• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

’’ابھی میرے گھر سے نکل جاؤ، تجھے طلاق ہے‘‘ دو مرتبہ کہنے کا حکم

استفتاء

کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان دین اس بارے میں کہ میاں بیوی کی شروع سے آپس میں ان بن چلتی رہی۔ شوہر کے

خاندان میں زمین وجائیداد کا جھگڑا چل رہا تھا، ایک دن شوہر نے اپنی بیوی سے زمین کے کاغذات مانگے جو ان کے پاس تھے، بیوی نے انکار کیا تو شوہر نے کہا ’’ابھی میرے گھر سے نکل جاؤ، تجھے طلاق ہے، ابھی میرے گھر سے نکل جاؤ تجھے طلاق ہے‘‘۔

شوہر اس وقت بیوی کو مار پیٹ کی وجہ سے جیل میں ہے۔ ایک صاحب جن کی بات میاں بیوی دونوں مانتے ہیں، وہ صاحب سمجھتے ہیں کہ اگر وہ ان کے درمیان صلح کراتے ہیں تو وہ دونوں مان جائیں گے۔ اب ان صاحب کا پوچھنا یہ ہے کہ کیا مذکورہ صورت میں صلح کی گنجائش باقی ہے؟ اگر گنجائش ہے تو ان کے درمیان صلح کی کوشش کی جائے۔

وضاحت مطلوب ہے:

سائل کا مذکورہ جملے ’’ابھی میرے گھر سے نکل جاؤ ‘‘ سے طلاق کی نیت تھی یا نہیں؟

جواب وضاحت:

اس جملے سے طلاق کی نیت نہیں تھی۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں شوہر کے ان الفاظ سے کہ ’’ تجھے طلاق ہے، تجھے طلاق ہے‘‘ دو طلاقیں واقع ہو گئیں ہیں جن کا حکم یہ ہے کہ تین مرتبہ ایامِ ماہواری گذرنے سے پہلے رجوع ہو سکتا ہے لیکن اگر رجوع کیے بغیر تین ماہواریاں گذر گئیں تو نکاح ختم ہو جائے گا۔ البتہ دونوں رضا مندی کے ساتھ دوبارہ نکاح کر سکتے ہیں۔

نوٹ: شوہر کا یہ جملہ ’’ابھی میرے گھر سے نکل جاؤ ‘‘  اس سے کوئی طلاق واقع نہ ہو گی کیونکہ یہ الفاظ کنایات کی پہلی قسم میں سے ہیں جن میں ہر حال میں نیت کا پایا جانا ضروری ہے اور شوہر کے قول کے مطابق ان الفاظ سے اس کی طلاق کی نیت نہ تھی۔

چنانچہ بحر الرائق (3/526) میں ہے:

و حاصل ما في الخانية أن من الكنايات ثلاث عشرة لا يعتبر فيها دلالة الحال و لا تقع إلا بالنية.

فتح القدیر (4/14) میں ہے:

و إذا طلق الرجل امرأته تطليقة رجعية أو تطليقتين فله أن يراجعها في عدتها رضيت بذلك أو لم ترض……………………………………….. فقط و الله تعالى أعلمجواب دیگر

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

در مختار میں ہے:

اذهبي و تزوجي تقع بلا نية.

اس پر علامہ شامی لکھتے ہیں:

قوله: (تقع واحدة بلا نية) لأن تزوجي قرينة…. بزازية، ويخالفه ما في شرح الجامع الصغير لقاضي خان: ولو قال اذهبي فتزوجي وقال لم أنو الطلاق لا يقع شيء لأن معناه إن أمكنك اهـ. إلا أن يفرق بين الواو والفاء وهو بعيد هنا. بحر، على أن تزوجي كناية مثل اذهبي فيحتاج إلى النية فمن أين صار قرينة على إرادة الطلاق باذهبي مع أنه مذكور بعده والقرينة لا بد أن تتقدم كما يعلم مما مر في اعتدي ثلاثاً فالأوجه ما في شرح الجامع، ولا فرق بين الواو والفاء، ويؤيده ما في الذخيرة اذهبي وتزوجي لا يقع إلا بالنية وإن نوى فهي واحدة بائنة.

در مختار کی عبارات سے معلوم ہوتا ہے کہ ہماری زیر بحث صورت میں کنایہ الفاظ سے بغیر نیت کے طلاق ہو جائے گی، کیونکہ  اذهبي فتزوجي و تزوجي میں نیت پر موقوف ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ایک تو قرینہ مؤخر ہے اور دوسرا وہ خود کنایہ ہے، جبکہ ہماری زیر بحث صورت میں قرینہ مقدم بھی ہے اور صریح بھی ہے۔ لہذا ایک طلاق ’’تجھے طلاق ہے‘‘ کے الفاظ سے ہوئی اور دوسری طلاق ’’ابھی میرے گھر سے نکل جاؤ‘‘ کے الفاظ سے ہوئی اور تیسری طلاق ’’تجھے طلاق ہے‘‘ کے الفاظ سے ہوئی۔ غرض مذکورہ صورت میں تین طلاقیں ہوئیں لہذا صلح نہیں ہو سکتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved