- تاریخ: 08 جون 2024
- عنوانات: مالی معاملات > شرکت کا بیان
استفتاء
میں نے اپنے دوست کو ایک لاکھ روپے دیے (نفع و نقصان کی بنیاد پر) مگر میرا دوست مجھے ہر ماہ 2000 روپے دیتا ہے۔ میں اپنے دوست کو کہتا ہوں کہ پیسے نفع و نقصان کی بنیاد پر دیا کرو۔ مگر میرا دوست کہتا ہے کہ میں خود حساب نہیں کر سکتا اور نہ میں نے کوئی حساب کرنے والا رکھا ہے اس لیے اگر میری طرف سے آپ کو پیسے کم ملتے ہیں تو آپ برداشت کر سکتے ہیں اور اگر زیادہ مل رہے ہیں تو میں برداشت کر سکتا ہوں، دوستی میں کمی بیشی ہو جاتی ہے۔ مجھے پتہ کرنا ہے کہ جو پیسے مجھے مل رہے ہیں جو کہ فکس ہیں 2000 روپے ٹھیک ہے یا نہیں؟ گتہ بنانے والی فیکٹری ہے، نقصان کی صورت میں میں بھی اس نقصان میں شریک ہوں گا۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
نفع نقصان کی بنیاد پر ایک لاکھ روپے دے کر بغیر کسی حساب کتاب کے ہر ماہ 2000 روپے فکس لیتے دیتے رہنا جائز نہیں۔ کیونکہ یہ سود کی شکل بنتی ہے آخر بنک میں بھی تو یہی ہوتا ہے کہ نفع نقصان کی بنیاد پر رقم رکھوائی جاتی ہے اور پھر بغیر کسی حساب کتاب کے رکھوانے والے کو ہر ماہ متعین نفع دیا جاتا ہے، جیسے وہ سود ہے ایسے یہ بھی سود ہے۔
في الدر المختار (8/ 501):
(و كون الربح بينهما شائعاً) فلو عين قدراً فسدت.
و في شرح المجلة (4/ 260):
كون حصص الربح التي تقسم بين الشركاء كالنصف و الثلث و الربح جزء شائعاً شرط فإذا تقاول الشركاء على إعطاء أحدهم كذا غرشاً تكون الشركة باطلة….. فقط و الله تعالى أعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved