English

مضامین 

  مفتی محمد فیصل حمید
شعبہ تصنیف و تالیف ، جامعہ دارالتقوی  لاہور


ایمان کے دوحصے
حضور نبی کریم ا کا ارشاد ہے کہ ایمان کے دوحصے ہیں: آدھا ایمان صبر میں ہے اور آدھا شکر میں۔
درحقیقت  انسان کی زندگی خوشی غمی، وسعت و تنگ دستی ، راحت و آرام اور مصائب و آلام ان سب حالات کا مجموعہ ہے، اسے اپنی زندگی میں ہر وقت صبر یا شکر میں سے کسی ایک صفت کو خاص طور پر اپنانے کی ضرورت رہتی ہے،مسلمان کی عجیب شان ہے کہ مصائب و مشکلات میں صبر سے کام لے کر ایک طرف تو وہ اپنے غموں کا مداوا کرتا ہے اور دوسری طرف اسے اللہ کا قرب حاصل ہوتا ہے، اور جب اللہ تعالیٰ اسے کوئی خوشی دے تو اس نعمت پر شکر کرکے عظیم الشان اجر و ثواب کا مستحق ہوجاتا ہے، حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
عَجَبًا لِاَمْرِ الْمُوْمِنِ اِنَّ اَمْرَہٗ کُلَّہٗ لَہٗ خَیْرٌ، وَلَیْسَ ذٰلِکَ لِاَحَدٍ اِلَّا لِلْمُوْمِنِ اِنْ اَصَابَتْہُ سَرَّائُ شَکَرَ فَکَانَ خَیْرًا لَّہٗ، وَاِنْ اَصَابَتْہُ ضَرَّائُ صَبَرَ فَکَاْنَ خَیْرًا لَّہٗ ۔‘‘
ترجمہ: مومن بندے کا معاملہ بھی عجیب ہے ، ہر معاملے میں اس کے لیے بہتری ہے، مومن کے علاوہ اور کسی کو یہ بات حاصل نہیں ، اگر اسے کوئی خوشی ملے تو اس پر شکر ادا کرتا ہے اور یہ اس کے حق میں بہتر ہوتا ہے اور اگر اسے کوئی دکھ اور رنج پہنچتا ہے تو وہ اس پر صبر کرتا ہے اور یہ صبر بھی اس کے لیے سراسر خیر اور موجب ِبرکت ہوتا ہے۔(صحیح مسلم)
صبر کیا ہے؟
عربی زبان میں صبر کا لفظی معنی ہے، رک جانا، باز رہنا،برداشت کرنا اور ثابت قدم رہنا۔ اور شریعت کی اصطلاح میں مصائب و مشکلات کو برداشت کرنے، اللہ تعالیٰ کی نافرمانیوں سے باز رہنے اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت و فرمانبرادری پر ثابت قدم رہنے کو صبر کہا جاتا ہے۔
مصیبت پر صبر کرنا
 مصائب و مشکلات اور بیماری و تنگ دستی انسان کی دنیاوی زندگی کا حصہ ہیں اور ہر انسان کو زندگی میں کچھ ناگواریوں اور مشکلات کا سامنا ضرور کرنا پڑتا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
{ولنبلونکم بشیء من الخوف والجوع ونقص من الاموال والانفس والثمرٰت ط  وبشر الصابرین o الذین اذا اصابتہم مصیبۃ قالوا انا للہ وانا الیہ رٰجعون}
 ترجمہ:’’اور دیکھو ہم تمھیں آزمائیں گے ضرور (کبھی) خوف سے اور (کبھی) بھوک سے اور (کبھی) مال و جان اور پھلوں میں کمی کر کے۔ اور جو لوگ ایسے حالات میں صبر سے کام لیں ان کو خوش خبری سنا دو۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ جب انھیں کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو یہ کہتے ہیں کہ :’’ہم سب اللہ ہی کے ہیں اور ہم کو اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔‘‘
 ایک بزرگ فرماتے ہیں جیسے کوئی مشفق باپ اپنا کاروبار اپنے بیٹے کے حوالے کرے اور اسے زندگی بھر کے تجربات سے آگاہ کرتے ہوئے کاروبار کے نشیب و فراز کے بارے میں بتائے کہ آئندہ اسے کیا کیا مشکلات پیش آسکتی ہیں اور ساتھ ہی ہر مشکل سے نکلنے کا حل بھی بتا دے، ایسے ہی اللہ رب العزت جو کے تمام مہربانوں میں سب سے زیادہ مہربان ہیں انسان کو پہلے ہی سے آنے والے حالات سے آگاہ فرمارہے ہیں کہ دیکھو یہ حالات تم پر آئیں گے اور ضرور آئیں گے،ان تمام مشکلات سے نمٹنے کا طریقہ یہ ہے کہ صبر کا دامن تھام لینا۔‘‘
مصیبت پر صبر کرنے کا طریقہ
بیماری، تنگ دستی، مصیبت یا کسی حادثے پر طبعی طور پر ناگواری ہونا ایک فطری امر ہے، اپنے کسی عزیز کے انتقال پر آنکھوں سے آنسو  جاری ہوجانا اور بیماری میں آہ نکل آنا ایک ایسا امر ہے کہ جس پر قابو پانا انسان کے اختیار میںنہیں، اسی وجہ سے شریعت ِمطہرہ نے اس سے منع بھی نہیں کیا، ہاں ایسے وقت میں چیخ و پکار نہ کرے اور نہ شکوہ یا شکایت کا کوئی کلمہ زبان سے نکالے،حدیث پاک میں ہے کہ جب حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحب زادے حضرت ابراہیم کا انتقال ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے، لیکن زبان مبارک پر یہ الفاظ تھے:
’’ان العین تدمع والقلب یحزن ولا نقول الا ما یرضی ربنا وانا بفراقک یا ابراہیم  لمحزونون۔‘‘
ترجمہ:’’بے شک آنکھ تو روتی ہے اور دل غم زدہ ہے لیکن ہم وہی کہتے ہیں جس سے اللہ راضی ہو، اے ابراہیم! ہم تمھاری جدائی میں غم زدہ ہیں۔‘‘
اور چونکہ ہر مصیبت اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے آتی ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
{ما اصاب من مصیبۃ الا باذن اللہ}
ترجمہ:’’مصیبت جو بھی آتی ہے وہ اللہ کے حکم سے آتی ہے۔‘‘ 
اس لیے مصائب پر صبر کرنے کا سب سے مؤثر نسخہ یہ ہے کہ اطاعت و فرمانبرداری کر کے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت کو موجزن کر لیا جائے، پھر ہر مصیبت ہلکی لگنے لگے گی، کیونکہ دنیا کا قاعدہ ہے کہ محبوب کی طرف سے آنے والی ہر چیز محبوب ہوتی ہے، چاہے وہ طبیعت پر گراں ہی کیوں نہ ہو،بقول کسے :
ارید   وصالہ   ویرد    ہجری
فأترک   ما   ارید   لما   یرید 
(میں اس کا وصال چاہتا ہوں اور وہ مجھ سے فراق چاہتا ہے، سو میں اپنی چاہت چھوڑتا ہوں تاکہ اس کی چاہت بر آئے)
لہٰذا یہ سوچ کر  مصیبت پر راضی رہنا اور صبر سے کام لینا چاہیے  کہ یہ میرے اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئی ہے جو کہ میرا محبوب ہے اور اِس وقت وہ مجھے اِسی حال میں دیکھنا چاہتا ہے، لیکن ساتھ ہی اس بیماری یا مصیبت کے ازالے کی تدبیر اور کوشش بھی جاری رکھنی چاہیے، اس لیے کہ یہ بھی اُسی محبوب کا حکم ہے۔
مصیبت اور پریشانی کی مثال
انسان پر آنے والی مشکلات اللہ تعالیٰ کی محبت کا مظہر ہیں ،اللہ تعالیٰ جس شخص سے جتنی محبت رکھتے ہیں اس کو اتنا آزمائشوں میں ڈالتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ آزمائشیں انبیائے کرام علیہم السلام پر آتی رہی ہیں،علامہ اقبال کہتے ہیں:
شہْپر  زاغ  و  زغن  در  بند ِ  قید  و  صید  نیست
ایں  سعادت  قسمتِ شہباز  و  شاہیں  کردہ  اند
(کوّے اور چیل کو کوئی قید یا شکار نہیں کرتا، قدرت نے یہ سعادت شہباز و شاہین ہی کی قسمت میںرکھی ہے)
ایسے ہی مصائب و مشکلات بھی اللہ کے محبوب بندوں پر آتی ہیں، ایک اللہ والے فرماتے ہیں: اس کی ایسی مثال ہے جیسے : رات گئے ماں کو اپنے سوتے ہوئے بچے پر پیار آئے اور وہ اسے جگا کر کر پیار کرنے لگے تو بچہ کچی نیند اٹھنے کی وجہ سے روتا ہے، لیکن روکر آتا ماں ہی گود میں ہے اور ماں کو اس وقت یہ روتا ہوا ہی اچھا لگتاہے، ایسے ہی مصائب و مشکلات بھیج کر اللہ تعالیٰ بھی اپنے بندے کو اپنے در پر ماتھا ٹیک کر روتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں۔
 عارفین صوفیاء فرماتے ہیں : تین دن کی بیماری سے انسان اللہ تعالیٰ کے جتنا قریب ہوتا ہے اور اس کے درجات جس قدر بلند ہوتے ہیں تین سال کی ریاضت و وظائف سے اتنے درجات بلند نہیں ہوتے، لہٰذا کسی کو نوازنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس پر مشکل حالات بھیج دیتے ہیں، کسی نے خوب کہا ہے:
   اُن  کے  انداز ِ کرم   خاص   ہوا  کرتے   ہیں
دل   بڑھانا   ہو  تو  دل  توڑ  دیا  کرتے  ہیں
اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے
اللہ تعالیٰ کاارشار ہے:
{یایہا الذین آمنوا استعینوا بالصبر والصٰلوۃ ط  ان اللہ مع الصبرین}
ترجمہ:’’اے ایمان والو! صبر اور نماز کے ذریعے (اللہ کی) مدد حاصل کرو، بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔‘‘
اس سے بڑی اور کیا بات ہوسکتی ہے کہ آدمی کو اللہ تعالیٰ کا ساتھ نصیب ہوجائے اور چند ہی لوگ ایسے خوش نصیب ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ :’’میں ان کے ساتھ ہوں‘‘صبر کرنے والے بھی ان ہی لوگوں میں سے ہیں۔ 
شکر 
انعاماتِ خداوندی
مال و دولت، حکومت و سلطنت ، کوٹھی و بنگلہ ، بڑی بڑی جائیدادیں اور زمینیں اللہ تعالیٰ کی وہ نعمتیں ہیں جو دنیا میں ہر کسی کو حاصل نہیں، لیکن  ان کے علاوہ اوربہت ساری نعمتیں ایسی ہیں جو تمام انسانوں کے لیے عام ہیں۔چنانچہ صحت و عافیت، امن و سلامتی، ہوا اور پانی، سورج کی دھوپ، چاند کی روشنی اور اعضا و جوارح کا صحیح سالم ہونا اللہ تعالیٰ کی وہ نعمتیں ہیں کہ ہر کس و نا کس کو حاصل ہیں، کہتے ہیں کہ ایک روٹی پک کر اس وقت تک سامنے نہیں آتی جب تک اس میں تین سو ساٹھ کام کرنے والوں کا عمل نہیں ہوتا۔ سب سے اول حضرت میکائیل علیہ السلام ہیں جو اللہ تعالیٰ کی رحمت کے خزانہ سے ناپ کر چیزیں نکالتے ہیں۔ پھر وہ فرشتے جو بارش پر مامور ہیں بادلوں کو چلاتے ہیں، پھر چاند، سورج، آسمان پھر وہ فرشتے جو ہوائوں پر مامور ہیں پھر کاشتکار، بیج ڈالنے اور ہل جوتنے والے ، یوں اللہ تعالیٰ کے فرشتوں کو حکم دینے سے لے کر لقمہ تیار ہونے تک اس میں عمل کرنے والوں کی ایک طویل فہرست ہے جنھیں اللہ تعالیٰ نے انسان کی خوراک مہیا کرنے پر معمور کر رکھا ہے،ایک جگہ اللہ تعالیٰ نے خود انسان کے رزق کی تیاری کے مراحل کو ذکر فرمایا ہے، چنانچہ ارشاد ہے:
{فَلْیَنْظُرِ الْاِنْسَانُ اِلٰی طَعَامِہٖٓo اَنَّا صَبَبْنَا الْمَآئَ صَبًّاo ثُمَّ شَقَقْنَاالْاَرْضَ شَقًّاo فَاَنْبَتْنَا فِیْھَا حَبًّاo وَّعِنَبًا وَقَضْبًاo وَّزَیْتُوْنًا وَّنَخْلًاo وَّحَدَآئِقَ غُلْبًاo وَفَاکِھَۃً وَّاَبَّاo مَتَاعًالَکُمْ وَلِاَنْعَامِکُمْo}
ترجمہ: ’’پس ذرا انسان اپنے کھانے ہی کو دیکھ لے کہ ہم نے اوپر سے خوب پانی برسایا، پھر ہم نے زمین کو عجیب طرح پھاڑا،پھر ہم نے اس میں غلے لگائے، انگور اور ترکاریاں اورزیتون اور کھجور، اور گھنے گھنے باغات،اور میوے اور چارہ، سب کچھ تمھارے اور تمھارے مویشیوں کے لیے۔‘‘
اس کے علاوہ قرآن پاک میں سینکڑوں مقامات پر اللہ تعالیٰ نے اپنی نعمتوں کا ذکر فرمایا ہے، جس کا مقصد یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کو پہچانے اور ہر نعمت کو اللہ تعالیٰ ہی کا احسان سمجھ کر اس کا شکر ادا کرے۔لیکن اللہ انسانوں کی شکایت کرتے ہیں کہ : {وقلیل من عبادی الشکور} (میرے بندوں میں شکر گذار تو تھوڑے ہی ہیں)
شکر کیسے پیدا ہو؟
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے:
اِذَانَظَرَ اَحَدُکُمْ اِلٰی مَنْ فُضِّلَ عَلَیْہِ فِیْ الْمَالِ وَالْخَلْقِ فَلْیَنْظُرْ اِلٰی مَنْ ھُوَ اَسْفَلُ مِنْہُo (مشکوۃ المصایح)
جب آدمی کسی ایسے شخص کی طرف دیکھے جو مال یا صورت میں اپنے سے اعلیٰ ہو تو ایسے شخص کی طرف بھی غور کرلے جو ان چیزوں میں اپنے سے کم ہو۔
عون بن عبداللہ رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ میں اکثر مالداروں کے پاس بیٹھا کرتا تھا تو میری طبیعت غمگین رہتی تھی کسی کا گھوڑا اپنے سے اعلیٰ دیکھتا ، کسی کے کپڑے اپنے سے بہتر دیکھتا تو اپنے کپڑوں کے ادنیٰ ہونے پر اپنی ذلت محسوس کرتا جس سے رنج ہوتا تھا پھر میں نے فقراء کے پاس بیٹھناشروع کردیا تو مجھے اس رنج سے راحت مل گئی کہ ان لوگوں سے اپنی چیزوں کو افضل دیکھتا ہوں(احیاء العلوم)
حضور پاک ا کا ارشاد ہے :’’جس آدمی میں دو خصلتیں ہوں اللہ تعالیٰ اسے شاکرین و صابرین(شکرگذار اور صبر کرنے والوں) میں لکھے گا، جو شخص دینداری میں اپنے سے اوپر والوں کو دیکھ کر ان کی پیروی کرے اور دنیا داری میں اپنے سے نیچے والوں کو دیکھ (اپنی حالت پر) اللہ کی حمد و ثنا کرے(یعنی الحمد للہ کہے اور شکر ادا کرے) تو اللہ تعالیٰ اس کو شکر گذار اور صبر کرنے والوں میں لکھ دیتا ہے۔
شکر کی اہمیت
جو شخص اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر شکر ادا کرتا ہے وہ اجر و ثواب میں آزمائشوں پر صبر کرنے والوں کے درجات پالیتا ہے، جیسا کہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
’’الطاعم  الشاکر کالصائم الصابر‘‘
’’کھا کر شکر اداکرنے والا (اجر و ثواب میں) روزہ رکھ کر صبر کرنے والے کی طرح ہے۔‘‘
نیز اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ شکر کرنے والے کی نعمت میں اور اضافہ فرماتے ہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’لئن شکرتم لازیدنکم‘‘
ترجمہ: ’’اگر تم شکر ادا کرو گے تو میں تمھیں اور زیادہ دوں گا۔‘‘
شکر ادا کرنے کی تاکید سے بھی انسان ہی کا فائدہ ہے، اللہ تعالیٰ کو ہمارے شکر کی نہ ضرورت ہے نہ وہ اس کے محتاج ہیں، جیسا کہ قرآن نے حضرت سلیمان علیہ السلام کا قول نقل کیا ہے کہ:
{ومن شکر فانما یشکر لنفسہ ومن کفر فانی ربی غنی کریم}
ترجمہ:’’اور جو کوئی شکر کرتا ہے تو اپنے ہی فائدے کے لیے شکر کرتا ہے، اور اگر کوئی ناشکری کرے تو میرا پروردگار بے نیاز ہے ، کریم ہے۔
شکر کیسے کیا جائے
جس طرح یہ بات ضروری ہے کہ تمام نعمتوں کو اللہ تعالیٰ ہی کی عطا سمجھ کر ان پر زبان سے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے، ایسے ہی اپنے عمل سے بھی شکر ادا کرنا ضروری ہے، علمائے کرام نے لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا عملی شکر۔ یہ ہے کہ جو نعمت اللہ تعالیٰ نے جس مقصد کے لیے دی ہے اسے اسی مقصد میں استعمال کرے، مثلاً:زبان اللہ کی نعمت ہے، جس کا مقصد یہ ہے کہ اس سے خیر کی بات کہی جائے،مثلاً: اللہ تعالیٰ کا ذکر، قرآن پاک کی تلاوت، اچھی باتوں کا حکم اور بری باتوں سے منع کرنا وغیرہ لہٰذا زبان کا شکر۔ یہ ہے کہ اسے اللہ تعالیٰ کی رضامندی کے مواقع پر ہی استعمال کیا جائے، ایسے ہی آنکھ، کان، ہاتھ پاؤں، مال و دولت وغیرہ سب چیزیں ہیں، امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
 ’’شکر کی حقیقت یہ ہے کہ اس کا اعتراف کرے کہ یہ نعمت فلاں منعم نے دی ہے اور پھر اس کو اس کی اطاعت اور مرضی کے مطابق استعمال کرے۔ اور کسی کی دی ہوئی نعمت کو اس کی مرضی کے خلاف استعمال کرنا ناشکری ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ شکر جس طرح زبان سے ادا ہوتا ہے اس طرح عمل سے بھی شکر ادا ہوتا ہے، اور عملی شکر اس نعمت کا اس کے دینے والے کی اطاعت و مرضی کے مطابق استعمال ہے‘‘۔ (معارف القرآن)
اور اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد علیہ السلام کے خاندان والوں کو شکر ادا کرنے کا طریقہ خود بتلایا کہ:
{اِعْمَلُوٓا اٰلَ دَاوٗدَ شُکْرًا}
’’ترجمہ۔اے دائود علیہ السلام کے خاندان والو! تم شکریہ میں نیک کام کیا کرو۔‘‘
علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:آل دائود علیہ السلام دونوں طرح کا شکر ادا کرتے تھے، قولاً بھی اور فعلاً بھی۔ ثابت بنانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: کہ حضرت دائود علیہ السلام نے اپنے اہل و عیال اور    عو رتوں پر اس طرح اوقات کی پابندی کے ساتھ نفل نماز تقسیم کی تھی کہ ہر وقت کوئی نہ کوئی نماز میں مشغول نظر آتا تھا۔(تفسیر ابن کثیر)
حضرت ابوعبدالرحمن اسلمی رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ نماز شکر ہے، روزہ شکر ہے اور ہر نیک کام شکر ہے۔ اور محمد بن قرظی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ شکر: تقوی اور عملِ صالح کا نام ہے۔( تفسیرابن کثیر)
نعمتوں پر شکر کے لیے دعا
نعمتوں پر شکر کے لیے یہ دعا پڑھیے:
اَللّٰھُمَّ لَکَ الْحَمْدُ کُلُّہٗ وَ لَکَ الشُّکْرُ کُلُّہٗ وَ لَکَ الْمُلْکُ کُلُّہٗ وَ لَکَ الْخَلْقُ کُلُّہٗ بِیَدِکَ الْخَیْرُ کُلُّہٗ وَاِلَیْکَ یُرْجَعُ الاَمْرُ کُلُّہٗ اَسْألُکَ الْخَیْرَ کُلَّہٗ وَاَعُوْذُبِکَ مِن الشَّرِّکلہٖo
ترجمہ:۔ اے اللہ! سب تعریفیں تیری ہی ہیں اور سارا شکر بھی تیرے لیے ہے اور ساری بادشاہت تیری ہے اور تمام مخلوق تیری ہے۔ ساری بھلائیاں تیرے ہی قبضہ میں ہیں اور ہر معاملہ آخر کار تیرے ہی سامنے آتا ہے۔ لہٰذا میں ہر بھلائی تجھ سے مانگتا ہوںاور ہر شر سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا پاک ارشاد ہے: جو شخص صبح کو یہ پڑھ لے :
اَللَّھُمَّ مَا اَصْبَحَ بِیْ مِنْ نِعْمَۃٍ اَوْ بِاَحَدٍ مِنْ خَلْقِکَ فَمِنْکَ وَحْدَکَ لَاْ شَرِیْکَ لَکَ فَلَکَ الْحَمْدُ وَلَکَ الشُّکَرْ۔
تو اس نے اس دن کے انعاماتِ خداوندی کا شکر ادا کر دیا۔ اور اگر شام کو کہہ لے تو اس رات کے انعاماتِ خداوندی کا شکر ادا کر دیا۔ (سنن ابی داود)
 فائدہ: اگر شام کو پڑھے تو ’’مَااَصْبَحَ بِیْ‘‘ کی جگہ ’’مَااَمْسَیٰ بِیْ‘‘  پڑھے۔
lll
نیوز لیٹر سبسکرپشن
سبسکرپشن کے بعد آپ ادارہ کے بارے میں تازہ ترین اپ ڈیٹ حاصل کر سکتے ہیں