• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

نوٹس کے ذریعے طلاق بھیجنے کا حکم

استفتاء

مذکورہ طلاق ناموں کی رو سے کتنی طلاقیں واقع ہوگئی ہیں؟نکاح باقی ہے یا ختم ہوچکا ہے؟صلح کی گنجائش ہےیا نہیں؟ہمارا داماد صلح کرنا چاہتا ہےلیکن ہم صلح نہیں کرنا چاہتے۔

لڑکے کے والد کا بیان:لڑکے کا نمبر بند تھا لہذا دارالافتاء کے نمبر سے لڑکے کے والد سے رابطہ کیا گیا تو اس نے یہ بیان دیا کہ لڑکا گھر موجود نہیں ہے اس سے بات نہیں ہوسکتی ،لڑکا ان پڑھ ہے مگرانگوٹھا لگانے سے پہلے اس کو نوٹس کی عبارت پڑھ کر سنائی گئی تھی اور   نوٹس کی عبارت اس کے علم میں تھی ۔

پہلے طلاق نامہ کی عبارت:

’’منکہ***۔۔۔من مقرکی شادی مورخہ 2008-12-21 کو مسماۃ ** ۔۔۔سے شریعت محمدی کے تحت قرار پائی۔۔۔۔مسماۃ **بی بی کو اس کے پرزور مطالبہ پر نوٹس طلاق اول طلاق دیتا ہوں کہ آج کے بعد میری زوجیت سے آزاد ہے۔۔۔۔لہٰذا بقائمی ہوش وحواس روبرو گواہان نوٹس طلاق اول لکھ دیا ہے تاکہ سند رہے۔2020-5-30‘‘

دوسرے طلاق نامہ  کی عبارت:

’’منکہ**۔۔۔من مقر کی شادی مورخہ 2008-12-21 کو مسماۃ **بی بی   ۔۔۔سے شریعت محمدی کے تحت قرار پائی۔۔۔۔ مسماۃ **بی بی کو اس کے پرزور مطالبہ پر نوٹس طلاق دوم طلاق طلاق دیتا ہوں کہ آج کے بعد میری زوجیت سے آزاد ہے۔۔۔۔لہٰذا بقائمی ہوش وحواس روبرو گواہان نوٹس طلاق دوم لکھ دیا ہے تاکہ سند رہے۔2020-6-30‘‘

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ طلاق ناموں  کی رو سے تینوں طلاقیں واقع ہوگئی ہیں جن کی وجہ سے بیوی شوہر پر حرام ہوگئی ہے لہٰذا اب نہ رجوع ہوسکتا ہے اور نہ صلح کی گنجائش ہے ۔

توجیہ:مذکورہ صورت میں طلاق  کے پہلے نوٹس سےایک طلاق واقع ہوئی پھر اس کے ایک ماہ  بعد  عدت کے اندربھیجے گئےطلاق کے دوسرے نوٹس سےدوسری اور تیسری طلاق بھی واقع ہوگئی کیونکہ دوسرے نوٹس کی اس عبارت میں کہ ’’ نوٹس طلاق دوم طلاق طلاق دیتا ہوں کہ آج کے بعد میری زوجیت سے آزاد ہے ‘‘طلاق کا لفظ دو مرتبہ صراحتاً مذکور ہے۔

ردالمحتار(4/443)میں ہے:’’وفي التتارخانية:…..ولو ‌استكتب من آخر كتابا بطلاقها وقرأه على الزوج فأخذه الزوج وختمه وعنونه وبعث به إليها فأتاها وقع إن أقر الزوج أنه كتابه….. وكذا كل كتاب لم يكتبه بخطه ولم يمله بنفسه لا يقع الطلاق ما لم يقر أنه كتابه اهـ ملخصا‘‘درمختار مع رد المحتار(4/501)میں ہے‌كرر ‌لفظ ‌الطلاق وقع الكل، وإن نوى التأكيد دين(قوله ‌كرر ‌لفظ ‌الطلاق) بأن قال للمدخولة: أنت طالق أنت طالق أو قد طلقتك قد طلقتك أو أنت طالق قد طلقتك أو أنت طالق وأنت طالق، وإذا قال: أنت طالق ثم قيل له ما قلت؟ فقال: قد طلقتها أو قلت هي طالق فهي طالق واحدة لأنه جواب، كذا في كافي الحاكم (قوله وإن نوى التأكيد دين) أي ووقع الكل قضاءفتاوی ہندیہ(2/411)میں ہے:وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها كذا في الهدايةدرمختار(4/528)میں ہے:(‌الصريح ‌يلحق الصريح و) يلحق (البائن) بشرط العدة۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved