- فتوی نمبر: 1-9
- تاریخ: 12 اپریل 2004
- عنوانات: خاندانی معاملات > منتقل شدہ فی خاندانی معاملات
استفتاء
بعد سلام کے عرض ہے کہ میں میراث کا مسئلہ معلوم کرنا چاہتا ہوں۔ صورت مسئلہ یہ ہے کہ میرے والد صاحب فوت ہوگئے ہیں اور انہوں نے اپنے پیچھے کچھ زمین چھوڑی ہے اور یہ وصیت کی تھی کل مال کا تہائی مدرسہ کو دیا جائے۔ وارثیں کی تفصیل یہ ہے کہ ہم چھ بھائی ہیں اور دو بہنیں اور ایک والدہ۔ ایک بہن کی وفات والد صاحب کی وفات کے بعد ہوئی ہے اور دوسری بہن زندہ ہیں۔ اب متوفیہ بہن کی ایک بیٹی ہے اور شوہر بھی زندہ ہے۔ اب وارثوں کے کتنے کتنے حصے بنتے ہیں؟ اس بارے میں راہنمائی فرمائیں۔ نیز متوفیہ کی والدہ اور چھ بھائی اور ایک بہن بھی حیات ہیں۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
صورت مسئولہ میں مرحوم کے حقوق متقدمہ یعنی تجہیز و تکفین کے اخراجات کے بعد اگر قرض ہو تو ادائیگی قرض کے بعد اگر کوئی جائز وصیت کی ہو تو ایک ثلث سے وصیت پورا کرنے کے بعد مابقیہ کل ترکہ کو 17472 حصوں میں تقسیم کر کے 2366 حصے مرحوم کی بیوی کو، اور 2198- 2198 حصے مرحوم کے ہر ایک بیٹے کو، اور 1099 حصے مرحوم کی زندہ بیٹی کو، اور 546 حصے نواسی کو، اور 273 حصے داماد کو ملیں گے۔ صورت تقسیم یہ ہے:
8×14= 112x 156= 17472
بیٹی
7 |
بیوی بیٹا بیٹا بیٹا بیٹا بیٹا بیٹا بیٹی
1/8 باقی
- 7
14 14 14 14 14 14 14 7
2184 2164 2184 2184 2184 2184 2184 1098
12x 13= 156×7= 1092
والدہ شوہر بیٹی 6 بھائی بہن
2ٍ 3 6 1
26 39 78 2 فی کس 1
182 273 546 14 فی کس 7 فقط واللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved