• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

منگنی سے پہلے لڑکی کو دیکھنا

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

کیا منگنی سے پہلے لڑکی پسند کرنے کے لیے لڑکے کو دیکھ سکتی ہے۔اس میں فتوی کیا ہےاور تقویٰ کیا ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

جس لڑکے سے منگنی کی بات چل رہی ہوں اگر ہوسکے تو لڑکی اس لڑکے کو دیکھ سکتی ہے البتہ دو باتوں کا خیال رکھا جائے :

1)       لڑکی کو لڑکا دکھانے کا باقاعدہ کوئی نظم نہ بنایا جائے بلکہ لڑکی کا کہیں داؤ لگ جائے تو وہ دیکھ لے۔

2)       یہ دیکھنا شہوت کی غرض سے نہ ہو۔ مذکورہ شرائط  کا خیال رکھتے ہوئے اگر دیکھنے کی کوئی صورت بن جائے تو دیکھ لینامناسب  ہے جتنی بات ذکر کر دی اس سے زیادہ اس میں فتوی یا تقوی کا فرق نہیں۔

الردالمحتار611/9

وهل يحل لها أن تنظر للخاطب مع خوف الشهوة لم أره والظاهر نعم للاشتراك في العلة المذكورة في الحديث السابق بل هي أولى منه في ذلك لأنه يمكنه مفارقة من لا يرضاها بخلافها.

امداد الفتاوٰی 4/200

سوال میں نے لڑکی کو لڑکے کی والدہ اور پھوپھی اور بہن کو اس لئے دکھایا کہ احادیث شریفہ کی رُو سے خود لڑکے کو دیکھنا درست ہے، تو اُس کے اقربائے نسواں کو دکھانا بھی حسب حدیث عمل ہوگا، اگر چہ بعض جگہ لڑکی کو دکھانے کی رسم عرفاً گو معیوب سمجھی جاتی ہے، مگر جو عرف کہ خلاف حدیث ہو وہ قابل عمل نہیں ، پس میرا یہ عمل وخیال وتوجیہ درست ہے کہ نہیں ؟ اور اگر درست نہ ہوتو بصراحت آگاہ فرمایا جاوے، تاکہ عرف خلاف حدیث قابل عمل ہونے کی حقیقت از طفیل رہنمائی حضور موضوح ہو؟

الجواب:  یہ عرف اُس حدیث کے خلاف نہیں ہے؛ کیونکہ حدیث سے رویت ثابت ہے، نہ کہ ارائت، یعنی حدیث کا مطلب یہ نہیں کہ لڑکی والے اس خاطب کو خود لڑکی دکھلادیں ؛ بلکہ خاطب کو اجازت ہے کہ اگر تمہارا موقع لگ جاوے تو تم دیکھ لو   پس اسی طرح جو عورت خاطب کے قائم مقام ہے اُس کا دیکھ لینا تو اس حدیث میں حکماً داخل ہو سکتا ہے، باقی یہ ہر گز حدیث کا مدلول نہیں کہ لڑکی والے اہل خاطب کو دکھلایا کریں ، حدیث اس سے محض ساکت ہے، اگر تجربہ سے نسوان خاطب کو دکھلانا خلاف مصلحت ثابت ہو، اُن سے پردہ کرانے کا عرف ہرگز خلافِ حدیث نہیں ، جیسا عورتوں کو دکھلا دینا بھی خلاف حدیث نہیں ، شرعاً دونوں شقوں کا اختیار ہے۔

اسلامی شادی ص95(حضرت تھانوی ؒ)میں فرمایا:

لڑکا اور لڑکی کے متعلق موافقت  ومناسبت کا دیکھنا تو بہت ضروری ہے اسی واسطے حالات کی تحقیق کے علاوہ لڑکے کا لڑکی کو ایک نظر دیکھ لینا جبکہ نکاح کا ارادہ ہو کوئی حرج نہیں بلکہ مناسب ہے ، اس لیے کہ عمر بھر کا تعلق پیدا کرنا ہے اس میں بڑی حکمت ہے حدیث میں اس کی اجازت ہے مگر یہ دیکھنا تحقیقی نظر سے ہوگا تلذذ  کی نیت سے نہیں جیسے طبیب یا ڈاکٹر کو محض اس  نیت سے دیکھنا کہ نبض سے مزاج کی حرارت و برودت وغیرہ معلوم ہو جائے نہ کہ تلذذکی غرض سے (ورنہ ناجائز ہو گا)

تعلیم الدین ص28(حضرت تھانویؒ)

اگر کسی عورت سے نکاح کرنے کا ارادہ ہو تو اگر بن پڑے تو اس کو ایک نگاہ دیکھ لو۔ کبھی بعد نکاح کے اس کی صورت سے نفرت نہ ہو۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved