• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

20 گھروں کی آبادی میں جمعہ کا حکم

استفتاء

مفتیان عظام  ! میر اسوال یہ ہے کہ ایک بستی میں تقریباً 15یا20 گھر ہیں اور بستی میں کوئی ضروریات زندگی کی سہولت بھی نہیں ہے بستی سے 2 کلو میٹر دور اڈا ہے جہاں سے کچھ نا کچھ مل جاتا ہے اور اس بستی میں تقریباً ایک سال سے جمعتہ المبارک کی جماعت ہو رہی ہے کیا نماز جمعہ پڑھنا شرعاً درست ہے یا نہیں؟

تنقیح :  آبادی میں چالیس تا پچاس بالغ مرد موجود ہیں ۔ مسجد اتنی وسیع  ہے کہ بستی کے لوگ بسہولت اس میں سما سکتے ہیں۔سائل کو حال ہی میں امام رکھا گیا ہے اس لیے اس بات کا اندازہ نہیں کہ جمعہ بند کرنا ممکن ہے یا نہیں ۔البتہ ان میں سے پانچ  یا سات گھر کے لوگ یہاں اس لیے جمعہ نہیں پڑھتے کہ گاؤں میں جمعہ نہیں ہوتا ۔مزید یہ کہ دو کلومیٹر کے فاصلہ پر واقع  بستیوں میں جہاں تقریباً چارسو  تک لوگ  جمع ہوجاتے ہیں وہاں بھی جمعہ جاری ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ بستی میں   نماز ِ  جمعہ جائز نہیں ہے ۔

توجیہ : حنفیہ کے نزدیک  نماز جمعہ کی صحت کی شرائط میں شہر یا  قصبہ یا فنائے شہر ہونا ضروری ہے ۔  قصبہ ایسی آبادی  کو کہتے ہیں جہاں اتنا بڑا بازار ہو جس میں  روز مرہ  ضروریات  کی چیزیں مثلاً  غلہ ، اناج ،جوتا ، کپڑا ،وغیرہ مل جاتا ہو اسی طرح  ڈاکٹر ، معمار مستری وغیرہ بھی دستیاب ہوں۔ اسی طرح امام شافعی ؒ  کے نزدیک  اگر کسی بستی میں چالیس مرد موجود ہوں اور وہ سب نماز ِ جمعہ کے لیے حاضر بھی ہوں  تو وہاں جمعہ قائم کرنے کی اجازت ہے ۔اور ظاہر ہے کہ مذکورہ بستی  کے تمام لوگ جمعہ کی نماز میں حاضر نہیں ہوں گے جس کی وجہ سے نمازیوں کی تعداد چالیس سے کم ہوگی ۔لہذا   مذکورہ بستی میں دیگر آئمہ کے قول پر بھی  جمعہ قائم کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔

بدائع الصنائع  (1/ 259) میں ہے :

‌أما ‌المصر الجامع فشرط وجوب الجمعة وشرط صحة أدائها عند أصحابنا حتى لا تجب الجمعة إلا على أهل المصر ومن كان ساكنا في توابعه وكذا لا يصح أداء الجمعة إلا في المصر وتوابعه فلا تجب على أهل القرى التي ليست من توابع المصر ولا يصح أداء الجمعة فيها .

الام  للامام الشافعي (1/ 219 ) میں ہے :

«قال الشافعي): فإذا كان من أهل القرية ‌أربعون ‌رجلا والقرية البناء والحجارة واللبن والسقف والجرائد والشجر؛ لأن هذا بناء كله وتكون بيوتها مجتمعة ويكون أهلها لا يظعنون عنها شتاء ولا صيفا إلا ظعن حاجة مثل ظعن أهل القرى وتكون بيوتها مجتمعة اجتماع بيوت القرى، فإن لم تكن مجتمعة فليسوا أهل قرية ولا يجمعون ويتمون إذا كانوا أربعين رجلا حرا بالغا فإذا كانوا هكذا رأيت – والله تعالى أعلم – أن عليهم الجمعة فإذا صلوا الجمعة أجزأتهم ……………….

«قال الشافعي): وإذا كان أهلها أربعين، أو أكثر فمرض عامتهم حتى لم يواف المسجد منهم يوم الجمعة أربعون رجلا حرا بالغا صلوا الظهر، (قال»

فتاوی شامی  (2/ 138)  میں ہے :

قوله (وفي القهستاني إلخ) تأييد للمتن، وعبارة القهستاني ‌تقع ‌فرضا في القصبات والقرى الكبيرة التي فيها أسواق 

«وفيما ذكرنا إشارة إلى أنه لا تجوز في الصغيرة التي ليس فيها قاض ومنبر وخطيب»

مسائل بہشتی زیور (1/291) میں ہے :

نماز جمعہ کے صحیح ہونے کی شرطیں  :

شہر یا قصبہ یا اس کا فنا ہو۔ گاؤں میں یا جنگل میں نماز جمعہ درست نہیں ۔

قصبہ اس مستقل آبادی کو کہتے ہیں جہاں ایسا بازار ہو جس میں تیس چالیس متصل اور مستقل دکانیں ہوں اور بازار روزانہ لگتا ہو اور اس بازار میں روز مرہ کی ضروریات ملتی ہوں مثلاً جوتے کی دکان بھی ہو اور کپڑے کی بھی۔ غلہ اور کریانہ کی بھی ہو اور دودھ گھی کی بھی وہاں ڈاکٹر یا حکیم بھی ہو اور معمار و مستری بھی ہوں وغیرہ وغیرہ۔ علاوہ ازیں وہاں گلی محلے ہوں ۔

امداد الاحکام (1/812)  میں ہے :

سوال:   ایک چھوٹا سا گاؤں تقریبا ۱۰۰ یا ۲۰۰ گھروں کی آبادی ہے اور اس گاؤں کی جو مسجد ہے اس کے اندر جمعہ کے روز اس قدر آدمی آتے ہیں کہ تمام مسجد بھرکر اور آدمی باہر باقی رہ جاتے ہیں، آیا اس گاؤں میں جمعہ ہوتا ہے یا کہ نہیں اور اگر جمعہ ہوجاتا ہے تو پھراحتیاط الظہران کو پڑھنا چاہیے یا نہیں، اور اسی طرح ایک گاؤں کل ۱۵ گھروں کی آبادی ہے، اس میں بھی جمعہ ہوگایا نہیں، بینواتوجروا۔

الجواب:  دوسرے گاؤں میں جمعہ جائز نہیں معلوم ہوتا، صرف ظہرپڑھنی چاہیے، اور پوری تحقیق کسی محقق عالم کوگاؤں دکھلانے سے ہوسکتی ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved