• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

دل میں تخصیص کی نیت کرنا

استفتاء

السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں علماء کرام اور مفتیان دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک خاوند نے اپنی بیوی کو بولا کہ ’’تم نے میرے دوستوں کو کال کر کے میرے بارے میں پوچھا، چاہے میں کتنے دن گھر نہ آؤں یا مجھے کچھ بھی ہو جائے تم ان کو کال کر کے نہیں پوچھو گی، اگر پوچھا تو تمہیں خود بخود طلا ہو جائے گی‘‘۔ اب یہاں پر شوہر کی نیت میں دل میں وہ کچھ دوست تھے جو پارٹیز والے ہیں، جو چرس وغیرہ لیتے تھے وہ دوست تھے کہ وہ غلط غائپ کے دوست تھے تو بیوی ان کو کسی بھی صورت میں کال مت کرے۔ اب کچھ یوں ہوا کہ دوبارہ لڑائی ہوئی دونوں کے بیچ میں اور ان کی شادی جس دوست کے ذریعے ہوئی تھی وہ شوہر کا دوست اور بزنس پارٹنر بھی ہے، اور بیوی کے رشتے دار بھی۔ انہوں نے شادی کروائی تھی اور ان کا گھر میں آنا جانا بھی تھا، ان کے اب صلح کروانے کے لیے کالی آئی بیوی کو کہ بھابھی کیا مسئلہ ہے، پھر ان کو واپس کال بھی بیوی نے کی کہ اپنے شوہر کی کچھ چیزیں واپس بھجوانے کے لیے بھائی یہ چیز ان کی میرے پاس ہیں یہ آپ واپس ان کو مجھ سے آکے دے دیں۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ شوہر نے جو الفاظ بولے تھے کہ ’’میرے دوستوں کو کال مت کرنا‘‘ میرا پوچھنے کے لیے وہ یہاں پر دیکھا جائے گا لفظ ’’دوستوں‘‘ یا شوہر کی نیت دیکھی جائے گی جو اس وقت ان کے دل میں تھی دوست پارٹی والے چار یا پانچ دوست جن سے آج تک نہ بیوی کو ملوایا تھا نہ ان کا گھر میں آنا جانا تھا، نہ ملوانا پسند تھا؟ بس اس طلاق میں صرف ان دوستوں سے رابطہ کرنے پر طلاق واقع ہو گی؟ یا لفظ ’’دوستوں‘‘ کی وجہ سے سب دوست اس طلاق میں آتے ہیں؟ اور وہ پہلے دو طلاق تک الگ کر کے دے چکا ہے۔ یہ تیسری طلاق شرطیہ دی تھی۔ پلیز مفتی صاحب جلد از جلد اس کا جواب دیں۔

وضاحت: شوہر کئی دن سے گھر نہیں آیا تھا، تو بیوی نے اس کے ایک دوست کو فون کر کے پوچھا تھا۔ شوہر کو بیوی کا ان دوستوں کو فون کر کے پوچھنا مناسب نہیں لگا کیونکہ وہ دوست چرس وغیرہ پیتے تھے۔

وضاحت مطلوب ہے:

1۔ یہ تحریر خود شوہر کی ہے یا کسی اور کی؟

2۔ اگر یہ تحریر کسی اور کی ہے تو شوہر خود اپنی تحریر بھیجے۔

3۔ پہلے دو الگ الگ طلاق میں جو الفاظ استعمال کیے تھے وہ تحریر کریں۔

4۔ جب بیوی نے مذکورہ دوست کو فون کیا اس سے شوہر کے بارے میں پوچھا تھا یا نہیں۔

جواب: وضاحت:

1۔2۔ بیوی نے تحریر لکھ کر شوہر کو پڑھوائی ہے اور شوہر نے مکمل طور پر تسلیم کی ہے۔

3۔ پہلی طلاق منہ پر بولی تھی کہ ’’میں تمہیں طلاق دیتا ہوں‘‘۔ دوسری مرتبہ میسج میں لکھ کر بھیجا تھا کہ ’’میں تمہیں طلاق دیتا ہوں‘‘ اور شوہر دوسری طلاق کو بھی تسلیم کرتا ہے کہ اس نے دی ہے۔

4۔ نہیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ مسئلہ میں شوہر کے الفاظ یہ ہیں:

’’تم نے اگر میرے دوستوں کو کال کر کے میرے بارے میں پوچھا، چاہے میں کتنے دن گھر نہ آؤوں یا مجھے کچھ بھی ہو جائے، تم ان کو کال کر کے نہیں پوچھو گی اگر پوچھا تو تمہیں خود بخود طلاق ہو جائے گی۔‘‘ جبکہ اس واقعہ می بیوی نے دوست کو فون کر کے شوہر کے بارے میں نہیں پوچھا اس لیے فی الوقت اس مسئلہ میں دوستوں یا کسی اور حوالے سے مزید تحقیق ضروری نہیں ہے اور بیوی کو طلاق واقع نہیں ہوئی۔

(اگر اس واقعہ سے ہٹ کر مسئلہ پوچھنا مقصود ہو تو دوبارہ لکھ بھیجیں، اور اس کے لیے وقت بھی درکار ہو گا۔)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved