• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

  شوہر نے دو طلاقوں کے بعد رجوع کرلیا، پھر کہا کہ میں نے تمہیں چھوڑ دیا، کیا تینوں طلاقیں واقع ہوگئیں؟ اور عدت کا کیا حکم ہے؟

استفتاء

***** کا نکاح ****سے ہوا ۔ تقریباً ڈیڑھ سال *** اپنے شوہر کے ساتھ رہی، اسی عرصہ میں شوہر اور بیوی میں رنجش، نفرت اور لڑائی شروع ہوگئی جس کی بنیا دپر شوہنے اپنی زوجہ*** کو سب لوگوں کے سامنے دو طلاقیں دے دیں۔ اس کے بعد شوہر *** نے رجوع کر لیا۔ کچھ ہی ایام گزرے تھے کہ پھر سے شوہر اور بیوی میں اَن بَن اور رنجش شروع ہوگئی اور اسی دوران *** کے قول کے مطابق نہ جانے کتنی مرتبہ شوہر طلاق دے چکا ہے۔ جب**سے طلاق کے بارے میں لوگوں نے پوچھ تاچھ کی تو اس نے انکار کردیا حالانکہ*** کے قول کے مطابق اس نے دس مرتبہ طلاق دی۔

شوہر ** نے اپنی زوجہ*** کو کہا کہ ’’میں نے تم کو چھوڑ دیا ہے، تم پھر سے میرے پاس کیوں آتی ہو، تمہارے باپ نے تم کو میرے پاس کیوں بھیج دیا؟‘‘ پھر****نے اپنے خسر جو لڑکی کا باپ ہے، سے موبائل فون پر کافی گالم گلوچ کیا اور کہا کہ ’’ہم تمہاری بیٹی کو پہلے ہی چھوڑ چکے ہیں‘‘ لڑکی کے خاندان والے لڑکی کو اپنے مائیکے واپس لے آئے۔ ایک ماہ کا عرصہ گزرنے کے بعد لڑکی والوں نے  لڑکے کے موبائل پر پھر سے رابطہ کیا تو لڑکے ***نے کہا کہ ہمیں اس لڑکی سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔

اب کیا حکم ہے ؟ صورت مسئولہ میں کیا لڑکی پر تینوں طلاقیں واقع ہوچکی ہیں یا نہیں؟ اگر ہوچکی ہیں تو عدت کا کیا حکم ہے ؟ کیونکہ لڑکی کو اپنے گھر میں آئے ہوئے تقریباً دو سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔ اس دوران شوہر سے ابھی تک کوئی رابطہ نہیں ہوا ہے۔ اب لڑکی نے دوسرا نکاح کرنا ہے اور ابھی تک شوہر***نے دین مہر اور کسی بھی چیز کا کوئی خرچ نہیں دیا جبکہ ۳سال کا ایک بچہ بھی ہے۔

وضاحت مطلوب ہے کہ:

( 1)جو پہلی مرتبہ دو طلاقیں سب لوگوں کے سامنے دی تھیں، ان میں کیا الفاظ استعمال کیے تھے؟

(2)پہلی دو طلاقیں دینے کے کتنے عرصے بعد شوہر نے رجوع کیا تھا؟

(3)تیسری مرتبہ رنجش کے درمیان جو کئی مرتبہ طلاق دی، اس میں کیا الفاظ استعمال کیئے تھے؟

(4) شوہر سے علیحدہ ہونے کے بعد سے اب تک کیا بیوی کی تین ماہواریاں گزر چکی ہیں؟

جوابِ وضاحت:

(1)شوہر نے کہا تھا کہ ’’میں تمہیں دو طلاق دیتا ہوں‘‘

(2)ایک ماہ بعد رجوع کرلیا تھا۔

(3)شوہر نے کئی مرتبہ کہا تھا کہ ’’میں نے تمہیں چھوڑ دیا‘‘

(4)جی ، گزر چکی ہیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں بیوی کے حق میں تینوں طلاقیں واقع ہوچکی ہیں جن کی وجہ سے بیوی شوہر پر حرام ہوچکی ہے لہٰذا اب نہ رجوع ہوسکتا ہے اور نہ صلح کی گنجائش ہے۔اور چونکہ اس کے بعد عورت کی تین ماہواریاں گزر چکی ہیں اس لیے عدت بھی گزر چکی ہے اور عورت آزاد ہے۔

توجیہ: طلاق کے معاملے میں عورت کی حیثیت قاضی کی طرح ہوتی ہے لہذا اگر وہ شوہر سے طلاق دینا خود سن لے یا اسے معتبر ذریعہ سے شوہر کے طلاق دینے کی خبر پہنچے تو اس کے لیے اس کے مطابق عمل کرنا ضروری ہوتا ہے۔ مذکورہ صورت میں جب شوہر نے سب لوگوں سے سامنے بیوی کو یہ کہا تھا کہ ’’میں تمہیں دو طلاق دیتا ہوں‘‘ تو یہ جملہ چونکہ طلاق کے معنی میں صریح ہے اس لیے اس سے دو رجعی طلاقیں واقع ہوئیں، اس کے بعد عدت کے اندر شوہر نے رجوع کرلیا تھا اس لیے نکاح قائم رہا۔ اس کے بعد شوہر نے جب یہ کہا کہ ’’میں نے تمہیں چھوڑ دیا‘‘ تو یہ جملہ بھی ہمارے عرف میں طلاق کے معنی میں صریح ہے اس لیے اس سے تیسری طلاق بھی واقع ہوگئی۔

رد المحتار (449/4) میں ہے:والمرأة كالقاضي إذا سمعته أو أخبرها عدل لا يحل لها تمكينهدر مختار (4/443) میں ہے:(صريحه ما لم يستعمل إلا فيه) ولو بالفارسية (كطلقتك وأنت طالق ومطلقة)….. (يقع بها) أي بهذه الألفاظ وما بمعناها من الصريح، ….. (واحدة رجعية…..عالمگیریہ (1/470) میں ہے:وإذا طلق الرجل امرأته تطليقة رجعية أو تطليقتين فله أن يراجعها في عدتها رضيت بذلك أو لم ترض كذا في الهداية.بدائع الصنائع (3/ 283) میں ہے:أما الطلاق الرجعي فالحكم الأصلي له هو نقصان العددرد المحتار (519/4) میں ہے:فإذا قال "رهاكردم” أي سرحتك يقع به الرجعي مع أن أصله كناية أيضا، وما ذاك إلا لأنه غلب في عرف الناس استعماله في الطلاق وقد مر أن الصريح ما لم يستعمل إلا في الطلاق من أي لغة كانت.در مختار (5/183) میں ہے:(وهي [العدة] في) حق (حرة) ولو كتابية تحت مسلم (تحيض لطلاق) ولو رجعيا …… (بعد الدخول حقيقة أو حكما) …… (ثلاث حيض كوامل)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved