• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

نارمل حالت میں ’’میں تمہیں آزاد کرتا ہوں ‘‘کے الفاظ سے طلاق

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

حضرت میرا اور میرے شوہر کا Routine میں جھگڑا ہوا ۔ کچھ دنوں سے ہمارے موڈ خراب چل رہے تھے ۔ اس سے پہلے اِس سے زیادہ سخت نوعیت کے جھگڑے ہوئے تھے ۔ مگر اس جھگڑے میں کچھ نازیبا الفاظ استعمال ہوئے اور مجھے اُن کے بارے میں ابہام ہے ۔ حضر ت سے رہنمائی کی درخواست ہے اللہ پاک کی ذات ہم سب کے لیے مشکلات آسان فرمائے ۔ آمین

میرے شوہر مجھے Routine کے گھر کے کاموں سے بریٴ الذمۃ کرنے کی نیت میں تھے وہ کہتے ہیں کہ میں یہ بات 1 ہفتے سے مجھ سے کرنا چاہ رہے تھے ۔ گھر کا بوجھ ہونے کی وجہ سے میری طبعیت اور موڈ خراب رہتا تھا اور میں اپنے شوہر کی Sexual ضروریات بھی پوری کرنے سے قاصر ہوجاتی تھی ۔ اب وہ جس پس منظر میں بات کررہے تھے کہ میں جو کرناچاہتی تھی M phill اور نوکری تو اب گھر کی ذمہ داریوں سے مکمل آزاد ہو کے وہ کروں ۔ کیونکہ 2 بچے ہیں اور میری needs Financial اکثر میرے شوہر محدود وسائل کی وجہ سے پوری نہیں کر پارہے تھے ۔ اب جھگڑے میں انہوں نے بولا کہ تم میرے ساتھ ایک Contract سائن کرلو ۔ ( ان کی اس سے مراد گھر کے کاموں اور میری سماجی زندگی کے حوالے سے تھی ) ۔ میں نے بولا میں تو وہ نکاح والا Contract سائن کرکے پچھتارہی ہوں ۔ انہوں نے بولا کہ میں  تمہیں اس سے آزاد کرتا ہوں ۔ یعنی جو کام میرے  گھرکے ، سسرال کے اور بچے کے ہیں تم وہ نہیں کرو اور جو تم اپنا کیرئیر بنانے کے لیے کرنا چاہتی ہو وہ کرو ۔ میں تمہیں Support کروں گا ۔ اب وہ یہ بات حلفًا کہنے کے لیے تیا ر ہیں ۔ کہ میں نے طلاق کی نیت سے نہیں بلکہ گھریلو کام کاج سے آزادی کی بات کی ہے ۔ آپ حضرات براہِ کرم میری اِس حوالے سے رہنمائی فرمائیے ۔ وہ مجھے چھوڑنے کی نیت سے نہیں بولے مگر کیا کوئی قباحت باقی ہے ؟

تنقیح:”یعنی جو کام میرے گھر کے،سسرال کے۔۔۔۔۔۔”یہ کلام خاوند نے متصل کیا یا کچھ دیر بعد یا یہ بیوی کی طرف سے تشریح ہے؟

جواب تنقیح:یہ کلام خاوند نے متصل کیا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں خاو ند نے آزاد کرنے کی وضاحت چونکہ اپنے کلام میں خود ہی کر دی کہ آپ گھر کے کام ، سسرال اور بچوں کے کام سے آزاد ہوں گی لہذا ان الفاظ سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی ۔

توجیہ : (امداد الاحکام ٢/٤٧٠)میں ہے :

لفظ آزاد ہر حالت اور ہر استعمال میں کنایہ طلاق نہیں بلکہ یہ کنایات میں اسوقت داخل ہے جبکہ خلاف ِ ارادہ طلاق کا قرینہ کلام میں نہ ہو مثلًا یوں  کہاجائے کہ میری بیوی آزاد ہے یا تو آزاد ہے …ان استعمالات میں بے شک یہ کنایات کی قبیل سے ہے اور اگر ارادہ طلاق کا قرینہ قائم ہوتو پھر یہ صریح ہوجاتا ہے مثلا یوں کہا جائے کہ میری بیوی میرے نکاح سے آزاد ہے  ، یا میں نے اسکو اپنے نکاح سے آزاد کیا ۔ اور میں نے اسکو اپنے سے آزاد کر دیا اور اگر کلام میں عدم ارادہ طلاق کا قرینہ قائم ہوجائے تو پھریہ نہ صریح طلاق سے ہے نہ کنایات سے مثلا یوں کہا جائے کہ توآزاد ہے جو چاہے کھا پی اور میں نے اپنی بیوی کو آزاد کیا چاہے وہ میرے پاس رہے یا اپنے گھر اور وہ آزاد ہے جب اس کا جی چاہے آوے ان استعمالات میں ہر گز کوئی شخص محض مادہ آزاد کی وجہ سے اس کلام کو کنایہ طلاق سے نہیں کہہ سکتا بلکہ اباحت افعال و تخییر وغیرہ پرمحمول کرے گا بشرطیکہ اسکو محاورات لسانی پر کافی اطلاع ہو اور ایک لفظ کا صریح طلاق اور کنایہ طلاق ہونا اور گاہے دونوں سے خالی ہونا اہل علم پر مخفی نہیں

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved