• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

دو طلاقوں کے بعد رجوع کر لیا پھر کہا کہ ’’میری طرف سے تم فارغ ہو‘‘   تو کتنی طلاقیں واقع ہوئیں؟

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میری بیٹی ***کا نکاح ****سے 2011ء میں ہوا،  شادی کے بعد میری بیٹی اپنے شوہر کے پاس ابوظہبی چلی گئی، وہ وہاں جاب کرتا ہے، اس کا سلوک میری بیٹی کے ساتھ اچھا نہیں تھا، شراب نوشی کرتا تھا اور پھر تشدد کا نشانہ بناتا تھا، دو دو، تین تین دن گھر سے غائب بھی رہتا تھا، پاکستان فیملی والوں سے رابطہ نہیں کرنے دیتا تھا،  10سال میری بچی بہتری کی آس پر وہاں رہی لیکن شوہر کے رویے میں کوئی فرق نہیں آیا، ظلم کی انتہاء پر وہ پاکستان آگئی۔  پاکستان آنے کے بعد  شوہرنے اسے دو طلاقیں دیں، ایک فون کال پر اور دوسری  وائس میسج کے ذریعے ۔ پھر  فتوی لے کر رجوع کر لیا،  یہ جولائی کی بات  ہے، جولائی سے اکتوبر تک وہ بار ہا بچی کو یہ کہہ چکا ہے کہ ’’میری طرف سے فارغ ہو‘‘ ’’میرا تمہارے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے‘‘ اور اس نے مجھے بھی یہ بات کہی ہے کہ ’’**سے میرا کوئی تعلق نہیں‘‘ اس کے تین بچے بھی ہیں،  دو بیٹے اور ایک بیٹی۔ آپ سے درخواست ہے کہ اس سارے معاملے میں ہماری راہنمائی فرمائیں کہ کتنی طلاقیں ہو چکی ہیں؟

بیوی کا بیان: سارا معاملہ ایسے ہی ہے، انہوں نے پہلی طلاق فون پر دی تھی جس کے الفاظ یہ تھے کہ ’’میں تمہیں پہلی طلاق دیتا ہوں‘‘ اس سے اگلے دن وائس میسج کے ذریعے دوسری طلاق دی تھی جس کے الفاظ یہ تھےکہ ’’میں تمہیں ایک طلاق کل دے چکا ہوں آج دوسری طلاق دیتا ہوں **‘‘ پھر اس کے بعد ہفتے کے اندر فون پر رجوع کر لیا تھا، رجوع کے الفاظ یہ تھے کہ ’’میں تمہیں دوبارہ اپنے نکاح میں لیتا ہوں‘‘  اس کے بعد تقریبا پانچ یا چھ مرتبہ  مختلف مواقع پر غصے میں کہا کہ ’’میری طرف سے تم فارغ ہو‘‘ وہ اس بات کو تسلیم نہیں کرتے لیکن میں حلفا کہتی ہوں کہ انہوں متعدد مرتبہ غصے میں مجھے یہ الفاظ بولے ہیں۔

شوہر کا بیان: دوطلاقیں دینے کے بعد میں نے رجوع کر لیا تھا اس کے بعد میں نے یہ الفاظ کبھی نہیں کہے کہ ’’میری طرف سے تم فارغ ہو‘‘  یا ’’میرا تم سے کوئی تعلق نہیں‘‘ میری بیوی اور ساس جھوٹ کہہ رہی ہیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں اگر واقعتا  شوہر نے غصے میں بیوی سے یہ کہا تھا کہ ’’میری طرف سے تم فارغ ہو‘‘ تو بیوی کے حق میں تینوں طلاقیں واقع ہو گئی ہیں جن کی وجہ سے بیوی شوہر پر حرام ہو گئی ہے لہذا بیوی کے لیے شوہر کے ساتھ رہنا جائز نہیں۔

توجیہ: مذکورہ صورت میں جب شوہر نے  پہلی مرتبہ بیوی سے فون پر یہ کہا کہ ’’میں تمہیں پہلی طلاق دیتا ہوں‘‘ تو ان الفاظ سے ایک رجعی طلاق واقع  ہو گئی کیونکہ  یہ الفاظ طلاق کے لیے  صریح ہیں، پھر اس سے اگلے دن عدت کے اندر شوہر نے وائس میسج کے ذریعے جب یہ الفاظ کہے کہ ’’میں تمہیں ایک طلاق کل دے چکا ہوں آج دوسری طلاق دیتا ہوں رابعہ‘‘ تو ان الفاظ سے الصریح یلحق الصریح کے تحت دوسری رجعی طلاق واقع  ہو گئی، ان دو طلاقوں کے بعد چونکہ شوہر نے رجوع کر لیا تھا لہذا نکاح باقی رہا۔

پھر اگرچہ  شوہر انکار کرتا ہے کہ اس نے یہ الفاظ نہیں کہے کہ ’’میری طرف سے تم فارغ ہو‘‘ لیکن چونکہ بیوی نے خودشوہر کو غصے کی حالت میں یہ الفاظ کہتے ہوئے سنا ہے اور طلاق کے معاملے میں بیوی کی حیثیت قاضی کی طرح ہوتی ہے اور وہ اپنے علم کے مطابق عمل کرنے کی پابند ہوتی ہے  لہذا  بیوی کے حق میں ان الفاظ سے ایک بائنہ طلاق واقع ہو گئی کیونکہ یہ الفاظ کنایات طلاق کی تیسری قسم میں سے ہیں ، جن سے غصے  کی حالت میں بیوی کے حق میں ایک بائنہ طلاق واقع ہو جاتی ہے۔

درمختار (4/528) میں ہے:(الصريح يلحق الصريح و) يلحق (البائن) بشرط العدةبدائع الصنائع (283/3) میں ہے:أما الطلاق الرجعي فالحكم الأصلي له هو نقصان العدد، فأما زوال الملك، وحل الوطء فليس بحكم أصلي له لازم حتى لا يثبت للحال، وإنما يثبت في الثاني بعد انقضاء العدة، فإن طلقها ولم يراجعها بل تركها حتى انقضت عدتها بانت.فتاوی شامی (449/4) میں ہے:والمرأة كالقاضي إذا سمعته أو أخبرها عدل لا يحل له تمكينه.درمختار (4/521) میں ہے: (وفي الغضب) توقف (الأولان) إن نوى وقع وإلا لاو فى الشامية تحته: والحاصل أن الأول يتوقف على النية في حالة الرضا والغضب والمذاكرة، والثاني في حالة الرضا والغضب فقط ويقع في حالة المذاكرة بلا نية، والثالث يتوقف عليها في حالة الرضا فقط، ويقع حالة الغضب والمذاكرة بلا نية.بدائع الصنائع (3/295) میں ہے:وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله – عز وجل – {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره} [البقرة: ٢٣٠] ، وسواء طلقها ثلاثا متفرقا أو جملة واحدة.احسن الفتاوی (5/188) میں ہے:سوال: کوئی شخص بیوی کو کہے "تو فارغ ہے ” یہ کون سا کنایہ ہے؟…… حضرت والا اپنی رائے سے مطلع فرمائیں۔بینوا توجرواجواب :الجواب باسم ملہم الصواب بندہ کا خیال بھی یہی ہے کہ عرف میں یہ لفظ صرف جواب ہی کے لیے مستعمل ہے اس لئے عند القرینہ بلانیت بھی اس سے طلاق بائن واقع ہوجائے گی۔ فقط اللہ تعالی اعلم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved