• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

شوہر نے دو طلاقنامے بھیجنے کے بعد صلح کرلی پھر کچھ عرصہ بعد تیسرا طلاقنامہ بھیج دیا، اب صلح ہوسکتی ہے یا نہیں؟

استفتاء

مفتی صاحب! میرے شوہر نے مجھے نوٹس طلاقِ اول 2019/11/25 کو بذریعہ تحریری اشٹام پیپر بھیجا، اس کے بعد طلاق دوئم کا نوٹس مورخہ 2019/12/26 کو بھیجا۔ بعد ازاں رشتہ داروں کی مداخلت ومنت سماجت پر ہمارے درمیان صلح ہوگئی تھی لیکن نکاح دوبارہ نہیں ہوا تھا۔ صلح ہونے کے بعد میرے شوہر نے پھر مجھے طلاق اول کا نوٹس 2020/ 08/11 کو بھیج دیا، اس کے علاوہ میرے شوہر نے مجھے کبھی زبان سے طلاق کے الفاظ نہیں بولے۔ لہٰذا میری آپ سے یہ درخواست ہے کہ ہمارے لیے کوئی گنجائش ہے کہ ہم پھر سے ایک ہوجائیں یا پھر اسلام کے حوالے سے مجھے تینوں طلاقیں ہوگئی ہیں؟ برائے مہربانی میری رہنمائی فرمائیں۔ شکریہ

نوٹس طلاق اول:

’’۔۔۔۔۔۔۔ فریقِ دوئم اکثر میری اور میرے والدین کی عزت نہ کرتی ہے، بات بات پر لڑائی جھگڑا کرتی رہتی ہے اور اب فریقِ دوئم کے اس رویہ کی وجہ سے کافی پریشان رہتا ہوں اور اب بہت مجبور ہوکر فریقِ دوئم کو نوٹس طلاق اول ارسال کردیا ہے، آج سے فریقِ اول نے فریقِ دوئم کو اپنی زوجیت سے علیحدہ کرنے کا فیصلہ کردیا ہے، آئندہ فریقِ دوئم میرے نفس پر حرام ہے رو برو گواہان نوٹس ہذا تحریر کردیا ہے۔۔۔۔۔ الخ‘‘

نوٹس طلاق دوئم:

’’۔۔۔۔۔۔ میں نے فریقِ اول کو پہلے نوٹس طلاق اول دیا ہے اور اب فریقِ دوئم کو نوٹس طلاق دوئم ارسال کررہا ہوں، آج سے فریقِ دوئم میرے نفس پر حرام ہے، مدت عدت پوری ہونے پر فریقِ دوئم جہاں چاہے شادی کرسکتی ہے۔۔۔۔۔الخ‘‘

وضاحت مطلوب ہے کہ:

(۱)۔ پہلے طلاقنامے کے بعد ماہواریوں کی کیا ترتیب رہی؟

(۲)۔ شوہر کا رابطہ نمبر دیں۔

جوابِ وضاحت:(۱) ۔ جب پہلا طلاقنامہ آیا تھا اس وقت میری ڈیٹ چل رہی تھی جو تقریبا 30 نومبر تک ختم ہوگئی پھر اس کے بعد ہر ماہ ڈیٹ آتی رہی۔

(۲)۔ شوہر کا رابطہ نمبر یہ ہے:۔ محمد عابد شہزاد

دار الافتاء سے شوہر کو فون کیا گیا تو اس نے یہ بیان دیا (رابطہ کنندہ: صہیب ظفر):

’’مجھے مذکورہ تحریر سے اتفاق ہے۔ آخری طلاقنامے سے پندرہ، بیس دن پہلے تک ہم اکٹھے ہی رہے ہیں پھر طلاقنامہ بھیجا تھا‘‘۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں دو بائنہ طلاقیں واقع ہوئی ہیں جن کی وجہ سے سابقہ نکاح ختم ہوچکا ہے لہٰذا میاں بیوی اگر اکٹھے رہنا چاہیں تو گواہوں کی موجودگی میں نئے حق مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کرکے رہ سکتے ہیں۔نیزاب تک جوبغیر نکاح کےرہے اس پر توبہ واستغفارکریں۔

نوٹ: دوبارہ نکاح کرنے کی صورت میں شوہر کو صرف ایک طلاق کا حق حاصل ہوگا۔

توجیہ: مذکورہ صورت میں شوہر نے جب پہلا طلاقنامہ بھیجا تھا تو اس میں مذکور اس جملہ سے کہ ’’اب بہت مجبور ہوکر فریق دوئم کو نوٹس طلاق اول ارسال کردیا ہے‘‘ایک رجعی طلاق واقع ہوئی۔ اس کے بعد طلاقنامے میں مذکور اس جملے سے کہ ’’آئندہ فریقِ دوئم میرے نفس پر حرام ہے‘‘سابقہ رجعی طلاق، بائنہ ہوگئی کیونکہ رجعی طلاق کے بعد ’’میرے نفس پر حرام ہے‘‘کےلفظ سے عدد میں اضافہ نہیں ہوتا بلکہ وصف میں اضافہ ہوتا ہے۔پہلی طلاق سے بیوی کی عدت شروع ہوگئی۔اس کے بعد اگلے ماہ جب دوسرا طلاقنامہ بھیجا تو اس وقت بیوی عدت میں تھی اس لیے اس میں مذکور اس جملہ سے کہ ’’اب فریقِ دوئم کو نوٹس طلاق دوئم ارسال کررہا ہوں‘‘دوسری طلاق واقع ہوئی، پہلی طلاق چونکہ بائنہ تھی اس لیے اس جملہ سے بھی بائنہ طلاق واقع ہوئی۔ اس کے بعد مذکور اس جملے سے کہ ’’آج سے فریقِ دوئم میرے نفس پر حرام ہے‘‘لا یلحق البائن البائن کے قاعدے کے تحت مزید کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔ پھر دوسرے طلاقنامے کے بعد جب صلح کی گئی تو اس سے رجوع نہیں ہوا کیونکہ بائنہ طلاق کے بعد رجوع نہیں ہوتا بلکہ اکٹھے رہنے کے لیے دوبارہ نکاح کرنا ضروری ہوتا ہے اور مذکورہ صورت میں دوبارہ نکاح نہیں کیا گیا تھا اس لیے پہلے طلاقنامے کے بعد سے بیوی کی جب تیسری ماہواری مکمل ہوئی تو نکاح ختم ہوچکا تھالہٰذا جب شوہر نے تیسری دفعہ طلاقنامہ بھیجا تو چونکہ اس وقت تک بیوی اجنبیہ ہوچکی تھی اور اجنبیہ پر طلاق واقع نہیں ہوتی اس لیے اس تیسرے طلاقنامے سے مزید کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔

رد المحتار (443/4) میں ہے:

وفي التتارخانية:…………… ولو استكتب من آخر كتابا بطلاقها وقرأه على الزوج فأخذه الزوج وختمه وعنونه وبعث به إليها فأتاها وقع إن أقر الزوج أنه كتابه

امداد المفتین (صفحہ 521) میں ہے:

سوال: زید نے اپنی بیوی کو مندرجہ ذیل تحریر بذریعہ رجسٹری ڈاک بھیج دی ’’۔۔۔۔۔۔تم کو بحکم شریعت طلاق دے دی ہے، اور میرا تم سے کوئی تعلق نہیں رہا ہے، تم اس خط کو سن کر اپنے آپ کو مجھ سے علیحدہ سمجھنا۔۔۔۔‘‘اس سے طلاق ہوگئی ہے یا نہیں؟

الجواب:صورت مذکور میں شوہر کے پہلے الفاظ طلاق صریح کے ہیں، اور دوسرے کنایہ کے ۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔الفاظ کنایہ میں اس جگہ باعتبارمراد و نیت متکلم کے عقلا تین احتمال ہیں، تینوں احتمالوں پر حکم شرعی جداگانہ ہے، اول یہ کہ الفاظ کنایہ سے اس نے پہلی طلاق ہی مراد لی ہو، یعنی اس طلاقِ اول کی توضیح و تفسیر اور بیان حکم اس سے مقصود ہو، دوسرے یہ کہ ان الفاظ سے مستقل طلاق کی نیت ہو، تیسرے یہ کہ ان الفاظ سے کچھ کسی چیز کی نیت نہ ہو پہلی صورت میں ان الفاظ سے ایک طلاق بائنہ واقع ہوگی۔  لما فى الخلاصة وفى الفتاوى لو قال لامرأته أنت طالق ثم قال للناس زن من بر من حرام است و عنى به الأول أو لا نية له فقد جعل الرجعي بائنا و إن عنى به الابتداء فهي طالق آخر بائن. (خلاصة الفتاوی صفحه 82 جلد 2)……..اور دوسری صورت میں دو طلاقیں بائنہ واقع ہو جائیں گی جیسا کہ خلاصۃ الفتاوی کی عبارت مذکورہ سے معلوم ہوا اور اس کی توضیح درمختار میں اس طرح ہے "ولو نوى بطالق واحدة و بنحو بائن أخرى فيقع ثنتان بائنتان.

اور تیسری صورت میں بعض عبارات فقہیہ سے معلوم ہوتا ہے کہ الفاظ کنایہ ہدر و بیکار ہو جائیں گے اور طلاق رجعی اول باقی رہے گی۔۔۔۔۔اور بعض عبارات فقہیہ اس صورت میں بھی طلاق بائنہ ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔ ہمارے عرف میں اس عبارت کا صاف مطلب یہی سمجھا جاتا ہے کہ متکلم اپنے لفظوں سے کہ ( میرا تم سے کوئی تعلق نہیں) اسی طلاق کو بیان کر رہا ہے جس کو اس سے پہلے صراحۃ ذکر کیا گیا ہے ۔۔۔۔الخ

فتاویٰ شامیہ (419/4) میں ہے:

قوله: (ومحله المنكوحة) أي ولو معتدة عن طلاق رجعي أو بائن غير ثلاث في حرة وثنتين في أمة……

البحر الرائق (3/533) میں ہے:

وإذا لحق الصريح البائن كان بائنا لأن البينونة السابقة عليه تمنع الرجعة كما في الخلاصة.

ہدایہ (409/2، باب الرجعۃ) میں ہے:

‌‌فصل فيما تحل به المطلقة: "وإذا کان الطلاق بائنا دون الثلاث فله أن يتزوجها في العدة وبعد انقضائها” لأن حل المحلية باق لأن زواله معلق بالطلقة الثالثة فينعدم قبله

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved