• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

شدید غصے میں بیوی کو’’یو، دوا، درے، تا پو مو طلوقا یے‘‘ (ایک، دو، تین، تم مجھ پر مطلقہ ہو) کہنے کا حکم

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میں پچھلے چار پانچ سال سے ڈپریشن کا مریض ہوں جس کا میں علاج کروا رہا ہوں ، بعض اوقات غصے میں ہوتا ہوں تو مجھے سمجھ نہیں آتا کہ میں کیا کر رہا ہوں، ڈپریشن کی وجہ سے دو مرتبہ خودکشی کی کوشش بھی کر چکا ہوں، ایک مرتبہ میں نے خود کو مارنے کے لیے رائفل نکال لی تھی لیکن بیوی نے بچا لیا،  ایک دن فون پر ساس سے میری بات ہو رہی  تھی، میری بیوی بھی میری ساس کے پاس بیٹھی ہوئی تھی اس نے اپنی والدہ سے کہا کہ ’’دفع کریں، کیوں اس کی منتیں کر رہی ہیں‘‘ تو مجھے غصہ آ گیا اور میری زبان سے یہ الفاظ نکل گئے ’’یو، دوا، درے، تا پو مو طلوقا یے‘‘ (ایک، دو، تین، تم مجھ پر مطلقہ ہو) نہ میری طلاق دینے کی نیت  تھی،اور نہ ہی  مجھے پتہ  چلا کہ یہ الفاظ میرے منہ سے کب اور کیسے  نکلے، بعد میں میری سالی سے میری بات ہوئی تو اس نے مجھے بتایا کہ آپ نے یہ الفاظ استعمال کیے ہیں، اس واقعہ میں غصے کی حالت میں میں نے کوئی خلاف عادت کام نہیں کیا،  میں حلفیہ بیان تحریر کر رہا ہوں کہ مجھے پتہ نہیں چلا کہ یہ الفاظ میری زبان سے کب اور کیسے نکلے، اس وقت میری بیوی کا تین ماہ کا حمل تھا اس واقعہ کے ڈیڑھ مہینہ بعد میری بیوی نے مجھے بلایا تھا اور اسی حمل کے دوران ہمارا عملی رجوع ہو گیا تھا۔ مہربانی فرما کر اس بیان کو مدنظر رکھتے ہوئے راہنمائی فرمائیں کہ مذکورہ صورت میں کتنی طلاقیں واقع ہوئی ہیں؟ تاکہ میں اپنا گھر آباد کر سکوں۔

نوٹ: میڈیکل رپورٹ ساتھ لف ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔

توجیہ: مذکورہ صورت میں  طلاق کے الفاظ بولتے وقت اگرچہ شوہر سے کوئی خلاف عادت قول یا فعل سرزد نہیں ہوا، لیکن چونکہ شوہر ڈپریشن کا مریض ہے   جیسا کہ میڈیکل رپورٹ میں لکھا ہوا  ہے نیز اس ڈپریشن کی وجہ سے دو مرتبہ خودکشی کی کوشش بھی کر چکا ہے جس سے معلوم ہوا کہ غصے میں اس کی عقل مغلوب  ہو جاتی ہے، اور اس کا دعوی بھی ہے کہ طلاق کے الفاظ بولتے وقت   اسے معلوم ہی نہیں تھا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے اور کیا کر رہا ہے، لہذا شوہر کے اس دعوی کی تصدیق کی جائے گی۔

فتاوی شامی (4/843) میں ہے:(لا يقع طلاق المولى على امرأة عبده)……………. (والمدهوش) فتح. وفي القاموس: دهش الرجل تحير ودهش بالبناء للمفعول فهو مدهوش وأدهشه الله(قوله وفي القاموس دهش) أي بالكسر كفرح. ثم إن اقتصاره على ذكر التحير غير صحيح، فإنه في القاموس قال بعده أو: ذهب عقله حياء أو خوفا اهـ وهذا هو المراد هنا، ولذا جعله في البحر داخلا في المجنون.مطلب في طلاق المدهوشوقال في الخيرية: غلط من فسره هنا بالتحير، إذ لا يلزم من التحير وهو التردد في الأمر ذهاب العقل. وسئل نظما فيمن طلق زوجته ثلاثا في مجلس القاضي وهو مغتاظ مدهوش، أجاب نظما أيضا بأن الدهش من أقسام الجنون فلا يقع، وإذا كان يعتاده بأن عرف منه الدهش مرة يصدق بلا برهان. اھ.قلت: وللحافظ ابن القيم الحنبلي رسالة في طلاق الغضبان قال فيها: إنه على ثلاثة أقسام: أحدها أن يحصل له مبادئ الغضب بحيث لا يتغير عقله ويعلم ما يقول ويقصده، وهذا لا إشكال فيه. والثاني أن يبلغ النهاية فلا يعلم ما يقول ولا يريده، فهذا لا ريب أنه لا ينفذ شيء من أقواله.۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved