English

مضامین 

لئیق احمدنعمانی 
رفیق شعبہ تصنیف و تالیف 
جامعہ دارالتقویٰ لاہور


قادیانیت کے ناسور نے ایک بہت بڑی پیش قدمی کی ہے اور کرتار پور کا بارڈر کھلوا کر ہندوستانی اور پاکستانی قادیانیوں کے باہمی تعلق کو مضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ قادیانی پروگرام کو آگے بڑھانے کا ایک اہم سنگِ میل عبور کیاہے،ہندوستان کے قادیانیوں کا پاکستان اور پاکستان کے قادیانیوں کا ہندوستان سفر کی مسافت میں کمی کے باعث آنا جانا آسان ہوگا تو ہر آدمی جماعت کے منشور سے وابستہ اور ہم آہنگ رہے گا۔
چنانچہ ہمیں بحیثیت مسلمان ان چیزوں کو سوچنا چاہیے اور حکمتِ عملی اختیار کرکے ان کا سدِباب کرنا چاہیے نہ کہ ان کو سیاسی نظریات سے تعبیر کرکے نظر انداز کرنے لگ جائیں۔
1960ء میں آغاشورش کاشمیری صاحب نے ہفت روزہ میگزین’’چٹان‘‘ میں لکھا تھا کہ :’’قادیان آنے اور جانے کا سفر دنوں کی بجائے منٹوں میں طے کرنے کے لیے سیالکوٹ کی تحصیل نارووال کے سرحدی گائوں ’’کرتارپور‘‘ سے پاکستان انڈیا کا بارڈر کھلوانا ملعون مرزا قادیانی کی ’’نقلی امت‘‘ کا سب سے بڑا خواب ہے اوراپنے اس مشن کی خاطر قادیانی ہرجتن اور سازش کریں گے۔
یہاں تک کہ سکھوں کے اوقاف کے نام پر واردات کی جائے گی اور یہ قادیان ابتداء میں مشرقی پنجاب (امرتسر) میں سکھ سردار وں پر اپنی سامراجی دولت بلا دریغ نچھاور کریں گے جبکہ وقت آنے پر پاکستان میں قادیان مفادات کے پہرے دار طاقت ور حلقوں کو بروئے کا ر لاکر اپنا مشن پورا کریں گے۔یہی وجہ ہے کہ پاکستانی حکومت نے جس سکھ کو کرتار پور بارڈر کا افتتاح کرنے کے لیے خصوصی دعوت دی ہے وہی سکھ، قادیانیوں سے ملاقاتیں کررہاہے اور ان کا ہم نوالہ بنا ہوا ہے۔
آج لاکھوں کی تعداد میں قادیانی اسرائیل میں موجود ہیں اور اسرائیل نے ان کو قادیان میں ریاست بنانے کی مدد اور وعدہ دیا ہے اوریہی اسرائیل کے تربیت یافتہ قادیانی مال ودولت کی بنا پر پاکستان کے اہم عہدوں تک جا پہنچے ہیں اور ہر وہ کام کروا رہے ہیں جو اسرائیل چاہتا ہے۔اسی لیے آج پاکستان میںاسرائیل کو تسلیم کرنے اور اس سے دوستانہ تعلقات قائم کرنے پر اسمبلیوں میں آوازیں گونج رہی ہیں۔ حضرت اقدس مولانا فضل الرحمٰن صاحب (دامت برکاتہم العالیہ) نے اپنے ایک بیان میں فرمایا: ”پاکستان بنا1947ء میں اور اسرائیل بنا 1948ء میں تو اسرائیل کے پہلے وزیر اعظم نے اپنے پالیسی بیان میں کہاتھا ہماری خارجہ پالیسی کا بنیادی اصول دنیا میں ایک نئی ابھرتی ہوئی تخلیق کردہ پاکستانی مملکت کا خاتمہ ہے۔ اسرائیل ،پاکستان کے خاتمے کو اپنی  خارجہ پالیسی کی ترجیح اوّل قرار دے رہا ہے اور ہمارا وزیر اعظم اسرائیل کے تسلیم کرنے کو اپنی اولین ترجیح قرار دے رہا ہے۔یہ ہے آج کے قائد اعظم کے وارث جو قائد اعظم کے نظریات کا حق ادا کررہے ہیں۔‘‘
چنانچہ قرآن پاک نے ان یہودیوں کے متعلق واضح فرمادیا :
’’تم یہ بات ضرور محسوس کرلو گے کہ مسلمانوں سے سب سے سخت دشمنی رکھنے والے ایک تو یہودی ہیں اور دوسرے وہ لوگ ہیں جو (کھل کر)شرک کرتے ہیں‘‘
(آسان ترجمۂ قرآن از مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہ العالی)
پاکستان میں پی ٹی آئی کی نئی حکومت بنتے ہی قادیانی مرزا عاطف کو مشیر بنایا جارہاتھا جب اس کا راز فاش ہوا تو فوراًہٹادیاگیا۔
پاکستان میں اسرائیلی ریاست کو تسلیم کرنے اور قانون توہینِ رسالت میں تبدیلی سے متعلق باربار گردش کرتی خبریں بھی اسی ایجنڈے کا حصہ ہیں ایک طرف وزیر اعظم پاکستان کا ریاست مدینہ جیسے مقدس لفظ کا استعمال کرکے پاکستان میں ریاست مدینہ کے قوانین پر عمل درآمد کی یقین دہانی کروانا، ابھی حال ہی میں 12ربیع الاوّل ’’رحمۃ للعالمین کانفرنس‘‘ کے موقع پرتقریر کے دوران وزیر اعظم نے پھر ملک کو ریاست مدینہ کے اصولوں پر چلانے کا عزم ظاہر کیا ہے اور دوسری طرف قادیانی نٹورک کو بے لگا م چھوڑنا ،اسرائیل کو تسلیم کرنے کی باتیں کرنا ،قادیانی عبدالشکور کو رہا کرنا اور وزیر خارجہ” شاہ محمود قریشی“ کا کرتار پور راہداری کی افتتاحی تقریب سے خطاب کے دوران400مندروں کا انتخاب کرکے ان کو ازسرِنو تعمیر کروانے کے عزم کا اظہار کرنا، یہ کھلا تضاد نہیں تو اور کیا ہے؟
قادیانی لابی اور اعلیٰ عہدوں پر امریکی حکم پر لائے گئے خزانوں کے وزیر مشیر پاکستان کو گھسیٹ کر آئی ایم ایف اور قرض دینے والے عالمی اداروں تک لے جارہے تاکہ پاکستان معاشی طور پر اس قدر مجبور ہوجائے کہ اسے اسرائیلی ریاست کو تسلیم کرنا پڑے اور بدلے میں پاکستان کو آئی ایم ایف سے قرضوں کی معافی، ملک کی معیشت کو سہارا اور اگلے کئی سال تک کی حکومت کی آفر کی جائے گی۔
معاشی طور پر پاکستان کے گھٹنے ٹیکنے کے لیے نہ صرف اندرونِ خانہ چالیں جاری ہیں بلکہ اچانک کشمیر کا مسئلہ چھیڑ کر فوجوں کی نقل وحرکت کو بھی شروع کرادیا اور اس نقل وحرکت میں رہنے کے لیے فوج کو وسیع پیمانے پر تیل اور ٹرانسپورٹ کی ضرورت پڑتی ہے، جس کی وجہ سے تیل کی قیمت میں اضافہ ہوا اور مہنگائی نے ملک میں قبضہ جما لیا۔مہنگائی کنٹرول کرنے اور معیشت کو کچھ مستحکم بنانے کے لیے پھر سے قرضوں کی ضرورت پڑے گی اور نگاہیں آئی ایم ایف کی طرف اٹھیں گی۔
کشمیر کے مسئلہ پر حکومتِ وقت پر زور تقاریر تو کررہی ہے، لیکن صرف تقاریرسے تو مسئلہ کا حل نہیںہوگا، بلکہ ہمیں ایسی حکمتِ عملی اختیار کرنے کی ضرورت ہے جس سے کشمیر کے مسلمانوں کے لیے فوری طور پر کرفیو ختم ہونے کا حل نکل سکے اور وہ بھی سکھ کا سانس لے سکیں۔ یہ صرف پاکستان یا کسی اور ملک کے مسلمانوں کا فرض نہیں بلکہ اس موقع پر تمام مسلمان برادری کو ایک ہو کر کشمیریوں کے حق میں اور ان تمام مسلمانوں کے حق میں آواز بلند کرنے کی ضرورت ہے جو ناجائز اور ظلماً تشدد کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔
بہر کیف! کرتار پور کوریڈورسے قادیان کتنے دور ہیں یہ بھی سب کو معلوم ہے، اسرائیل کو تسلیم کرانے ، قادیانیوں اور سکھوں کو پنجاب کی الگ ریاست بنا کر پاکستان کو دولخت کرنے کی سازش چل چکی ہے اور یہ سب ان قادیانیوں کے اعلیٰ عہدوں پر فائز ہونے کی وجہ سے ہے۔۔
آج بھی اعلیٰ حکومتی اور حساس عہدوں پر قادیانی لابی براجمان ہے اور اس لابی کی مخالفت کرنے والے علمائے کرام اور تنظیموں پر پابندی عائد کی جارہی ہے۔
ہم ریاست مدینہ کا تصور دینے والی پارٹی کے ممبران سے عاجزانہ درخواست کرتے ہیں کہ وہ اپنی ذات میں بانی ریاستِ مدینہ میرے اور آپ کے نبی حضرت محمد ﷺ کی زندگی کو اپناتے ہوئے ملک وملت کے اندر ریاست مدینہ کے کلچر اور ان کے قوانین کو جاری کرکے یہ ثابت کریں کے آپ لوگ اپنے وعدوں میں سچے ہیں اور اس ملک میں ریاست مدینہ کا نظام کیوں نہ نافذ ہوجبکہ یہ ملک بنا ہی دوقومی نظریہ پر اور پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الا اللہ اور اسی واسطے ہمارے آبائو اجداد نے قربانیاں دیں تھیں تاکہ ہماری نسلوں کے اندر اسلام اور اسلامی تشخص برقرار رہ سکے۔ 
=== 

نیوز لیٹر سبسکرپشن
سبسکرپشن کے بعد آپ ادارہ کے بارے میں تازہ ترین اپ ڈیٹ حاصل کر سکتے ہیں