• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

کتاب روحانی انٹرنیٹ اور تفسیر محمدی کے متعلق

استفتاء

کیا فرماتے ہیں حضرات مفتیان کرام درج ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ

لاہور کے علاقے گلشن راوی کے قریب ایک مسجد (نوری مسجد) کے پیش امام حافظ عبد العزیز صاحب ہیں۔ حافظ صاحب ضعیف العمر ہیں۔ حافظ صاحب کا دیرینہ مشغلہ عملیات اور فوت شدگان کی ارواح سے ملاقات ہے۔ جس سے وہ علاقے کے عوام میں معروف ہیں۔

چند سالوں سے حافظ صاحب نے ایک تفسیر لکھنی شروع کی ہے جسے وہ ’’تفسیر محمدی‘‘ بتاتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ یہ تفسیر انہیں خود حضور ﷺ کشف کی حالت میں لکھوا رہے ہیں۔ حافظ صاحب  مذکور کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ ان کے ایک شاگرد صوفی عمران صاحب کو حضور ﷺ انگریزی زبان میں تفسیر لکھوا رہے ہیں۔

حافظ صاحب مذکور نے تفسیر کے علاوہ ایک کتاب ’’روحانی انٹرنیٹ‘‘ کے نام سے لکھی ہے جس کے اندر حضور ﷺ کی طرف منسوب کئی مضامین ہیں جو حافظ صاحب کے بقول حضور ﷺ نے انہیں حالت کشف میں لکھوائے ہیں۔ اور ان مضامین کا انداز تعبیر و تخاطب ایسے ہے جیسے صرف مفہوم ہی نہیں بلکہ لفظ لفظ حضور ﷺ کا ہے۔

ان مضامین میں سے متعدد میں مذکورہ بالا ’’تفسیر محمدی‘‘ کی ضرورت، فضائل اور اعتراضات کے جوابات اور فوت شدہ اکابر کی ارواح سے رابطہ کر کے تائیدات ذکر کیے گئے ہیں۔

آپ مفتیان کرام کی خدمت میں کتاب مذکور کے چند اقتباسات بمعہ اصل صفحات کی  فوٹو کاپی کے ارسال کیے جارہے ہیں (اصل کتاب کا ایک نسخہ دفتر مجلس تحفظ ختم نبوت لاہور میں موجود ہے) آپ حضرات سے ساری صورت حال کے پیشِ نظر درج ذیل سوالات کے جوابات مطلوب ہیں:

1۔ کیا مذکورہ ’’تفسیر محمدی‘‘ کی نسبت حضور ﷺ کی طرف کرنا درست ہے؟ اور عامۃ الناس کو اس کا مطالعہ کرنا درست ہے؟

2۔ کیا قرآن کی تفسیر کرنے کے لیے کشف حجت ہے؟

3۔ کیا مذکورہ تفسیر حضور ﷺ کی گستاخی کے زمرے میں آتی ہے کہ جس کی بنیاد پر حکومت وقت سے اس کو روکنے کی درخواست کی جائے۔

4۔ کیا حافظ صاحب مذکور امام بننے کے اور دم درود کرنے کے اہل رہے ہیں کہ لوگ ان سے علاج کروائیں۔

اقتباسات

1۔ یہ ہے اللہ کا انعام و اکرام، اپنے خاص خاص بندے پر دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ اللہ کے حکم سے جن و انس، مومنین اور فرشتے ’’حافظ عبد العزیز‘‘ کی ایک آواز پر ’’لبیک‘‘ کہتے ہیں۔ یہ سب اس کی عقیدۂ توحید پر محنت کا صلہ ہے جو کاوشیں وہ شرک و بدعت کے خاتمے کے لیے کر رہا ہے، اللہ کے ہاں قبول و مقبول ہیں۔

کوئی گنجائش نہیں ہے دین میں مشرکین اور منافقین سے مصالحت کرنے کی، یہی اللہ  کا حکم ہے۔ کروڑوں، اربوں بلکہ کھربوں جنات کو حکم اللہ کے سے مسلمان کر چکا ہے ’’حافظ عبد العزیز‘‘ اور اتنوں ہی کو جہنم رسید بھی کر چکا ہے، جو سرکش ہے اور اللہ پر ایمان نہ لائے۔ اب اس کے خاص شاگرد بھی اسی راستے پر گامزن ہیں، اللہ قبول و مقبول فرمائے۔ (روحانی انٹرنیٹ:  ص: 265)

2۔ تمام علماء، مفتی حضرات اور عاملین کو ’’حافظ عبد العزیز‘‘ کی صحبت سے استفادہ اٹھانا چاہیے تاکہ آنے والے وقت میں عالموں میں تکبر کا خاتمہ ہو سکے۔ چودہویں صدی کے علماء میں کثرت تکبر والوں کی ہے۔ جن کے پاس اپنے مشاغل کے علاوہ تفسیر محمدی کا مطالعہ کرنے کا وقت نہیں ہے۔ تمام علماء کرام تفسیر محمدی کا بغور مطالعہ کریں اور اس کی حمایت کریں، انشاء اللہ نفع ہو گا۔ (روحانی انٹرنیٹ:  ص: 266)

3۔ ’’تفسیر محمدی‘‘ کے ضمن میں ہمارا کام ہے، بتانا اور پہنچانا۔ منانا ہمارا کام نہیں۔ لہذا جس کو کسی قسم کا کوئی اعتراض ہو، وہ تحریراً  ارسال کر دے، انشاء اللہ اعتراضات کا نام و نشان نہ رہے گا، کیونکہ یہ تفسیر عالم برزخ میں لکھوائی جا رہی ہے، توحیدی ہے، اس لیے غلطی کی گنجائش نہیں ہے۔ ہاں چھپائی یا ہیجوں کی غلطیاں ہو سکتی ہیں، مگر باقی ہر قسم کی غلطی سے پاک ہے۔ انشاء اللہ اللہ قبول فرمائے۔ آمین (روحانی انٹرنیٹ:  ص: 297)

4۔ جو سوال یا مسئلہ میرے (محمد ﷺ کے) علم میں نہ ہوتا، وہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے براہ راست رہنمائی لے لیا کرتا۔ چنانچہ بوقت ضرورت اگر کوئی نت نئے گناہ ایجاد ہوئے ہیں یا مسائل پیدا ہوئے ہیں تو ان کے لیے علمائے حق استخارہ، کشف یا اجتہاد کا ہاتھ پکڑ کر آسانی سے حل کر سکتے ہیں۔ آج کے اس دور کی ضرورت کے مطابق جو ذمہ اللہ کے حکم سے لگا ہے، وہ یہ ہے کہ ’’تفسیر محمدی‘‘ کو لکھوایا جائے اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے خود انتخاب فرمایا ہے کہ کون سا کام کس سے لیا جائے؟ (روحانی انٹرنیٹ:  ص298)

5۔ اہل کشف: آج بھی یہ کام حکم اللہ کے سے لیا جا رہا ہے اور تاقیامت یہ کام اللہ سبحانہ و تعالیٰ جس سے چاہے گا لیتا رہے گا اور ہر دور میں جدید تقاضوں اور نئے نئے مسائل کے حل اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے کلام سے کھول کھول کر حکم اللہ کے سے مراقبے اور کشف میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ پیش فرماتا رہے گا۔ (روحانی انٹرنیٹ: ص: 113)

6۔ اور اب پوری دنیا کے بڑے بڑے مصنفوں اور ادیبوں اور شاعروں اور فلسفہ دانوں کو کہتا ہوں، میں (محمد ﷺ) کہ چلو لکھو کچھ ایسا کہ جو اس تفسیر محمدی کے دس سپاروں میں سے کسی ایک آیت کی تفسیر کا مقابلہ بھی کر سکے۔ نہیں لکھ سکے گا کوئی ساری رات جاگ کر بھی نہ لکھ پاؤ گے۔

اور اللہ کے حکم سے میرے (محمد ﷺ کے) شاگرد میری (محمد ﷺ کی) رہنمائی میں منٹوں میں لکھ لیتے ہیں، وہ بھی بغیر غلطی کے۔ سبحان اللہ! ہاں یہ ہے کشف، یہ ہے مراقبہ اللہ کے حکم سے۔ (روحانی انٹرنیٹ:  ص: 261)

7۔ لیکن تفسیر محمدی کا کام اللہ کے حکم سے کبھی رکنے والا نہیں ہے۔ یہ تفسیر تو اب اللہ کے حکم و فضل سے مکمل ہو کر ہی رہے گی، حتیٰ کہ تفسیر لکھنے والوں کو پھانسی چڑھا دو گے تب بھی یہ تفسیر لکھنے کا کام اللہ کسی اور سے لے گا، کیونکہ وہ قدرت والا مہربان ہے ، کوئی کام ادھورہ نہیں چھوڑتا ۔۔۔۔۔۔

لہذا کشف اور مراقبے کو یوں ہی یہود و کفار کے سپر نہیں کیا جا سکتا اور آج کے دور میں ضرورت کے مطابق ایک ایسی جامع اور آسان تفسیر کی ضرورت بھی تھی کہ جس کی بدولت اللہ تعالیٰ کے حکم سے لوگوں کو گمراہی سے نکالا جائے۔۔۔۔۔۔

تمہیں محض اللہ اور اس کے رسول ﷺ یعنی میری (محمد ﷺ کی) بات ماننی ہے۔ ظاہر ہے اور کسی کا قول ہے جو ہمارے اطاعت سے بڑھ کر ہے؟ اللہ سے دعا جاری رکھو، انشاء اللہ اگر اللہ کے کلام کا نور پھیلانے والوں کے راستے میں جو روڑے اٹکائے گا، وہ اللہ کے حکم سے منہ کی کھائے گا۔ (روحانی انٹرنیٹ:  ص:258)

8۔ اے کشفی مضامین اور تفسیر محمدی پر حملہ کرنے والو! تنقید کرنے والو! میری (محمد ﷺ) ہی کی بات ٹھکرانے والے بن رہے ہو۔ جاؤ پہلے یہود و نصاریٰ سے ٹکراؤ، قادیانیوں سے مناظرے کرو اور علماء حق کا ساتھ دو، پھر تمہیں پتا چلے گا کہ تنقید کا حلوہ کھا کھا کر تمہارے دانت لوہے کے چنے چبانے کے قابل نہ رہے۔

اے ظالمو! اللہ کا خوف کھاؤ، یعنی میرے (محمد ﷺ کے) شاگرد تمہاری بات مان لیں اور میری (محمد ﷺ کی) نافرمانی کر لیں۔ اس کا مطلب ہے، تم عنقریب مرتد ہونے والے ہو، اگرسچی توجہ نہ کی تو۔ (روحانی انٹرنیٹ:  ص: 260)

9۔ اسی اللہ کی قسم جس کے قبضے میں میری (محمد ﷺ) جان ہے کہ مولانا الیاس (رحمۃ اللہ علیہ ) کو سب سے پہلے میں (محمد ﷺ) نے آگاہی دی کہ اللہ تم سے بڑا دین کا کام لینے والا ہے، اللہ کے حکم سے، اور پھر جب مدرسہ دار العلوم دیوبند کی بنیاد کا سلسلہ در پیش ہوا تو میں (محمد ﷺ) نے ہی خواب میں اللہ کے حکم سے اس مدرسے کی بنیاد کی لکیر کھینچی۔ یوں اللہ کے حکم سے اللہ کے رسول (محمد ﷺ) نے اس مدرسہ کی بنیاد رکھی۔ کیا یہ کہنا بھی قطعی طور پر غلط ہو گا۔

لہذا تفسیر محمدی ﷺ جس میں پہلا نام سعید خان کا رہا، لیکن عمر وفا نہ کر سکی، اسی طرح ایک اور صاحب کا نام تھا، لیکن وہ بھی اللہ کو پیارے ہو گئے اور تیسرا قرعہ حافظ عبد العزیز کے نام کا اللہ کے حکم سے منتخب ہوا اور اس بات کی تصدیق میرے (محمد ﷺ کے)  رب نے تقی عثمانی (رحمۃ اللہ علیہ ) کو کرادی ہے۔ تو جب خواب میں لکیر کھینچ کر بنیاد رکھنے سے مراد یہی ہوئی کہ مدرسہ کی بنیاد میں (محمد ﷺ) نے رکھی تو اس بات کی تصدیق بھی تو اللہ نے کرادی ہے کہ تفسیر محمدی حافظ عبد العزیز کو میں (محمد ﷺ) ہی لکھوا رہا ہوں اللہ کے حکم سے۔

اور دیکھو کوئی اور ہے سچا طالب جس میں علم کا غرور اور تکبر نہ ہو۔ بس سچا طالب ہو علم کا تو آؤ میرے (محمد ﷺ کے) حضور عالم برزخ میں روحانی حاضری دو اور لکھو، کیا لکھنا ہے؟ اور کون سی زبان میں لکھنا ہے؟ اللہ کے حکم سے علم کا خزانہ ہے میرے (محمد ﷺ کے) پاس، لیکن مسئلہ یہی ہے ناں کہ اپنے علم کے تکبر والی چادر اتار کر عاجزی کی ٹوپی پہن کر حاضری دینی پڑے گی۔ عام انسان کی طرح میرے (محمد ﷺ کے)  امتی کی طرح جیسے حافظ عبد العزیز دیتا ہے حاضری،  وہاں عالمِ بزرخ میں۔

تفسیر محمدی کے بارے میں اہل کشف حضرات اللہ کے حکم سے جب چاہیں مجھ (محمد ﷺ) سے تصدیق کر سکتے ہیں۔ کشف، مراقبہ اور خواب کے ایسے ایک نہیں بلکہ ہزاروں معاملات ہیں۔ شاہ ولی اللہ (رحمہ اللہ علیہ) اللہ کے حکم سے بہت ہی جستجو اور محنت کرنے والا انسان تھا اور اس کی خواہش تھی محض خواہش ہی نہیں بلکہ خلوصِ نیت سے خواہش تھی کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ دین کا کوئی کام اس سے لے لیں۔ بس دل ہی دل میں ہر فرصت کے لمحے میں  یہی فکر رہتی تھی اس کو ۔ تو اللہ  دلوں کے حال خوب جانتا ہے اور نیتوں کا خالق و مالک ہے۔ وہ ہر شے پر قادر ہے۔ تو اللہ نے اس کی یہ نیت، یہ عشق، یہ محبت قبول و منظور فرمائی اور اسے محض تفسیر ہی نہیں لکھوائی بلکہ دیگر کئی مضامین میں (محمد ﷺ) نے اللہ کے حکم سے شاہ ولی اللہ (رحمۃ اللہ علیہ) کو لکھوائے اور ایک ہونہار اور فرمانبردار شاگرد تھا اور ہے۔ اللہ سبحان و تعالیٰ کے انعامات و اکرامات خاص ہیں اس پر۔ اللہ اس پر مزید انعامات اور رحمتوں کی بارش کرے۔ آمین!

میں (محمد ﷺ) اللہ کا رسول، اللہ کے دین کے پرچار کو بھیجا گیا دنیا میں، اور اللہ ہی کے حکم سے میرا (محمد ﷺ کا) اٹھنا، بیٹھنا، جاگنا، سونا، کھانا، پینا، چلنا، سانس لینا اور تبلیغ کرنا تھا میری (محمد ﷺ کی) دنیاوی زندگی میں اور ہے ، عالم برزخ میں اور رہے گا ہمیشہ اللہ کے حکم سے، اور کیا تم ایسی بات کا انکار کرتے ہو کہ جس کا مشاہدہ اور جس کی حقیقت تمہارے  بزرگوں کے ساتھ گذر چکی ہے؟ تمہیں یہ تبلیغ کے چھ ارکان کس نے لکھوائے تھے؟ تبلیغی جماعت کا قیام کس کے حکم سے ہوا تھا؟ مولانا زکریا (رحمۃ اللہ علیہ ) کی رہنمائی کس نے فرمائی تھی کہ اب فلاں ملک میں تبلیغ کے لیے جاؤ اور اب فلاں ملک میں تبلیغ کرو؟ نور الدین زنگی کے دور میں سرنگیں کھودنے والوں سے آگاہی اللہ کے حکم سے کس نے دی تھی؟ تبلیغی جماعت جب کبھی کسی مشکل میں ہوتی ہے تو اللہ کے حکم سے کون رہنمائی فرماتا ہے؟ ایک جماعت میرے (محمد ﷺ کے) اللہ والوں کی یعنی تبلیغی جماعت انگلینڈ پہنچی تو کچھ مرزائیوں نے مل کر انہیں گشت کرائے، بے وقوف بنایا اور خوب مذاق بنایا ان کا، لہذا اللہ کے حکم سے میں (محمد ﷺ) نے ان مرزائیوں کی ان کے خواب میں بھی خوب خبر لی اور ڈانٹ پلائی اور بالآخر وہ سب کے سب اللہ کے حکم سے مسلمان ہو گئے۔

تو پھر کشف، مراقبے یا خواب پر کیسا شک ہے؟ وہ بھی ایک سچے، پکے اللہ والے پر شک کرنا نہایت شرمناک اور افسوسناک بات ہے، اور جسے تم میں سے کئی عالم بچپن سے جانتے ہیں اور بچپن میں حافظ عبد العزیز نے اپنے ایک ساتھی کا کتنا ساتھ دیا، مدرسہ کے معاملات میں تو آج وہی مخالفت کرتا ہے، وہ بھی تفسیر محمدی کو بغیر دیکھے، بغیر مطالعہ کیے مسترد کر دیا۔ بھلا یہ کیسا ظالم فیصلہ سرزد ہو گیا اس سے؟ بھئی! کم از کم پڑھ کر تو دیکھو کہ یہ تفسیر محمدی ﷺ ہے کیا؟ پھر سناؤ اپنے فیصلے

اور اللہ سے تصدیق کرو، اللہ پر بھروسہ ہے؟ توکل ہے؟ اور جوہوتا ہے اللہ سے ہوتا ہے، اللہ کے غیر سے کچھ نہیں ہوتا، تو پھر فیصلہ بھی اللہ تمہیں ضرور دکھائے گا، کس بات کا ڈر ہے جو بغیر کسی سٹڈی کیے ہی فیصلہ سنا دیا؟ عجیب بات ہے مولانا! اللہ سبحانہ و تعالیٰ تمہیں تفسیر محمدی کو پڑھنے سمجھنےاور سمجھانے کی توفیق نصیب فرمائے، آمین!

کارگذاریاں سنتے ہو ناں کہ فلاں گھرانے کی فلاں عورت نے ایک جماعت کو روٹیاں پکا کر دیں اور جب وہ اللہ کو پیاری ہو گئی تو کیا بشارت آئی تھی تمہارے پاس؟ یوں ہی جب ایک جماعت تمہاری کسی کے گھر جا ٹھہری تو پہلے  سے ہی اہتمام ہوا اور بہت ہی عجیب اور باکمال اہتمام و اکرام ہوا اور اس میزبان نے تم میں سے کسی کو بھی حتیٰ کہ تمہاری مستورات کو بھی کام نہ کرنے دیا، کیوں؟ اس میزبان کو کس کی زیارت ہوئی تھی کہ میرے (محمد ﷺ کے) مہمان تمہارے گھر آرہے ہیں، اکرام کرنا، یہ سب اللہ ہی کے حکم سے ہے ناں اور اللہ ہی کی قدرت ہے ناں!

آخر تمہاری جماعت میں کئی اہل کشف لوگ موجود ہیں، کئی اللہ والے ہیں اور کئی اللہ والے تو ایسے ہیں جو اللہ کے حکم سے جھٹ پٹ استخارہ کر لیتے ہیں تو جب کبھی کوئی ایسا  مسئلہ در پیش ہو تو تم اللہ سے مدد لیا کرو اور اہل کشف حضرات خود روحانی طور پر حاضری دیں میرے (محمد ﷺ کے) پاس اور جستجو تو کریں اور رہنمائی حاصل کریں، اللہ کے حکم سے علم کے دروازے ہمیشہ کے لیےکھلے ہیں، اللہ کی قدرت اور حکم سے۔ ایک سوال کا جواب دو کہ اگر کوئی دینی مسئلہ پیچیدہ ہو جائے تو کیا تم اپنے عقلی دلائل اور دنیاوی اثر و رسوخ یا اپنے علمی تکبر سے حل کرنا پسند کرو گے یا اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی مدد سے؟ یعنی تمہارا دماغ اور دل تو اس بات کو تسلیم نہ کر رہا ہو لیکن اللہ کی جانب سے الہام ہو جائے اور میری (محمد ﷺ کی) زیارت اللہ کے حکم سے ہو جائے اور براہِ راست رہنمائی ہو جائے اللہ اور اس کے رسول کی بات مانو گے یا کہ اپنی چلاؤ گے یا کہ دنیا والوں کی مانو گے؟ چاہے پوری دنیا ایک طرف ہو لیکن اللہ اور اس کے رسول کی بات ماننا تم سب پر فرض ہے، اللہ کی اطاعت میں ہی ہم سب کی فلاح ہے۔ یہ تو تم اچھی طرح جانتے ہو، تو بس یہ تفسیر محمدی جس کو لکھوائی جا رہی ہے، اللہ سبحانہ و تعالیٰ اس سے کام لے رہا ہے اور لیتا رہے گا، انشاء اللہ۔

