• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

  والدہ کی قطع تعلقی کی دھمکی کی وجہ سے تحریری طلاق پر دستخط کرنے کا حکم

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میری بیوی کا مجھ سے اورمیرے گھر والوں سے جھگڑا ہوا اور میں اپنی بیوی کو میکے چھوڑ آیا کیونکہ اس نے میری والدہ سے بہت زیادہ بدتمیزی کی تھی، اس کے بعد میرے سسرال والوں کا رویہ مجھ سے اور میرے گھر والوں سے بہت زیادہ خراب ہوتا گیا، وہ ہمارے رشتہ داروں کو فون کر کے ہمارے اوپر بہتان لگاتے رہے جس کی وجہ سے تنگ آ کر میری والدہ نے مجھے بلایا اور کہا کہ اپنی بیوی کو طلاق دو ورنہ اس گھر کو چھوڑ کر چلے جاؤ ، آج سے ہم تمہارے لیے اور تم ہمارے لیے مر گئے، اور تم میرے جنازے پر بھی نہ آنا، پھر میرے گھر والوں نے تین دن بعد طلاق کے تین پیپرز بنوا کر مجھے کمرے میں بلایا اور پیپرز میرے سامنے رکھے جن میں ایک ایک مرتبہ طلاق لکھی ہوئی تھی، میری والدہ اور میرے سب بھائی کمرے میں موجود تھے،  میں نے کہا کہ ایک پیپر سے کام چل جائے گا؟ مجھ سے ایک پیپر سائن کروا لیں، لیکن انہوں نے کہا کہ تینوں پیپرز پر دستخط کرو، ہم یہ روز روز کی ذلالت برداشت نہیں کر سکتے، تو میں نے تینوں پیپرز پر دستخط کر دیے، دستخط کرتے وقت میری طلاق کی نیت بالکل نہیں تھی، والدہ کی قطع تعلقی اور گھر سے نکالنے کی دھمکی کی وجہ سے پریشر میں آ کر میں نے دستخط کیے تھے کیونکہ نہ تو میں والدہ سے قطع تعلقی برداشت  کر سکتا تھا، اور نہ ہی میں اپنی بیوی کو کرائے کے مکان میں رکھ سکتا تھا،  میری تنخواہ 60000 روپے ہے اور میں نے گھر کے لیے کچھ چیزیں قسطوں پر لے رکھی ہیں، 30000 روپے قسطوں میں چلے جاتے ہیں، باقی 30000 روپے میں کرائے کے گھر میں گزارا کرنا میرے لیے بہت مشکل ہے،  اس لیے میں نے دباؤ میں آ کر دستخط کر دیے۔  اس سے ایک دن پہلے بھی میں نے اپنے دوست سے اس بات کا ذکر کیا تھا کہ میں طلاق نہیں دینا چاہتا لیکن گھر والے دباؤ ڈال رہے ہیں۔ مذکورہ صورتحال میں میری بیوی کو طلاق ہو گئی ہے یا نہیں؟

نوٹ: طلاق کے پیپرز میرے گھر والوں کے پاس ہیں اس لیے میں پیپرز مہیا کرنے سے قاصر ہوں، ابھی وہ پیپرز میری بیوی کو نہیں بھیجے گئے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں اگر واقعتا آپ   کی والدہ نے آپ کو قطع تعلقی اور گھر سے نکالنے کی دھمکی دی ہے اور آپ کے پاس اپنی بیوی کو کرائے کے مکان میں رکھنے کی گنجائش نہیں ہے   اس لیے آپ نے پریشر میں آ کر دستخط کیے ہیں، اور آپ کی طلاق کی نیت بالکل نہ تھی تو آپ کی بیوی پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔

توجیہ: مذکورہ صورت میں چونکہ والدہ نے قطع تعلقی اور گھر چھوڑنے کی دھمکی دی تھی  اور والدہ کی قطع تعلقی اور گھر چھوڑنے کی دھمکی کی وجہ سے رضا معدوم ہو جاتی ہے لہذا مذکورہ صورت میں اکراہ ثابت ہو گیا ہے اور مکرہ کی تحریری طلاق واقع نہیں ہوتی۔ نیز اگرچہ شوہر نے دھمکی  کے تین دن بعد طلاقناموں پر دستخط کیے لیکن اس وقت بھی اکراہ موجود تھا۔

درمختار مع ردالمحتار (427/4) میں ہے:(ويقع طلاق كل زوج بالغ عاقل) ………..(ولو عبدا أو مكرها)و في الشامية تحته: وفي البحر أن المراد الإكراه على التلفظ بالطلاق، فلو أكره على أن يكتب طلاق امرأته فكتب لا تطلق لأن الكتابة أقيمت مقام العبارة باعتبار الحاجة ولا حاجة هنا، كذا في الخانية،عالمگیری (379/1) میں ہے:رجل أكره بالضرب والحبس على أن يكتب طلاق امرأته فلانة بنت فلان بن فلان فكتب امرأته فلانة بنت فلان بن فلان طالق لا تطلق امرأته كذا في فتاوى قاضى خاندرمختار مع ردالمحتار  (217/9) میں ہے:الإكراه (هو لغة حمل الإنسان على) شيء يكرهه وشرعا (فعل يوجد من المكره فيحدث في المحل معنى يصير به مدفوعا إلى الفعل الذي طلب منه) وهو نوعان تام وهو الملجئ بتلف نفس أو عضو أو ضرب مبرح وإلا فناقص وهو غير الملجئ. (وشرطه) أربعة أمور: (قدرة المكره على إيقاع ما هدد به سلطانا أو لصا) أو نحوه (و) الثاني (خوف المكره) بالفتح (إيقاعه) أي إيقاع ما هدد به (في الحال) بغلبة ظنه ليصير ملجأ (و) الثالث: (كون الشيء المكره به متلفا نفسا أو عضوا أو موجبا غما يعدم الرضا) وهذا أدنى مراتبه وهو يختلف باختلاف الأشخاص فإن الأشراف يغمون بكلام خشن، والأراذل ربما لا يغمون إلا بالضرب المبرح ابن كمال (و) الرابع: (كون المكره ممتنعا عما أكره عليه قبله) إما (لحقه) كبيع ماله (أو لحق) شخص (آخر) كإتلاف مال الغير (أو لحق الشرع) (قوله: في الحال) كذا في الشرنبلالية عن البرهان والظاهر أنه اتفاقي إذ لو توعده بمتلف بعد مدة، وغلب على ظنه إيقاعه به صار ملجئا تأمل. لكن سيذكر الشارح آخرا أنه إنما يسعه ما دام حاضرا عنده المكره وإلا لم يحل تأمل.درمختار مع ردالمحتار  (238/9) میں ہے:وفيه المكره على الأخذ والدفع إنما يبيعه ما دام حاضرا عنده المكره، وإلا لم يحل لزوال القدرة والإلجاء بالبعد منه.(قوله: ما دام حاضرا عنده المكره) قال في الهندية عن المبسوط: فإن كان أرسله ليفعل فخاف أن يقتله إن ظفر به إن لم يفعل لم يحل، إلا أن يكون رسول الآمر معه على أن يرده عليه إن لم يفعل.عزیزالفتاوی(492)  میں ہے :سوال : مسماۃبیگم جو کہ بندہ کے نکاح میں تھی والد صاحب کو چند آدمیوں نے کہاکہ اس کو (اپنے لڑکے کو)ا س سے ( اس کی بیوی سے ) علیحدہ کرا دیجئے، بندہ نے باادب والد صاحب کو یہ جواب دیا کہ میری حالت اس کو ترک کرنے سے ابتر ہوجائے گی، والد نے کہا تجھ سے کبھی نہ بولوں گا اس پر بندہ نے دو روپیہ کے کاغذ کا اسٹام خریدا، ایک پر طلاق نامہ لکھا گیا اور دوسرے پرمہر نامہ ، اس وقت میری حالت ابتر او ر خراب تھی مجھ کوخبر نہ تھی کہ کس حالت میں ہوں مجھ پر صدمہ پڑا ہوا تھا کبھی روتا تھا کبھی خاموش ہوجاتا تھا،یہ بات قسمیہ عرض ہے جہاں تک مجھ کو خیال ہے اس حالت میں مجھ سے لفظ طلاق دو مربتہ نکل گیا تو یہ جائز ہے یا نہیں ؟(الجواب)کاغذ کی لکھی ہوئی طلاق تو اس حالت عدم رضا میں نہیں واقع ہوئی مگر زبان سے دو مرتبہ طلاق کا لفظ نکلا اس سے دو طلاق رجعی واقع ہوگئی ، عدت کے اندر رجوع کرنا درست ہے ۔ فقط واﷲاعلم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved