English

مضامین 

مولانا لئیق احمدنعمانی
استاد جامعہ دارالتقویٰ لاہور


اللہ رب العزت نے اسلام کو دین فطرت بنایا ہے جس میں انسانیت کے تمام فطری تقاضوں کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔انسانوں کایہ دستور رہا ہے کہ ہر قوم و ملت میں سال کے کچھ دن جشن مسرت منانے کے لیے مقرر کیے جاتے ہیں جنہیں تہوار کہا جاتا ہے۔ تہوار منانے کے لیے ہر قوم کا مزاج اور طریقہ کار تو مختلف ہو سکتا ہے لیکن مقصود خوشی منانا ہی ہوتا ہے کہ جس خوشی کا اظہار وہ اچھا لباس پہن کر، عمدہ کھانے تیار کر کے اور دوسرے مختلف طریقے اختیار کر کے کرتے ہیں۔ یہ گویا انسانی فطرت کا تقاضا ہے جس سے کوئی انسان مستغنی نہیں۔
چنانچہ ابو دائودکی حدیث میں حضرت انس ؓ سے یہ واقعہ مروی ہے کہ آنحضرت اہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لائے تو اس وقت اہل مدینہ دو تہوار نیروز اور مہر جان کے نام سے منایا کرتے تھے اور ان میں کھیل تماشے بھی کیا کرتے تھے۔صحابہ کرامؓ نے آپ (علیہ الصلاۃ والسلام) سے پوچھا کہ کیا ہم ان تہواروں میں شرکت کریں؟ آپ (علیہ الصلاۃ والسلام) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں ان کے بدلے ان سے بہتر دو دن عطا فرمائے ہیں۔
(۱) عیدالفطر۔ (۲) عیدالاضحی۔
عید الفطر رمضان المبارک کی عبادات یعنی صوم و صلوۃ و تراویح و اعتکاف کی انجام دہی کے بعد اظہار تشکر و مسرت کے طور پر منائی جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس دن کی عبادت کی توفیق دی اور عید الاضحی اس وقت منائی جاتی ہے جب مسلمان ایک عظیم الشان احتماعی عبادت یعنی حج کی تکمیل کر رہے ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ عبادات کے اختتام اور انجام پانے کی خوشی کوئی دنیوی خوشی نہیں ہے جس کا اظہار دنیاوی رسم و رواج کے مطابق کر لیا جاتا۔ یہ ایک دینی خوشی ہے۔ اور اس کے اظہار کا طریقہ بھی دینی ہی ہونا چاہئے جس طریقہ پر چل کر انسان واقعی ’’روحانی مسرت‘‘ کا مزہ حاصل کر لیتا ہے۔
 لہٰذا یہ خوشی منانے کا دینی طریقہ یہ قرار پایا کہ اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ شکر بجا لایاجائے۔ اپنے خالق حقیقی کے گیت گاتے ہوئے عید گاہ میں جمع ہو کر اجتماعی طور پر سجدہ ریز ہوا جائے اور اس طرح اپنے مالک کی توفیق اور اس کی عنایات کا شکر ادا کیا جائے۔ چنانچہ ظاہر ہے کہ عید کا دن مسلمانوں کے لیے یہود اور عیسائیوں جیسی غیر مسلم اقوام کے قومی تہوار وں کی طرح کوئی تہوار نہیں نہ ہی یہ ایک دفعہ پیش آنے والے کسی تاریخی واقعے کی یادگار کے طور پر منایا جاتا ہے۔ عموماً دوسری قوموں کے تہوار ایسے ہی تاریخی واقعات کی محض یاد گار ہوتے ہیں۔ مسلمانوں کے لیے یہ دن عبادت کے ہیں جس کے لیے رسول اکرم ؐ نے اپنے طرز عمل سے امت کو ہدایت اور رہنمائی بھی عطا فرمائی۔ امت کو بھی چاہئے کہ عید کے اس مبارک موقع کی ہر ساعت کو آنحضرتؐ کے مبارک طریقوں کے مطابق ہی گزارے تاکہ اس کا ہر لمحہ نہ صرف وقتی خوشی کا باعث ہو بلکہ روحانی مسرت کا بھی سبب بنے۔
عید کو عید کہنے کی وجہ
 عید  لفظ ’’عود‘‘ سے بنا ہے۔ جس کا معنی ہے” بار بار آنا“ ’’لوٹ آنا‘‘۔
چنانچہ اس دن کو عید اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہ دن بار بار ہر سال لوٹ کر آتا ہے۔ بعض علماء کا کہنا ہے کہ اس دن اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر اپنی رحمت خاصہ کے ساتھ رجوع فرماتے ہیں، اس لیے اس کا نام ’’عید‘‘ پڑا۔اسی طرح یہ بھی کہا گیا ہے کہ رمضان میں جو مسلمانوں کو کھانے پینے سے روکا گیا تھا تو اب عید کے دن سے کھانے پینے کا پچھلا معمول لوٹ آتا ہے اس لیے اس کو عید کہتے ہیں۔
عید کے کچھ احکام:
۱۔ عید کے دن عید مبارک کہنا جائز ہے۔
۲۔ عید کی نماز کے بعد عید کا ایک عمل سمجھ کر گلے ملنا یا مصافحہ کرنا ناجائز اور بدعت ہے۔ اگر نماز عید کے لیے اکٹھے عید گاہ گئے ہوں یا پہلے مل چکے ہوں تو نماز کے بعد پھر گلے ملنا بذات خود ایک بے موقع عمل ہے۔ حالانکہ دین میں مصافحہ اور معانقہ کا موقع متعین ہے کسی سے کچھ وقفہ بعد ملیں تو اس سے مصافحہ کرنا منسون ہے اور جس سے طویل وقفہ بعد ملیں تو اس سے معانقہ کیا جا سکتا ہے۔
۳۔ عید کی نماز کے اجتماع میں دعا کرنا جائز ہے۔ یہ دعا نماز کے متصل بعد یعنی خطبہ سے پہلے ہو یا خطبہ کے بعد ہو دونوں طرح جائز لیکن ان میں صرف ایک موقع پر کی جائے۔
۴۔ عید کا خطبہ اگرچہ سنت ہے لیکن اس خطبے کے وقت کلام وغیرہ سب حرام ہے اور خاموش رہنا واجب ہے لہٰذا جو لوگ شور و غل مچاتے ہیں وہ گناہگار ہوتے ہیں اسی طرح جو لوگ خطبہ چھوڑ کر چل دیتے ہیں وہ بھی غلط کرتے ہیں۔
عید کے دن سنت امور
(۱) شرع کے موافق اپنی آرائش کرنا۔ (۲) غسل کرنا۔ (۳) مسواک کرنا۔ (۴) حسب طاقت عمدہ کپڑے پہننا۔ (۵) خوشبو لگانا (۶)صبح کو بہت جلد اٹھنا۔ (۷) عید گاہ بہت جلد جانا۔ (۸) عیدالفطر میں صبح صادق کے بعد عید گاہ میں جانے سے پہلے کوئی میٹھی چیز کھانا اور عید الاضحی میں نماز کے بعد اپنی قربانی کے گوشت سے کچھ کھانا مستحب ہے۔ (۹) عید الفطر میں عید گاہ جانے سے پہلے صدقہ فطر ادا کرنا۔ (۱۰) عید کی نماز عید گاہ میں پڑھنا۔ (۱۱) ایک راستے سے عید گاہ جانا اور دوسرے راستے سے واپس آنا۔ (۱۲) عید گاہ جاتے ہوئے راستے میںتکبیرات ”اللہ اکبر، اللہ اکبر لا الہ الا اللہ واللہ اکبر اللہ اکبر وللہ الحمد‘‘ پڑھنا۔ مگر عید الفطر میں آہستہ آواز سے اور عیدالاضحی میں بلند آواز سے کہنا۔ (۱۳) سواری کے بغیر پیدل عید گاہ جانا۔
چاند رات اور عید کے دن کے فضائل اور ہماری کوتاہیاں
اس دن میں یہ عمدہ لباس اور ظاہری زیبائش و آرائش کا مقصد بھی اپنے دوسرے مسلمان بھائیوں کے ساتھ عید گاہ میں پہنچ کر شکرانے کے طور پر عبادت کا ادا کرنا ہی ہوتا ہے۔ مگر افسوس کہ مسلمان اپنی مسرت و خوشی کے اظہار میں بے لگام اور سرکش ہو کر نفسانی خواہشات کے پیچھے لگ گئے اور دوسری قوموں کی طرح خوشی میں عیش و نشاط کی محفلیں آراستہ کرنے اور لذت و سرور میں بد مست ہو کر خدا فراموشی کرنے لگے اور عید کو ایک قومی تہوار، محض کھیل تماشے اور فلم بینی کا دن سمجھ لیا اور اب تو یہ ہونے لگا کہ عید کا چاند نظر آتے ہی فضا تبدیل ہو جاتی ہے اور لوگ بازاروں کا رخ کرتے ہیں اور آئندہ دن کے تفریحی منصوبے ترتیب دیتے ہیں اور اپنی نیکیاں و ثواب سب برباد کربیٹھتے ہیں۔ اس لیے خاص عید الفطر کی رات اور اس کے دن سے متعلق چند فضائل کا ذکر کیا جاتا ہے۔
 حضرت ابو امامہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ انے فرمایا:’’جس نے عیدین (عید الفطر ، عیدالاضحی)کی دونوں راتوں میں خالص اجر و ثواب کی امید سے عبادت کی، اس کا دل قیامت کے اس (ہولناک) دن میں نہیں مرے گا جس دن لوگوں کے دل خوف و دہشت سے مردہ ہو جائیں گے۔ (ابن ماجہ)
حضرت اقدس شیخ الحدیث مولانا زکریاؒ نے اپنے رسالہ فضائل رمضان میں ’’الترغیب ‘‘ کے حوالہ سے حضرت ابن عباسؓ سے ایک طویل حدیث نقل کی ہے، جس میں رمضان کے خاص انوار و برکات اور شب قدر کا حال بیان کیا گیا ہے اور پھر عید کی رات اور دن کا ذکر ان الفاظ میں موجود ہے۔
’’پھر جب عید الفطر کی رات ہوتی ہے تو اس کا نام آسمانوں پر ’’لیلۃ الجائزہ‘‘ (انعام کی رات) سے لیا جاتا ہے اور جب عید کی صبح ہوتی ہے تو حق تعالیٰ شانہ فرشتوں کو تمام شہروں میں بھیجتے ہیں۔ وہ زمین پر اتر کر تمام گلیوں ، راستوں کے موڑوں پر کھڑے ہو جاتے ہیں اور ایسی آوازسے جس کو انسان کے سوا سب مخلوق سنتی ہے پکارتے ہیں کہ اے محمد اکی امت! اس کریم رب کی (بارگاہ) کی طرف چلو، جو بہت زیادہ عطا فرمانے والا ہے اور بڑے بڑے قصور معاف فرمانے والا ہے۔ پھر جب لوگ عید گاہ کی طرف نکلتے ہیں تو حق تعالیٰ شانہ فرشتوں سے دریافت فرماتے ہیں کیا بدلہ ہے اس مزدور کا جو اپنا کام پورا کر چکا ہو؟ وہ عرض کرتے ہیں کہ ہمارے معبود ہمارے مالک ! اس کا بدلہ یہی ہے کہ اس کی مزدوری پوری پوری دے دی جائے۔ تو حق تعالیٰ شانہ ارشاد فرماتے ہیں کہ اے فرشتو! میں تمہیں گواہ بناتا ہوں میں نے ان کو رمضان کے روزوں اور تراویح کے بدلے اپنی مغفرت عطا کر دی اور بندوں سے خطاب فرما کر ارشاد فرماتے ہیں کہ میرے بندو! مجھ سے مانگو، میری عزت کی قسم ! میرے جلال کی قسم! آج کے دن اپنے اس اجتماع میں مجھ سے اپنی آخرت کے بارے میں جو سوال کرو گے عطا کروں گا اور دنیا کے بارے میں جو سوال کرو گے اس میں تمہاری مصلحت پر نظر کروں گا۔ میری عزت کی قسم! جب تک کہ تم میرا خیال رکھو گے میں تمہاری لغزشوں پر ستاری کرتا رہوں گا (یعنی ان کو چھپاتا رہوں گا)۔ میری عزت کی قسم ! میرے جلال کی قسم ! میں تمہیں مجرموں (کافروں) کے سامنے ذلیل و رسوا نہ کروں گا۔ بس اب بخشے بخشائے اپنے گھروں کو لوٹ جائو۔ تم نے مجھے راضی کر دیا اور میں راضی ہو گیا۔ فرشتے اس اجر و ثواب کو دیکھ کر جو اس امت کو عید کے دن ملتا ہے خوشیاں مناتے ہیں اور کھل جاتے ہیں۔
 اس لیے ہمیں اس رات اور دن کو لغویات اور حماقتوں میں، خدا کی نافرمانی اور بے حیائی میں گزار کر اس معمار کی طرح نہیں بننا چاہیے کہ جو سالہاسال کی محنت سے ایک بہت عمدہ اور بہترین عمارت قائم کرے اور جب اس کی اجرت و قیمت ملنے کا وقت آئے تو اپنے ہاتھوں سے اسے گرا دے اور تباہ و برباد کر دے اور نعرہ لگائے کہ مجھے اس اجرت سے کوئی غرض نہیں۔
عید کے دن کے مختصر مسنون و مستحب اعمال
عید کا دن چونکہ عبادت اور خوشی کے مجموعے کا دن ہے، اس لیے شریعت کی طرف سے اس دن ایسے کام عبادت قرار دیے گئے ہیں جو ان دونوں عناصر کو شامل ہوں، یعنی ان میں عبادت کا پہلو بھی ہو، اور خوشی و مسرت کا پہلو بھی ۔ چنانچہ احادیث و روایات سے چند اعمال کا سنت و مستحب ہونا معلوم ہوتا ہے، جن کا خلاصہ یہ ہے:
-1 عید کی رات میں حسبِ توفیق نفلی عبادت و ذکر کرنا، اور بطور خاص گناہوں سے بچنا۔
-2 عید کے دن صبح سویرے اٹھنا، فجر کی نماز ادا کرنا،
-3 شریعت کے موافق طہارت و نظافت اور صفائی ستھرائی اور زیب و زینت اختیار کرنا۔
-4 خوب اہتمام کے ساتھ میل کچیل دور کر کے غسل کرنا۔
-5 خاص اہتمام کے ساتھ مرد و عورت سب کو مسواک کرنا۔
-6 زائد بال اور ہاتھ پائوں کی انگلیوں کے ناخن وغیرہ کاٹنا۔
-7 پاک و صاف عمدہ لباس جو میسر ہو پہننا۔
-8 خوشبو لگانا (مگر خواتین تیز خوشبو لگانے سے پرہیز کریں)
-9 صدقۂ فطر ادا نہ کیا ہوتو عید کی نماز سے پہلے پہلے ادا کر دینا۔
-10 عید کی نماز کے لیے جلدی پہنچنا۔
-11 کوئی عذر نہ ہو تو عید کی نماز اداکرنے کے لیے پیدل جانا۔
-12 کوئی عذر نہ ہو تو عید کی نمازعید گاہ میں ادا کرنا۔
-13 عید کی نماز کے لیے جاتے ہوئے راستے میں تکبیر کہنا، اور تکبیر ان الفاظ میں کہنا بہتر ہے:
’’ اَللہ اَکْبَرْ اَللہ اَکْبَرْ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ وَ اللہ اَکْبَرْ اَللہ اَکْبَرْ وَلِلَّہِ الْحَمْدُ‘‘۔
-14 عید الفطر کی نماز کے لیے جانے سے پہلے کچھ کھا لینا۔
-15 جس راستہ سے عید کی نمازکے لیے جائیں اس کے علاوہ سے واپس آنا۔
-16 اپنی وسعت و حیثیت کے مطابق صحیح مستحقین و مساکین کو صدقہ کرنا۔
-17 حسبِ حیثیت اپنے اہل و عیال اور گھر والوں کی ضروریات (لباس، اور کھانے پینے وغیرہ) میں وسعت و فراخی کرنا۔
-18 گھر والوں، عزیزوں اور دوستوں کے ساتھ خوش اخلاقی سے پیش آنا۔
lll
نیوز لیٹر سبسکرپشن
سبسکرپشن کے بعد آپ ادارہ کے بارے میں تازہ ترین اپ ڈیٹ حاصل کر سکتے ہیں