دنیا کچھ بھی کہتی رہے، اس کی نظروں کے سامنے جو حالات ہیں، جو مشاہدات اللہ اس کو کرا چکا ہے اور جن حالات کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ اس کے سامنے لا چکا ہے اور جو خواب کے معاملات اس کے ساتھ گذر چکے ہیں، وہ سب کے سب تمہاری نظروں میں تو نہیں ہیں ناں؟

ہاں، تم عالم ہو لیکن وہ (یعنی حافظ عبد العزیز) ایک عام انسان ہے، اب اللہ کا انتخاب ہے، اس میں بھلا کیسا اعتراض کہ عالموں کو چھوڑ کر کسی عام انسان کو چن لیا اللہ نے اپنے کام کے لیے، اور یہ عام انسان بلا غرض پچھلے پانچ سالوں سے مکمل قرآن پاک کی تلاوت عشق سے کرنے کے علاوہ روزانہ ایک دو یا تین مرتبہ سورۃ البقرہ کی تلاوت محض اس لیے کرتا ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ اس کو سیدھی راہ دکھا دے، اللہ اسے نفس و شیطان کے شر سے بچا لے، بالکل شیطان کے منہ در منہ، مد مقابل کھڑا ہے اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کو اس کی یہی ادا پسند ہے کہ یہ اللہ سے رو کر اور گڑ گڑا کر پوری امت کی اور تمام عالم کے لوگوں کی ہدایت کے لیے دعائیں مانگتا ہے لیکن ایک عام اور گمنام زندگی صبر و تحمل سے گذار رہا ہے، کیونکہ اللہ کے حکم سے نہ اسے نام کمانے کا شوق ہے اور نہ ہی پیسہ کمانے کا شوق ہے، بلکہ تفسیر محمدی مکمل ہو جائے جلد از جلد، اللہ کے حکم سے اسی تگ و دو میں لگا ہے، اور پھر تم اعتراضات کے انبار لگا رہے ہو۔

ایسی تحریر پر بغیر مطالعہ کیے کہ جس کے بارے میں دعویٰ ہے کہ وہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے رسول (محمد ﷺ) نے لکھوائی ہے۔ اے اللہ والو! کم از کم اس تفسیر کا مطالعہ تو کر لو اور اللہ سے رجوع کرو  اور اللہ جو حکم تم پر صادر فرمائے اس پر عمل کرو۔

میرے (محمد ﷺ کے) شاگردوں کو اپنی عقل، سمجھ اور علم کے ترازو میں مت تولو، بلکہ اللہ کی قدرت، رحمت اور مہربانی کے ترازو میں تولو۔ دور رکعت نماز نفل ادا کرو اور رات کی تنہائی میں سورۃ البقرہ کی آیت (سبحانک لا علم لنا الا ما علمتنا انك انت العليم الحكيم)  كثرت سے پڑھو اور سو جاؤ۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ اس تفسیر محمدی سے متعلق تمہیں ضرور آگاہی دے گا، انشاء اللہ

اور ہاں جہاں تک بات یہ ہے کہ یہ ممکن نہیں یا ایسا پہلے کبھی ہوا نہیں تو ممکن بھی ہے اور ایسا ہوا بھی ہے۔ کئی کشفی مضامین اور کتابیں موجود ہیں تمہاری دنیا میں اس وقت جو لفظ بہ لفظ اللہ کے حکم سے میں (محمد ﷺ) نے لکھوائی ہیں، یقیناً موازنہ عام انسان کے لیے بھی بہت ہی آسان ہے کہ ہر ایک لفظ قرآن کے مطابق اللہ کے احکامات کے مطابق ہے اور تم لوگ تو پھر عالم ہو، علم والے ہو، یہ پوری کائنات اللہ نے انسان کے لیے بنائی بالخصوص مؤمنین کے لیے بنائی ہے اور انسان کو اشرف المخلوقات تخلیق کیا ہے اور روحانی طاقت سے مالا مال کیا ہے، یہ کائنات اور یہ ستارے، سیارے جیسا کہ مریخ، زحل وغیرہ کس کے لیے بنائے، یوں نہیں کہ ہزاروں سالوں سفر کرتے رہو، ہاں کفار و مشرکین کرتے رہیں سفر اور تحقیق لیکن ایک پکا اور سچا مؤمن تو آنکھیں کھلی یا بند مگر اللہ کے حکم سے آیت الکرسی کی برکت سے پل بھر میں سیر کر آئے گا ان سب کی، یہ ہے اللہ کے کلام کی طاقت اور اللہ کی قدرت، اس سے انکار کیوں کرتے ہو؟ تو پھر کوئی اگر اللہ کی کلام کی برکت سے اور

اللہ کی قدرت سے، اللہ کے حکم سے روحانی طور پر عالم برزخ میں میرے (محمد ﷺ کے) حضور حاضری دیتا ہے اور مجھ (محمد ﷺ) سے کچھ رہنمائی لیتا ہے یا تفسیر لکھ رہا ہے تو خیرانی کیسی ؟ یا تو پھر اللہ کی قدرت سے انکار کر دو یا پھر اللہ سے مدد لو اس معاملے میں، یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں۔ آخر تم بھی نبیوں والا کام کر رہے ہو، اپنی ذمہ داری کو مزید سمجھو اور غور کرو۔ اللہ تمہارا حامی و ناصر ہو، آمین

لہذا اللہ کی جانب سے آگاہی کے بعد اس تفسیر کی اشاعت میں معاونت کرو اور پانچ پانچ پاروں کی جلدوں کی صورت اس کو میری (محمد ﷺ کی) امت کی بھلائی اور خیر خواہی کے لیے چھپواؤ، تمام حق پرست جماعتیں مل کر دین کا کام کریں اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی وحدانیت کا پرچار کرو اور لوگوں کو کثرت سے شرک و بدعت کے گڑھے میں گرنے سے بچانے کی کوشش کرو، اللہ کی مدد تمہارے ساتھ ہے۔ آمین

یہ ہرگز مت بھولو کہ تفسیر محمدی لکھنے والے اوراس کی تائید کرنے والے، سب کا تعلق تبلیغی جماعت ہی سے تو ہے تمہارے ساتھی ہیں۔ یہ اللہ کے حکم سے ایک دوسرے کی مدد کرو اور ایک دوسرے کی مخالفت کر کے شیطان کا ساتھ ہرگز مت دینا۔

اگر کفار و مشرکین حق بات کی نفی کریں تو کچھ تعجب نہیں ہے اور نہ ہی اللہ کو اور مجھے (محمد ﷺکو) کوئی فرق پڑتا ہے، لیکن ایک حق والے، دوسرے حق والوں اور اللہ والوں کی بات تسلیم نہ کریں تو یقیناً لمحہ فکریہ ہے۔ لہذا اس تفسیر محمدی کو تسلیم کرنے یا نہ کرنے سے اس تفسیر کو کوئی فرق نہیں پڑےگا، یہ اللہ کے حکم سے مکمل ہو کر رہے گی اور لوگ اللہ کے حکم سے دیوانہ وار اسے پڑھیں گے اور شرک و بدعت سے بچنے میں اس تفسیر محمدی سے استفادہ حاصل کریں گے۔ انشاء اللہ!

اے میری (محمد ﷺ کی) امت والو! اللہ قدرت والا، ہر شے پر قادر ہے وہ مار کر زندہ کرنے والا اور جنت اور جہنم کا خالق و مالک ہے، وہ مہربان ہے، وہ بخشنے والا اور توبہ قبول کرنے والا ہے۔

میرا (محمد ﷺ کا) سچا رب، اللہ سبحانہ و تعالیٰ مچھر سے نمرود کو مروا سکتا ہے، ابابیل سے کام لے سکتا ہے تو کیا کسی ایک اشرف المخلوقات میں سے انسان چُن کر اس سے کام نہیں لے سکتا؟

اللہ چاہتا تو مچھر کی جگہ شیر سے کام لے لیتا، لیکن کسی شیر نے کوئی اعتراض تو نہ کیا اس بات پر، اور اللہ کی حکمت و دانائی اور اللہ کی قدرت کسی محدود سی عقل میں سمانے کے قابل نہیں ہے، کیونکہ اللہ کی رحمت، قدرت، حکمت اور دانائی سب کچھ لا محدود ہے۔ اللہ اپنی ذات و صفات میں وحدہ لا شریک اور لا محدود ہے۔ اللہ کا ہر کام لینا اللہ کی شان کے مطابق ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ میری (محمد ﷺ کی) امت کے عالموں کو حق اور باطل میں فرق کرنے کی خاص طاقت، استطاعت، حکمت، دانائی، علم اور شعور نہ صرف عطا فرمائے، بلکہ اس پر استقامت عطا فرمائے اور علم کے تکبر سے بچنے کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین! ثم آمین!  (روحانی انٹرنیٹ:  ص: 227)

10۔ تائید حضرت مولانا مفتی محمد شفیع عثمانی صاحب (رحمۃ اللہ علیہ): اللہ کے حکم سے تفسیر محمدی ﷺ کے متعلق روحانی طور پر حضرت مولانا محمد شفیع عثمانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے تفسیر کی تائید میں مندرجہ ذیل مضمون لکھوایا۔

’’میرے بیٹے اللہ کے حکم سے علماء حق ہیں اور وہ اللہ کے حکم سے باعمل علماء ہیں اور خاص کر جو تکبر آج کل مختلف علماء میں پایا جا رہا ہے، اس تکبر سے پاک ہیں، میری نصیحتوں میں سے ایک نصیحت جو میں نے انہیں کیں تھیں، وہ یہ بھی تھی کہ کبھی تکبر کو اپنے قریب مت آنے دینا ورنہ یہ تکبر سارا کا سارا علم اور اس کا پھل کھا جائے گا۔ ہاں کوئی مصلحت ضرور ہو سکتی ہے۔ لہذا میرا پیغام ان کے لیے یہ ہے کہ کم از کم اس تفسیر کا مطالعہ کر کے دیکھیں اور اس معاملے میں فیصلہ لینے کے لیے اہل کشف حضرات سے رجوع کریں، خود استخارہ کر لیں، میں جانتا ہوں کہ یہ تفسیر حق ہے اور اس وقت کی ضرورت ہے۔ کیونکہ عیسیٰ علیہ السلام کا ظہور ابھی 500 برس تک متوقع ہے اور گھر گھر اس تفسیر کا پہنچنا بہت ضروری ہے لیکن حافظ عبد العزیز کسی بات کی فکر مت کریں کیونکہ اب یہ کام اللہ سبحانہ و تعالیٰ مکمل کرا کر رہیں، انشاء اللہ، لوگوں تک پہنچ بھی جائے گی، لوگ اس سے استفادہ بھی حاصل کریں گے، یہ نہایت آسان اور توحید تفسیر ہے جو آج کے کفر و شرک اور دین میں کئی نئی ایجادات یعنی بدعتوں کی نفی کی دلیل کے ساتھ کرتی ہے۔ اس تفسیر کی تصدیق باعث فخر، باعث رحمت ہو گی، انشاء اللہ میری جانب سے اس کی تصدیق میں (شفیع عثمانی) کرتا ہوں لیکن میرے بچے بذات خود استخارہ کر کے یا اہل کشف سے رابطہ کر ے کرا لیں گے تو تصدیق کا مزہ دوبالا ہو جائے گا۔ ہاں یہ بات یاد رہے کہ نبی ؤ کی بات کی تصدیق کسی سے نہیں کروائی جا سکتی۔ یہ تصدیق اس بات کی ہو گی کہ حافظ عبد العزیز صاحب حق پر ہیں اور ان کے شاگرد بھی جن کو یہ تفسیر واقع لکھوائی جا رہی ہے اللہ کے حکم سے۔ اللہ، محمد ﷺ کی امت کو حق پر جمع کرے۔ انشاء اللہ بہت خوشی ہو گی یہ تفسیر حق ہے جس کے پاس پہنچے وہ اس کو ضرور پڑھے اس کو نذر انداز نہ کرے کیونکہ یہ اللہ کی پاک کتاب قرآن کی تفسیر ہے اور تفسیر محمدی ہے۔‘‘

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

تقریباً چار پانچ سا پہلے کی بات ہے میرے علم میں یہ بات آئی کہ نوری مسجد کے امام حافظ عبد العزیز جو کہ عالم نہیں ہیں اور عملیات کا کام کرتے ہیں وہ ایک تفسیر لکھ رہے ہیں۔ ان کی لکھی ہوئی تفسیر کا کچھ حصہ پڑھنے کو بھی ملا اور اس حصہ میں ایک دو غلطیاں بھی نظر آئیں۔ میری ان سے ایک ملاقات بھی ہوئی۔ اس میں  میں نے ان کو سمجھایا کہ آپ یہ کام نہ کریں۔ آپ میں اس کی اہلیت نہیں۔ آپ عالم بھی نہیں ہیں لیکن حافظ صاحب نے میری بات نہ مانی اور اپنا کام کرتے رہے حالانکہ حدیث میں ہے : ’’ جس کسی نے علم نہ ہونے کے باوجود اپنی رائے سے کچھ تفسیر  کی اس نے غلطی کی۔‘‘ لیکن اب یہ بات سامنے آئی کہ حافظ صاحب نے بہت ترقی کر لی ہے چنانچہ کشف کے ذریعہ ان کا رسول اللہ ﷺ کی روح مبارکہ کے ساتھ تعلق قائم ہو گیا ہے اور اب ساری تفسیر نبی ﷺ کی طرف منسوب کر دی ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ یہ تفسیر لفظ بہ لفظ رسول اللہ ﷺ کی لکھائی ہوئی ہے۔

اب یہ مسئلہ نہیں رہا کہ حافظ عبد العزیز کی تفسیر قرآن و حدیث کے موافق ہے یا نہیں بلکہ اس سےزیادہ سنگین یہ مسئلہ بن گیا ہے کہ کیا آپ ﷺ کی طرف وہ باتیں تو منسوب نہیں کی جارہیں جو آپ ﷺ نے نہ کہی ہوں۔ جانتے بوجھتے ایسا کرنے پر جہنم کی وعید وارد ہوئی ہے۔ حافظ عبد العزیز کی دنیا اور آخرت کی سلامتی اس میں ہے کہ وہ اپنا یہ کام فوری طور پر بند کر دیں اور اعلانیہ توبہ کریں۔تاریخ میں اس قسم کے لوگ ملتے ہیں جو شیطان کا آسان شکار بن گئے۔ حدیث میں آتا ہے شیطان پر  ایک ہزار عابدوں سے زیادہ بھاری ایک فقیہ ہوتا ہے۔

غرض حافظ عبد العزیز سخت گمراہی میں مبتلا ہو گیا ہے اور امام  بننے کے لائق نہیں رہا۔  شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ پر رسول اللہ ﷺ کی روح مبارکہ متکشف ہوئی تو اس وقت جب وہ شاہ ولی اللہ بن چکے تھے۔ ہر کوئی ایرا غیرا اٹھ کر کشف کے دعوے کرنے لگے تو اپنا ہی نقصان کرتا ہے۔

آگے ہم حافظ عبد العزیزکی ایک تحریر نقل کرتے ہیں جو نبی ﷺ کی طرف منسوب کی گئی ہے اور اس میں حافظ صاحب کا بھر پور دفاع کیا گیا ہے اور تبلیغی جماعت کے نام کو بطور عصبیت کے استعمال کیا گیا ہے۔ اس تحریر کو ہم نے نکات میں تقسیم کر کے ان کے نمبر لگا دیے ہیں تاکہ بات کو سمجھنے میں آسانی ہو۔

حضرت محمد مصطفیٰ (ﷺ) کی جانب سے

حافظ عبد العزیز کی تائید اور دفاع

(1) اسی اللہ کی قسم جس کے قبضے میں میری (محمد ﷺ) جان ہے کہ مولانا الیاس (رحمۃ اللہ علیہ ) کو سب سے پہلے میں (محمد ﷺ) نے آگاہی دی کہ اللہ تم سے بڑا دین کا کام لینے والا ہے، اللہ کے حکم سے، اور پھر جب مدرسہ دار العلوم دیوبند کی بنیاد کا سلسلہ در پیش ہوا تو میں (محمد ﷺ) نے ہی خواب میں اللہ کے حکم سے اس مدرسے کی بنیاد کی لکیر کھینچی۔ یوں اللہ کے حکم سے اللہ کے رسول (محمد ﷺ) نے اس مدرسہ کی بنیاد رکھی۔ کیا یہ کہنا بھی قطعی طور پر غلط ہو گا۔

(2)لہذا تفسیر محمدی ﷺ جس میں پہلا نام سعید خان کا رہا، لیکن عمر وفا نہ کر سکی، اسی طرح ایک اور صاحب کا نام تھا، لیکن وہ بھی اللہ کو پیارے ہو گئے اور تیسرا قرعہ حافظ عبد العزیز کے نام کا اللہ کے حکم سے منتخب ہوا اور اس بات کی تصدیق میرے (محمد ﷺ کے)  رب نے تقی عثمانی (رحمۃ اللہ علیہ ) کو کرادی ہے۔ تو جب خواب میں لکیر کھینچ کر بنیاد رکھنے سے مراد یہی ہوئی کہ مدرسہ کی بنیاد میں (محمد ﷺ) نے رکھی تو اس بات کی تصدیق بھی تو اللہ نے کرادی ہے کہ تفسیر محمدی حافظ عبد العزیز کو میں (محمد ﷺ) ہی لکھوا رہا ہوں اللہ کے حکم سے۔

(3) اور دیکھو کوئی اور ہے سچا طالب جس میں علم کا غرور اور تکبر نہ ہو۔ بس سچا طالب ہو علم کا تو آؤ میرے (محمد ﷺ کے) حضور عالم برزخ میں روحانی حاضری دو اور لکھو، کیا لکھنا ہے؟ اور کون سی زبان میں لکھنا ہے؟ اللہ کے حکم سے علم کا خزانہ ہے میرے (محمد ﷺ کے) پاس، لیکن مسئلہ یہی ہے ناں کہ اپنے علم کے تکبر والی چادر اتار کر عاجزی کی ٹوپی پہن کر حاضری دینی پڑے گی۔ عام انسان کی طرح میرے (محمد ﷺ کے)  امتی کی طرح جیسے حافظ عبد العزیز دیتا ہے حاضری،  وہاں عالمِ بزرخ میں۔

(4) تفسیر محمدی کے بارے میں اہل کشف حضرات اللہ کے حکم سے جب چاہیں مجھ (محمد ﷺ) سے تصدیق کر سکتے ہیں۔ کشف، مراقبہ اور خواب کے ایسے ایک نہیں بلکہ ہزاروں معاملات ہیں۔ شاہ ولی اللہ (رحمہ اللہ علیہ) اللہ کے حکم سے بہت ہی جستجو اور محنت کرنے والا انسان تھا اور اس کی خواہش تھی محض خواہش ہی نہیں بلکہ خلوصِ نیت سے خواہش تھی کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ دین کا کوئی کام اس سے لے لیں۔ بس دل ہی دل میں ہر فرصت کے لمحے میں  یہی فکر رہتی تھی اس کو ۔ تو اللہ  دلوں کے حال خوب جانتا ہے اور نیتوں کا خالق و مالک ہے۔ وہ ہر شے پر قادر ہے۔ تو اللہ نے اس کی یہ نیت، یہ عشق، یہ محبت قبول و منظور فرمائی اور اسے محض تفسیر ہی نہیں لکھوائی بلکہ دیگر کئی مضامین میں (محمد ﷺ) نے اللہ کے حکم سے شاہ ولی اللہ (رحمۃ اللہ علیہ) کو لکھوائے اور ایک ہونہار اور فرمانبردار شاگرد تھا اور ہے۔ اللہ سبحان و تعالیٰ کے انعامات و اکرامات خاص ہیں اس پر۔ اللہ اس پر مزید انعامات اور رحمتوں کی بارش کرے۔ آمین!

(5) میں (محمد ﷺ) اللہ کا رسول، اللہ کے دین کے پرچار کو بھیجا گیا دنیا میں، اور اللہ ہی کے حکم سے میرا (محمد ﷺ کا) اٹھنا، بیٹھنا، جاگنا، سونا، کھانا، پینا، چلنا، سانس لینا اور تبلیغ کرنا تھا میری (محمد ﷺ کی) دنیاوی زندگی میں اور ہے ، عالم برزخ میں اور رہے گا ہمیشہ اللہ کے حکم سے، اور کیا تم ایسی بات کا انکار کرتے ہو کہ جس کا مشاہدہ اور جس کی حقیقت تمہارے  بزرگوں کے ساتھ گذر چکی ہے؟ تمہیں یہ تبلیغ کے چھ ارکان کس نے لکھوائے تھے؟ تبلیغی جماعت کا قیام کس کے حکم سے ہوا تھا؟ مولانا زکریا (رحمۃ اللہ علیہ ) کی رہنمائی کس نے فرمائی تھی کہ اب فلاں ملک میں تبلیغ کے لیے جاؤ اور اب فلاں ملک میں تبلیغ کرو؟ نور الدین زنگی کے دور میں سرنگیں کھودنے والوں سے آگاہی اللہ کے حکم سے کس نے دی تھی؟ تبلیغی جماعت جب کبھی کسی مشکل میں ہوتی ہے تو اللہ کے حکم سے کون رہنمائی فرماتا ہے؟ ایک جماعت میرے (محمد ﷺ کے) اللہ والوں کی یعنی تبلیغی جماعت انگلینڈ پہنچی تو کچھ مرزائیوں نے مل کر انہیں گشت کرائے، بے وقوف بنایا اور خوب مذاق بنایا ان کا، لہذا اللہ کے حکم سے میں (محمد ﷺ) نے ان مرزائیوں کی ان کے خواب میں بھی خوب خبر لی اور ڈانٹ پلائی اور بالآخر وہ سب کے سب اللہ کے حکم سے مسلمان ہو گئے۔

(6) تو پھر کشف، مراقبے یا خواب پر کیسا شک ہے؟ وہ بھی ایک سچے، پکے اللہ والے پر شک کرنا نہایت شرمناک اور افسوسناک بات ہے، اور جسے تم میں سے کئی عالم بچپن سے جانتے ہیں اور بچپن میں حافظ عبد العزیز نے اپنے ایک ساتھی کا کتنا ساتھ دیا، مدرسہ کے معاملات میں تو آج وہی مخالفت کرتا ہے، وہ بھی تفسیر محمدی کو بغیر دیکھے، بغیر مطالعہ کیے مسترد کر دیا۔ بھلا یہ کیسا ظالم فیصلہ سرزد ہو گیا اس سے؟ بھئی! کم از کم پڑھ کر تو دیکھو کہ یہ تفسیر محمدی ﷺ ہے کیا؟ پھر سناؤ اپنے فیصلے

(7) اور اللہ سے تصدیق کرو، اللہ پر بھروسہ ہے؟ توکل ہے؟ اور جوہوتا ہے اللہ سے ہوتا ہے، اللہ کے غیر سے کچھ نہیں ہوتا، تو پھر فیصلہ بھی اللہ تمہیں ضرور دکھائے گا، کس بات کا ڈر ہے جو بغیر کسی سٹڈی کیے ہی فیصلہ سنا دیا؟ عجیب بات ہے مولانا! اللہ سبحانہ و تعالیٰ تمہیں تفسیر محمدی کو پڑھنے سمجھنےاور سمجھانے کی توفیق نصیب فرمائے، آمین!

کارگذاریاں سنتے ہو ناں کہ فلاں گھرانے کی فلاں عورت نے ایک جماعت کو روٹیاں پکا کر دیں اور جب وہ اللہ کو پیاری ہو گئی تو کیا بشارت آئی تھی تمہارے پاس؟ یوں ہی جب ایک جماعت تمہاری کسی کے گھر جا ٹھہری تو پہلے  سے ہی اہتمام ہوا اور بہت ہی عجیب اور باکمال اہتمام و اکرام ہوا اور اس میزبان نے تم میں سے کسی کو بھی حتیٰ کہ تمہاری مستورات کو بھی کام نہ کرنے دیا، کیوں؟ اس میزبان کو کس کی زیارت ہوئی تھی کہ میرے (محمد ﷺ کے) مہمان تمہارے گھر آرہے ہیں، اکرام کرنا، یہ سب اللہ ہی کے حکم سے ہے ناں اور اللہ ہی کی قدرت ہے ناں!

(8) آخر تمہاری جماعت میں کئی اہل کشف لوگ موجود ہیں، کئی اللہ والے ہیں اور کئی اللہ والے تو ایسے ہیں جو اللہ کے حکم سے جھٹ پٹ استخارہ کر لیتے ہیں تو جب کبھی کوئی ایسا  مسئلہ در پیش ہو تو تم اللہ سے مدد لیا کرو اور اہل کشف حضرات خود روحانی طور پر حاضری دیں میرے (محمد ﷺ کے) پاس اور جستجو تو کریں اور رہنمائی حاصل کریں، اللہ کے حکم سے علم کے دروازے ہمیشہ کے لیےکھلے ہیں، اللہ کی قدرت اور حکم سے۔ ایک سوال کا جواب دو کہ اگر کوئی دینی مسئلہ پیچیدہ ہو جائے تو کیا تم اپنے عقلی دلائل اور دنیاوی اثر و رسوخ یا اپنے علمی تکبر سے حل کرنا پسند کرو گے یا اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی مدد سے؟ یعنی تمہارا دماغ اور دل تو اس بات کو تسلیم نہ کر رہا ہو لیکن اللہ کی جانب سے الہام ہو جائے اور میری (محمد ﷺ کی) زیارت اللہ کے حکم سے ہو جائے اور براہِ راست رہنمائی ہو جائے اللہ اور اس کے رسول کی بات مانو گے یا کہ اپنی چلاؤ گے یا کہ دنیا والوں کی مانو گے؟ چاہے پوری دنیا ایک طرف ہو لیکن اللہ اور اس کے رسول کی بات ماننا تم سب پر فرض ہے، اللہ کی اطاعت میں ہی ہم سب کی فلاح ہے۔ یہ تو تم اچھی طرح جانتے ہو، تو بس یہ تفسیر محمدی جس کو لکھوائی جا رہی ہے، اللہ سبحانہ و تعالیٰ اس سے کام لے رہا ہے اور لیتا رہے گا، انشاء اللہ۔

(9) دنیا کچھ بھی کہتی رہے، اس کی نظروں کے سامنے جو حالات ہیں، جو مشاہدات اللہ اس کو کرا چکا ہے اور جن حالات کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ اس کے سامنے لا چکا ہے اور جو خواب کے معاملات اس کے ساتھ گذر چکے ہیں، وہ سب کے سب تمہاری نظروں میں تو نہیں ہیں ناں؟

(10) ہاں، تم عالم ہو لیکن وہ (یعنی حافظ عبد العزیز) ایک عام انسان ہے، اب اللہ کا انتخاب ہے، اس میں بھلا کیسا اعتراض کہ عالموں کو چھوڑ کر کسی عام انسان کو چن لیا اللہ نے اپنے کام کے لیے، اور یہ عام انسان بلا غرض پچھلے پانچ سالوں سے مکمل قرآن پاک کی تلاوت عشق سے کرنے کے علاوہ روزانہ ایک دو یا تین مرتبہ سورۃ البقرہ کی تلاوت محض اس لیے کرتا ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ اس کو سیدھی راہ دکھا دے، اللہ اسے نفس و شیطان کے شر سے بچا لے، بالکل شیطان کے منہ در منہ، مد مقابل کھڑا ہے اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کو اس کی یہی ادا پسند ہے کہ یہ اللہ سے رو کر اور گڑ گڑا کر پوری امت کی اور تمام عالم کے لوگوں کی ہدایت کے لیے دعائیں مانگتا ہے لیکن ایک عام اور گمنام زندگی صبر و تحمل سے گذار رہا ہے، کیونکہ اللہ کے حکم سے نہ اسے نام کمانے کا شوق ہے اور نہ ہی پیسہ کمانے کا شوق ہے، بلکہ تفسیر محمدی مکمل ہو جائے جلد از جلد، اللہ کے حکم سے اسی تگ و دو میں لگا ہے، اور پھر تم اعتراضات کے انبار لگا رہے ہو۔

(11) ایسی تحریر پر بغیر مطالعہ کیے کہ جس کے بارے میں دعویٰ ہے کہ وہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے رسول (محمد ﷺ) نے لکھوائی ہے۔ اے اللہ والو! کم از کم اس تفسیر کا مطالعہ تو کر لو اور اللہ سے رجوع کرو  اور اللہ جو حکم تم پر صادر فرمائے اس پر عمل کرو۔

(12) میرے (محمد ﷺ کے) شاگردوں کو اپنی عقل، سمجھ اور علم کے ترازو میں مت تولو، بلکہ اللہ کی قدرت، رحمت اور مہربانی کے ترازو میں تولو۔ دور رکعت نماز نفل ادا کرو اور رات کی تنہائی میں سورۃ البقرہ کی آیت (سبحانک لا علم لنا الا ما علمتنا انك انت العليم الحكيم)  كثرت سے پڑھو اور سو جاؤ۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ اس تفسیر محمدی سے متعلق تمہیں ضرور آگاہی دے گا، انشاء اللہ

(13) اور ہاں جہاں تک بات یہ ہے کہ یہ ممکن نہیں یا ایسا پہلے کبھی ہوا نہیں تو ممکن بھی ہے اور ایسا ہوا بھی ہے۔ کئی کشفی مضامین اور کتابیں موجود ہیں تمہاری دنیا میں اس وقت جو لفظ بہ لفظ اللہ کے حکم سے میں (محمد ﷺ) نے لکھوائی ہیں، یقیناً موازنہ عام انسان کے لیے بھی بہت ہی آسان ہے کہ ہر ایک لفظ قرآن کے مطابق اللہ کے احکامات کے مطابق ہے اور تم لوگ تو پھر عالم ہو، علم والے ہو، یہ پوری کائنات اللہ نے انسان کے لیے بنائی بالخصوص مؤمنین کے لیے بنائی ہے اور انسان کو اشرف المخلوقات تخلیق کیا ہے اور روحانی طاقت سے مالا مال کیا ہے، یہ کائنات اور یہ ستارے، سیارے جیسا کہ مریخ، زحل وغیرہ کس کے لیے بنائے، یوں نہیں کہ ہزاروں سالوں سفر کرتے رہو، ہاں کفار و مشرکین کرتے رہیں سفر اور تحقیق لیکن ایک پکا اور سچا مؤمن تو آنکھیں کھلی یا بند مگر اللہ کے حکم سے آیت الکرسی کی برکت سے پل بھر میں سیر کر آئے گا ان سب کی، یہ ہے اللہ کے کلام کی طاقت اور اللہ کی قدرت، اس سے انکار کیوں کرتے ہو؟ تو پھر کوئی اگر اللہ کی کلام کی برکت سے اور

(14) اللہ کی قدرت سے، اللہ کے حکم سے روحانی طور پر عالم برزخ میں میرے (محمد ﷺ کے) حضور حاضری دیتا ہے اور مجھ (محمد ﷺ) سے کچھ رہنمائی لیتا ہے یا تفسیر لکھ رہا ہے تو خیرانی کیسی ؟ یا تو پھر اللہ کی قدرت سے انکار کر دو یا پھر اللہ سے مدد لو اس معاملے میں، یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں۔ آخر تم بھی نبیوں والا کام کر رہے ہو، اپنی ذمہ داری کو مزید سمجھو اور غور کرو۔ اللہ تمہارا حامی و ناصر ہو، آمین

(15) لہذا اللہ کی جانب سے آگاہی کے بعد اس تفسیر کی اشاعت میں معاونت کرو اور پانچ پانچ پاروں کی جلدوں کی صورت اس کو میری (محمد ﷺ کی) امت کی بھلائی اور خیر خواہی کے لیے چھپواؤ، تمام حق پرست جماعتیں مل کر دین کا کام کریں اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی وحدانیت کا پرچار کرو اور لوگوں کو کثرت سے شرک و بدعت کے گڑھے میں گرنے سے بچانے کی کوشش کرو، اللہ کی مدد تمہارے ساتھ ہے۔ آمین

(16) یہ ہرگز مت بھولو کہ تفسیر محمدی لکھنے والے اوراس کی تائید کرنے والے، سب کا تعلق تبلیغی جماعت ہی سے تو ہے تمہارے ساتھی ہیں۔ یہ اللہ کے حکم سے ایک دوسرے کی مدد کرو اور ایک دوسرے کی مخالفت کر کے شیطان کا ساتھ ہرگز مت دینا۔

اگر کفار و مشرکین حق بات کی نفی کریں تو کچھ تعجب نہیں ہے اور نہ ہی اللہ کو اور مجھے (محمد ﷺکو) کوئی فرق پڑتا ہے، لیکن ایک حق والے، دوسرے حق والوں اور اللہ والوں کی بات تسلیم نہ کریں تو یقیناً لمحہ فکریہ ہے۔ لہذا اس تفسیر محمدی کو تسلیم کرنے یا نہ کرنے سے اس تفسیر کو کوئی فرق نہیں پڑےگا، یہ اللہ کے حکم سے مکمل ہو کر رہے گی اور لوگ اللہ کے حکم سے دیوانہ وار اسے پڑھیں گے اور شرک و بدعت سے بچنے میں اس تفسیر محمدی سے استفادہ حاصل کریں گے۔ انشاء اللہ!

اے میری (محمد ﷺ کی) امت والو! اللہ قدرت والا، ہر شے پر قادر ہے وہ مار کر زندہ کرنے والا اور جنت اور جہنم کا خالق و مالک ہے، وہ مہربان ہے، وہ بخشنے والا اور توبہ قبول کرنے والا ہے۔

(17) میرا (محمد ﷺ کا) سچا رب، اللہ سبحانہ و تعالیٰ مچھر سے نمرود کو مروا سکتا ہے، ابابیل سے کام لے سکتا ہے تو کیا کسی ایک اشرف المخلوقات میں سے انسان چُن کر اس سے کام نہیں لے سکتا؟

(18) اللہ چاہتا تو مچھر کی جگہ شیر سے کام لے لیتا، لیکن کسی شیر نے کوئی اعتراض تو نہ کیا اس بات پر، اور اللہ کی حکمت و دانائی اور اللہ کی قدرت کسی محدود سی عقل میں سمانے کے قابل نہیں ہے، کیونکہ اللہ کی رحمت، قدرت، حکمت اور دانائی سب کچھ لا محدود ہے۔ اللہ اپنی ذات و صفات میں وحدہ لا شریک اور لا محدود ہے۔ اللہ کا ہر کام لینا اللہ کی شان کے مطابق ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ میری (محمد ﷺ کی) امت کے عالموں کو حق اور باطل میں فرق کرنے کی خاص طاقت، استطاعت، حکمت، دانائی، علم اور شعور نہ صرف عطا فرمائے، بلکہ اس پر استقامت عطا فرمائے اور علم کے تکبر سے بچنے کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین! ثم آمین!

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved