• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

تراویح کی جماعت میں شرکت کا مسئلہ

استفتاء

تنہا پڑھے ہوں وہ تراویح کی مذکورہ بالا جماعت میں شریک ہو سکتا ہے یا نہیں؟ اس بارے میں در مختار اور رد المحتار کی عبارت کا حاصل یہ ہے کہ یہ شخص مذکورہ بالا جماعت میں شریک ہو سکتا ہے۔ چنانچہ در مختار میں ہے:

فمصليه وحده يصليها معه.

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

اور رد المحتار میں ہے:

أما لو صليت بجماعة الفرض وكان رجل قد صلى الفرض وحده،فله أن يصليها مع ذلك الإمام.

اور اس کی علت یہ بیان کی گئی ہے کہ:

لأن جماعتهم مشروعة فله الدخول فيها معهم لعدم المحذور، هذا ما ظهر لي في وجهه، وبه ظهر أن التعليل المذكور لا يشمل المصلي وحده، فظهر صحة التفريع بقوله: ((فمصليه وحده … إلخ)) فافهم. (بحواله شامي: 2/603)

جبکہ اس صورت میں علامہ طحطاوی رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ تراویح کی جماعت کے مسئلے میں جو تعلیل مذکور ہے یعنی (لأنها تبع) اس کا تقاضا یہ ہے کہ یہ شخص تراویح کی مذکورہ بالا جماعت میں شریک نہیں ہو سکتا۔

چنانچہ طحطاوی علی الدر میں ہے:

(ولو تركوا الجماعة في الفرض) عبر بالجمع، لأن المفرد لو صلى العشاء وحده، فله أن يصلي التراويح مع الإمام، منح، لكن تعليل الشرح يعم المنفرد. (طحطاوي على الدر: 1/297)

اور ہماری تحقیق میں اس صورت میں در مختار اور رد المحتار میں ذکر کردہ  بات زیادہ درست ہے۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved