• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

فرض افرادی طور پر پڑھنے کے بعد تراویح کی جماعت میں شامل ہونے کا حکم

استفتاء

السلام عليكم ورحمۃ الله وبركاتہ

رمضان میں، ایک آدمی نے فرض نماز انفرادی طور سے پڑھی۔ کیا وہ اس کے بعد، خواہ وہ تراویح جماعت سے پڑھ پائے یا نہ

پائے، وتر باجماعت پڑھ سکتا ہے اگر اسے مسجد میں وتر کی جماعت مل جائے؟

اس کے بارے میں ہمارے کتابوں میں عام طور سے فتوی یہ نقل کیا گیا ہے کہ وہ پڑھ سکتا ہے چناچہ أحسن الفتاوى میں تراویح کے باب میں بعض سوالات کے جوابات میں واضح طور سے یہ بات مذکور ہے اور "فتاوى دار العلوم ديوبند” میں بھی یہی بات تراویح کے باب میں مذکور ہے، نیز "الدر المختار” پر علامہ طحطاوی کے حاشیے میں بھی یہاں تک مذکور ہے کہ اگر پوری جماعت نے تنہا تروایح/فرائض پڑھے اور اس کے بعد وہ باجماعت وتر پڑھ سکتے ہیں، جب پوری جماعت کا یہ معاملہ ہے، تو منفرد تو بطریق اولی پڑھ سکتاہے  اور جواب کی بنیاد یہ ہے کہ "وتر” نہ تروایح کے تابع ہیں اور نہ فرض کے۔

ففي الدر المختار، كتاب الصلاة، باب الوتر والنوافل، مطلب التراويح:

(ولو تركوا الجماعة في الفرض لم يصلوا التراويح جماعة) لأنها تبع فمصليه وحده يصليها معه. (ولو لم يصلها) أي التراويح (بالإمام) أو صلاها مع غيره (له أن يصلي الوتر معه) بقي لو تركها الكل هل يصلون الوتر بجماعة؟ فليراجع.

وفي حاشية الطحطاوي عليه:

(ولو تركوا الجماعة في الفرض) عبر بالجمع؛ لأن المنفرد لو صلى العشاء وحده، فله أن يصلي التراويح مع الإمام، منح، لكن تعليل الشرح يعم المنفرد (قوله فليراجع) قضية التعليل في المسألة السابقة بقوله: "لأنها تبع” أن يصلي الوتر بجامعة في هذه الصورة؛ لانه ليس بتبع لتراويح، ولا للعشاء عند الإمام – رحمه الله تعالى انتهى، حلبي

جہاں تک مصنف نے یہ کہا کہ تعلیل کا تقاضا یہ ہے کہ منفرد کا بھی یہی حکم ہو اس کا جواب علامہ شامی نے ان الفاظ میں دیا کہ:

(قوله لأنها تبع) أي لأن جماعتها تبع لجماعة الفرض فإنها لم تقم إلا بجماعة الفرض، فلو أقيمت بجماعة وحدها كانت مخالفة للوارد فيها فلم تكن مشروعة؛ أما لو صليت بجماعة الفرض وكان رجل قد صلى الفرض وحده فله أن يصليها مع ذلك الإمام لأن جماعتهم مشروعة فله الدخول فيها معهم لعدم المحذور، هذا ما ظهر لي في وجهه، وبه ظهر أن التعليل المذكور لا يشمل المصلي وحده، فظهر صحة التفريع بقوله فمصليه وحده إلخ فافهم.

لیکن مندرجہ ذیل عبارت سے اس پر ایک اشکال ہوتا ہے:

في الدر المختار في نفس الموضع:

(ولو لم يصلها) أي التراويح (بالإمام) أو صلاها مع غيره (له أن يصلي الوتر معه)

وفي الشامية عليه:

(قوله ولو لم يصلها إلخ) ذكر هذا الفرع والذي قبله في البحر عن القنية، وكذا في متن الدرر، لكن في التتارخانية عن التتمة أنه سأل علي بن أحمد عمن صلى الفرض والتراويح وحده أو التراويح فقط هل يصلي الوتر مع الإمام؟ فقال لا اهـ. ثم رأيت القهستاني ذكر تصحيح ما ذكره المصنف، ثم قال: لكنه إذا لم يصل الفرض معه لا يتبعه في الوتر اهـ فقوله ولو لم يصلها أي وقد صلى الفرض معه، لكن ينبغي أن يكون قول القهستاني معه احترازا عن صلاتها منفردا؛ أما لو صلاها جماعة مع غيره ثم صلى الوتر معه لا كراهة تأمل.

(قوله بقي إلخ) الذي يظهر أن جماعة الوتر تبع لجماعة التراويح وإن كان الوتر نفسه أصلا في ذاته لأن سنة الجماعة في الوتر إنما عرفت بالأثر تابعة للتراويح، على أنهم اختلفوا في أفضلية صلاتها بالجماعة بعد التراويح كما يأتي.

علامہ شامی کی عبارت سے مندرجہ ذیل باتیں حاصل ہوتی ہیں:

۱: علی بن احمد صاحب کے مطابق اگر کسی نے فرض یا تراویح انفرادی طور سے پڑھ لئے یا صرف تراویح انفرادی طور سے پڑھیں، تو وہ امام کے ساتھ وتر نہیں پڑھے گا۔

۲: لیکن علامہ قہستانی نی اس بات کی تصحیح نقل کی ہے جو علامہ تمرتاشی نے نقل کی ہے کہ اگر کسی نے تراویح امام کے ساتھ نہیں پڑھی تو وہ وتر امام کے ساتھ پڑھ سکتا ہے، یہی تک کوئی اشال نہیں۔

۳: لیکن آگے علامہ شامی نے قہستانی کی جو عبارت نقل کی ہے اس میں سابقہ کلام پر استدراک کرتے ہوئے یہ کہا گیا کہ اگر فرض نماز امام کے ساتھ نہ پڑھے تو اسے امام کے ساتھ وتر نہیں پڑھنے چاہیں، اگر ایسا کیا تو مکروہ ہو گا جیسا کہ "لا كراهة تأمل.” سے مترشح ہوتا ہے (آگے علامہ شامی نے خود وضاحت بھی کی ہے کہ "معہ” سے مراد "انفرادی” طور سے پڑھنا ہے خاص اس امام کے نہ پڑھنا مراد نہیں جس کے پیچھے وتر پڑھنا چاہتا ہے) اور اسی بنیاد پر علامہ شامی نے  علامہ تمرماشی کی عبارت میں اس قید کا بھی اضافہ کیا کہ: "أي وقد صلى الفرض معه”۔ اس یہ صاف یہ پتہ چلتا ہے کہ اگر کسی نے عشا کی فرض نماز جماعت سے نہیں پڑھی، تو وتر جماعت سے پڑھنا مکروہ ہیں، نیز یہاں سیاق سے بالکہ واضح ہو رہا ہے کہ یہ مسئلہ محض "منفرد” کی صورت میں ہے کہ اس نے عشا کی جماعت تنہا پڑھی اور اس کے بعد وہ وتر کی جماعت میں شریک ہوتا ہے اور اس جماعت کے ٹھیک ہونے میں کوئی اشکال نہیں، بحث محض اس "منفرد” کے اس جماعت میں شرکت کی ہے۔

۴: نیز علامہ شامی نے کہا کہ "الذي يظهر أن جماعة الوتر تبع لجماعة التراويح وإن كان الوتر نفسه أصلا في ذاته” لیکن علامہ رافعی نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ: "الذي يظهر أن جماعته تبع لجماعة الفرض لا التراويح، فإن المفهوم من قول المصنف: <ولايصلي الوتر> أنه يصلي جامعة في رمضا، فيعمل يعمومه حتى يوجد ما يقتضي تخصيصه بما إذا صلى التراويح جماعة، نعم التيقييد بما إذا صلى الفرض جماعة نقله القهستاني "

اس میں علامہ رافعی کا فرمانا یہ ہے کہ فقہا کی عبارات کے مطابق وتر کسی کے تابع نہیں ہونے چاہیے الا یہ کہ صراحت کے ساتھ کوئی نقل آئے اور یہ نقل محض "عشا کے فرضوں” کے بارے میں آئی ہے، تراویح کے بارے میں نہیں، اور وہ نقل علامہ قہستانی کی متذکرہ بالا عبارت ہے۔

یہ عبارت اگرچہ بظاہر اس صورت میں ہے کہ جب سب کے سب لوگوں نے تراویح الگ پڑھے اور اس کے بعد فرض وتر باجماعت پڑھنے لگے تو اس صورت میں کیا حکم ہے۔ لیکن علامہ رافعی نے جو دلیل نقل کی ہے اس کے مطابق علی الاطلاق باجماعت وتر ٹھیک ہونے چاہیے لیکن چونکہ علامہ قہستانی نے "عشا کے فرائض” کے بارے میں نقل لائی ہے اس لئے اس کا استثنا ہوا۔

۵: علامہ شامی کے طرزسے ایسا لگتا ہے کہ جیسے وہ علامہ قہستانی کی اس نقل سے مطمئن ہیں اور علامہ رافعی کے تبصرے سے بھی اگرچہ ان کے درمیان اس چیز میں اختلاف ہے کہ وتر کس کے تابع ہیں، جبکہ قہستانی کی نقل قابل اعتبار نہیں جیسا کہ حنفی اصول افتاء میں یہ بات طے ہے۔

اس حوالے سے آپ کی رہنمائی درکار ہے کہ

1:راجح قول کیا ہے

2: علامہ قہستانی کی عبارت کا مقام

3:اور اگر مجھ سے سمجهنے میں غلطی ہوئی، تو اس کی نشاندہی

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

آنجناب کا سوال نامہ موصول ہوا۔ بظاہر آپ یہ فرمانا چاہ رہے ہیں کہ وتر کی جماعت میں شرکت کے لیے عشاء اور تراویح کی جماعت میں شرکت ضروری نہیں۔ بالخصوص عشاء کی جماعت میں شرکت۔

عام اردو فتاویٰ میں بھی یہی مسئلہ مذکور ہے، اور علامہ طحطاوی رحمہ اللہ کی رائے بھی یہی ہے۔ لہذا علامہ قہستانی رحمہ اللہ کی نقل کے پیش نظر علامہ تمرتاشی کے قول میں وتر کی جماعت میں شرکت کے لیے عشاء کے فرضوں کو باجماعت پڑھنے کی قید لگانا درست نہیں۔ کیونکہ  علامہ قہستانی کی نقل قابلِ اعتبار نہیں۔ باقی رہی علامہ شامی رحمہ اللہ کی یہ بات کہ:

إن جماعة الوتر تبع لجماعة التراويح.

اس کا تعلق نفس جماعت سے ہے، وتر کی جماعت  میں شرکت سے نہیں۔ حالانکہ ہمارے زیر بحث مسئلہ وتر کی جماعت میں شرکت سے متعلق ہے۔ نفس جماعت سے متعلق نہیں۔

لہذا آپ اس بارے میں ہماری رائے پوچھنا چاہتے ہیں۔

ہماری رائے یہ ہے کہ ذکر کردہ مسئلہ صرف علامہ طحطاوی رحمہ اللہ کی رائے پر مبنی ہے، جو کہ ہمارے خیال میں ایک کمزور مؤقف ہے۔ جس کی تفصیل آئندہ سطور میں ذکر کی جائے گی۔

اس رائے بالمقابل علامہ شامی رحمہ اللہ کی رائے یہ معلوم ہوتی ہے (جو کہ علی بن احمد رحمہ اللہ کی بھی رائے  ہے) عشاء کے فرضوں کو تنہا پڑھنے والے نے اگر تراویح کی جماعت میں شرکت کی ہو تو یہ وتر کی جماعت میں شریک ہو سکتا ہے، ورنہ نہیں۔

اس کی تفصیل یہ ہے کہ:

تنویر الابصار، در مختار، رد المحتار، تقریرات رافعی اور طحطاوی علی الدر کے حوالے سے جو عبارات آپ نے ذکر کی ہیں، ان میں چار مسائل مذکور ہیں:

1۔ تراویح کی جماعت کا مسئلہ۔

2۔ تراویح کی جماعت میں شرکت کا مسئلہ۔

3۔ وتر کی جماعت کا مسئلہ۔

4۔ وتر کی جماعت میں شرکت کا مسئلہ۔

اگرچہ ہمارے زیر بحث مسئلے کا تعلق نمبر 4 مسئلے سے ہے لیکن ایک تو اس لیے کہ ان چاروں مسائل کا آپس میں کچھ نہ کچھ تعلق ہے اور دوسرے اتماماً للبحث وتتمیماً للفائدۃ  ان چار مسائل کے بارے میں جو کچھ ان عبارات سے سمجھ  آیا اسے ذیل میں لکھ رہا ہوں۔ جس میں علامہ شامی رحمہ اللہ اور علی بن احمد رحمہ اللہ کی رائے کی ترجیح اور دیگر آراء کا مرجوح ہونا بھی ضمن آجائے گا۔  امید ہے کہ اس سے اشکالات رفع ہو جائیں گے۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved