• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

میاں بیوی کا الفاظ طلاق میں اختلاف

استفتاء

بیوی کا بیان:

میری شادی مورخہ 2نومبر2013ء کو قرار پائی۔ شادی کے ایک سال بعد بیٹی پیدا ہوئی اور دو سال بعد بیٹا ہوا۔ میری چار نندیں ہیں جن میں سے دو میرے ساتھ رہتی ہیں۔ شادی کے شروع کے وقت میں ہی گھر میں لڑائی  جھگڑے شروع ہوگئے، ابھی شادی کو کچھ عرصہ ہی گزرا تھا کہ گھر میں ناچاقیاں شروع ہوگئیں،  اور اس کی بنیادی وجہ میرے شوہر کی بہنیں ہیں۔ جن میں سے دو شادی شدہ ہوتے ہوئے بھی اپنے بھائی کے گھر میں ہی قیام پذیر ہیں ، اور ایک تیسری بہن پچھلے کئی سالوں سے ہمارے ہی ساتھ رہتی ہے۔

ایک سال انہی ناچاقیوں میں گزر گیا کیونکہ میری والدہ بیچ میں ثالثی کا کردار ادا کرتی رہیں اور مجھے ہی مورد الزام ٹھہرا کر گھر بسانے اور صبر کی تلقین کرتی رہیں پھر جب مجھےاللہ تعالی نے بیٹی سے نوازا تو اس کے بعد بھی جھگڑوں کا سلسلہ جاری رہا۔ تقریباً دو سال کے بعد اللہ تعالیٰ نے مجھے بیٹا عطا کیا۔ اس کے بعد تو ان لڑائی جھگڑوں نے مزید زور پکڑا اورمجھ پر تشدد شروع ہوگیا۔ ایک دن میرے شوہر نے اپنی والدہ مرحومہ کے سامنے کہا کہ ’’اپنا سامان باندھو اور اپنی ماں کے گھر چلی جاؤ، تمہیں میری طرف سے طلاق ہے۔‘‘ میری ساس نے غصے سے اپنے بیٹے کو کہا کہ خاموش ہوجاؤ اس سے  آگے کچھ نہ کہنا،  یہ اس گھر کی بیٹی ہے۔ اس کو طلاق نہیں دینی، اور پھر مجھ سے کہنے لگی کہ یہ بات اپنی والدہ اور گھر والوں کو نہ بتانا۔ میں نے یہ بات بھی چھپائی اور مکمل خاموشی اختیار کر لی اور میں ان کے ساتھ ہی رہتی رہی۔ میں اس بات کو بھی شامل کرنا چاہتی ہوں کہ جب میں بیاہ کر اس گھر میں آئی تھی تو اس وقت مجھے معلوم ہوا کہ میرا شوہر سگریٹ نوشی کا بھی عادی ہے اور آہستہ آہستہ یہ بات بھی سامنے آئی کہ یہ سگریٹ میں چرس ڈال کر بھی پیتا ہے۔

میرا بیٹا (**) پیدا ہونے کے چار سال بعد اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک اور بیٹا عطا کیا۔ جو اب اٹھارہ (18) ماہ کا ہو گیا ہے۔ اس عرصے کے دوران انہوں نے مجھ پر تشدد کی انتہا کر دی اور مجھے بالوں سے پکڑ کر گھسیٹا گیا، مجھے اُٹھا اُٹھا کر زمین پر پھینکا گیا اور تھپڑوں اور مکوں سے میرے چہرے پر اس زور سے مارا جاتا کہ کئی دفعہ میرے منہ سے خون نکل آتا لیکن اس کے باوجود میں نے صبر کا دامن نہیں چھوڑا۔ ابھی ہال ہی میں مجھے **(جو کہ میرا خاوند ہے) کے بارے میں معلوم  ہوا کہ اس نے کوئی خطرناک  ICE  نامی نشہ شروع کیاہے۔ اور وہ اب مکمل اس نشے کا عادی ہو چکا ہے۔ میرے کئی بار منع کرنے کے باوجود اس پر کوئی اثر نہ ہوا کہ ایک دن اس نے بھرپور کوشش کی کہ میں نشہ کروں اور اس پر اس حد تک بضد ہو اکہ اگر تم نے اس کو نہ پیا تو میں تمہیں چھوڑ دوں گا۔ پھر اچانک ایک رات ایسا ہو اکہ مجھے کہا گیا کہ تیار ہوجاؤ ہم دونوں باہر سیر کے لیے چلتے ہیں۔ میں نے اپنا حجاب پہنا اور اس کے ہمراہ گاڑی میں بیٹھ گئی۔ میں نے کئی بار اصرار کیا کہ بچوں کو بھی ساتھ لے چلتے ہیں، لیکن میرے شوہر نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ بس تھوڑی دیر میں واپس آجائیں گے۔ خیر گاڑی میں باہر چکر لگانے کے بعد جب گھر کی طرف روانہ ہوئے تو اس نے گاڑی یہ کہہ کر موڑ دی کہ یہاں کسی دوست  کے گھر جانا ہے اور اُس سے ملنا ہے۔ میں اور میرا شوہر جب اُس گھرمیں داخل ہوئے تو اس گھر کا عجیب ماحول مجھے بہت پُر اسرار لگا اور گھر کے ماحول کو دیکھ کر میرے حواس باختہ ہو گئے کہ میں کہاں آئی ہوں، وہاں تین مرد اور ایک عورت پہلے ہی سے موجود تھے جو مجھے عجیب و غریب طریقے سے دیکھ رہے تھے اور وہ گھر پورا دھوئیں سے بھرا ہوا تھا اور وہ سب لوگ کسی نشہ لینی والی چیز کے اردگرد بیٹھے ہوئے تھے۔ مختصراً یہ کہ میرے شوہر نے وہاں لوگوں کو میرا تعارف غیر محرم رشتے کی طرح کروایا اور ان کے درمیان بیٹھ کر نشہ کرنے کی دعوت دینی شروع کر دی۔ اور اس نے زبردستی میرا ہاتھ پکڑ کر وہاں بٹھانے کی بھرپور کوشش کی۔ میں نے کسی طرح اپنا ہاتھ چھڑایا اور گھر سے نکل کر گاڑی میں بیٹھ گئی۔ کچھ دیر بعد میرا شوہر گاڑی میں آکر بیٹھ گیا اور میں نے شدید غصے میں *** کو کہا کہ یہاں سے فوراً گھر لے کر چلو۔ پھر گھر پہنچ جانے کے بعد لڑائی جھگڑا شروع کر دیا اور مجھے تشدد کا نشانہ بھی بنایا۔ اگلی ہی صبح شوہر نے میری والدہ کو گھر بلایا اور ان کے سامنے مجھ  پر بےہودہ اقسام کی تہمتیں اور الزامات لگانے لگ گیا اور کہا کہ ’’اپنی بیٹی کو یہاں سے لے جاؤ‘‘  میری والدہ کے یہ پوچھنے پر کہ جتنی بھی تہمتیں اور الزامات جو کہ غیریقینی ہیں، تم میری بیٹی پر لگارہے ہو، کیا تمہارے  پاس کوئی ثبوت یا گواہ ہے کہ ان باتوں پر یقین کیا جائے تو اُس نے جواباً میری والدہ سے کہا کہ ’’آپ کی بیٹی مجھ پر حرام ہے، حرام ہے، حرام ہے، اس کا میرے کپڑے دھونا، میرا کھانا بنانا اور میرا ہر کام کرنا حرام ہے۔‘‘ میری والدہ نے ** کو بہت سمجھایا کہ آپ کی بیٹی ابھی بہت چھوٹی ہے اس کا ہی خیال کر لو، لیکن*** نے غصے میں کہا کہ مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ آپ بس اپنی بیٹی کو لے کر جائیں۔ لیکن میری والدہ نے مجھے ہی سمجھایا اور کہا کہ صبر سے کام لو۔ اور وہ واپس چلی گئیں۔

میری والدہ کے سمجھانے کے بعد میں نے بعد میں  اپنے شوہر سے رات بھر معافی مانگی اور کہا کہ جو آپ کہو گے ویسا ہی کرونگی لیکن میرے شوہر نے میری معافی کو نہیں سنا اور مجھےبرا بھلا کہنے لگا۔ پھر میں نے بچوں کو سنبھالا اور سوگئی۔ صبح پھر میری والدہ کو فون کیا لیکن میں روتی رہ گئی میری کوئی بات نہ سنی گئی اور میری والدہ مجھے اور میرے تین بچوں کو اپنے ہمراہ  گھر لے آئیں۔ میرا سوال یہ ہے کہ اب بھی کوئی ثالثی کی گنجائش ہے؟ یا مجھ پر طلاق واقع ہوچکی ہے؟ جبکہ اس سے پہلے مجھے ایک دفعہ طلاق مورخہ 9دسمبر 2018ء کو ہوچکی  ہے  اور ’’مجھ پر حرام ہے‘‘ کے الفاظ کی تعداد ہی نہیں گنی جاسکتی۔ آپ سے درخواست ہے کہ مجھے سوال کا جواب جلد بتا دیا جائے۔ آپ کی عین نوازش ہوگی۔

شوہر کا بیان:

پہلی طلاق کے بارے میں تفصیل یہ ہے کہ: میرے فون میں آٹو  کال ریکارڈر تھا جس وجہ سے ایک کال میں نے سنی  کہ میری زوجہ کو  اس کی والدہ گمراہ کن باتیں سمجھا رہی تھی، اس بات پر اس وقت جھگڑا ہوا ، میں خود اپنے بچوں کو سسرال لے کر گیا میری زوجہ وہاں رہنا چاہ رہی تھی ، اور کچھ  دن تک  وہ نہ آئی، تب میرے بہت غصہ کرنے پر بھی نہ آنے پرمیں نے کہا  کہ’’ اگر تم نہ آئی تو میں طلاق دےدوں گا‘‘۔  وہ گھر آگئی اور معاملہ ختم ہو گیا۔

اور حرام والے الفاظ میں تفصیل یہ ہےکہ : شادی کے بعد میرا اپنی زوجہ سے کسی غیر اخلاقی بات پر اختلاف تھا، کئی بار اسی وجہ سے  اپنی زوجہ کو سمجھاتا رہا کہ یہ غلط حرکت ہے، غیر اخلاقی ہے، پھر آٹھ سال بعد مجبوراً زوجہ کی والدہ کو بلاکر زوجہ کے سامنے ساری بات کی، اور کہا کہ ’’اپنی والدہ کے سامنے کہہ دے کہ میں جھوٹ بول رہا ہوں، دوسری صورت میں تم جب تک اپنی غلطی تسلیم نہ کرو، اور آئندہ سے نہ کرنے کی نیت اور ارادہ نہیں کرتی تو تم مجھ پر حرام ہو‘‘۔ اس کے علاوہ کوئی بھی  بات جھوٹ، اور غلط بیانی ہے۔

(دوبارہ بیوی کابیان):

”میرے شوہر نے” اگر“ والی کوئی بات نہیں کہی تھی بلکہ اسی طرح الفاظ کہے تھے جس طرح لکھے ہیں۔“

(لڑکی کی والدہ کا بیان):

”خدا کو گواہ بناکر کہتی ہوں کہ میرے سامنے میرے داماد نے میری بیٹی کو کہا تھا کہ آپ کی بیٹی مجھ پر حرام ہے، حرام ہے، حرام ہے، جس طرح سوال میں لکھا ہے۔“

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں بیوی کے حق میں دو بائنہ  طلاقیں واقع ہو گئی ہیں،  جن کی وجہ سے سابقہ نکاح ختم ہو چکا ہے، لہذا اگر میاں بیوی دوبارہ اکٹھے رہنا چاہیں تو گواہوں کی موجود گی میں نئے حق مہر  کے ساتھ دوبارہ نکاح کرکے رہ سکتے ہیں۔

نوٹ: دوبارہ نکاح کرنے کی صورت میں شوہر کو صرف ایک طلاق کا حق حاصل ہوگا۔

توجیہ: طلاق کے معاملہ میں عورت کی حیثیت قاضی کی طرح ہوتی ہے ، لہذا اگر وہ شوہر سے طلاق کے الفاظ خود سن لے ،  یا اسے معتبر ذریعہ سے شوہر کا طلاق دینا معلوم ہوجائے  ، تو وہ اپنے علم کے مطابق عمل کرنے کی پابند ہوتی ہے ، مذکورہ صورت میں بیوی کے بیان کے مطابق شوہر نے پہلی مرتبہ جو الفاظ کہے کہ ’’اپنا سامان باندھو اور اپنی ماں کے گھر چلی جاؤ، تمہیں میری طرف سے طلاق ہے‘‘ ان سے ایک رجعی طلاق واقع ہوچکی تھی، اور اس کے بعد میاں بیوی چونکہ اکٹھے رہتے رہے اس لئے رجوع ہوگیا اور نکاح قائم رہا۔ اس کے بعد ایک لڑائی کے دوران شوہر نے بیوی کی موجودگی میں اس کی والدہ کے سامنے جب یہ کہا   کہ ’’آپ کی بیٹی مجھ پر حرام ہے، حرام ہے، حرام ہے، اس کا میرے کپڑے دھونا، میرا کھانا بنانا، اور میرا ہر کام کرنا حرام ہے‘‘  تو اس سے ایک بائنہ طلاق واقع ہوگئی۔ اس جملہ میں اگرچہ حرام کا لفظ متعدد دفعہ مذکور ہےلیکن چونکہ اس سے بائنہ طلاق واقع ہوتی ہے لہذا ”لايلحق البائن البائن“ کے تحت ایک سے زائد مرتبہ کہنے سے مزید کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔

ردالمحتار (342/4) میں ہے:”والمراة كالقاضي اذا سمعته او اخبرته عدل لايحل لها تمكينه“امدادالاحكام (561/2) میں ہے:”قال في عدة ارباب الفتوي (ج:1، ص:28)  وما لا يصدق فيه المرء عند القاضي لا يفتي فيه كما لا يقضي فيه ، وقال في شرح نظم النقاية : وكما لايدينه القاضي كذلك اذا سمعته منه المراة او شهد به عندها عدول لايسعها ان تدينه لانها كالقاضي لاتعرف منه الاالظاهر ، انتهي .“درمختار مع الرد (4/452) میں ہے:”ومن الالفاظ المستعملة : ’’الطلاق يلزمني ، والحرام يلزمني، وعلي الطلاق، وعلي الحرام،‘‘ فيقع بلانية للعرف،.قوله : (فيقع بلانية للعرف) اي: فيكون صريحا لا كناية … … … … … اقول وكذلك ذكرها السروجي في الغاية كما ياتي ، وما افتي به في الخيريه من عدم الوقوع تبعا لابي السعود افندي، فقد رجع عنه وافتي عقبه بخلافه، وقال: اقول الحق: الوقوع به في هذا الزمان لاشتهاره في معني التطليق، فيجب الرجوع اليه والتعويل عليه عملا بالاحتياط في امر الفروج اه.“ردالمحتار (529/4) میں ہے:”قال ح : ولا يرد ”انت علي حرام“ علي المفتي به من عدم توقفه علي النيه مع انه لايلحق البائن ، ولايلحقه البائن لكونه بائنا لما ان عدم توقفه علي النية امر عرض له لا بحسب اصل وضعه اه. “امداد المفتین (ص:525) میں ہے:” لفظ حرام سے بلا نیت طلاق کے بھی طلاق بائنہ پڑ جاتی ہے اور جب پڑ گئی تو دوسری اور تیسری مرتبہ جو پھر حرام کے الفاظ کہے ان سے کوئی طلاق نہ پڑے گی لہذا ایک طلاق بائنہ رہ گئی بدوں حلالہ کے عورت کی رضاء سے نکاح جدید بالفعل کرسکتا ہے۔ واللہ سبحانہ وتعالی اعلم“۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved