English

مضامین 

محمد فیصل حمید
شعبہ تصنیف، جامعہ دارالتقوی، لاہور




کچھ عرصے سے ملک میں بیماری کی فضا عام ہے، ہر گھر میں کئی کئی افراد بیمار ہیں یا بیمار رہنے کے بعد اب صحت یاب ہورہے ہیں،عمومی طور پر شدید بخار، جسم میں درد، گلہ خراب ، کھانسی ، نزلہ اور سانس کی تکالیف کی شکایات سامنے آرہی ہیں،کچھ لوگ ان کے علاوہ دیگر بیماریوں کا شکار ہوئے ہیں ، بوڑھے اور عمر رسیدہ حضرات خاص طور پر کسی نہ کسی بیماری کا شکار نظر آتے ہیں، تاہم ایک بات ان سب میں مشترک یہ دیکھنے میں آرہی ہے کہ جو شخص جس بھی بیماری میں مبتلا ہوتا ہے وہ اس بیماری کی تکلیف بہت شدید محسوس کرتا ہے۔
 حکومت ، نجی ٹی وی چینلز اور میڈیا پر اس صورتِ حال کو ’’کورونا وائرس‘‘ کا نام دیا جارہا ہے، اور واقعہ بھی یہ ہے کہ’’ کورونا وائرس ‘‘کی وبا نے دنیا بھر میں تباہی مچا رکھی ہے، لیکن گذشتہ چند ماہ میں ’’کورونا وائرس ‘‘ کے حوالے سے میڈیا اور سوشل میڈیا پراس قدر متضاد خبریں دیکھنے اور سننے میں آئی ہیں کہ عوام کا اعتبار میڈیا سے اٹھ چکا ہے اور بعض اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگ چکا ہے۔
 دوسری طرف ’’کوروناوائرس‘‘ کے نام پر ہسپتالوں میں غلط رپورٹنگ کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے، دیگر بیماریوں میں مبتلا لوگوں کو بھی ’’کورونا‘‘کی فہرست میں ڈال دیا جاتا ہے، لوگ اپنے مریضوں کو ہسپتال لے جاتے ہوئے ڈرتے ہیںاور ضرورت کے موقع پر بھی ’’کورونا‘‘ ٹیسٹ کرواتے ہوئے ہچکچاتے ہیں، جو شخص ہسپتال میں فوت ہوجاتا ہے لواحقین کے لیے اس کی میت کا حصول ایک مستقل مسئلہ بن جاتا ہے، بعض اوقات ہسپتال کے عملے کی طرف سے بھاری نقدی کے مطالبات بھی سامنے آتے ہیں، نامعلوم اس کے پیچھے کونسے عناصر عمل پیرا ہیں اور ان کا کیا ایجنڈا ہے؟چونکہ اس قسم کی صورتِ حال کو حکومت کی کار کردگی اور گورننس کے ساتھ جوڑا جاتا ہے، اس لیے عوام میں موجودہ حکومت کے بارے میں بدگمانی پیدا ہوتی جارہی ہے،لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ ان عناصر پر کڑی نظر رکھے اور انھیں قرار واقعی سزا دے۔
یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ انسانوں پر آنے والی بیشتر مشکلات انسانوں کے اپنے ہی اعمال کا ثمرہ ہوتی ہیں، جیسا کہ اللہ جل شانہ کا ارشاد ہے:
{وما اصابکم من مصیبۃ فبما کسبت ایدیکم ویعفوا عن کثیر} (سورۂ شوری: ۳۰)
ترجمہ:’’اور تمھیں جو کوئی مصیبت پہنچتی ہے وہ تمھارے اپنے ہاتھوں کےکیے ہوئے کاموں کی وجہ سے پہنچتی ہے، اور بہت سے کاموں سے تو وہ درگذر ہی کردیتا ہے۔‘‘
اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے: 
’’پانچ چیزیں پانچ چیزوں کا بدل ہیں: (۱) جب کوئی قوم وعدہ خلافی کی روش اپنا لے تو ان پر ان کے دشمنوں کو مسلط کردیا جاتا ہے(۲)اور جب وہ اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ احکام کے خلاف فیصلے کرنے لگیں تو ان میں فقرو فاقہ اور تنگدستی عام ہوجاتی ہے(۳) جب ان میں بے حیائی اور فحاشی پھیل جائے تو اموات کی کثرت ہوجاتی ہے(اور ایک روایت میں ہے کہ جب بے حیائی عام ہوجائے تو ایسی بیماریاں پیدا ہوجاتی ہیں جن کا وجود بھی پہلے لوگوں میں نہ تھا) ۔ (۴)جب وہ ناپ تول میں کمی کرنے لگیں تو ان کی پیداوار روک لی جاتی ہے، اور انھیں قحط میں مبتلا کردیا جاتا ہے۔
(۵)جب وہ زکوٰۃ دینا چھوڑ دیں تو ان سے بارشیں روک لی جاتی ہیں۔ (معجم کبیر طبرانی، رقم الحدیث: ۱۰۹۹۲)
سوچنے کی بات یہ ہے کہ ان میں سے کونسی برائی ہے جو اس وقت ہمارے معاشرے میں نہیں پائی جاتی اوردشمنوں کے تسلط، افلاس و غربت، اموات کی کثرت ، نئے نئے امراض، قحط اور بے وقت بارشوں کا ہونا وغیرہ کونسی مصیبت ہے جس کا ہم اس وقت شکار نہیں ہیں۔
 اللہ رب العزت کا ضابطہ ہے کہ انسان جب راہِ ہدایت سے ہٹتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس پر مشکلات بھیج کر اسے رجوع الی اللہ اور توبہ و استغفار کی طرف متوجہ کرتے ہیں، چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
{ظہر الفساد فی البر والبحر بما کسبت ایدی الناس لیذیقھم بعض الذی عملوا لعلھم یرجعون}(سورۂ روم:ا۴)
ترجمہ:’’لوگوں نے اپنے ہاتھوں جو کمائی کی اس کی وجہ سے خشکی اور تری میں فساد پھیلا، تاکہ انھوں نے جو کام کیے ہیں،اللہ ان میں سے کچھ کا مزہ انھیں چکھائے، شاید وہ باز آجائیں۔‘‘ 
یعنی یہ حالات اور مشکلات اس وجہ سے آئے ہیں کہ ہم اپنی اصلاح کر لیں، بُرے اعمال سے توبہ کریں اور آئندہ آنے والی زندگی اسلامی تعلیمات کی روشنی میں گزاریں،نیز دین ِ اسلام کا یہ اعجاز ہے کہ اس نے کسی بھی حال میں مسلمان کو تنہا نہیں چھوڑا بلکہ ، خوشی غمی، صحت بیماری، جنگ و امن غرض زندگی کے ہر موڑ پر ہمیں اپنی روشن تعلیمات فراہم کی ہیں جو انسان کا ہاتھ پکڑ کر چلاتی ہیں اور مایوسی کے گڑھے میں گرنے سے بچاتی ہیں،حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے کہ :’’اللہ تعالیٰ نے کوئی بیماری نہیں اتاری مگر یہ کہ اس کی شفا (یعنی دوا ) بھی اتاری ہے۔‘‘(صحیح بخاری) ایک حدیث میں ہے کہ :’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’بلا شببہ ہر بیماری کی( کوئی نہ کوئی) دوا ضرور ہوتی ہے، سو جب کسی بیماری کی (اصل) دوا بیماری کو مل جاتی ہے(یعنی مریض کو دے دی جاتی ہے) تو وہ اللہ کے حکم سے صحت یاب ہوجاتا ہے۔(صحیح مسلم) نیز احادیث مبارکہ میں جابجا تلاوت قرآن اور شہد کے استعمال کو شفا بتایا گیا ہے۔
بیماری کے زمانے میں ایک نیکی جس کا موقع عام حالات میں کم میسر آتا ہے وہ ہے مریض کی بیمار پرسی ، عیادت، اس کے لیے صحت کی دعا کرنا اور اسے صحت یابی کی امید دلانا ۔
حضور سرورِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے کہ :
’’ جو شخص کسی مریض کی عیادت کے لیے جاتا ہے تو گویا وہ جنت کے باغات میں چلتا ہے، جب وہ مریض کے پاس بیٹھتا ہے تو اللہ کی رحمت میں ڈوب جاتا ہے اور جب وہاں سے لوٹتا ہے تو ستر ہزار فرشتے مقرر کردیے جاتے ہیں جو سارا دن اس کے لیے مغفرت کی دعا کرتے رہتے ہیں۔(مسند احمد)حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عادتِ شریفہ تھی کہ جب کسی کی بیمار پرسی کے لیے جاتے تو اسے یہ دعا دیتے’’لَابَأْسَ طَہُوْرٌ اِنْ شَاءَ اللّٰہُ ‘‘(یعنی پریشانی کی بات نہیں یہ بیماری انشاء اللہ گناہوں کو دھونے کا باعث بنے گی)۔(صحیح بخاری)اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ارشاد کا مفہوم ہے: جو شخص کسی بیمار کی عیادت کے لیے جائے پھر اس کے پاس سات مرتبہ یہ دعا پڑھے :
’’ اَسْأَلُ اللہ الْعَظِیْمَ  رَبَّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ اَنْ یَشْفِیَکَ‘‘
اگر اِس بیماری میں اُس کا مرنا مقدر نہ ہوچکا ہو تو اللہ تعالیٰ اس دعا کی برکت سے اسے شفا عطا فرمادیتے ہیں۔(سنن ابی داود)
میڈیا کے اس دور میں یہ روِش چل پڑی ہے کہ کسی بھی وبا، مصیبت اور پریشانی کو اتنا بڑھا چڑھا کر بیان کیا جاتا ہے کہ عام لوگوں میں مایوسی پیدا ہوجاتی ہے، جب کہ دیکھئے حضور سرور دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم اس بارے میں کیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’جب تم کسی بیمار کے پاس جاؤ تو اسے لمبی عمر اور صحت یابی کی امید دلاؤ، اس میں شک نہیں کہ تمھاری بات تقدیر میں لکھے کو نہیں ٹال سکتی، لیکن (اتنی بات ضرور ہے کہ) اس سے بیمار کو سکون ملتا ہے۔‘‘ (سنن الترمذی)
 لہٰذا مصیبت اور پریشانی کے اس وقت میں ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی اصلاح کی طرف توجہ دیں ،تاکہ یہ مصائب ہم سے دور ہوں، بیماری اور عمومی وبا کے زمانے میںدین ِاسلام کی درخشندہ تعلیمات پر عمل پیرا ہوکر ہم مصیبت کے اس وقت کو بھی عبادت بنا سکتے ہیں ، جس سے مایوسی کے بادل چَھٹیں گے اور امید، اطمینان اور سکون کی فضا قائم ہوگی ۔
نیوز لیٹر سبسکرپشن
سبسکرپشن کے بعد آپ ادارہ کے بارے میں تازہ ترین اپ ڈیٹ حاصل کر سکتے ہیں