• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

الفاظ کنایہ سے متعلق چند اصول

استفتاء

پہلا اصول:

الفاظ کنایہ سے دیانتاً وقوعِ طلاق کے لیے نیت ضروری ہے۔

فالكنايات لا تطلق بها قضاءً إلا بنية أو دلالة الحال. قوله: (قضاء ) قيد به لأنه لا يقع ديانة بدون النية. (4/516، شامی)

دوسرا اصول:

الفاظ کنایہ سے قضاءً وقوعِ طلاق کے لیے یا نیت ضروری ہے یا دلالت حال ضروری ہے۔ یعنی اگر نیت ہو گی تو دیانتاً و قضاءً دونوں طرح طلاق واقع ہو جائی گی اور اگر صرف دلالت حال ہو گی تو صرف قضاءً طلاق واقع ہو گی، دیانتاً طلاق واقع نہ ہو گی۔

ولو وجدت دلالة الحال فوقوعه بواحد من النية أو دلالة الحال إنما هو في القضاء فقط. (4/516)

تیسرا اصول:

دلالت حال کی تین صورتیں ہیں:

i۔ حالتِ غضب۔

ii۔ مطالبۂ طلاق۔

iii۔ تقدیمِ ایقاع طلاق۔

در مختار (4/516) میں ہے:

دلالة الحال وهي حالة مذاكرة الطلاق أو الغضب. و في الشامية: قوله (وهي حالة مذاكرة الطلاق) أشار به إلى ما في النهر من أن دلالة الحال تعم دلالة المقال قال: وعلى هذا فتفسر المذاكرة بسؤال الطلاق أو تقديم الإيقاع كما في اعتدي ثلاثاً وقال قبله المذاكرة أن تسأله هي أو أجنبي الطلاق.

چوتھا اصول:

دلالت حال سے قضاءً وقوع طلاق میں کنایات کی تمام اقسام برابر ہیں، امام قدوری، امام سرخسی رحمہما اللہ کا یہی مؤقف ہے۔ جبکہ فخر الاسلام رحمہ اللہ اور دیگر مشائخ کے قول کے مطابق کنایات کی قسم اول یعنی ما یحتمل الرد میں دلالت حال کے باوجود بھی قضاءً نیت کے بغیر طلاق نہ ہو گی۔ البتہ عدم نیت پر شوہر کو اپنی بیوی کے سامنے قسم دینی ہو گی۔ اگر شوہر اپنی بیوی کے سامنے عدم نیت پر قسم دینے سے انکاری ہو تو بیوی معاملہ عدالت میں لے جائے گی اگر عدالت میں بھی قاضی کے سامنے شوہر قسم دینے سے انکاری رہے تو قاضی میاں بیوی کے درمیان تفریق کر دے گا۔

ومقتضى إطلاقه هنا كالكنز أن الكنايات كلها يقع بها الطلاق بدلالة الحال. قال في البحر: وقد تبع في ذلك القدوري والسرخسي في المبسوط؛ وخالفهما فخر الإسلام وغيره من المشايخ فقالوا: بعضها لا يقع بها إلا بالنية ا هـ وأراد بهذا بعض ما يحتمل الرد كاخرجي واذهبي وقومي. (4/516)

فخر الاسلام اور دیگر مشائخ کے قول کی توجیہ ابن کمال پاشا نے ایضاح الاصلاح میں یہ بیان کی ہے۔ کہ محتمل الرد الفاظ میں ردّ کی صلاحیت مذاکرہ طلاق کے حال کے معارض ہے لہذا مذاکرۂ طلاق احتمالِ طلاق کی ترجیح کے لیے کافی دلیل نہیں۔ بالفاظ دیگر مذاکرۂ طلاق، محتمل ردّ الفاظ میں ردّ کے احتمال کے معارض و مخالف نہیں۔

وأجاب عنه في النهر بما ذكره ابن كمال باشا في إيضاح الإصلاح بأن صلاحية هذه الصور للرد كانت معارضة لحال مذاكرة الطلاق فلم يبق الرد دليلاً. و في تقريرات الرافعي رحمه الله: (فلم يبق الرد دليلاً) عبارة النهر فلم يبق دليلاً و الضمير فيه راجع لحال المذاكرة. (4/516)

لان حالة المذاكرة تصلح للرد والتبعيد كما تصلح للطلاق دون الشتم، وألفاظ الاول كذلك، فإذا نوى بها الرد لا الطلاق فقد نوى محتمل كلامه بلا مخالفة للظاهر فتوقف الوقوع على النية، بخلاف ألفاظ الاخيرين فإنها وإن احتملت الطلاق لكنها لا تحتمل ما تحتمله المذاكرة من الرد والتبعيد، فترجح جانب الطلاق فلا يصدق في الصرف عنه، فلذا وقع بها قضاء بلا نية. (4/520)

پانچواں اصول:

جو حضرات (یعنی فخر الاسلام رحمہ اللہ اور دیگر مشائخ رحمہم اللہ) مذاکرۂ طلاق کی حالت میں بھی کنایات کی قسم اول (یعنی محتمل الرد) میں وقوعِ طلاق کو نیت پر موقوف کہتے ہیں، ان حضرات کی مراد مذاکرۂ طلاق سے صرف مطالبۂ طلاق ہے ، تقدیم ایقاع طلاق مراد نہیں، جس کی وجوہات مندرجہ ذیل ہیں:

i۔ مذاکرۂ طلاق کے باوجود محتمل الرد الفاظ سے بدون نیت طلاق واقع نہ ہونے کی اصل علت یہ ہے کہ مذاکرۂ طلاق کے باوجود محتمل الرد الفاظ سے ردِّ طلاق کا احتمال ختم نہیں ہوتا، جیسا کہ نمبر4 کے ذیل میں بیان ہوا۔ یہ علت صرف مطالبۂ طلاق کی صورت میں پائی

جاتی ہے، تقدیمِ ایقاع طلاق  کی صورت میں یہ علت نہیں پائی جاتی، کیونکہ تقدیم ِ ایقاع کی صورت میں ردِّ طلاق کا احتمال ختم ہو جاتا ہے۔

چنانچہ احسن الفتاویٰ میں ہے:

’’جملہ ثانیہ ’’تجھ کو میں نے چھوڑ دیا‘‘ سرحتک کی طرح صریح طلاق ہے لہذا بلا نیت ہی اس سے طلاق رجعی ہو گئی، جملہ ثالثہ ’’تو چلی جا‘‘ اگر بدون نیت یا بنیتِ طلاق کہا تو اس سے طلاق بائن واقع ہو گی، البتہ اگر طلاق سابق پر تفریع کی نیت سے کہا تو صرف جملہ ثانیہ سے ایک طلاق رجعی واقع ہو گی، جملہ ثالثہ  میں بدون نیت کے وقوعِ طلاق پر اگر یہ شبہ ہو کہ اسے فقہاء رحمہم اللہ نے ان الفاظ میں شمار کیا ہے جو بہر حال نیت پر موقوف ہیں ان میں مذاکرۂ طلاق کو نیت کے قائم مقام نہیں کیا، تو اس کا جواب یہ ہے کہ حالت مذاکرۂ طلاق یعنی حالتِ سوالِ طلاق میں اذھبی میں چونکہ ردّ و طلاق دونوں احتمال تھے اس لیے  نیت کی شرط لگائی گئی، مگر مسئلہ زیر نظر میں ایک طلاق دینے کے بعد ردّ کا کوئی احتمال نہیں، بلکہ اس میں تفریع و طلاقِ جدید کا احتمال ہے لہذا اگر تفریع کی نیت نہ ہو گی تو مستقل طلاق شمار ہو گی۔‘‘ (5/166)

ii۔ ’’البائن یلحق الصریح‘‘: حضرات فقہاء کرام کا مسلمہ اصول ہے۔ اس اصول میں بائن کے صریح کے ساتھ لاحق ہونے کو مطلق رکھا گیا ہے یعنی بائن طلاق خواہ صریح الفاظ سے ہو یا کنائی الفاظ سے ہو، پھر کنائی الفاظ سے ہونے کی صورت میں الفاظ کا تعلق قسم اول سے ہو یا ثانی و ثالث سے ہو، الفاظ کا تعلق قسم اول کے ساتھ ہونے کی صورت میں طلاق کی نیت ہو یا نہ ہو، بہر حال طلاق بائن طلاق  صریح کے ساتھ لاحق ہو گی خواہ یہ لحوق عدد میں ہو یا صرف وصف میں ہو۔ لحوق کے حکم کو مطلق رکھنا یعنی نیت کے ساتھ مقید نہ کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ تقدیمِ ایقاعِ طلاق کے بعد کنائی الفاظ سے وقوعِ طلاق نیت پر موقوف نہیں، خواہ الفاظ کنایہ کی پہلی قسم سے متعلق کیوں نہ ہوں۔

iii۔ فقہ کی عام عبارات میں مذاکرۂ طلاق کی تفسیر مطالبۂ طلاق سے کی گئی ہے لہذا یہ عین ممکن ہے کہ جن حضرات نے قسم اول میں مذاکرہ کے باوجود وقوعِ طلاق کو نیت پر موقوف رکھا ہے ان حضرات کے پیش نظر مذاکرۂ طلاق کی یہی تفسیر ہو (یعنی مطالبہ طلاق والی)۔  چنانچہ بدائع میں ہے:

وإن ذكر شيئا من ذلك ثم قال: ما أردت به الطلاق يدين فيما بينه وبين الله تعالى؛ لأن الله تعالى يعلم سره ونجواه. وهل يدين في القضاء؟ فالحال لا يخلو إما إن كانت حالة الرضا وابتدأ الزوج بالطلاق "وإما” إذا كانت حالة مذاكرة الطلاق وسؤاله "وإما” إن كانت حالة الغضب والخصومة …. وإن كانت حال مذاكرة الطلاق وسؤاله أو حالة الغضب والخصومة فقد قالوا: إن الكنايات أقسام ثلاثة.

اس عبارت میں ’’مذاکرۂ طلاق‘‘ کی تفسیر سؤالِ طلاق سے کی ہے اور اسی مذاکرۂ کے بعد قسم اول میں بدونِ نیت عدم وقوع کا حکم لگایا ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرات فقہائے کرام کے پیش نظر یہی مذاکرۂ طلاق تھا جس کے ہوتے ہوئے بھی طلاق نیت پر موقوف تھی۔ عدمِ وقوع کی علت سے بھی اسی کی تائید ہوتی ہے۔

iv۔ ’’فقہ اسلامی‘‘ میں بھی حضرت مفتی ڈاکٹر عبد الواحد صاحب دامت برکاتہم العالیہ نے مذاکرۂ طلاق کی تفسیر مطالبۂ طلاق سے کی ہے۔ چنانچہ ’’فقہ اسلامی‘‘ میں ہے:

’’اسی طرح مذاکرۂ طلاق میں یعنی طلاق کے مطالبہ پر کبھی تو شوہر طلاق دیدیتا ہے اور کبھی مسترد کر دیتا ہے۔ اسی طرح کنایہ کے الفاظ کی تین قسمیں بنتی ہیں۔ پہلی قسم: وہ الفاظ جن میں طلاق کے معنیٰ کا بھی احتمال ہے اور طلاق کے مطالبہ کو مسترد کرنے کے معنیٰ کا بھی احتمال ہے مثلاً کہا تو نکل جا یعنی تو نکل جا کیونکہ میں نے تجھے طلاق دیدی ہے، یا تو نکل جا اور مجھ سے طلاق کا مطالبہ نہ کر۔‘‘ (ص: 124)

v۔ وفي البحر عن شرح قاضيخان: لو قال استتري مني خرج عن كونه كناية اه. وهل المراد عدم الوقوع به أصلا أو أنه يقع بلا نية؟ والظاهر الثاني، وعليه فهل الواقع بائن أو رجعي. والظاهر البائن، لكون قوله: مني قرينة لفظية على إرادة الطلاق بمنزلة المذاكرة.تأمل. (4/517)

اس عبارت سے معلوم ہوا کہ کلام میں اگر کوئی ایسا لفظی قرینہ ہو جو محتمل الرد الفاظ سے ردِّ طلاق کے احتمال کی نفی کر دے تو قضاءً بغیر نیت کے طلاق ہو جائے گی۔ اور ظاہر ہے کہ تقدیم ایقاعِ  ’’ استتري مني‘‘ میں لفظ ’’مني‘‘ سے ردّ طلاق میں زیادہ صریح قرینہ ہے۔

چھٹا اصول:

بعض عبارات سے معلوم ہوتا ہے جس قرینے سے کنایات میں احتمالِ طلاق راجح اور متعین ہوتا ہے اس قرینے کا کنائی الفاظ سے مقدم ہونا ضروری ہے۔ چنانچہ اگر قرینہ متاخر ہوا تو وہ الفاظ کنایات میں احتمال طلاق کی ترجیح کے لیے کافی نہ ہو گا۔ چنانچہ فتاویٰ شامی میں ہے:

(قال اعتدي ثلاثا ونوى بالأول طلاقا وبالباقي حيضاً صدق) قضاء لنيته حقيقة كلامه (وإن لم ينو به) أي بالباقي (شيئا ًفثلاث) لدلالة الحال بنية الأول؛ حتى لو نوى بالثاني فقط فثنتان أو بالثالث فواحدة. قوله: (لو نوى بالثاني فقط) أي نوى به الطلاق ولم ينو بغيره شيئا فثنتان: أي يقع به واحدة، وكذا بالثالث أخرى وإن لم ينو به لدلالة الحال بإيقاع الثاني، ولا يقع بالأول شيء لأنه لم ينو به ودلالة الحال وجدت بعده. (4/525)

أيضاً:

والقرينة لا بد أن تتقدم كما يعلم مما مر في اعتدى ثلاثاً. (4/539)

جبکہ بعض عبارات سے معلوم ہوتا ہے کہ قرینہ متاخرہ سے بھی طلاق یا غیر طلاق کا احتمال متعین ہو جاتا ہے۔ چنانچہ بدائع میں ہے:

ولو جمع بين ما يصلح للطلاق وبين ما لا يصلح له بأن قال لها: اذهبي وكلي, أو قال اذهبي وبيعي الثوب، ونوى الطلاق بقوله اذهبي ذكر في اختلاف زفر ويعقوب رحمهما الله أن في قول أبي يوسف رحمه الله: لا يكون طلاقاً وفي قول زفر رحمه الله يكون طلاقاً. وجه قول زفر رحمه الله أنه ذكر لفظين: أحدهما يحتمل الطلاق والآخر لا يحتمله فيلغو ما لا يحتمله ويصح ما يحتمله، ولأبي يوسف رحمه الله أن قوله: اذهبي مقرونا بقوله كلي أو بيعي لا يحتمل الطلاق؛ لأن معناه اذهبي لتأكلي الطعام واذهبي لتبيعي الثوب والذهاب للأكل والبيع لا يحتمل الطلاق فلا تعمل نيته. (3/172)

فتاویٰ شامی (4/517) میں ہے:

(فنحو اخرجي واذهبي وقومي ) أي من هذا المكان لينقطع الشر فيكون ردًّا أو لأنه طلقها فيكون جواباً. ولو قال [اذهبي] فبيعي الثوب لا يقع وإن نوى عند أبي يوسف رحمه الله لأن معناه عرفاً لأجل البيع فكان صريحه خلاف المنوي ، ووافقه زفررحمه الله. نهر

ايضاً:

وفي البحر عن شرح قاضي خان: لو قال ”استتري مني“ خرج عن كونه كناية. اهـ وهل المراد عدم الوقوع به أصلاً أو أنه يقع بلا نية؟ والظاهر الثاني ، وعليه فهل الواقع بائن أو رجعي والظاهر البائن لكون قوله ”مني“ قرينة لفظية على إرادة الطلاق بمنزلة المذاكرة. تأمل.

ان عبارات سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ قرینہ لفظیہ مؤخر بھی ہو تو وہ احد الاحتمالین (یعنی طلاق یا ردِّ طلاق) کی تعیین کے لیے کافی ہے۔

باقی رہی ’’اعتدی‘‘ والی عبارت کہ اس میں قرینہ مؤخرہ کو احد الاحتمالین کی تعیین و ترجیح کے لیے کافی نہیں سمجھا گیا، تو اس کا جواب یہ ہے کہ وہاں قرینہ صریح نہیں ہے بلکہ نیت کرنے سے قرینہ بنا ہے، جبکہ ذکر کردہ صورتوں میں قرینہ صریح ہے اس کا قرینہ ہونا نیت پر موقوف نہیں ہے، فافترقا۔

مندرجہ بالا تفصیل کا خلاصہ یہ ہے کہ مذاکرۂ طلاق کی صورت میں کنایہ کی قسم اول یعنی محتمل الرد الفاظ سے قضاءً وقوع طلاق میں اختلاف ہے۔ امام قدوری اور امام سرخسی رحمہما اللہ کا قول وقوع کا ہے جبکہ فخر الاسلام اور دیگر مشائخ رحمہم اللہ کا قول عدم وقوع کا ہے۔ عدم وقوع کی علت یہ ہے کہ مذاکرۂ طلاق کی صورت میں کنایہ کی قسم اول یعنی محتمل الرد الفاظ میں ردّ طلاق کا احتمال ظاہر کے مخالف نہیں۔ چنانچہ جن صورتوں میں یہ علت مفقود ہو گی یعنی ردّ طلاق کا احتمال ظاہر کے مخالف ہو گا وہاں قضاءً بغیر نیت کے بھی طلاق ہو جائے گی جیسا کہ نمبر 5 اور 6  کے تحت ذکر ہوا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

خلاصہ :

اقول: ذکر کردہ تفصیل اوراس کے خلاصے کے پیش نظر بندہ یہ کہتا ہے کہ مذاکرۂ طلاق کی دو صورتیں ہیں جیسا کہ نمبر 5 کے تحت ذکر ہوا۔ ان دو صورتوں میں سے پہلی صورت یعنی سوالِ طلاق کی صورت میں تو واقعتاً ردّ طلاق کا احتمال ظاہر کے مخالف نہیں۔ لیکن دوسری صورت یعنی تقدیم ایقاعِ طلاق کی صورت میں بھی ردّ طلاق کا احتمال ظاہر کے مخالف نہیں؟ یہ بات ناقابل تسلیم ہے۔ کیونکہ ردّ اور ایقاع میں منافات ہے۔ اگر اس بات کو تسلیم کر لیا جائے کہ مذاکرۂ طلاق کی پہلی صورت میں مذاکرۂ طلاق کے باوجود بھی قضاءً بغیر نیت کے طلاق واقع نہ ہو گی اور دوسری صورت میں قضاء ً بغیر نیت کے طلاق واقع ہو جائے گی تو پھر امام قدوری رحمہ اللہ اور امام سرخسی رحمہ اللہ اور فخر الاسلام و دیگر مشائخ رحمہم اللہ کے درمیان اختلاف کی تطبیق بھی بآسانی ممکن ہے کہ جو حضرات وقوع کے قائل ہیں ان کا قول دوسری صورت پر محمول ہے اور جو حضرات عدم وقوع کے قائل ہیں ان کا قول پہلی صورت پر محمول ہے۔

اگر فلاں عورت سے میں نے دس دن کے اندر اندر نکاح نہیں کیا تو تجھے تین طلاق ہیں

کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک آدمی نے اپنی بیوی سے کہا کہ ’’اگر فلاں عورت سے میں نے دس دن کے اندر اندر نکاح نہیں کیا تو تجھے تین طلاقیں ہیں‘‘۔ لیکن وہ عورت جس سے نکاح کرنے کو معلق کیا ہے ابھی عدت میں ہے۔ لہذا عدت میں تو نکاح کر نہیں سکتا تو آیا طلاق واقع ہو گئی کہ نہیں؟

وضاحت مطلوب ہے:

1۔ عدت کونسی ہے؟

2۔ کیا دس دن کے اندر عدت کے ختم ہونے کا امکان تھا؟

جواب وضاحت:

1۔ عدت سے مراد طلاق کی عدت ہے۔

2۔  دس دن کے اندر عدت ختم ہونے کا امکان نہیں تھا کیونکہ جس دن طلاق ہوئی اسی دن طلاق کے بعد یہ قسم اٹھائی ہے۔ اور عدت بھی حیض والی ہے۔ نيز  یہ کہ دس دن کے اندر مذکورہ آدمی نے نکاح بھی نہیں کیا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

سوال میں جو صورت ذکر کی گئی ہے اس کے بارے میں کافی تلاش کے باوجود کوئی صریح جزئیہ نہیں مل سکا۔ البتہ کچھ ملتی جلتی جزئیات ملی ہیں جن میں سے بعض سے معلوم ہوتا ہے کہ  مذکورہ صورت میں تین طلاقیں ہو جائیں گی، اور بعض سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ صورت میں طلاق نہ ہو گی۔

جن جزئیات سے معلوم ہوتا ہے کہ طلاق ہو جائے گی وہ یہ ہیں:

1۔  بزازیہ علی ہامش الہندیہ (4/276) میں ہے:

[حلف]لا يتزوج فلانة و لها زوج فهذا على النكاح الصحيح، و لو زاد فهذا على الفاسد.

  1. محيط برہانی (9/76) میں ہے:

ولو حلف ليتزوجن هذه المرأة اليوم ولها زوج فهذا على النكاح الفاسد، إذ لا يتصور العقد الصحيح فيها اليوم فينصرف يمينه إلى النكاح الفاسد حتى لو أطلق الكلام ولم يقيده باليوم فحلف ليتزوجن هذه المرأة كانت يمينه على النكاح الصحيح، لأنه إذا لم يقيد يمينه باليوم كان يمينه على الزواج في العمر، والتزوج الصحيح فيها في العمر متصور فلا ينصرف يمينه إلى النكاح الفاسد.

ان دونوں حوالوں سے معلوم ہوا کہ اگر کسی صورت میں نکاح صحیح ممکن نہ ہو تو یمین نکاح فاسد پر محمول ہوتی ہے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ بندہ کے خیال میں مذکورہ حوالوں میں جو صورت بیان کی گئی ہے یعنی یمین کو ’’الیوم‘‘ کے ساتھ مقید کرنے کی، اس صورت میں نکاحِ صحیح اگرچہ مستبعد تو ہو سکتا ہے لیکن ناممکن نہیں، کیونکہ ممکن ہے کہ یہ عورت حاملہ ہو اور شوہر اسے طلاق دیدے یا فوت ہو جائے اور طلاق یا وفات کے فوراً بعد وضع حمل ہو جائے اور اس صورت میں اسی دن نکاح صحیح ممکن ہے۔ یا یہ عورت منکوحہ ہو اور ابھی دخول نہ ہوا اور شوہر قبل الدخول طلاق دیدے تو اس صورت میں بھی اسی دن نکاح ممکن ہے۔

3۔ فتاویٰ عالمگیری (2/118) میں ہے:

ولو قال لأخته من الرضاعة أو لامرأة لا يحل له نكاحها أبداً و قد علم ذلك إن تزوجتك فعبدي حر فتزوجها حنث كذا في الجامع الصغير.

اس حوالے سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ اگر کسی صورت میں نکاح صحیح ممکن نہ ہو تو یمین نکاح فاسد پر محمول ہو گی۔

ہماری مذکورہ صورت میں بھی نکاح صحیح ممکن نہیں، لہذا یمین نکاح فاسد پر محمول ہو گی اور حالف نے مذکورہ صورت میں نکاح فاسد بھی نہیں کیا لہذا حالف کی بیوی پر تین طلاقیں ہو گئیں جن کی وجہ سے نکاح ختم ہو گیا اور بیوی شوہر پر حرام  ہو گئی  لہذا اب نہ صلح ہو سکتی ہے اور نہ رجوع ہو سکتا ہے۔

جن حوالوں سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ صورت میں طلاق نہ ہو گی وہ یہ ہیں:

1۔  در مختار (5/619) میں ہے:

إن لم تصل الصبح غداً فأنت كذا، لا يحنث بحيضها بكرة في الأصح.

اس حوالے میں ذکر کردہ صورت میں حانث نہ ہونے کی وجہ سے عدم امکان بِر ہے اور یہ عدم امکان، عقلی نہیں ہے بلکہ شرعی ہے۔ جس سے معلوم ہوا کہ انعقادِ یمین کے لیے امکان شرعی بھی ضروری ہے۔ اس کی [یعنی انعقادِ یمین کے لیے امکان شرعی بھی ضروری ہے] مزید تائید مندرجہ ذیل عبارات سے ہوتی ہے:

1۔  فتح القدیر (4/453) میں ہے:

