• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

آج سے تیرامیرامیاں بیوی والارشتہ ختم سے طلاق کاحکم

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

عرض ہے کہ ایک مسئلہ پیش آیا ہے جس کی وجہ سے ہم پریشان ہیں ہم چاہتے ہیں کہ آپ اس مسئلہ کوشریعت کے مطابق حل فرماکرہماری رہنمائی فرمائیں،آپ کی بہت مہربانی ہوگی۔مسئلہ یہ ہے کہ زید اور جمیلہ دونوں آپس میں میاں بیوی ہیں اور ان میں اکثر لڑائی جھگڑا ہوتا رہتا ہے ایک دن ان دونوں میاں بیوی میں جھگڑا ہوا تو جمیلہ نے اپنے شوہر زید سے کہا کہ آج سے تیرا میرا میاں بیوی والا رشتہ ختم ہے تو خاوند زید نے کہا ٹھیک ہے لیکن زید یہ نہیں جانتا تھا کہ اس کے ان الفاظ سے طلاق ہوسکتی ہے اور اس کی طلاق کی نیت بھی نہ تھی اور اس واقع کے بعد وہ دونوں میاں بیوی تقریبا ڈیڑھ ماہ اکٹھے رہے اور اس مدت میں ان کے ہاں ایک بچی کی پیدائش بھی ہوئی اوراس کے بعد ان کے درمیان پھر جھگڑا ہوا اور وہ ناراض ہوکر اپنے ماں باپ کی طرف چلی گئی اب اس کو اپنے ماں باپ کی طرف گئے ہوئے چار ماہ ہو گئے ہیں۔پھر ان دونوں کے بڑوں نے ملکر ان کو اکٹھے رہنے پر سمجھایا اوران کی آپس کی ناراضگی ختم کرکے ان کے درمیان صلح کروائی اس دوران ان کے بڑوں کو پتہ چلا کہ جمیلہ نے انپے خاوند سے یہ بات کہی تھی کہ ہمارا میاں بیوی والارشتہ ختم ہے تو زید نے کہا ٹھیک ہے لیکن جب انہوں نے یہ بات جمیلہ سے کہی تو اس نے اس بات سے انکار کردیا کہ میں نے یہ بات نہیں کہی اور جبکہ اس کا خاوند کہہ رہا ہے کہ اس نے یہ بات کہی تھی ۔تو اب ہم نے پوچھنا یہ تھا کہ طلاق ہوگئی یا نہیں؟ اب جب ان دونوں کو ملایا جائے گا تو کیا جمیلہ نیا نکاح کرکے اپنے گھر واپس آئے گی ؟یا پہلے والانکاح برقرار رہے گا؟

مزید وضاحت:

۱۔جب میری بیوی نے رشتہ ختم والی بات کی تو میں نے کہا ٹھیک ہے۔اس وقت میرےذہن میں کوئی بات نہیں تھی لیکن اب یہ بات ذہن میں آتی ہے کہ چھوڑ دوں۔

۲۔اوردوسری بات یہ ہے کہ وہ عالمہ ہیں اور اکثر جھوٹ بھی بولتی ہیں اور اکثر ہماری بن نہیں پاتی تو کیا ایسی صورت میں ان سے صلح کرلوں یا بالکل ان کو چھوڑدوں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

یہ جملہ کہ ’’آج سے تیرا میرا میاں بیوی والارشتہ ختم ہے‘‘اردو زبان میں دو معنی کا محتمل ہے(1)میاں بیوی والے رشتے

سے مرادہمبستری ہو۔ اس صورت میں  مذکورہ جملے کامطلب یہ ہو گا کہ اگرچہ تیرا میرا نکاح برقرار ہے تاہم آج سے میں تمہارے ساتھ ہمبستری نہیں کروں گا۔(2)میاں بیوی والے رشتے سے مراد نکاح ہو ۔اس صورت میں مطلب یہ ہو گا کہ آج سے تیرا میرا نکاح ختم ہوگیا ہے جس کی وجہ سے ہمارامیاں بیوی والارشتہ ختم ہوگیا ہے لہذا میں تمہارے لیے ایک اجنبی مردہوں اورتم میرے لیے ایک اجنبی عورت ہو۔لہذا یہ جملہ اردو محاورات کے لحاظ سے کنایات طلاق میں سے ہے اور کنایات طلاق میں سے بھی وہ قسم ہے جن میں رد یا سب کااحتمال نہیں بلکہ متمحض للجواب ہے۔ایسا جملہ لڑائی جھگڑے یا غصے کی حالت میں یامطالبہ طلاق کے موقعہ پر بولاجائے تو اس سے ایک بائنہ طلاق واقع ہوجاتی  ہے جس کی وجہ سے سابقہ نکاح ختم ہوجاتا ہے ۔مذکورہ صورت میں چونکہ یہ جملہ لڑائی جھگڑے کے دوران بولاگیا ہے اس لیے مذکورہ صورت میں ایک بائنہ طلاق واقع ہو گئی ہے جس کی وجہ سے سابقہ نکاح ختم ہوگیا ہے ،میاں بیوی صلح کرنا چاہیں تو دوبارہ نکاح کرنا ضروری ہو گا۔

وفی بدئع الصنائع:4/233-332

فصل واما الکنایة فنوعان نوع هوکنایة بنفسه وضعا ونوع هو ملحق بها شرعا فی حق النیة اما النوع الاول فهو کل لفظ یستعمل فی الطلاق ویستعمل فی غیره نحوقوله انت بائن ۔۔۔لاملک لی علیک لانکاح لی علیک ۔۔۔وقوله لانکاح لی علیک لانی قد طلقتک ویحتمل لانکاح لی علیک ای لااتزوجک ان طلقتک ویحتمل لانکاح لی علیک ای لا اطوک لان النکاح یذکربمعنی الوطء

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved