• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

جس مسجد میں امام و مؤذن نہ ہو اس میں اکیلے نماز پڑھنے والے کے لیے اذان کا حکم

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ آبادی سے باہر نہر کے دوسری طرف ایک مسجد ہے جس کے آس پاس دو تین گھر ہیں۔  جس میں نہ تو باقاعدہ کوئی امام و مؤذن مقرر ہیں، اور نہ ہی اس میں باقاعدہ جماعت ہوتی ہے کبھی کبھار کچھ لوگ گھومنے پھرنے اس طرف چلے جائیں اور ان  میں کوئی ایک جماعت کروانے کے لائق ہو تو جماعت کروا لیتے ہیں ورنہ اکیلے اکیلے نماز پڑھ لیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب اس مسجد  میں وہاں کا رہائشی یا باہر سے آنے والا اکیلے نماز پڑھے تو کیا اکیلے نماز پڑھنے کے لیے اذان دے سکتے ہیں یا نہیں؟

اسی طرح ایک دوسری مسجد جو آبادی سے تقریباً ایک کلو میٹر کے فاصلے پر دو تین گھروں کے ساتھ بنی ہوئی ہے اس میں بھی یہی صورت در پیش ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں اصل تو یہ ہے کہ ان مساجد میں باقاعدہ پنج وقتہ باجماعت نماز کا اہتمام کیا جائے۔ اگر یہ ممکن نہ ہو تو تب بھی مسجد کا حق یہ ہے کہ مسجد جا کر اذان و اقامت کہہ کر نماز پڑھی جائے چاہے اکیلے ہی کیوں نہ ہو۔ لہذا مذکور صورت میں اگر وہاں کا رہائشی یا باہر سے آنے  والا آدمی اس مسجد میں  نماز پڑھنا چاہے تو اذان و اقامت کہہ کر نماز پڑھے تاکہ مسجد آباد رہے اور مسجد کا حق ادا ہو۔

فتاویٰ شامی (523/2) میں ہے:

قوله: (ومسجد حيه أفضل من الجامع) أي الذي جماعته أكثر من مسجد الحي، وهذا أحد القولين حكاهما في القنية، والثاني العكس؛ وما هنا جزم به في شرح المنية كما مر، وكذا في المصفى والخانية، بل في الخانية: لو لم يكن لمسجد منزله مؤذن فإنه يذهب إليه ويؤذن فيه ويصلي ولو كان وحده لأن له حقا عليه فيؤديه.

فتاویٰ قاضی خان علیٰ ھامش الھندیہ (67/1) میں ہے:

مؤذن مسجد لا يحضر مسجده أحد قالوا يؤذن هو و يقيم و يصلي وحده، فذلك أحب من أن يصلي في مسجد آخر.

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved