• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

وتر کی جماعت کا مسئلہ

استفتاء

وتر کی جماعت کے لیے کیا شرط  ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

اس بارے میں تین آراء ہیں:

۔ پہلی رائے

وتر کی جماعت کے لیے تراویح کی جماعت شرط ہے۔ یہ رائے علامہ شامی کی ہے۔ چنانچہ شامی میں ہے:

الذي يظهر أن جماعة الوتر تبع لجماعة التراويح، وإن كان الوتر نفسه أصلاً في ذاته، لأن سنة الجماعة في الوتر إنما عرفت بالأثر تابعة للتراويح، على أنهم اختلفوا في أفضلية صلاتها بالجماعة بعد التراويح كما يأتي. (شامي: 2/604)

2۔ دوسری رائے

وتر کی جماعت کے لیے عشاء کے فرضوں کی جماعت ضروری ہے۔ تراویح کی جماعت ضروری نہیں۔ یہ رائے علامہ رافعی رحمہ اللہ کی ہے۔ چنانچہ تقریرات رافعی میں ہے:

الذي يظهر أن جماعته تبع لجماعة الفرض لا التراويح، فإن المفهوم من قول المصنف: ((ولا يصلي الوتر … إلخ)) أنه يصلى جماعة في رمضان، فيعمل بعمومه حتى يوجد ما يقتضي تخصيصه بما إذا صلى التراويح جماعة، نعم التقييد بما إذا صلى الفرض جماعة، نقله القهستاني. (بحواله شامي: 2/604)

3۔ تیسری رائے

وتر کی جماعت کے لیے رمضان کا ہونا کافی ہے، عشاء یا تراویح کی جماعت ضروری نہیں۔ یہ رائے علامہ طحطاوی رحمہ اللہ کی ہے۔ چنانچہ طحطاوی علی الدر میں ہے:

قضية التعليل في المسئلة السابقة بقوله: ((لأنها تبع)) أن يصلى الوتر بجماعة في هذه الصورة، لأنه ليس بتبع للتراويح، ولا للعشاء عند الإمام رحمه الله، انتهى، حلبي. (طحطاوي على الدر: 1/297)

اس صورت میں ہماری تحقیق میں علامہ شامی رحمہ اللہ کی رائے زیادہ مضبوط ہے، علامہ طحطاوی اور علامہ رافعی رحمہما اللہ کی رائے کمزور ہے۔ علامہ طحطاوی رحمہ اللہ کی رائے مندرجہ ذیل وجوہ سے کمزور ہے:

i۔ علامہ  طحطاوی رحمہ اللہ نے جو علت ذکر کی ہے یعنی کہ  ((لأنه ليس بتبع للتراويح عند الامام))، اس علت سے صرف اتنا ثابت ہوتا ہے کہ نفس وتر، عشاء یا تراویح کے تابع نہیں۔ نفس وتر کے عشاء یا تراویح کے تابع نہ ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ وتر کی جماعت بھی عشاء یا تراویح کی جماعت کے تابع نہ ہو۔

ii۔ علامہ طحطاوی رحمہ اللہ نے اپنی رائے کے آخر میں ’’حلبی ‘‘ کا حوالہ دیا ہے۔ جبکہ حلبی میں وتر کی جماعت میں شرکت کا مسئلہ بیان ہوا ہے، نہ کہ نفس جماعت کا۔ یعنی حلبی میں اس کا ذکر نہیں کہ جن لوگوں نے عشاء اور تراویح دونوں تنہا پڑھی ہوں تو  وہ وتر کی جماعت کرا سکتے ہیں۔چنانچہ حلبی کی عبارت میں مذکورہ جزئیات مندرجہ ذیل ہیں:

 .aفاتت ترويحة أو ترويحتان وقام الإمام إلى الوتر، في واقعات الناطفي عن أبي عبد الله الزعفراني أنه يوتر مع الإمام ثم يقضي ما فاته.

 .bوإذا لم يصل الفرض مع الإمام فعن عين الأئمة الكرابيسي أنه لا يتبعه في التراويح ولا في الوتر، وكذا إذا لم يتابعه في التراويح لا يتابعه في الوتر.

 .cإذا صلى مع الإمام شيئاً من التراويح يصلي معه الوتر، وكذا إذا لم يدرك معه شيئاً منها، وكذا إذا صلى التراويح مع غيره، له أن يصلي الوتر معه، وهو الصحيح، ذكره أبو الليث، وكذا قال ظهير الدين المرغيناني.

 .dلو صلى العشاء وحده فله أن يصلي التراويح مع الإمام وهو الصحيح، حتى لو دخل بعد ما صلى الإمام الفرض وشرع في التراويح فإنه يصلي الفرض أولاً وحده، ثم يتابعه في التراويح.

 .eوفي القنية لو تركوا الجماعة في الفرض ليس لهم أن يصلوا التراويح جماعة، لأنه تبع للجماعة.

ان تمام جزئیات میں عشاء یا تراویح تنہا پڑھنے والے کے لیے تراویح یا وتر کی جماعت میں شرکت کا مسئلہ تو مذکور ہے، لیکن عشاء اور تراویح دونوں کو تنہا پڑھنے والوں کے لیے وتر کی جماعت کرانے کا تذکرہ کسی جزئیہ میں نہیں ہے۔

اور علامہ رافعی رحمہ اللہ کی رائے اس لیے کمزور ہے کہ ان کے نزدیک وتر کی جماعت کی اصل وجہ رمضان کا ہونا ہے۔ البتہ قہستانی کے قول کی وجہ سے عشاء کی جماعت کی قید لگائی۔ حالانکہ خود رمضان میں یہ مسئلہ مختلف فیہ ہے، کہ وتر میں افضل جماعت ہے یا افضل گھر میں پڑھنا۔  در مختار میں ہے:

هل الأفضل في الوتر الجماعة أم المنزل؟ تصحيحان لكن نقل شارح الوهبانية ما يقتضي أن المذهب الثاني، وأقره المصنف وغيره. (بحواله شامي: 2/606)

لہذا ایک مختلف فیہ مسئلہ پر بنیاد رکھنا کمزور بات ہے۔

پھر اس مختلف فیہ مسئلے میں اگرچہ راجح جماعت ہے لیکن وتر کی جماعت کا درجہ تراویح کی جماعت کے درجے سے کم ہے۔ چنانچہ شامی میں ہے:

رجح الكمال الجماعة: ((بأنه صلى الله عليه وسلم كان أوتر بهم ثم بين العذر في تأخره مثل ما صنع في التراويح)) فالوتر كالتراويح … إلا أن  سنيتها ليست كسنية جماعة التراويح. (2/606)

اور تراویح کی جماعت کے لیے عشاء کی جماعت ضروری ہے۔ محض رمضان کا ہونا کافی نہیں۔

ولو تركوا الجماعة في الفرض لم يصلوا التراويح جماعة.

لہذا وتر کی جماعت کے لیے محض رمضان ہونا کیسے کافی ہو سکتا ہے، جس کا درجہ تراویح کی جماعت سے بھی کم ہے۔ نیز جس طرح علامہ رافعی رحمہ اللہ نے قہستانی کے قول کی وجہ سے وتر کی جماعت کے لیے عشاء کی قید لگائی ہے تو اسی طرح علامہ رافعی رحمہ اللہ کو ’’علی بن احمد‘‘ کے قول کی وجہ سے وتر کی جماعت کے لیے تراویح کی جماعت کی قید لگانی چاہیے تھی، حالانکہ علامہ رافعی رحمہ اللہ نے یہ قید نہیں لگائی، جبکہ ’’علی بن احمد‘‘  کا شامی میں مذکور قول علامہ رافعی رحمہ اللہ کے سامنے بھی  تھا۔ ظاہر ہے کہ یہ ترجیح بلا مرجح ہے۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved