• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

مختلف کنایہ الفاظ کے استعمال کا حکم

استفتاء

میرے میاں میرے ساتھ اکثر لڑتے رہتے ہیں لڑائی کے دوران نازیبا لفظ بولتے ہیں۔ کل لڑائی ہوئی تو یہ کہا کہ ’’(1) دفعہ ہو جا، تو خبیث ہے، (2) کسی اور سے نکاح کر لے، جو اچھا لگے اس کے پاس چلی جا، (3) تیرا میرا کاغذی تعلق ہے ورنہ ہم میں میاں بیوی والی کوئی بات نہیں ہے‘‘، یا یہ کہا کہ  ’’میں تیری شکل دیکھنے کا روا دار نہیں‘‘۔

خاوند کے بقول اس کی ان الفاظ سے طلاق کی نیت نہیں تھی صرف بیوی کو ڈرانا تھا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں ان الفاظ سے ایک طلاق بائنہ واقع ہو گئی پہلا نکاح ختم ہو گیا ہے۔ اگر میاں بیوی آپس میں اکٹھے رہنا چاہتے

ہیں تو كم از كم دو گواہوں کی موجودگی میں نئے مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کرنا پڑے گا۔

توجیہ: (1) دفعہ ہو جا: یہ الفاظ کنایہ کی قسم اول  میں سے ہیں جیسے عربی میں  اخرجي اذهبي  ہیں۔ کنایہ کی قسم اول کے الفاظ کہنے سے طلاق ہر حال میں نیت پر موقوف ہوتی ہے، اور مذکورہ صورت میں شوہر نیت کا منکر ہے۔ اس لیے ان الفاظ سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔

فتاویٰ شامی (4/ 521) میں ہے:

و الحاصل أن الأول يتوقف على النية في حالة الرضا و الغضب و المذاكرة.

(2) کسی اور سے نکاح کر لے جو اچھا لگے اس کے پاس چلی جا: یہ الفاظ کنایہ کی تیسری قسم میں سے ہیں۔ لڑائی جھگڑے کے دوران کنایہ کی تیری قسم کے الفاظ کہنے سے ایک بائنہ طلاق واقع ہو جاتی ہے۔ لہذا اس سے ایک طلاق بائنہ واقع ہو گئی ہے۔

فتاویٰ شامی (4/ 521) میں ہے:

و الثالث يتوقف عليها في حالة الرضا فقط و يقع في حالة الغضب و المذاكرة بلا نية.

(3) تیرا میرا کاغذی تعلق ہے ورنہ ہم میں میاں بیوی والی کوئی بات نہیں ہے، اور میں تیری شکل دیکھنے کا روا دار نہیں: یہ الفاظ کنایہ کی کسی بھی قسم کے ہوں تو طلاق واقع نہ ہو گی کیونکہ بائنہ طلاق بائنہ کو لاحق نہیں ہوتی۔

چنانچہ فتاویٰ شامی (4/ 531) میں ہے:

لا يلحق البائن البائن إذا أمكن جعله إخبارا عن الأول…… فقط و الله تعالى أعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved