اسلام میں تعلیم و تربیت کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے جتنی کہ تبلیغ اسلام کی، تعلیم و تربیت کا جو سلسلہ صدر ِ اسلام میں مساجد کے ذریعے انجام پاتا تھا وقت کے ساتھ ساتھ مستقل طور پر دینی مدارس کی شکل اختیار کرتا گیا اور بعد ازاں درس و تدیس کا یہ سلسلہ مسجد کی عمارت سے نکل کر مدرسے کی صورت میں ڈھل گیا اور یوں اسلامی دنیا میں دینی مدارس کو جو مرکزی حیثیت اور شان و شوکت حاصل ہوئی وہ کسی اور ادارے کو حاصل نہیں ہوئی ۔ آج کا دینی مدرسہ در اصل صدرِ اسلام کے تعلیمی و تربیتی سلسلے کا ہی ایک تسلسل ہے اس لئے بجا طورپر یہ کہا جا سکتا ہے کہ ابتدائے اسلام سے عصر حاضر تک دین کی بقاء کا مدار مدارس دینیہ پر رہا ہے ، دار ارقم اور صفہ اولین مدارس ہیں جو حضور ﷺ نے خود قائم فرمائے ۔ تاریخ شاہد ہے کہ جہاں بھی مدارس دینیہ کے وجود کو ختم کیا گیا وہاں دین کے بنیادی تصورات بھی معاشرے سے معدوم ہو گئے ۔ ماضی قریب میں سابقہ روسی ریاستیں اسکی بہت بڑی مثال ہیں کہ وہاں روسی سوشلزم نے مساجد و مدارس کو منہدم کر دیا ، علماء کو شہید کر دیا ، دینی کتابیں جلادیں اور دینی تعلیم پر پابندی عائد کر دی جس کی وجہ سے وہاں کے مسلمان دین سے بے بہرہ ہو گئے ، حتی ٰ کہ اذان اور کلمہ بھی ختم ہو گیا ۔
1857 ء کی جنگ آزادی میں مسلمانوں کی شکست کے بعد برطانوی سامراج بھی ملک گیری اور کشور کشائی کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے ایمان اور دین و مذہب کو جڑ سے اکھاڑپھینکنے کے لئے کمر بستہ ہو گیا تو اس صورت ِ حال نے اس وقت کے درد مند اور مخلص علماء و مشائخؒ کو بے چین کر دیا ۔ حضرت امداداللہ مہاجر مکی ؒ اور ان کے لائق فائق تلامذہ نے حالات کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے فوری طور پرایک مدرسے کے قیام کا فیصلہ کیا ۔ چنانچہ قاسم العلوم و الخیرات حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی ؒ نے اپنے رفقاء کے ساتھ دارالعلوم دیوبند کی بنیاد رکھی ۔ اس مدرسے نے انتہائی نامساعد اور گونہ گو ں حالات میں امت کی کشتی کو ہر قسم کے تھپیڑوں سے بچاتے ہوئے جس طرح ساحل پر لگا یا وہ ایک طویل داستان ہے ۔ ادھر ایک مرد درویش حضرت مولانا محمد الیاس ؒ نے تحفظ دین متین کے لئے دعوت و تبلیغ علیٰ منہج نبوۃ کو از سر نوزندہ کرنے کا بیڑہ اٹھا یا ۔مولانا الیاس صاحبؒ کی یہ تحریک امت مسلمہ کی اصلاح اور بیداری کا ایک عظیم ذریعہ بنی اور انکی اس مخلصانہ جدو جہد نے دین کو عملی زندگی کا حصہ بنانے کا شعور پیدا کیا مولانا الیاس صاحبؒ کی تحریک کا ایک نمایاں اثر مدارس کے قیام کی صورت میں ظاہر ہے ۔ انہوں نے دینی تعلیم کو عام کرنے کی ضرورت کو محسوس کیا جس کے نتیجے میں مختلف علاقوں میں مدارس کا جال بچھادیا گیا۔ ان کی دعوتی کوششوں سے نہ صرف دینی ولولہ پیدا ہو ا بلکہ امت میں تقویٰ ، اتحاد اور اخوت کے جذبات بھی پروان چڑھے آج بھی انکی تحریک کے اثرات پوری دنیا میں محسوس کئے جا سکتے ہیں ۔ اس چلتی پھرتی درسگاہ نے بھی بلاشبہ ان گنت انسانوں کی زندگیوں میں انقلاب برپا کیا ۔ ” دارالعلوم دیوبند ” کی ڈیڑھ صد سالہ اور تبلیغی جماعت کی صد سالہ دینی و ملی خدمات تاریخ کا ایک روشن باب ہیں ۔
اس میں قطعا َ دو رائے نہیں ہیں کہ اسلامی مدارس دین کے قلعے اور اسلامی علوم کے سر چشمے ہیں ان کا بنیادی مقصد ایسے افراد تیار کرنا ہے جو ایک طرف علوم کے ماہر ، دینی کردار کے حامل اور فکری اعتبار سے صراط مستقیم پر گامزن ہوں ، دوسری طرف وہ مسلمانوں کی دینی و اجتماعی قیادت کی صلاحیت سے بہرہ ور ہوں ۔ بقول مفکر اسلام مولانا سیدابوالحسن علی ندوی ؒ کہ “مدرسہ وہ جگہ ہے جہاں آدم گری اور مردم سازی کا کام ہوتا ہے جہاں دین کے داعی تیار ہوتے ہیں ،یہ وہ کارخانے ہیں جہاں قلب و نگاہ اور دماغ ڈھلتے ہیں ، انسانی زندگی کی نگرانی ہوتی ہے ۔ مدرسہ کا تعلق کسی تقویم ، تمدن ، کسی عہد ، کلچر اور زبان و ادب سے نہیں ہوتا بلکہ اس کا تعلق براہ راست نبوت محمد ی ﷺ سے ہوتا ہے جو عالمگیر اور زندہ و جاوید ہے “۔
جامعہ دارالتقویٰ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جو نصف صدی سے تشنگان علوم نبویہ کی علمی پیاس بجھانے میں مصروف ہے ۔ 1967ء سے قائم اس عظیم درسگاہ کی بنیاد حاجی گلزار محمد صاحب رحمہ اللہ کے ہاتھوں جس اخلاص اور للٰہیت سے رکھی گئی اس کی برکت سے اس پودے نے مختصر وقت میں تنا ور درخت کی صورت اختیار کر لی اور اسے ایسا شرف قبولیت عطا ہوا کہ دیکھتے ہی دیکھتے ایک عظیم دینی درسگاہ کے طور پر علمی حلقوں میں مقام بلند پر جا پہنچا ۔ تشنگان علوم نبویہ اس چشمئہ علم و عرفان کی طرف ایسے کھچے چلے آئے کہ آج الحمدللہ لاہور ، کراچی ، مری ، قصور اور شیخوپورہ جیسے شہروں میں جامعہ کی تقریباَ 20 شاخوں میں 8000 سے زائد طلبہ و طالبات اکتساب فیض کر رہے ہیں ۔
جامعہ روز اول سے ہی تبلیغی وتربیتی بنیادوں پر قائم ہے اور ادارے میں تعلیم کے ساتھ ساتھ اصلاح و تربیت کا بھر پور اہتمام کیا جاتا ہے۔ جس کے لیے باقاعدہ تبلیغی اعمال کی ترتیب اور وقتا فوقتا اکا بر علماء کرام کے اصلاحی بیانات جامعہ کی خصوصیات میں شامل ہیں ۔
جامعہ دارالتقویٰ کا شورائی نظام :
جیسا کہ قرآن پاک میں مومنین کی صفات کے بارے میں ہے “وامرھم شوری بینھم ” اور ان کے باہمی معاملات مشورے سے ہوتے ہیں ۔
جامعہ دارالتقویٰ اسی شورائی نظام پر قائم ہے جامعہ اور اس سے ملحقہ جملہ شاخوں کے تمام تعلیمی و تنظیمی معاملات باہمی مشورے سے طے کئے جاتے ہیں اکابر علماء کرام جید تجربہ کا ر اساتذہ کرام پر مشتمل ایک سات رکنی مرکزی شورائی جماعت قائم ہے جوکہ جامعہ کے جملہ معاملات کو باہمی مشاورت سے حل کرتے ہیں ۔اس مرکزی شورائی جماعت میں مولانا اویس احمد صاحب ، مولانا محمد عثمان صاحب ، مولانا عامر رشید صاحب ، مولانا جمیل الرحمان صاحب ، مولانا یوسف منور صاحب ، مولانا عاقب شہزاد صاحب اور مولانا احمد رضا صاحب شامل ہیں ۔ اس مرکزی شورائی جماعت کے تحت ایک نو رکنی معاون شوری کی جماعت ہے جن کی معاونت اور مشاورت سے امور طے ہو کر مرکزی شوری کے سامنے پیش کئے جاتے ہیں ۔