English

مضامین 

مفتی محمد فیصل حمید 
شعبہ تصنیف و تالیف
جامعہ دارالتقویٰ لاہور

کہا جاتا ہے کہ:’’محبت اندھی ہوتی ہے۔‘‘ یعنی انسان پر جب کسی کی محبت کا جنون سوار ہوجاتا ہے تو اسے محبوب کی کوئی برائی، برائی نظر نہیں آتی ، بلکہ اس کی ہر اد ا اچھی ہی لگتی ہے چاہے اس میں کیسی ہی خرابی موجود ہو، کچھ ایسا ہی آج کل ہمارے معاشرے میں دیکھنے میں آرہا ہے،خاص طور ان لوگوں میں جن کا تعلق کسی بھی سیاسی پارٹی سے ہے۔ عام فضا یہ ہے کہ ہر حال میں اپنی پارٹی ہی کی حمایت کرنی ہے، ہمارا پارٹی منشور ہی سب سے پرکشش ہے ،ہماری داخلہ و خارجہ پالیسی ہی سب سے بہتر ہے ،صنعت و حرفت اور تجارت و زراعت کے شعبوں میں ہماری پیش کردہ حکمت عملی میں ہی کامیابی ہے، ہم نے اپنے لیڈر کی ہر بات کی تائید ہی کرنی ہے،اگر وہ کوئی غلط بات بھی کہہ دے تو اس کی تاویل کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں ،چاہے اس کے عوض ایمان ہی سے ہاتھ دھونا پڑے۔
گذشتہ دنوں ہمارے وزیر اعظم صاحب نے حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے متعلق انتہائی غیر سنجیدہ زبان استعمال کی، اس سے پہلے وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں بھی حد درجہ غیر ذمہ ارانہ تبصرہ کرچکے ہیں ، نیز سید الاولین والآخرین حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں جو الفاظ انھوں نے استعمال کیے ہیں، ایک مسلمان ان الفاظ کو زبان پر لانا تو درکنار ، ان کا تصور کرنا بھی اپنے ایمان کی بربادی کا سبب سمجھتا ہے۔
لیکن اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ایسے عاشقانِ رسول کی بھی کچھ کمی نہیں، جنھیں ان باتوں میں کوئی خرابی نظر نہیں آتی ،ہم میں ایک بڑا طبقہ ایسا بھی ہے ،جس نے اس بات کی قسم کھا رکھی ہے کہ ہر حال میں اپنی پارٹی ہی کو اچھا کہنا ہے اور اپنے لیڈر ہی کی تائید کرنی ہے ...ایمان بچتا ہے بچے، نہیں بچتا نہ بچے۔
حیرت ہے : اگر کوئی غیر مسلم آپ کے نبی کی شان میں گستاخی کرتا ہے تو آپ اپنی جان پر کھیل جاتے ہیں، اسے سزا دلوانے کے لیے پورا ملک جام کردیتے ہیں، جلسے کرتے ہیں، ریلیاں نکالتے ہیں،سخت ترین رد عمل کا اظہار کرتے ہیں، ناصرف ملکی بلکہ عالمی سطح پر اس کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں اور آپ سمجھتے ہیں کہ اس موقع پر خاموش رہنا ہماری غیرت ِایمانی کے منافی ہے، لیکن اسی قسم کی گستاخی اگر آپ کا اپنا لیڈر کرگزرتا ہے تو آپ کو اس میں کوئی خرابی نہیں دِکھتی ، ناصرف یہ کہ اس میں کوئی خرابی نہیں سمجھتے بلکہ اپنے لیڈر کو پورا پورا سپوٹ کرتے ہیںاور اس کی بات کی ایسی خوبصورت تشریح کرتے ہیں کہ گویا یہ بات کہے بغیر چارۂ کار ہی نہ تھا۔
لیکن یہ بات یاد رکھنے کی ہے جب تک محبت ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم ساری محبتوں سے بڑھ نہ جائے تب تک ایمان کامل نہیں ہوسکتا...اللہ رب العزت کا ارشاد ہے: 
{النبی اولیٰ بالمؤمنین من انفسہم }
(ایمان والوں کے لیے یہ نبی ان کی اپنی جانوں سے بھی زیادہ قریب تر ہیں)
 نیزحضور سرورِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے: 
’’لایؤمن احدکم حتی اکون احب الیہ من والدہ وولدہ والناس اجمعین۔‘‘  
(تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک میں اس کے نزدیک ، اس کے والد ، اولاد اور ساری خلقت سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں)
ایک بار حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ :’’ یارسول اللہ! آپ مجھے میری جان کے علاوہ باقی سب سے زیادہ محبوب ہیں‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ تمھارا ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتا ،جب تک میں تمھیں تمھاری جان سے بھی زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں۔‘‘ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اُسی وقت عرض کی: ’’یارسول اللہ! اب آپ مجھے میری جان سے بھی زیادہ محبوب ہوگئے ہیں۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’عمر! اب تمھارا ایمان مکمل ہوا ہے۔‘‘
نیز یہ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے :
’’حبک الشیء یعمی ویصم‘‘
(تمھارا کسی سے محبت کرنا تمھیں اندھا اور بہرا کردے گا)
اور یہ حقیقت ہے کہ جب انسان کے دل و دماغ پر کسی کی محبت و عقیدت سوار ہوجاتی ہے تو وہ اپنے محبوب سے متعلق دیکھنے اور سننے میں صحیح غلط کی تمیز کھودیتا ہےاپنی عقل کی ڈوری اپنی چاہت کے ہاتھ میں تھمادیتا ہے، آنکھوں پر عقیدت کی پٹی باندھ لیتا ہے اور کانوں میں محبت کی روئی رکھ دیتاہے، اب اسے محبوب ویسا نظر نہیں آتا جیسا کہ وہ ہوتا ہے ، بلکہ ویسا نظر آتا ہے جیسا اس کی عقیدت اسے دکھاتی ہے ،محبوب کی بات کو اس طرح نہیں سنتا جس طرح وہ بول رہا ہوتا ہے بلکہ اُس طرح سنتا ہے جیسے اس کی محبت اسے سناتی ہے۔
یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ آپ ایک آزاد انسان ہیں، اپنا ایک خاص نکتہ نظر رکھتے ہیں، حالات کا مشاہدہ کر کے کوئی بھی نتیجہ نکال سکتے ہیں، اپنی عقل و دانش کی روشنی میں ملک کو درپیش مسائل میں کسی بھی قصور وار ٹھہرا سکتے ہیں، ملکی اور عالمی حالات سے متعلق کوئی بھی رائے قائم کر سکتے ہیں، حکومت کی معاشی اور دفاعی پالیسیوں کے بارے میں کوئی بھی نظریہ اپنا سکتے ہیں، کسی بھی سیاسی پارٹی کو سپوٹ کر سکتے ہیں، کسی کو بھی ووٹ دے سکتے ہیں، کوئی آپ سے آپ کی یہ آزادی چھین نہیں سکتا۔
لیکن عقل دانش کی دنیا میں رہتے ہوئے کوئی رائے قائم کرنا اور چیز ہے، جب کہ عقل کا اندھا ہوجانا اور چیز ہے۔ میرا مقصد نہ تو آپ کو حکومت کے خلاف بھڑکانا ہے اور نہ ہی کسی شورش کو ہوا دینا ہے،نہ کسی خاص پارٹی کی طرف داری کرنا مقصود ہے نہ کسی کی مخالفت پیش ِ نظر ہے، آپ جس پارٹی کو چاہیں سپورٹ کریں جیسے چاہیں ووٹ دیں لیکن انبیا اور صحابہ کرام کی عقیدت کے دام تو نہ لگائیں، غلامی رسول پر تو کوئی سودا نہ کریں، روزِ محشر رحمت دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کے دروازے تو خود پر بند نہ کریں۔
اندھے بہرے نہ بنیں ہوش سے کام لیں۔

=== 

نیوز لیٹر سبسکرپشن
سبسکرپشن کے بعد آپ ادارہ کے بارے میں تازہ ترین اپ ڈیٹ حاصل کر سکتے ہیں