• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

طالب علم کا فیس جمع کروا کر کلاسیں نہ لینے پر فیس ری فنڈ کرنا

استفتاء

اگر کوئی طالب علم  فیس جمع کروانے کے بعد کلاسیں لینے کے لئے نہ آئے اور بتا دے کہ وہ فیس ری فنڈ کروانا چاہتا ہے تو اس کی فیس ری فنڈ کر دی جاتی ہے۔ البتہ اگر ایسا طالب علم  اپنے نہ آنے کی اطلاع تاخیر سے کرے ، مثلا ایک یا دو ماہ بعد اطلاع کرے تو اس صورت میں اس کی فیس سے 4000 روپے کی کٹوتی کر کے بقیہ فیس ری فنڈ کی جاتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ اس کے ایڈمیشن لینے کی وجہ سے اس کی جگہ کسی دوسرے طالب علم  کو داخلہ نہیں دیا گیا اور یہی سمجھا گیا کہ وہ طالب علم  کلاس کا حصہ بن چکا ہے، لیکن بعد میں اس کے نہ آنے پر اس کی سیٹ خالی رہ جاتی ہے جس سے رائز اسکول کا نقصان ہوتا ہے۔ چنانچہ اس نقصان کا ایک حد تک ازالہ کرنے کی خاطر اس کی فیس سے 4000 کی رقم کاٹ لی جاتی ہے۔ البتہ جس طالب علم  نے ابتداء میں چار ہزار سے کم رقم جمع کروائی ہو تو اس کی تمام رقم کاٹ لی جاتی ہے اور 4000 پورے کرنے کا مطالبہ نہیں کیا جاتا۔

کیا مذکورہ طرز عمل شرعاً درست ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

اگر کوئی طالب علم مخصوص مدت کے لیے کسی کلاس میں داخلہ لے اور اس کی فیس جمع کرا دے تو شرعی اعتبارسے یہ معاملہ ”عقد اجارہ” ہے، اور فریقین پر حتی الامکان اس کو پورا کرنا شرعاً لازم ہے، کیونکہ عقد اجارہ شروع ہونے کے بعد باہمی رضا رمندی اور بغیر عذر کے یکطرفہ طور پر ختم نہیں کیا جا سکتا، لہٰذا اگر کوئی طالب علم داخلہ لینے اور پڑھائی شروع ہونے کے بعد بغیر کسی عذر کے پڑھائی چھوڑ دے، تو اس صورت میں اس کی فیس میں سے 4000 یا اس سے کم و بیش رقم کی کٹوتی شرعاً درست ہے، البتہ اگر کوئی طالب علم کسی معقول عذر کی وجہ سے پڑھائی جاری نہ رکھ سکے اور چھوڑ کر چلا جائے، تو اس کی فیس میں سے صرف اتنے دنوں کے بقدر کٹوتی جائز ہے جتنے دن اس نے کلاس میں شرکت کی ہو، باقی فیس واپس کرنا ضروری ہے۔

لما في بدائع: (٤/٥٨) مکتبه دار الاحیاء التراث العربی:

(فصل في صفة الإجارة) (فصل) وأما صفة الإجارة فالإجارة عقد لازم إذا وقعت صحیحة عریة عن خیار الشرط والعیب والرؤیة عند عامة العلماء، فلا تفسخ من غیر عذر وقال شریح: إنها غیر لازمة وتفسخ بلا عذر؛ لأنها إباحة المنفعة فأشبهت الإعارة، ولنا أنها تملیک المنفعة بعوض فأشبهت البیع وقال – سبحانه وتعالی۔  (أوفوا بالعقود) (المائدة: 1) والفسخ لیس من الیفاء بالعقد وقال عمر: – رضی الله عنه – ” البیع صفقة أو خیار ” جعل البیع نوعین: نوعاً لا خیار فیه، ونوعاً فیه خیار، والإجارة بیع فیجب أن تکون نوعین، نوعاً لیس فیه خیار الفسخ، ونوعا فیه خیار الفسخ؛ ولأنها معاوضة عقدت مطلقة فلا ینفرد أحد العاقدین فیها بالفسخ لا عند العجز عن المضي في موجب العقد من غیر تحمل ضرر کالبیع.

بدائع: (٤/٩٢) دار احیاء التراث العربی:

ومنها انقضاء المدة إلا لعذر؛ لأن الثابت إلی غایة ینتهي عند وجود الغایة فتنفسخ الإجارة بانتهاء المدة، لا إذا کان ثمة عذر بأن انقضت المدة………… واللّٰه تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved