• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

شوہر کا بیوی کو دو طلاقنامے بھیجنے کا حکم

استفتاء

میرا نام***ہے، میں اپنی بیوی کو گھریلو ناچاقی کی وجہ سے یونین کونسل کے ذریعے طلاق کے دو نوٹس بھیج چکا ہوں، اور میں نے  ان طلاقناموں کو پڑھنے کے بعد ان پر دستخط کیے تھےاور تیسرا نوٹس لکھوانے سے پہلے ہم دونوں کی صلح ہوگئی ہے اور معاملات درست ہوگئے ہیں۔لہذا مہربانی فرماکر شریعت کی روشنی میں اس معاملے کا حکم تحریر فرمادیں۔

پہلے طلاقنامے  کی عبارت:

"۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فریق اول بقائمی ہوش وحواس خمسہ بلا جبر واکراہ بغیر کسی دباؤ کے اور اپنے اچھے اور برے کی بخوبی تمیز رکھتے ہوئے فریق دوئم: ***کو اس کی ایماء پر طلاق اول کا نوٹس دیتا ہے اور اپنے حقوق زوجیت سے علیحدہ کرتا ہے آج کے بعد فریق اول کا فریق دوم کے ساتھ کوئی حقوق زوجیت باقی نہ رہا ہے۔ لہذا تحریر طلاق اول روبرو گواہان حاشیہ تحریر کردیا ہے اور دستخط انگوٹھا جات ثبت کردیے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔الخ”

دوسرے طلاقنامہ کی عبارت:

"۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب فریق اول بقائمی ہوش وحواس خمسہ بلا جبر واکراہ بغیر کسی دباؤ کے اور اپنے اچھے اور برے کی بخوبی تمیز رکھتے ہوئے فریق دوئم:** کو اس کی ایماء پر طلاق دوئم کا نوٹس دیتا ہے اور اپنے حقوق زوجیت سے علیحدہ کرتا ہے آج کے بعد فریق اول کا فریق دوئم کے ساتھ کوئی حقوق زوجیت باقی نہ رہا ہے۔ لہذا تحریر طلاق دوئم روبرو گواہان حاشیہ تحریر کردیا ہے اور دستخط انگوٹھا جات ثبت کردیے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ الخ”۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں آپ کی بیوی پر دو بائنہ طلاقیں واقع ہو گئی ہیں، جن کی وجہ سے سابقہ نکاح  ختم ہو چکا ہے، لہذا اگر آپ اکٹھے رہنا چاہیں تو گواہوں کی موجودگی میں نئے حق مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کرکے رہ سکتے ہیں۔

توجیہ: مذکورہ صورت میں جب شوہر نے طلاقنامے پڑھ کر ان پر دستخط کیے تو پہلے طلاقنامے کی اس عبارت سے کہ”طلاق اول کا نوٹس دیتا ہے”ایک رجعی طلاق واقع ہوگئی اور اس کے بعد مذکور ان الفاظ سے کہ”حقوق زوجیت سے علیحدہ کرتا ہے” سابقہ رجعی طلاق بائنہ بن گئی، کیونکہ صریح کے بعد کنایہ الفاظ کے استعمال سے عدد میں اضافہ نہیں ہوتا بلکہ وصف میں اضافہ ہوتا ہے، اس کے بعد پہلے طلاقنامے کی اس عبارت سے کہ”کوئی حقوق زوجیت باقی نہ رہا ہے” لايلحق البائن البائن کے تحت مزید کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی، اس کے بعد دوسرے طلاقنامے کی اس عبارت سے کہ”طلاق دوئم کا نوٹس دیتا ہے”دوسری طلاق واقع ہوگئی اور چونکہ پہلی طلاق بائنہ تھی اس لئے یہ طلاق بھی بائنہ ہوگی کیونکہ عدت کے اندر بائنہ طلاق کے بعد اگر رجعی طلاق دی جائے تو وہ رجعی طلاق بائنہ بن جاتی ہے، اس کے بعد دوسرے طلاقنامے کی اس عبارت سے کہ”حقوق زوجیت سے علیحدہ کرتا ہے اور کوئی حقوق زوجیت باقی نہ رہا ہے” لا يلحق البائن البائن کے تحت مزید کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔

نوٹ:دوبارہ نکاح کرنے کی صورت میں شوہر کے پاس صرف ایک طلاق کا حق باقی ہوگا۔

ردالمحتار(4/443)میں ہے:وفي التتارخانية: … ولو استكتب من آخر كتابا بطلاقها وقرأه على الزوج فأخذه الزوج وختمه وعنونه وبعث به إليها فأتاها وقع إن أقر الزوج أنه كتابه.درمختار(4/528)میں ہے:(الصريح يلحق الصريح و) يلحق (البائن) بشرط العدةردالمحتار(4/259)میں ہے:وإذا لحق الصريح البائن كان بائنا، لأن البينونة السابقة عليه تمنع الرجعةدرمختار (4/531)میں ہے:(لا) يلحق البائن ( البائن)فتاوی عالمگیری(1/472)میں ہے:إذا كان الطلاق بائنا دون الثلاث، فله أن يتزوجها في العدة وبعد إنقضائهابدائع الصنائع(3/198)میں ہے:فالحكم الأصلى لما دون الثلاث من الواحدة البائنة، والثنتين البائنتين هو نقصان عدد الطلاق، وزوال الملك أيضا حتى لايحل له وطؤها إلا بنكاح جديد.امدادالمفتین(521)میں ہے:سوال: زید نے اپنی بیوی کو مندرجہ ذیل تحریر بذریعہ رجسٹری ڈاک بھیج دی "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم کو بحکم شریعت طلاق دے دی ہے، اور میرا تم سے کوئی تعلق نہیں رہا ہے، تم اس خط کو سن کر اپنے آپ کو مجھ سے علیحدہ سمجھنا۔۔۔۔۔۔۔۔۔”اس سے طلاق ہو گئی ہے یا نہیں؟جواب: صورت مذکور میں شوہر کے پہلے الفاظ طلاق صریح کے ہیں، اور دوسرے کنایہ کے۔۔۔۔۔ الفاظ کنایہ میں اس جگہ باعتبار مراد ونیت متکلم کے عقلا تین احتمال ہیں، تینوں احتمالوں پر حکم شرعی جداگانہ ہے، اول یہ کہ الفاظ کنایہ سے اس نے پہلی طلاق ہی مراد لی ہو، یعنی اس طلاق اول کی توضیح وتفسیر اور بیان حکم اس سے مقصود ہو، دوسرے یہ کہ ان الفاظ سے مستقل طلاق کی نیت ہو، تیسرے یہ کہ ان الفاظ سے کچھ کسی چیز کی نیت نہ ہو پہلی صورت میں ان الفاظ سے ایک طلاق بائنہ واقع ہوگی۔( لما في الخلاصة وفي الفتاوى: لو قال لإمرأته أنت طالق ثم قال للناس زن من بر من حرام است وعنى به الأول أو لا نية له فقد جعل الرجعى بائنا وإن عنى به الابتداء فهى طالق آخر بائن.)(خلاصۃ الفتاوی صفحہ 82 جلد 2)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور دوسری صورت میں دو طلاقیں بائنہ واقع ہوجائیں گی جیسا کہ خلاصۃالفتاوی کی عبارت مذکورہ سے معلوم ہوا اور اس کی توضیح درمختار میں اس طرح ہے”ولو نوى بطالق واحدة وبنحو بائن اخرى فيقع ثنتان بائنتان".اور تیسری صورت میں بعض عبارت فقہیہ سے معلوم ہوتا ہے کہ الفاظ کنایہ ہدر وبیکار ہوجائیں گے اور طلاق رجعی اول باقی رہے گی۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور بعض عبارت فقہیہ اس صورت میں بھی طلاق بائنہ ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہمارے عرف میں اس عبارت کا صاف مطلب یہی سمجھا جاتا ہے کہ متکلم اپنے لفظوں سے کہ (میرا تم سے کوئی تعلق نہیں) اسی طلاق کو بیان کر رہا ہے جس کو اس سے پہلے صراحۃ ذکر کیا گیا ہے……………الخ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved