو گا چاہے بظاہر کوئی کام انسان کو اپنے حق میں برا معلوم ہو لیکن ہو سکتا ہے اللہ نے اس میں بھلائی رکھی ہو۔ اس لیے انسان کو کسی غیر متوقع نتیجے اور صورت حال کے پیش آنے پر یہ نہیں کہنا یا سوچنا چاہئے کہ میں نے استخارہ بھی کیا تھا پھر بھی یوں ہو گیا۔ ووںہو گیا۔ وغیرہ وغیرہ… اسی لیے صحابی رسول حضرت عبداللہ ابن عمرص فرماتے ہیں۔
’’بعض اوقات انسان اللہ تعالیٰ سے استخارہ کرتا ہے کہ جس کام میں میرے لیے خیر ہو وہ کام ہو جائے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے وہ کام اختیار فرما دیتے ہیں جو اس کے حق میں بہتر ہوتا ہے، لیکن ظاہری اعتبار سے وہ کام اس بندہ کی سمجھ میں نہیں آتا تو وہ بندہ اپنے پروردگار پر ناراض ہوتا ہے کہ میں نے اللہ تعالیٰ سے تو یہ کہا تھا کہ میرے لیے اچھا کام تلاش کیجئے، لیکن جو کام ملا وہ تو مجھے اچھا نظر نہیں آ رہا ہے، اس میں تو میرے لیے تکلیف اور پریشانی ہے لیکن کچھ عرصہ کے بعد جب انجام سامنے آتا ہے تب اس کو پتہ چلتا ہے کہ حقیقت میں اللہ تعالیٰ نے میرے لیے جو فیصلہ کیا تھا وہی میرے حق میں بہتر تھا۔‘‘
کسی سے استخارہ کروانا 
بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ استخارہ اتنا مقدس اور اونچا عمل ہے جو ہم جیسے عام لوگ نہیں کر سکتے۔ اس کے لیے کسی بزرگ یا عالم، یا روحانی عامل کی ضرورت ہو گی جو استخارہ کر کے ہمیں ہمارا مطلوب بتا دے گا۔ اسی وجہ سے آج کل استخارہ فورم بن رہے ہیں۔ یہ ساری صورت حال استخارہ کی حقیقت نہ سمجھنے کی وجہ سے ہے۔ کیونکہ استخارہ کی حقیقت اللہ سے دعا اور طلب خیر کی ہے اور رب العزت کا تعلق بندہ اور مسلمان ہونے کی حیثیت سے سب کے ساتھ یکساں ہے۔ چنانچہ جتنے بہتر طریقے سے ہم اپنے لیے دعا کر سکتے ہیں ایسا کوئی دوسرا ظاہر ہے عام طور سے نہیں کر سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ نبی علیہ السلام نے ہر صحابی کو علیحدہ استخارہ کا عمل سکھایا اور کسی صحابی سے منقول نہیں کہ انہوں نے آپ ا کی خدمت میں یہ عرض کیا ہو کہ یا رسول اللہ ! میرے لیے استخارہ فرما دیجئے۔ اس لیے استخارہ کا عمل خود ہی کرنا چاہئے۔
استخارہ ایک ظنی چیز ہے
اس میں شک نہیں کہ اللہ رب العزت استخارے کی برکت سے دل میں کبھی بات ڈال دیتے ہیں جس سے آدمی کا رجحان کسی کام کی طرف ہو جاتا ہے لیکن یہ رجحان کوئی یقینی نہیں بلکہ اللہ کی طرف سے ملنے والی ایک ظنی راہنمائی ہے (فہم حدیث: ڈاکٹر مفتی عبدالواحد صاحب مدظلہ) چنانچہ اگر اس کے مخالف بھی عمل کر لیں تو یہ شرعی نافرمانی یا گناہ کا کام نہیں ہو گا۔ 
استخارہ کن چیزوں میں ہوتا ہے ؟
جو چیزیں شریعت میں مطلوب ہیں یا ممنوع ہیں ان کو کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں استخارہ نہیں ہوتا۔ مثلاً کوئی آدمی یہ استخارہ کرنے بیٹھ جائے کہ میں نماز پڑھوں یا نہ پڑھوں، حج پر جائوں یا نہ جائوں۔ قربانی کروں یا نہ کروں۔ اسی طرح شراب سے بچوں یا نہ بچوں۔ ٹی وی دیکھوں یا نہ دیکھوں۔ تو یہ بات غلط ہے کیونکہ استخارہ صرف اور صرف ان کاموں میں ہوتا ہے جو مباح اور جائز ہوتے ہیں یعنی ان کا کرنا نہ کرنا برابر ہے مثلاً یہ کہ کاروبار کرنا تو ہے اب یہ کہ جوتوں کا کروں یا کپڑوں کا، دکان کھولنی ہے تو شاہ عالم بازار میں کھولوں یا اچھرہ بازار میں۔ یا رشتہ کرنا ہے اس گھر میں رشتہ کروں یا نہ کروں۔ یا کون سا میرے لیے بہتر ہو گا۔ 
یہ بات خوب یاد رکھنی چاہئے کہ استخارے کا کسی بات کی پیشنگوئی یا پیشگی علم سے تعلق نہیں ہوتا۔ مثلاً استخارے کے ذریعے یہ معلوم کرنا کہ میرا فلاں کام ہو گا یا نہیں ہو گا؟ یہ معلوم نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی استخارہ مشکلات کا حل ہے۔ آج کل میڈیا وغیرہ پر بڑے پیمانے پر جو استخارہ سنٹر، آن لائن استخارہ ہو رہا ہے وہاں بیٹھے ہوئے لوگ اسی قسم کی پیشین گوئیاں کرتے اور لوگوں سے پیسہ بٹورتے ہیں اور مشکلات کے حل کے دعوے کرتے ہیں۔ یہ سب کچھ استخارہ سے دور کا بھی واسطہ نہیں رکھتا، بلکہ یہ نجومیوں کی ڈرامہ بازیاں ہیں جو وہ روحانی سکالروں کے روپ میں استخارہ کے عنوان سے رچائے ہوئے ہیں۔ اس لیے ان سے بچنا چاہئے۔
نیوز لیٹر سبسکرپشن
سبسکرپشن کے بعد آپ ادارہ کے بارے میں تازہ ترین اپ ڈیٹ حاصل کر سکتے ہیں