لو قال لأصومن هذا اليوم وكان بعد أن أكل أو بعد الزوال أو قال لأمرأته إن لم تصلى اليوم فأنت طالق فحاضت من ساعتها أو بعد ما صلت ركعة صحت اليمين وطلقت فى الحال …. لأن اليمين تعتمد التصور والصوم بعد الزوال والأكل متصور كما فى صورة الناسى وكذا الصلاة من الحائض لأن درور الدم لا يمنع كما فى المستحاضة إلا أنها لم تشرع مع درور هو حيض….. والمسئلتان مشكلتان على قول أبى حنيفة ومحمد لأن التصور شرعاً منتف وكونه ممكنا فى صورة أخرى وهى صورة النسيان والأستحاضة لا يفيد فإنه حيث كان فى صورة الحلف مستحيلا شرعا لم يتصور الفعل المحلوف عليه لأنه لم يحلف إلا على الصوم والصلاة الشرعيين.

مذکورہ حوالے میں خط کشیدہ عبارت سے معلوم ہوا کہ انعقاد یمین کے لیے امکان شرعی بھی ضروری ہے ’’ لأنه لم يحلف إلا على الصوم والصلاة الشرعيين ‘‘ سے معلوم ہوا کہ امکان شرعی کی شرط کے پیچھے در اصل حالف کا ذہن ہے کہ وہ شرعی نماز روزہ کو پیشِ نظر رکھ کر ہی حلف اٹھاتا ہے۔

نوٹ: جس طرح یمین میں نماز اور روزہ سے شرعی نماز اور روزہ مراد ہو گا اور شرعی نماز، روزہ ممکن نہ ہونے کی صورت میں یمین منعقد نہ ہو گی اسی طرح یمین میں نکاح سے بھی شرعی نکاح مراد ہو گا اور شرعی نکاح ناممکن ہونے کی صورت میں یمین منعقد نہ ہو گی۔

چنانچہ بزازیہ علی ہامش الہندیہ (276/4) میں ہے:

و اختلفوا في أن النكاح الفاسد منعقد لا على وصف الكمال أو غير منعقد أصلاً؟ قيل ينعقد مقتضى الإقدام على الوطء ضرورة أن لا يضيع ماء الزوج فإذا جاءت بالولد يظهر في حق الحنث لعدم الضرورة فلو حلف على الماضي أنه لم يتزوج فهذا على الجائز و الفاسد بخلاف المستقبل و الصلاة و الصوم نظير النكاح و يحنث بالفاسد في الشراء و البيع.

بزازیہ کی مذکورہ بالا عبارت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نکاح فاسد اصلاً منعقد نہیں ہوتا البتہ ضرورتاً و اقتضاءً ثبوت نسب کے حق میں منعقد ہوتا ہے۔ یمین کے حق میں منعقد ماننے کی ضرورت نہیں، لہذا یمین میں عدم انعقاد ہی اصل ہو گا۔

2۔ فتاوٰی شامی (5/620) میں ہے:

أن المقصود العجز و عدم التصور شرعاً لا عرفاً و إلا انتقض الأصل المار في كثير من المسائل فافهم.

ہماری مذکورہ صورت میں بھی نکاحِ شرعی معدوم ہے لہذا نہ یمین منعقد ہوئی اور نہ طلاق ہوئی۔

نوٹ: ’’إن لم تصل الصبح غداً فأنت كذا، لا يحنث بحيضها بكرة في الأصح‘‘ پر علامہ شامی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

ثم ما ذكره من تصحيح عدم الحنث عزاه في البحر إلى المبتغي لكن ذكر في باب اليمين بالبيع و الشراء تصحيح الحنث و عليه مشى المصنف هناك. (5/619)

علامہ شامی رحمہ اللہ کی عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ ’’إن لم تصل الصبح ۔۔۔ الخ‘‘ میں حنث اور عدم حنث دونوں منقول ہیں۔ تاہم ابھی تک کسی عبارت میں صراحتاً یہ بات نہیں مل سکی کہ انعقاد یمین کے لیے امکان شرعی ضروری نہیں۔

ہماری مذکورہ صورت میں بھی چونکہ شرعاً نکاح ممکن نہیں لہذا نہ یمین منعقد ہو گی اور نہ ہی نکاح نہ کرنے سے طلاق واقع ہو گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved