• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

میسج کے ذریعے سے طلاق

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان دین وشرع متین اندریں اس مسئلہ کے کہ مسمی*** اپنی بیوی مسماة*** کی موجودگی میں اپنی ساس کو فون پر کہتاہے کہ میں آپ کی بیٹی*** کو طلاق دے رہاہوں طلاق دے رہاہوں(یعنی دوبارہ کہا) اس کے بعد شوہر نے عدت کے اندر نکاح کے رجوع کرلیا تھا۔ جناب قبلہ مفتی صاحب مسمی *** کے اپنے ساس،سسر کے ساتھ تعلقات سخت کشیدہ ہیں بلکہ ان کا اپنے گھر میں آنا بھی قطعاً پسند نہیں کرتا جب کہ اس کے سسرال والے پردہ اور شرع کے پابند لوگ ہیں اور شوہر اپنی بیوی کو میکے بھی نہیں جانے دیتا۔ جناب قبلہ مفتی صاحب رجوع کے تقریبا چار، پانچ ماہ بعد شوہر اپنی بیوی کے چہرے پر مارتاہے جس سے اس کی آنکھ بھی سوج گئی اس دوران بیوی اپنے والدین کے گھر چلی جاتی ہے پھر تقریبا ایک ماہ بعد شوہر اپنی بیوی کو 27 رمضان 1430 ہجری کو موبائل پر میسج بھیجتاہے جس کی عبارت یہ ہے:

"سوری میں اپنے مسئلے لوگوں میں نہیں لا سکتا اب یہ تمہاری پسند ہے میری نہیں ، اب تم میری طرف سے آزاد ہو ، تمہارے اور میرے راستے الگ الگ ہیں اب تم وہی کرو جو تم کو اچھا لگے”۔

قران وسنت اور فقہ حنفی کی روشنی میں ہماری رہنمائی فرمائیں، کیا دونوں کا میاں بیوی کی حیثیت سے رہنا شرعا جائز ہے یا نہیں؟ جب کہ شوہر اپنی بیوی سے دوبارہ صلح کرنا اور اسے اپنے گھر میں لے جانا چاہتاہے جب کہ لڑکی کے والدین کہتے ہیں کہ اب تمہارا تعلق ہماری بیٹی سے بالکل ختم ہوچکاہے ۔لڑکا کہتاہے مذکورہ میسج سے میری نیت ہرگز طلاق دینے کی نہیں تھی۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

اگر *** اپنی بیوی کے سامنے اس بات پر کہ ” مذکورہ میسج سے میری نیت طلاق کی نہیں تھی” قسم دے دے تو پھر دونوں میاں بیوی اکٹھے رہ سکتے ہیں۔

وفي الشامية:والثالث يتوقف عليها في حالة الرضاء فقط…والقول له بيمينه في عدم النية ويكفي تحلفيها له في منزله. (ص: 504 ، 505 ج 2) ۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved