• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

تمہید

استفتاء

شرکت کے ساتھ اجارے کے اجتماع کی کئی صورتیں بازار میں رائج ہیں، جن میں سے کچھ صورتیں جائز ہیں، اور کچھ ناجائز۔ عام طور سے ان کو سمجھنے اور حکم لگانے میں خلط سا ہو جاتا ہے، اس لیے ذیل کی سطور میں ان صورتوں اور ان کے احکامات کی مختصر وضاحت کی گئی ۔

شرکت کے ساتھ اجارے کے معاملے کی چار صورتیں ہیں:

1۔ شرکتِ ملک ہو اور ایک شریک دوسرے شریک کی چیز اجارے پر لے مشترکہ کام کے لیے۔

2۔ شرکتِ ملک ہو اور ایک شریک دوسرے شریک کی ذات کو اجارے پر لے مشترکہ کام کے لیے۔

3۔ شرکتِ عقد ہو اور ایک شریک دوسرے شیک کی چیز اجارے پر لے مشترکہ کام کے لیے۔

4۔ شرکتِ عقد ہو اور ایک شریک دوسرے شریک کی ذات کو اجارے پر لے مشترکہ کام کے لیے۔

ان صورتوں کے احکام یہ ہیں:

پہلی صورت

جائز ہے۔

دوسری صورت

حنفیہ کی ظاہر الروایت اور متون کی رُو سے جائز نہیں۔ البتہ ائمہ ثلاثہ کے ہاں جائز ہے۔

في البدائع (4/43):

ومنها أن تكون المنفعة مباحة [مقدورة] الاستيفاء فإن كانت محظورة الاستيفاء لم تجز الإجارة …..وعلى هذا يخرج ما إذا استأجر رجلا على العمل في شيء هو فيه شريكه نحو ما إذا كان بين اثنين طعام فاستأجر أحدهما صاحبه على أن يحمل نصيبه إلى مكان معلوم والطعام غير مقسوم فحمل الطعام كله أو استأجر غلام صاحبه أو دابة صاحبه على ذلك أنه لا تجوز هذه الإجارة عند أصحابنا وإذا حمل لا أجر له وعند الشافعي هذه الإجارة جائزة وله الأجر إذا حمل [وبه قال مالك وأحمد رحمهما الله فتح المعين، بحواله أحسن الفتاوى: 7/325]……. بخلاف ما إذا استأجر من رجل بيتا له ليضع فيه طعاما مشتركا بينهما أو سفينة أو جوالقا إن الإجارة جائزة لأن التسليم ثمة يتحقق بدون الوضع بدليل أنه لو سلم السفينة والبيت والجوالق ولم يضع وجب الأجر وههنا لا يتحقق بدون العمل وهو الحمل والمشاع غير مقدور الحمل بنفسه….. والأصل فيه أن كل موضع لا يستحق فيه الأجرة إلا بالعمل لا تجوز الإجارة فيه على العمل في الحمل مشتركة وما يستحق فيه الأجرة من غير عمل تجوز الإجارة فيه لوضع العين المشتركة في المستأجر.

متاخرین حنفیہ نے اس صورت کی عقلی توجیہات پر جو اعتراضات کیے ہیں، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہیں اس کے عدم جواز پر اطمینان نہیں ہے اور ان کا رجحان اس کے جواز کی طرف ہے۔(دیکھیے احسن الفتاویٰ: 2/324)

تیسری صورت

اس کے جواز یا عدم جواز کے بارے میں صراحتاً کوئی عبارت نہیں ہے۔ تاہم شرکت الملک میں شریک کی چیز کو اجارے پر لینے کے جواز اور اس کی علت کو دیکھا جائے تو اس کا بھی جواز معلوم ہوتا ہے۔

ہاں البتہ اس صورت میں ایک اضافی اشکال ہو سکتا ہے۔ اور وہ یہ کہ شرکت الملک میں تو ہر شریک دوسرے کے حق میں اجنبی ہوتا ہے، جبکہ شرکت العقد میں دو طرفہ وکالت ہوتی ہے، اس صورت میں مطالب اور مطلوب کے ایک ہونے کا اشکال لازم آئے گا۔ یعنی جب ایک شریک نے دوسرے سے اس کی چیز اجارے پر لی تو اپنے لیے اصالۃً اور دوسرے کے لیے نیابۃً اجارے کا معاملہ ہوا۔ دوسرے کے لیے اس نیابت والے پہلو میں جہتوں کا تزاحم ہو گیا کہ مستاجر اور موجر ایک ہو ئے۔

لیکن اس اشکال کا جواب یہ ہے کہ یہاں ظاہر میں مستاجر وموجر ایک ہو رہے ہیں حقیقت میں ایسا نہیں ہے، بلکہ حقیقت میں یہاں آدھی چیز اجارے پر ہے، جو دوسرے شریک کو دی گئی ہے، جبکہ آدھی چیز خود مالک کے اپنے استعمال میں ہے، جسے وہ بطور شریک ہونے کے استعمال کر رہا ہے۔ کیونکہ چیز کا اجارہ اور کرایہ تو شرکت اخراجات میں سے منہا ہو گا، اور وہ دونوں سے لیا جائے گا۔ تو نتیجۃً یہ ہوا کہ شریک کی شرکت والے کھاتے سے پیسے نکلے اور ذاتی جیب میں چلے گئے۔

اور اگر اس کو یوں نہ لیا جائے بلکہ ظاہر حال کے مطابق سمجھا جائے، تو پھر اس اشکال کا جواب یہ ہے کہ طالب ومطلوب کے اتحاد والی بات کو اگرچہ بعض فقہاء نے لیا ہے، مگر دوسرے حضرات نے اسے نظر انداز بھی کیا ہے۔ چنانچہ صاحب بحر نے  پہلے  صاحب نہایہ سے نقل کیا ہے:

وفي النهاية عن المبسوط: لو باعه الوكيل بالبيع [وفيه الإجارة لكونها أخت البيع. ناقل] من نفسه أو ابن صغير له، لم يجز، وإن صرح المؤكل بذلك، لأن الواحد في باب البيع إذا باشر العقد من الجانبين يؤدي إلى تضاد الأحكام، فإنه يكون مشترياًٍ ومستقضياً، قابضاً ومسلماً، مخاصماً في العيب ومخاصماً، وفيه من التضاد ما لا يخفى.

جبکہ دوسری طرف بزازیہ میں ہے:

قال في البزازية: الوكيل بالبيع لا يملك شراءه لنفسه، لأن الواحد لا يكون مشترياً وبائعاً، فيبيعه من غيره ثم يشتريه منه. وإن أمره المؤكل أن يبيعه من نفسه أو أولاده الصغار أو ممن لا تقبل شهادته، فباع منهم جاز. (باب الوكالة بالبيع أو الشراء)

خود صاحب بحر نے دونوں قسم کے اقوال نقل کرنے کے بعد لکھا ہے:

وهذا [أي ما قال في النهاية] موافق لما يأتي عن السراج، وكأن في المسئلة قولين، والوجه ما في النهاية إلا إذا أجازه المؤكل فلا يرد ما ذكره [من لزوم اتحاد الطالب والمطلوب حيث يكون العقد منسوباً إلى المؤكل مباشراً لا بواسطة الوكيل. والله أعلم].

چوتھی صورت

یعنی شرکت العقد ہو اور شریک کی ذات کو شراکت کے کام کے لیے اجیر رکھا ئے۔

پرانے فقہاء کے ہاں تو اس میں اختلاف نہیں ملتا، بلکہ اس کا صراحتاً تذکرہ بھی نہیں ملتا۔  ([1]) البتہ زمانہ حال کے بعض حضرات نے اس کے جواز کا قول کیا ہے۔ چنانچہ مفتی رشید احمد صاحب رحمہ اللہ نے ’’احسن الفتاویٰ‘‘ میں اس کے جواز کی صراحت کی ہے۔ ([2]) اور مفتی تقی عثمانی صاحب مدظلہ نے بھی اسے کمپنی کے معاملات میں اختیار کیا ہے۔ چنانچہ لکھتے ہیں:

’’اگر یہ چیف ایگزیکٹو کمپنی کا حصہ دار بھی ہو تو اس پر یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ شریک اجیر نہیں بن سکتا۔ لیکن اس مسئلے پر حضرت مولانا مفتی رشید احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ایک مفصل فتویٰ تحریر فرمایا ہے، جس میں مضبوط دلائل سے شریک کے اجیر بننے کو جائز قرار دیا گیا ہے۔ دیکھیے احسن الفتاویٰ: 7/ 321 تا 328‘‘

جبکہ دیگر حضرات اس صورت کے عدم جواز کے قائلین بلکہ مصرین ہیں۔ چنانچہ حضرت ڈاکٹر مفتی عبد الواحد صاحب لکھتے ہیں:

’’شرکت عنان کے شریک کے لیے تنخواہ مقرر کرنا ایسے ہی ہے جیسے اس کے لیے نفع کی تقسیم سے قبل متعین رقم مخصوص کرنا۔‘‘ (ہدیہ جواب: 62)

([1] ) مفتی رشید احمد صاحب رحمہ اللہ نے شرکت واجارے کی عبارات کا استقصاء کیا ہے، مگر وہ سب شرکت الملک سے متعلق ہیں، اگر عقد سے متعلق مثبت منفی کوئی جزئیہ ہوتا تو مفتی صاحب اسے ضرور ذکر فرماتے۔ اسی طرح مفتی تقی عثمانی صاحب نے بھی جواز کے لیے محض اسی حوالے کے نقل پر اکتفاء فرمایا ہے، کوئی مثبت دلیل ذکر نہیں فرمائی۔

([2] ) ’’احسن الفتاویٰ‘‘ کے مذکورہ فتوے کے بارے میں بعض حضرات کی رائے یہ بھی ہے کہ یہ فتویٰ مبنی بر تسامح ہے۔ دیکھیے غیر سودی بینکاری: 111،  ازمفتی احمد ممتاز صاحب۔ جبکہ ایک خیال یہ بھی ہے کہ حضرت مفتی رشید احمد صاحب رحمہ اللہ کی اس بارے میں رائے وہ ہے جو کمپنی کے بارے میں حضرت ڈاکٹر  مفتی عبد الواحد صاحب مدظلہ کی ہے کہ وہ اسے شرکت العقد پر برقرار رکھنے کی بجائے شرکت الملک میں بدلتے ہیں، اور پھر اس کے ساتھ اجارے کا اجتماع جائز قرار دیتے ہیں۔ واللہ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved