• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

شوہر کا اپنی بیوی کو ایک طلاق کا نوٹس بھیجنے اور کچھ عرصہ بعد تین طلاقیں دینے کا حکم

استفتاء

شوہر کا بیان:

میرا نام **ہے میں نے دو شادیاں کی ہیں، میری دوسری بیوی مردان سے ہے، اس کی پہلے سے ایک بیٹی تھی اور شادی کو تقریباً 22سال ہو چکے ہیں۔چند سال پہلے کی بات ہے کہ میں اپنے آفس میں تھا تو گھر میں میری بہو اور میری سوتیلی بیٹی کی آپس میں تلخ کلامی ہوگئی، یہ تلخ کلامی فون پر ہوئی تھی،میری بہو نے اس کی ریکارڈنگ میرے بیٹے کو سینڈ کردی، میرا بیٹا آفس میں میرے ساتھ ہی تھا تو اس نے وہ ریکارڈنگ مجھے سنائی جس میں بہت سے دھمکی آمیز جملے تھے جس پر مجھے غصہ آیا اور میں گھر آگیا اور اپنی بیٹی سے بحث کر رہا تھا کہ اس کی طرف سے زیادتی ہوئی ہے یا کس کی طرف سے زیادتی ہوئی ہے، اسی دوران میری دوسری بیوی آگئی، میں نے غصے میں اپنی دوسری بیوی کو کہہ دیا کہ”میں طلاق دیتا ہوں، میں طلاق دیتا ہوں، میں طلاق دیتا ہوں” اور یہ الفاظ کہنے کے بعد میں واپس آفس آگیا اور طلاق کے الفاظ بولتے وقت کوئی خلاف عادت کام مثلا کوئی توڑ پھوڑ وغیرہ نہیں ہوا، البتہ غصے میں یہ الفاظ منہ سے نکل گئے اور یہ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ الفاظ یہی تھے۔

بیوی کا بیان:

مذکورہ صورتحال ایسے ہی ہے لیکن میرے شوہر نے اس سے بہت پہلے طلاقنامے بھی بھیجے تھے ان کی تفصیل اس میں نہیں آئی۔ ایک پر دستخط کر دیئے تھے جبکہ دوسرے پر دستخط نہیں کیے تھے۔

شوہر کا مکرر بیان:

میں نے ایک طلاقنامہ بھیجا تھا جس پر میں نے دستخط کیے تھے اور پڑھا بھی تھا۔اس کے چند دن بعد ہماری صلح ہوگئی تھی اور ہم نے اکٹھے رہنا شروع کر دیا تھا۔ دوسرا طلاقنامہ میں نے لکھوایا تھا لیکن ابھی دستخط نہیں کیے تھے، بیوی کو دکھایا کہ اس پر دستخط کردوں؟ اس نے کہا کہ پھاڑ دو تو میں نے وہ طلاقنامہ پھاڑدیا۔

طلاقنامہ کی عبارت:

’’۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔من **مسماۃ مذکوریہ کو اس کے بار بار اسرار پر پہلا نوٹس طلاقنامہ اول ارسال کررہا ہوں۔اندر میعاد دوسرا اورتیسرا  نوٹس بھی بھیج دوں گا اور اپنی زوجیت سے آزاد کردوں گا۔ لہذا تحریر بقائمی حوش وحواس خمسہ بدرستی عقل وصحت بدن بلا جبر واکراہ غیرے برضامندی سن کر وسمجھ کر وپڑھ کر درست تسلیم کرتے ہوئے روبرو گواہان دستخط ونشان انگھوٹے ثبت کردئیے ہیں۔۔۔۔۔۔الخ‘‘

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں تینوں طلاقیں واقع ہوچکی ہیں جن کی وجہ سے بیوی شوہر پر حرام ہو گئی ہے، لہذا اب رجوع یا صلح کی گنجائش باقی نہیں رہی۔

توجیہ: مذکورہ صورت میں جب شوہر نے طلاقنامہ لکھوایا اور پڑھ کر اس پر دستخط کیے تو طلاقنامے کی اس عبارت سے کہ”طلاقنامہ ارسال کررہا ہوں”ایک رجعی طلاق واقع ہوگئی، اس کے بعد میاں بیوی اکٹھے رہتے رہے اس لئے رجوع ہوگیا اور نکاح باقی رہا اور شوہر کے پاس دو طلاقوں کا حق باقی رہ گیا، اس کے بعد شوہر نے جو دوسرا طلاقنامہ لکھوایا تھا چونکہ اس پر دستخط نہیں کیے تھے اس لئے اس طلاقنامے سے کوئی طلاق نہیں ہوئی، پھر اس کے بعد شوہر نے جب تین دفعہ طلاق کے الفاظ بولے تو اگرچہ شوہر اس وقت غصے میں تھا لیکن طلاق کے الفاظ بولتے وقت چونکہ شوہر اپنے ہوش وحواس میں تھا اور اسے علم تھا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے اور نہ ہی شوہر سے کوئی خلاف عادت قول یا فعل صادر ہوا ہے اور غصے کی ایسی کیفیت میں دی گئی طلاق معتبر ہوتی ہے، لہٰذا شوہر نے جب غصے میں اپنی بیوی کو تین مرتبہ کہا کہ”میں طلاق دیتا ہوں، میں طلاق دیتا ہوں، میں طلاق دیتا ہوں”تو اس سے بقیہ دو طلاقیں  بھی واقع ہو گئیں۔

تبیین الحقائق (218/6)میں ہے:ثم الكتاب على ثلاث مراتب مستبين مرسوم وهو أن يكون معنونا أى مصدرا بالعنوان وهو أن يكتب في صدره من فلان الى فلان على ما جرت به العادة في تيسير الكتاب فيكون هذا كالنطقردالمحتار(443/4)میں ہے:وفي التتارخانية: ….. ولو استكتب من أخر كتابا بطلاقها وقرأه على الزوج فأخذه الزوج وختمه وعنونه وبعث به اليها فأتاها وقع إن أقر الزوج أنه كتابهعالمگیری(407/1)میں ہے:وإذا طلق الرجل إمراته تطليقة رجعية أو تطليقتين فله أن يراجعها في عدتها رضيت بذالك أو لم ترض كذا في الهدايةبدائع الصنائع(283/3)میں ہے:أما الطلاق الرجعى فالحكم الأصلى له  هو نقصان العدد، وزوال الملك وحل الوطء فليس بحكم أصلى له لازم حتى لا يثبت للحال وإنما يثبت في الثانى بعد انقضاء العدة.ردالمحتار (443/4)میں ہے:وإن لم يقر أنه كتابه ولم تقم بينة لكنه وصف الأمر على وجه لاتطلق قضاء ولا ديانة، وكذا كل كتاب لم يكتبه بخطه ولم يمله بنفسه لا يقع الطلاق مالم يقر أنه كتابه.ردالمحتار (439/4)میں ہے:وللحافظ ابن القيم الحنبلي رسالة في طلاق الغضبان قال فيها إنه على ثلاثة أقسام: أحدها أن يحصل له مبادى الغضب بحيث لايتغير عقله ويعلم ما يقول ويقصده، وهذا لا إشكال فيه.الثاني أن يبلغ النهاية فلا يعلم ما يقول ولا يريده فهذا لاريب أنه لا ينفذ شيء من أقوالهالثالث من توسط بين المرتبتين بحيث لم يصر كالمجنون فهذا محل النظر والأدلة تدل على عدم نفوذ أقوله اه….(وبعد أسطر) فالذي ينبغي التعويل عليه في المدهوش ونحوه إناطة الحكم بغلبة الخلل في أقواله وأفعاله الخارجة عن عادته……………فما دام في حال غلبة الخلل في الأقوال والأفعال لا تعتبر أقواله وإن كان يعلمها ويريدهادرمختارمع ردالمحتار (443/4)میں ہے:(صريحه مالم يستعمل إلا فيه) ولو بالفارسية (كطلقتك وأنت طالق ومطلقة)….. (ويقع بها) أى: بهذه الفاظ وما بمعناها من الصريح… (واحدة رجعية، وإن نوى خلافها)شامی(509/4)میں ہے:فروع: كرر لفظ الطلاق وقع الكل وإن نوى التاكيد دين.بدائع الصنائع(295/3)میں ہے:وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلى هو زوال الملك وزوال حل المحلية أيضاً حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر لقوله عزوجل{فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره} سواء طلقها ثلاثا متفرقا أو جملة واحدة…..الخ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved