• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

’’ميری طرف سے آزاد ہو‘‘کہنے کے چار سال بعدتین طلاقیں دینے کا حکم

استفتاء

میرا مسئلہ یہ ہے کہ میرے شوہر نے مجھے دو موقعوں پر یہ کہا کہ ’’میں تمہیں طلاق دیتا ہوں‘‘اور اس کے علاوہ تین موقعوں پر الگ الگ دنوں ميں یہ کہا کہ’’ تم میری طرف سے آزاد ہو‘‘پوچھنا یہ تھا کہ اب نکاح باقی ہے یا ختم ہو چکا ہے؟ میرے چھوٹے بچے ہیں،میں اپنے شوہر کے ساتھ رہنا چاہتی ہوں کیونکہ کوئی بھی ان بچوں کی ذمہ داری قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہے، کیا میرا اپنے شوہر کے ساتھ رہنا جائز ہے ؟

وضاحت مطلوب ہے کہ:

1۔آپ یہ بتائیں کہ شوہر نے سب سے پہلے کب اور کن الفاظ میں طلاق دی تھی؟پھر اس کے کتنے کتنے عرصے بعد شوہر کیا کیا الفاظ استعمال کرتا رہا؟

2۔شوہر کے بیان کے لیئے اس کا رابطہ نمبر بھیجیں؟

جواب وضاحت:

1۔سب سے پہلے میرے شوہر نے سب گھر والوں کے سامنے دس مرتبہ یہ الفاظ کہے تھے کہ ’’یہ بیوی میری طرف سے آزاد ہے‘‘ اس کے ایک ماہ بعد ہماری بغیر نکاح کے صلح ہوگئی پھر چار سال بعد ایک موقع پر مجھے دس بار کہا کہ ’’میں تمہیں طلاق دیتا ہوں‘‘ پھر اس کے ایک سال بعد کہا کہ’’ میں تمہیں طلاق دیتا ہوں ‘‘پھر اس کے دو سال بعد مجھے موبائل پر میسج کیا کہ ’’تم میری طرف سے آزاد ہو‘‘۔اور تمام موقعوں پر یہ الفاظ غصے کی حالت میں کہے تھے۔

2۔آپ ان سے بات کیے بغیر مجھے کوئی حل بتا دیں ،اگر ان کو پتہ چل گیا تو وہ مجھے گھر سے نکال دیں گے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں بیوی کے بیان کے مطابق بیوی کے حق میں ایک بائنہ طلاق تو واقع ہو ہی گئی ہے،جس کی وجہ سے سابقہ نکاح ختم ہو گیا ہےلہذا بیوی کا شوہر کے ساتھ رہنا جائز نہیں اور اب تک جو شوہر کے ساتھ رہی اس پر بیوی توبہ و استغفار کرے،تاہم مذکورہ صورت میں نیا نکاح کرنے کی گنجائش ہے یا نہیں؟اس کا جواب شوہر کے بیان پر موقوف ہے۔

ردالمحتار(4/521)میں ہے:’’والحاصل أن الأول يتوقف على النية في حالة الرضا والغضب والمذاكرة، والثاني في حالة الرضا والغضب فقط ويقع في حالة المذاكرة بلا نية، والثالث يتوقف عليها في حالة الرضا فقط، ويقع حالة الغضب والمذاكرة بلا نية‘‘درمختارمع ردالمحتار(4/516)میں ہے:’’فالكنايات (‌لا ‌تطلق ‌بها) قضاء (إلا بنية أو دلالة الحال)(قوله قضاء) قيد به لأنه لا يقع ديانة بدون النية، ولو وجدت دلالة الحال فوقوعه بواحد من النية أو دلالة الحال إنما هو في القضاء فقط كما هو صريح البحر وغيره‘‘ہدایہ(2/374)میں ہے:’’وبقيةالكنايات اذا نوي بها الطلاق كانت واحدةبائنة‘‘بدائع الصنائع(3/295)میں ہے:’’فالحكم الأصلي لما دون الثلاث من الواحدة البائنة، والثنتين ‌البائنتين هو نقصان عدد الطلاق، وزوال الملك أيضا حتى لا يحل له وطؤها إلا بنكاح جديد‘‘درمختار(4/531)میں ہے:’’(لا) يلحق البائن (البائن) إذا أمكن جعله إخبارا عن الأول كأنت بائن بائن، أو أبنتك بتطليقة فلا يقع لأنه إخبار فلا ضرورة في جعله إنشاء‘‘درمختارمع ردالمحتار(4/419)میں ہے:’’(ومحله ‌المنكوحة)وأهله زوج عاقل بالغ مستيقظ(قوله ومحله ‌المنكوحة) أي ولو معتدة عن طلاق رجعي أو بائن غير ثلاث في حرة وثنتين في أمة‘‘فتاویٰ ہندیہ(2/411)میں ہے:’’وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها كذا في الهداية‘‘امدادالاحکام(2/610) میں ہے:’’اور چوتھا جملہ یہ ہے کہ "وہ میری طرف سے آزاد ہے” اس کنایہ کا حکم در مختار میں صریح موجود ہے کہ غضب و مذاکرہ میں بدون نیت بھی طلاق بائن واقع ہو جاتی ہے۔ ‘‘فقہ اسلامی(ص:122)میں ہے:’’ایک جملہ ہے کہ تجھے آزاد کیا اور ایک جملہ ہے کہ تو آزاد ہے۔پہلا جملہ طلاق میں صریح ہے اور اس سے طلاق رجعی پڑتی ہےجب کہ دوسرا جملہ طلاق میں کنایہ ہے اور اس سے طلاق بائن پڑتی ہے۔ ‘‘۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved