English

مضامین 

عشرہ ذوالحجہ کی فضیلت

عبد الودود ربانی



         ذوالحجہ اسلامی سال کا بارہواں مہینہ ہے ،اس مہینے بالخصوص اس کے پہلے عشرے کو قرآن و حدیث میں بڑی فضیلت و اہمیت حاصل ہے۔ اس مہینے میں مسلمان اسلام کے ایک اہم فریضہ ’’ حج‘‘ کی آدائی کے لئے دنیا کے چپے چپے سے بیت اللہ شریف جمع ہوتے ہیں اور فریضہ حج ادا کرتے ہیں ۔یہ دنیا بھر کے مسلمانوں کے اتحاد اتفاق اور یکجہتی کا عالم گیر مظاہرہ ہوتا ہے ۔ اس مہینے کی دس تاریخ کو حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی طرف سے اللہ کی راہ میں دی جانے والی عظیم قربانی کی یاد منائی جاتی ہے اور اسی دن کو مسلمانوں کے لئے بڑی عید کا دن بھی قرار دیا گیا ہے۔چنانچہ اس دن کی اہمیت اور فضیلت بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتے ہیں۔
         وَالْفَجْرِ وَ لَیَالٍ عَشْرٍ   
         ’’ یعنی مجھے فجر اور دس راتوں کی قسم ہے۔ ‘‘
         امام ابن کثیر رحمہ اللہ بحوالہ بخاری فرماتے ہیںکہ اس سے مراد ذوالحجہ کے ابتدائی دس دن ہیں۔سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ان دس دنوں سے زیادہ محبوب اللہ تعالیٰ کو کوئی اور دن نہیں ہیں لہٰذا تم ان دنوں میں کثرت سے تسبیح و تحمید اور تہلیل کیا کرو۔ (بحوالہ طبرانی)۔اس عشرے کے مخصوص اعمال میں فرائض بھی ہیں، سنن اور مستحبات بھی ،جن میں سے بعض کی ابتداء پہلی تاریخ سے ہوتی ہے اور کچھ بعد کے دنوں میں بجا لائے جاتے ہیں۔ حضرت سعید بن جبیرؒ  فرماتے ہیں کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ان ایام عشرہ میں کثرت سے عبادت فرمایا کرتے تھے۔ (بحوالہ دارمی)۔ امام ابن حجر رحمہ اللہ کے مطابق اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ ان دنوں میں حج کا اجتماع منعقد ہوتا ہے اور حج اسلام کے بنیادی اراکین میں شامل ہے۔
         سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ان دس دنوں میں اللہ تعالیٰ کو عمل صالح بہت پسند ہے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا گیا کہ کیا جہاد فی سبیل اللہ سے بھی زیادہ یہ دن پسند ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ہاں!یہ دن جہاد فی سبیل اﷲ سے بھی بہتر ہیں سوائے اس شخص کے جو اپنے مال اور جان کو لے کر نکلے اور کسی چیز کو واپس لے کر نہ آئے (بحوالہ بخاری)۔
         حدیث شریف میں ان دس ایام میں سے ہر دن کے روزے کا ثواب سال بھر کے روزوں کے برابر اور ہر رات کو شب قدر کے برابر بتلایا گیا ہے۔کہاں اللہ کے نیک بندے ایک غیر متعین شب قدر کی تلاش میں رمضان کا پورا عشرہ راتوں کوجاگنے کا اہتمام کرتے ہیں اور کہاں اللہ کی جانب سے دس یقینی راتیں عطا کی جارہی ہیںایسے میں بھی کوئی محروم رہ جائے تو اس کی بد نصیبی پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔ اس لیے پہلی تاریخ سے ہی دن کے روزے اور راتو ں کی عبادت کا خاص اہتمام کرنا چاہئے۔ یہ تمام ایام اللہ تعالی کی جانب خاص توجہ کے ساتھ ذکر و عبادت میں گزارے جائیں۔نفل نمازوں ، استغفار ، درود شریف اور دیگر اذکار کا اہتمام ہو۔اگر قضاء نمازیں ذمہ میں ہوں تو انہیں ادا کیا جائے۔ 
         9ذوالحجہ کے اعمال
         نو ذوالحجہ کو ،جسے یوم عرفہ بھی کہا جاتا ہے ۔اس دن حج ادا ہوتا ہے اور حجاج کرام میدان عرفات میں وقوف کرتے ہیں۔یاد رہے کہ نو ذوالحجہ، مقامی تاریخ کے اعتبار سے معتبر ہو تاہے اور سعودیہ کی تاریخ کا اطلاق ہر جگہ نہیں ہو گا۔اس لیے ممکن ہے کہ جس روز عرب میں نو تاریخ ہو اور وہاں حاجی میدان عرفات میں حج ادا کر رہے ہوں ، پاکستان میں آٹھ تاریخ ہو۔ ایسے میں یہاں پر نویں تاریخ کے فضائل اسی دن حاصل ہوں گے جب یہاں کا چاند نویں کا ہو گا۔اس دن کی ایک خاص فضیلت یہ ہے کہ رسول اللہ ا نے فرمایا: ’’یوم عرفہ کے روزے کے بارے میں مجھے اللہ تعالی سے امید ہے کہ وہ اس کے بدلے میں ایک گذشتہ سال اور ایک آئندہ سال کے (صغیرہ)گناہ معاف فرما دیں گے‘‘(مسلم)۔اس لیے اگر کسی سے باقی ایام میں روزے کا اہتمام نہ بھی ہو سکے تو اس دن کا روزہ تو رکھ ہی لینا چاہئے۔
          ایام تشریق
          اسی روز یعنی ۹ ذی الحجہ فجر کے بعد سے تکبیرات تشریق کی ابتداء ہوتی ہے۔: ہر فرض نماز کے فوراً بعد ایک مرتبہ پڑھے۔
          اَللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ وَلِلّٰہِ الْحَمْد
          یہ تکبیرات مرد عورت، مقیم مسافر، امام اور مقتدی سب پر واجب ہیں۔ مرد  یہ تکبیریں بلند آواز سے جب کہ عورتیں آہستہ آواز سے کہیں گی۔یہ  تکبیر تین دفعہ کہنا بھی جائز ہے ۔یہ تکبیر عرفہ یعنی نویں تاریخ کی فجر سے تیرہویں تاریخ کی عصر تک کہی جاتی ہیں، یوںیہ کل 23 نمازیں ہوتی ہیں جن کے بعد تکبیر واجب ہے۔ اگر امام تکبیر کہنا بھول جائے تو مقتدیوں کو چاہیے کہ فوراً تکبیر کہہ دیں یہ انتظار نہ کریں کہ جب امام کہے تو وہ کہیں گے۔ عید الاضحی کی نماز کے بعد بھی تکبیر کہنا بعض کے نزدیک واجب ہے۔اسی طرح ایام تشریق میں فوت شدہ نماز جو اسی سال کے ایام تشریق میں قضا کی جائے اس کے بعد بھی تکبیر تشریق کہنا واجب ہے۔
         نویں اور دسویں کی درمیانی رات بھی بہت فضیلت والی ہے۔رسول اللہ ا نے فرمایا کہ’’ جس شخص نے دونوں عیدوں (یعنی عید الفطر اور عید الاضحی)کی راتوں کوثواب کا یقین رکھتے ہوئے  (نیک اعمال سے)زندہ رکھا تو اس کا دل اس د ن نہ مرے گا جس دن لوگوںکے دل مردہ ہو جائیں گے‘‘ (ابن ماجہ)۔ یعنی قیامت کے دن جب لوگ خوف و دہشت کی وجہ سے نشے کی کیفیت میں ہوں گے اللہ تعالی اسے ان تمام پریشانیوں سے بچالیںگے۔اس لیے اس رات کو غفلت اور گناہ کے کاموں میں گزار دینا خسارے کی بات ہے۔
          یومِ عرفہ کا روزہ رکھنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: میں اُمید کرتا ہوں کہ یومِ عرفہ کا روزہ ایک سال پہلے اور ایک سال بعد کے گناہوں کو مٹا دیتا ہے (صحیح مسلم)،  یوم عاشورہ، محرم اور ہر مہینے تین روزے رکھنا بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا معمول تھا۔ (بحوالہ ابوداؤد، مسنداحمد) 
          کثرت سے ذکر اذکار کا حکم
          عاشورہ ذوالحجہ میںکثرت سے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کرنا بھی معروف فعل ہے اور ان ایام کے لیے رسول اللہ ا نے خاص اذکار بھی بتلائے ہیں۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ا نے فرمایا:’’ذوالحجہ کے دس دنوں سے بڑھ کر اللہ تعالی کے نزدیک کوئی دن زیادہ عظمت والا نہیںاور ان دنوں کے عمل سے زیادہ کوئی عمل محبوب نہیں، اس لیے ان دنوں میں کثرت سے سبحان اللہ ، الحمد للہ ، لا الہ الا اللہ ، اور اللہ اکبر پڑھا کرو‘‘(طبرانی)  احادیث میں ان کے پڑھنے کی کثرت سے ترغیب بھی آئی ہے اور ان کا ثواب بھی جا بجا بیان ہوا ہے۔ ان دنوں میں تو خاص طور پر خود رسول اللہا نے ان کلمات کے پڑھنے کی ترغیب دی ہے اس لیے پہلے دن سے ہی ان کلمات کو ورد زبان بنا لینا چاہئے۔ امام بخاری رحمہ اللہ کے مطابق سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور سیدنا عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہم بازاروں میں جاتے تھے، خود بھی تکبیرات کہتے اور لوگ بھی تکبیریں بلند آواز سے پڑھتے تھے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اپنے خیمے میں بلند آواز سے تکبیریں کہتے تو اہل مسجد اس کو سن کر جواباً تکبیریں کہتے تھے۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نمازوں کے بعد، گھر میں، آتے جاتے، پیدل چلتے ہوئے تکبیریں کہتے تھے۔ تکبیرا ت ان الفاظ سے کہی جاتی تھیں۔
         اَﷲُ اَکْبَر اَﷲُ اَکْبَراَﷲُ اَکْبَرکَبِیْرًا        
         اور
         اَﷲُ اَکْبَراَﷲُ اَکْبَرلَا اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ وَ اﷲُ اَکْبَراَﷲُ اَکْبَر وَ ِﷲِ الْحَمْدُ
         عید کی نماز
         عید الاضحیٰ ذوالحجہ کی دس تاریخ کو منائی جاتی ہے۔ اس دن مسلمان کعبۃ اللہ کا حج بھی کرتے ہیں۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے تواہل مدینہ کے لیے دودن ایسے تھے جس میں وہ لہو لعب کیا کرتے تھے تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ بلاشبہ اللہ تعالٰی نے تمہیں اس سے بہتر اوراچھے دن عطاکیے ہیں وہ عید الفطر اورعیدالاضحی ہیں۔‘‘ علامہ البانی رحمہ اللہ تعالٰی نے اس حدیث کو السلسلۃ الصحیحیۃ میں صحیح قرار دیا ہے ۔                   عیدالاضحی دونوں عیدوں میں بڑی اورافضل عیدہے اورحج کے مکمل ہونے کے بعدآتی ہے جب مسلمان حج مکمل کرلیتے ہیں تواللہ تعالٰی انہیں معاف کردیتا ہے ۔اس لیے حج کی تکمیل یوم عرفہ میں وقوف عرفہ پرہوتی ہے جوکہ حج کاایک عظیم رکن ہے جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
        ’’یوم عرفہ آگ سے آزادی کا دن ہے‘‘  اس دن اللہ تعالٰی ہر شخص کوآگ سے آزادی دیتے ہیں عرفات میں وقوف کرنے والے اوردوسرے ممالک میں رہنے والے مسلمانوں کو بھی آزادی ملتی ہے ۔
         تواس لیے اس سے اگلے دن سب مسلمانوں حاجی اورغیرحاجی سب کے لیے عید ہوتی ہے ۔اس دن اللہ تعالٰی کے تقرب کے لیے قربانی کرنا مشروع ہے ۔
         اس دن کے فضائل کی تلخیص ذیل میں ذکر کی جاتی ہے :
         یہ دن اللہ تعالٰی کے ہاں سب سے بہترین دن ہے :حافظ ابن قیم رحمہ اللہ تعالٰی  زاد المعاد ( 1 ؍ 54 ) میں کہتے ہیں :
         اللہ تعالٰی کے ہاں سب سے افضل اوربہتر دن یوم النحر ( عیدالاضحی )  ہے اوروہ حج اکبروالا دن ہے جس کا ذکر اس حدیث میں بھی ملتا ہے جوابوداؤد رحمہ اللہ تعالٰی نے بیان کی ہے۔
         ’’   یقینا یوم النحر اللہ تعالٰی کے ہاں بہترین دن ہے۔‘‘  (سنن ابوداؤد)
         ابن عمررضی اللہ تعالٰی عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس حج کے دوران جوانہوں نے کیا تھایوم النحر( عید الاضحی )کو  جمرات کے درمیان کھڑے ہوکرفرمانے لگے یہ حج اکبر والا دن ہے ۔ صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1742 ) ۔
         مستحباتِ عید الاضحٰی: 
         عید الاضحی کے دن کے مستحبات درج ذیل ہیں:۔
         1 ۔ نماز کے بعد افطار کرنا (یعنی کھانا پینا؍ناشتہ کرنا) بہتر ہے کہ قربانی کے گوشت سے افطار کریں (اس سے پہلے کچھ نہ کھائیں پئیں۔
         2۔غسل کرنا
         3۔ خوشبو لگانا
         4۔مسواک کرنا
         5۔ اپنے پاس موجود سب سے اچھا لباس پہننا
         6۔ ایک راستے سے جانا اور دوسرے راستے سے واپس آنا
         7۔عید گاہ تک پیدل جانا( اگر جانا ممکن ہو) 
         8۔بلند آواز سے تکبیر کہنا
         عید کی نماز کا وقت
         عیدین کی نمازکا وقت سورج کے اچھی طرح نکل آنے (ایک نیزہ بلند ہونے) سے شروع ہوتا ہے اور سورج ڈھلنے تک رہتا ہے۔(اگر نمازِ عید کے دوران سورج ڈھل گیا تو عید کی نماز ٹوٹ جائے گی)
         عید الاضحٰی تین دن: 
         جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا کہ عید الاضحی تین دن ہوتی ہے اس لیے اگر عیدالاضحی کی نماز کسی وجہ سے ذوالحجہ کی دس تاریخ کو نہ پڑھی جا سکے تو گیارہ ذوالحجہ کو اور اگر گیارہ کو بھی نہ پڑھی جا سکے تو پھر بارہ ذوالحجہ کو پڑھی جا سکتی ہے۔ اس کے بعد نہیں پڑھی جا سکتی۔ یہ حکم اجتماعی نماز کا ہے اگر کسی ایک فرد کی نماز عید رہ گئی تو وہ کسی بھی دن اکیلے نمازِ عید نہیں پڑھ سکتا۔ بلا عذر عیدکی نماز دوسرے دن پڑھنا گناہ ہے۔
قربانی کرنے والے کے لیے مستحب ہے کہ وہ اس روزسب سے پہلے اپنی قربانی کا گوشت کھائے۔
         قربانی
         کسی حلال جانور کو اﷲتعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کی نیت سے ذبح کرنا قربانی کہلاتا ہے۔ سب سے پہلی قربانی حضرت آدم ؑ کے دو بیٹوں ہابیل اور قابیل نے دی۔ قربانی کے قبول ہونے یا نہ ہونے کہ پہچان پہلے انبیاء علیھم السلام کے زمانے میں یہ ہوتی تھی کہ جس قربانی کو اللہ تعالیٰ قبول فرماتے تو آسمان سے ایک آگ آتی اور اس کو جلا دیتی تھی۔ اس زمانہ میں کفار سے جہاد کے ذریعہ جو مالِ غنیمت ہاتھ آتا تھا اس کو بھی آسمان سے آگ نازل ہو کر کھا جاتی تھی، یہ اس جہاد کے مقبول ہونے کی علامت سمجھی جاتی تھی۔
         اُمتِ محمدیہ ا  پر اللہ تعالیٰ کا یہ خصوصی انعام ہوا کہ قربانی کا گوشت اور مالِ غنیمت ان کے لئے حلال کر دیے گئے۔حدیث شریف میں رسول اﷲانے اپنے خصوصی فضائل اور انعاماتِ الٰہیہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا۔ 
         (اُحِلَّت لِی الغَنَائِم)
         ’’  میرے لئے مالِ غنیمت حلال کر دیا گیا ‘‘۔ یعنی مالِ غنیمت کو استعمال کی اجازت دے دی گئی۔
         آج تمام مسلمان حضرت ابراہیم ؑ کی اسی سنت پر عمل کرتے ہوئے عید الاضحی کے دن جانور قربان کرتے ہیں اور حجاجِ کرام تین جمرات کو سات سات کنکریاں مارتے ہیںاور حضرتِ ہاجرہ ؑ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے صفا و مروٰی پر سعی کرتے ہیں۔
         نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
         یوم عرفہ اوریوم النحر اورایام تشریق ہم اہل اسلام کی عید کے د ن ہیں اوریہ سب کھانے پینے کے دن ہیں سنن ترمذی حدیث نمبر ( 773 ) 
         حدیث میں اس عمل(قربانی) کی بڑی فضیلت آئی ہے۔یہ عمل جس عظیم قربانی کی یادگار ہے  اس کو پیش نظر رکھتے ہوئے اللہ کے حکموں پر دل و جان وار دینے کے جذبے کے ساتھ خوشی خوشی قربانی کرنی چاہیے۔رسول اللہ ا نے فرمایا: ’’یوم النحر میں اللہ تعالی کے نزدیک نیک اعمال میں سے خون بہانے سے زیادہ پسندیدہ عمل کوئی نہیںاور قیامت کے دن قربانی کرنے والا اپنی قربانی کے جانور کے بالوں ، سینگوں اور کھروں کو لے کر آئے گا(اور اسے ان پر ثواب ملے گا)۔ بلا شک و شبہ، قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالی کے ہاں شرف قبولیت پا لیتا ہے۔لہذا تم خوشی خوشی قربانی کیا کرو‘‘۔(ترمذی)
         حضرت زید بن ارقم  ص روایت کرتے ہیں کہ صحابہ کرام ث نے ایک مرتبہ رسول اللہ ا سے پوچھا کہ یہ قربانی کیا ہے؟اس پر رسول اللہ ا نے فرمایا :’’ یہ تمہارے جد امجد حضرت ابراہیم کی سنت ہے۔صحابہث نے پوچھا کہ ہمیں اس میں کیا فائدہ حاصل ہو گا؟ آپ ا نے فرمایا کہ تمہیں ہر بال کے بدلے میں ایک نیکی ملے گی۔ پوچھا گیا کیا  اون کے بدلے ا  فرمایا اس کے بھی ہر ریشے کے بدلے ایک نیکی ملے گی‘‘۔
         یاد رہے کہ جن لوگوں کو اللہ تعالی نے قربانی کرنے کی  توفیق بخشی ہے ان کے لیے مستحب یہ ہے کہ وہ پہلی ذوالحجہ سے اپنے بال اور ناخن کاٹنا چھوڑ دیں اور قربانی سے فراغت کے بعد کاٹیں۔
         تصحیحِ نیت
         اس عبادت کو ادا کرتے ہوئے تصحیح نیت کا انتہائی فکر کے ساتھ اہتمام کیا جائے کیونکہ جانوروں کی خرید و فروخت کے دوران خوب سے خوب تر جانور خریدنے کی دھن میں دکھاوے اور برتری کی نیت پیدا ہو جانا بہت ہی آسان اور موقع کے لحاظ سے بہت ہی ممکن ہے ۔ شیطان ایسے ہی حربوں سے انسان کے تمام اعمال برباد کر ڈالتا ہے اوربندے کو اندازہ تک نہیں ہوتا۔اللہ تعالی نے قربانی کے عمل میں تصحیح نیت کو خاص اہمیت کے ساتھ یوں بیان فرمایا ہے:’’اللہ تعالی تک تمہاری قربانیوں کے گوشت ہر گز نہیں پہنچتے ، نہ ہی ان کے خون پہنچتے ہیں ، بلکہ اللہ تعالی تک تو (اس عمل کا باعث بننے والا)تمہارا تقوی پہنچتا ہے‘‘(سورۃ  الحج:37)۔
         اللہ تعالیٰ امت مسلمہ کی‘ ہر قسمی آفات و بلیات سے حفاظت فرمائے۔عید الاضحیٰ کی خوشیاں نصیب فرمائے اور جن خوش بخت لوگوں کو حج اور قربانی کی سعادت نصیب ہوئی ہے اللہ اپنی بارگاہ میں قبول فرما کر ان کے لئے ذخیرہِ آخرت بنائے۔  آمین 
===

نیوز لیٹر سبسکرپشن
سبسکرپشن کے بعد آپ ادارہ کے بارے میں تازہ ترین اپ ڈیٹ حاصل کر سکتے ہیں